انتخابات کے مدنظر سیاسی جماعت پاپولر،تیز اور متاثر کن نتائج چاہتے ہیں۔لیکن فوج کی قیادت کو وہ نہیں کرنا چاہیے، جو کوئی حکمراں پارٹی چاہتی ہے۔
ایسے میں جبکہ ملک ہندوستانی فوج کے ذریعے انجام دئے گئے سرجیکل اسٹرائک، جس میں فوج کی خاص جماعتوں نے چپکے سے لائن آف کنٹرول کو پار کرکے جموں و کشمیر میں داخل ہونے کے طاق میں بیٹھے کچھ دہشت گردوں کو مار گرایا تھا، کی سال گرہ منائی جا رہی ہے، ایک خیال ذہن میں دستک دے رہا ہے؛حکومت اپنے انتخابی فائدے کے لئے فوج کی قربانیوں کا استعمال کرکے اس کی جتنی زیادہ سیاست کرےگی، وہ فوج کی طاقت اور اس طرح سے اس کے حفاظتی اقدار کا اتنا زیادہ نقصان کرنے کا کام کرےگا۔
اس پرجوش تماشے کا سب سے برا پہلویہ ہے کہ فوج کی قیادت بھی اپنی کمزوری میں حصہ دار نظر آتی ہے۔ یہ سمجھا جانا ضروری ہے کہ فوجوں کی کبھی سیاست نہیں ہوتی ہے، وہ حکم پر عمل کرتی ہیں۔یہ لشکری قیادت ہے، جس کی سیاست کی جاتی ہے، جس کا منفی نتیجہ جنگ کی تیاریوں پر پڑتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ فوجیں اتنی ہی اچھی ہوتی ہیں، جتنی اچھی اس کی قیادت ہوتی ہے۔ اس لئے جب لشکری قیادت حکمراں جماعت کی خواہشوں کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرتی ہے، تب اس کے لشکری مشن، کسوٹی پر پوری طرح سے کھرے نہیں اترتے ہیں۔
مثال کے لئے آرمی چیف بپن راوت کے ذریعے حال میں ایک اور سرجیکل اسٹرائک کی مانگ کرنا، ان کا کام نہیں تھا۔ایسا کوئی بھی فیصلہ سیاسی قیادت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ان کو ضرورت پڑنے پر تیاری کی طاقت پر اصل حملوں کی فکر کرنی چاہیے۔سیاسی پارٹیوں کی نظر انتخابات پر ہوتی ہے اور وہ پاپولر، فوری اور شاندار نتائج کی خواہش رکھتی ہیں۔لیکن، حکمراں جماعت کی خواہشوں کے مطابق کام کرنا لشکری قیادت کا کام نہیں ہونا چاہیے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو-ایک،یہ اپنی کمان کو مایوس کرتا ہے، کیونکہ لشکری نتیجے ویسے نہیں ہوتے ہیں، جیسے ان کو ہونا چاہیے۔دو، جدیدکاری پر زور نہیں رہتا، جو کہ ایک مسلسل طویل مدتی ہدف ہے۔ تین، جنگ کے لئے تربیت کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔آخرکار کمان اپنی قیادت کی عزت گنوا دیتی ہے، جس کا نتیجہ کمان کے چرمرا جانے کے طور پر نکلتا ہے۔لشکری قیادت کو اس لئے سیاسی موقع پرستی پر سوال اٹھانا چاہیے، نہ کہ آنکھیں بندکرکے اس کو قبولکر لینا جانا چاہیے۔
لشکری پیمانوں پر بات کریں، تو تین وجہوں سے 29 ستمبر، 2016 کی کارروائی پرسوال کھڑے ہوتے ہیں۔پہلا،سرجیکل اسٹرائک کی کارروائی ایئر فورس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ فوج حد سے حد چھاپے مارتی ہے یا دشمن کا پیچھا کرنے کا کام کرتی ہے۔سرجیکل سٹرائکس،جس کا مقصد اپنے جارحانہ اور حیرت میں ڈالنے والے نتیجہ کے زور پر سیاسی اور لشکری سطحوں کو متاثر کرنا ہوتا ہے، ممکنہ جوابی کارروائی کے لئے طےشدہ تیاری کرکے ایئر فورس کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔
ان تیاریوں میں ہوائی جہاز کا استعمال کرکے دشمن کے ابلاغی نظام کو بند کرنا اور دشمن ایئر فورس کی کسی جوابی کارروائی کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے اپنی فضائی-دفاعی صلاحیتوں کو فعال بنانا شامل ہے۔اس کی حکمت عملی کے اثر کو دیکھتے ہوئے سرجیکل سٹرائکس کو ہمیشہ سیاسی قوت ارادی اور لشکری تیاری والے ملک کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔مثال کے لئے 26/11 کا ممبئی دہشت گردانہ حملے کے بعد، ہندوستانی ایئر فورس نے حکومت کو لائن آف کنٹرول کو پار کئے بغیر سرجیکل سٹرائکس کا مشورہ دیا تھا۔ کچھ دنوں تک غور کرنے کے بعد حکومت نے اس صلاح کو ٹھکرا دیا تھا۔
دوسری بات، فوج کے ذریعے کی گئی کارروائی کوصحیح چھاپےماری بھی نہیں کہا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کو دوطرفہ نقصان کو کم کرنے کے لئے جائز لشکری اہداف (اس معاملے میں پاکستانی فوج)کے خلاف کیا جاتا ہے۔یہ ہاٹ پرسئیٹ یعنی دشمن کو اس کی سرحد میں کھدیڑنا بھی نہیں تھا۔یہ جیسا کہ اس وقت کے خارجہ سکریٹری ایس جئے شنکر نے کہا، ‘ لائن آف کنٹرول کے آرپار ہدف پر مبنی، دہشت گردی مخالف کام تھا، جیسے کاموں کو فوج کے ذریعے ماضی میں بھی انجام دیا جاتا رہا تھا، لیکن یہ پہلی بار ہے جب حکومت اس کو عام کر رہی ہے۔ ‘یہ بات انہوں نے غیرملکی معاملوں کی پارلیامانی کمیٹی کے سامنے رکھی۔
تیسری بات،اس فطرت کی کسی اصل کارروائی سے ہمیشہ انکار کیا جاتا ہے تاکہ دشمن کو اگلی چال کو لےکر کشمکش میں رکھا جا سکے۔ لیکن اس معاملے میں ہندوستان نے پہلے پاکستان کو اس کے بارے میں بتایا اور اس کے بعد عوامی طور پر یہ اعلان کیا کہ ایسی اور کارروائیوں کی کوئی اسکیم نہیں ہے اور مشن پورا ہو گیا ہے۔
اسپیشل فورسزکے کام کو منظور کرنا اور یہ اعلان کرنا کہ ‘اس کو آگے بڑھانے کی کوئی اسکیم نہیں ہے ‘، فوج کے لئے ایک غیر معمولی بات تھی۔ ایسا کرکے ہندوستان نے اپنی تیاری پوری نہ ہونے-جنگ کی بات چھوڑئیے، بات بڑھنے کے ڈر سے حکمت عملی کی سطح کی لڑائی کے لئے بھی-کو قبولکرلیا۔اس سے صاف ہے کہ یہ کارروائی لشکری مقاصدکو دھیان میں رکھکر نہیں کی گئی تھی، بلکہ یہ ایک سیاسی مشن تھا، جس کا ہدف اپنی طرح کے پہلے بڑے کام کا پروپگینڈہ تیار کرنا تھا۔
سرجیکل اسٹرائک کا خیال جون، 2015 میں ہندوستانی فوج کے ذریعے میانمار میں ڈالے گئے چھاپے سے آیا، جس نے مودی کی’مردانی’امیج کو آگے بڑھانے کا کام کیا۔اس کی تصدیق اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پریکر نے کی،جنہوں نے کہا کہ (پاک مقبوضہ کشمیر میں) سرجیکل اسٹرائک کی تیاری 15 مہینے پہلے شروع ہو گئی تھی، جب اسپیشل فورسز کے لئے خاص آلات غیر ممالک سے خریدے گئے تھے۔4 جون، 2015 کو میانمار سے کام کرنے والے این ایس سی این-کے نے ہندوستانی فوج کے ایک دستے پر گھات لگاکر حملہ کیا تھا، جس میں 18 فوجی شہید ہوئے تھے۔
اس وقت تھری کراپس کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بپن راوت نے وزیر اعظم دفتر سے اجازت ملنے کے بعداور ہندوستانی ایئر فورس کی مدد سے (ضرورت پڑنے پر اسپیشل فورسز کو نکالنے کے لئے ہیلی کاپٹروں کو تعینات کیا گیا تھا)، 10 جون کو میانمار کے اندر دو دہشت گرد ٹھکانوں پراسپیشل فورسز کے ذریعے کارروائی کی تھی،جس میں تقریباً100دہشت گرد مارے گئے تھے۔جب حکومت ہند نے میانمار کے اندر کامیاب چھاپےماری کا عوامی طور پر جشن منایا، اور اس کو وزیر اعظم کی سیاسی قوت ارادی اور عزم کے ثبوت کے طور پر پیش کیا، اس وقت میانمار فوج نے اس پر رد عمل نہ دینے کا فیصلہ کیا، حالانکہ وہاں کی حکومت نے دھیمی آواز میں اپنی حاکمیت کی خلاف ورزی کی مخالفت کی۔
میانمار میں کی گئی چھاپےماری نے ہندوستانی فوج کو بہتر تیاری اور غور وفکرکے اسی ماڈل کو پاکستانی سرحد پر دوہرانے کے لئے پرجوش کیا۔اس کو مودی حکومت کے لئے یہ اپنی شرم بچانے کا بہترین قدم تھا، کیونکہ پاکستان کے ذریعے مسلسل چلائے جا رہے نام نہاد جنگ اور لگاتار بڑھ رہی میتوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے، حکومت کے لئے اپنی’سخت’امیج کو برقرار رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
چونکہ لیفٹیننٹ جنرل راوت نے میانمار کی چھاپےماری کی اسکیم بناکر اور اس کو انجام دےکر اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا تھا اور ان کو کشمیر میں انتہاپسندی مخالف کارروائیوں کا غیر معمولی طریقے سے لمبا تجربہ تھا، اس لئے ان کو شاید 31 جولائی، 2016 کو لیفٹیننٹ جنرل ایم ایم ایس رائے کی سبکدوشی کے بعد ان کی جگہ وائس چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر ساؤتھ بلاک میں لےکر آنا تھا۔یہ 1 ستمبر کو ہوا۔ اس بیچ وائس چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ پورے ایک مہینے کے لئے خالی رہا۔ پاکستان میں میانمار والی کارروائی دوہرانے کا موقع 18 ستمبر کو دہشت گردوں کے ذریعے اری میں فوج کے کیمپ پر حملہ کے بعد آیا، جس میں 19 فوجی شہید ہوئے تھے۔
بی جے پی کے ذریعے کھڑے کئے گئے راشٹرواد کے شعلوں کو دیکھتے ہوئے اور قریب آ رہے اتر پردیش اسمبلی انتخابات کو دیکھتے ہوئے، حکومت کو جنگ کا جوکھم اٹھائے بنا ہی پاکستان کے خلاف اپنی مرادنگی کا مظاہرہ کرنا تھا۔اس طرح سے یہ پانسہ سیاسی مفادات سے متاثر سرجیکل اسٹرائک کے حق میں پڑا۔ وائس چیف لیفٹیننٹ جنرل راوت اور ناردرن آرمی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا آپریشن کے اہم منصوبہ تیار کرنے والے تھے، جبکہ وزیر اعظم، وزیر دفاع اور قومی سلامتی کے مشیرکو اس عمل میں شامل رکھا گیا۔
آرمی چیف دلبیر سنگھ نے اس مہم میں کوئی اصل کردار نبھانے کی جگہ خیالی کردار ہی نبھایا۔ ہندوستان کی اعلیٰ سیاسی اور لشکری قیادت کے کردار کو دیکھتے ہوئے دو فکر سب سے اہم تھی: پاکستان کو جوابی حملہ نہیں کرنا چاہیے اور کوئی بھی ہندوستانی فوج دشمن کی سرحد کے اندر زندہ نہیں پکڑا جانا چاہیے، کیونکہ اس سے اصل پلان سے پردہ اٹھ سکتا تھا۔
اس کے مدنظر لائن آف کنٹرول کی دوسری طرف بےحد کم دوری تک محدود رہنا ضروری تھا، جہاں سے فوجیوں کو نکال لانا ممکن ہوتا ؛ ساتھ ہی پاکستانی فوج کی چوکیوں پر حملہ نہیں کرنا تھا ؛ حکمت عملی آپریشن کو جتنی جلدی ممکن ہو ختم کرنا تھا اور پاکستانی فوج کو جتنی جلدی ممکن ہو اس کے بارے میں مطلع کرنا تھا تاکہ وہ دستیاب فوجیوں کے سہارےیا فوجیوں کو جمع کرکے جوابی حملہ نہ کریں اور معاملہ آگے نہیں بڑھے۔ یعنی کم سے کم جوکھم اٹھاکر ایک بڑی مہم کا دکھاوا کرنا ہی ہدف تھا۔
جیسا کہ لشکری مہم کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے سرکاری بیان میں کہا، ‘ اس آریشن کا لشکری مقصد’ لائن آف کنٹرول کے ساتھ بنی دہشت گرد پناہ گاہ /چھاؤنیوں ‘ کو نشانہ بنانا تھا۔ ‘دھیان دیجئے، انہوں نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ-ساتھ کہا تھا، نہ کہ لائن آف کنٹرول کے اندر۔
ان ہدایتوں کے ساتھ، باہمی دفاعی (Flank protection) کے لئے مقامی کمانڈو دستے (مہلک پلاٹون) کی مدد سے اسپیشل ٹیم چوری چھپے لائن آف کنٹرول کے 700 میٹر واقع دہشت گردوں کی عارضی چھاؤنیوں(دہشت گردوں کی عارضی چھاؤنیوں کو اس کے بعد پاکستانی چوکیوں کی براہ راست حفاظت میں پیچھےکی طرف بسائی گئی ہے)تک پہنچ گئی۔
خصوصی دستہ نے دہشت گردوں کے ساتھ وہی کیا، جو کہ دہشت گردوں نے اری میں ہندوستانی فوجیوں کے ساتھ کیا تھا، یعنی ان پر بھی سوئے ہوئے میں حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں کتنے ہلاک ہوئے یہ قیاس کا ہی موضوع ہے، کیونکہ نقصان کے اندازے کے لئے کسی ذریعہ کا استعمال (بات بڑھنے کے ڈر سے) نہیں کیا گیا تھا، سب سے بڑی راحت کی بات (جس کو منوہر پریکر اور ناردرن آرمی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا نے قبول کیا)ہندوستانی فوجیوں کی محفوظ واپسی تھی۔
اب تصورات کی مارکیٹنگ کے ذریعے سیاسی فائدہ لینے کا وقت تھا۔الکٹرانک میڈیا نے پاکستانی زمین پر فوجیوں کے پیراشوٹ سے نیچے اترنے کی گرافکس دکھاکر اور ہندوستان-پاکستان کے لشکری فرق کی جنگ کے لحاظ سے موازنہ کرکے دیوانگی بھرا ماحول بنانے کا کام کیا۔
کچھ چنے ہوئے جنرل کے ذریعے ان کی مدد پوری مستعدی کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ہڈا کے مطابق، ‘سرجیکل سٹرائکس نے ایک طرح سے وہ کیا جو کبھی نہیں ہوا تھا۔ اسپیشل ٹیم کو دشمن کے علاقے میں پیچیدہ کام کو انجام دینے کی اپنی صلاحیت کو لےکر زبردست خوداعتمادی ملی ہے۔ ‘ایک دوسرے موقع پر انہوں نے کہا، ‘ہم نے یہ ثابت کیا کہ ہم زبردست پہرےداری والی لائن آف کنٹرول کو پار کرنے اور ایک ساتھ کئی ٹھکانوں پر حملہ کرنے کے اہل تھے۔ ‘
یہاں یہ یاد کیا جا سکتا ہے کہ 90 کی دہائی میں، جولائی، 2004 میں ہندوستانی فوج کے ذریعے لائن آف کنٹرول پر مدافعتی باڑے کے طور پر مجینو لائن (جو مدافعتی ذہنی حالت کو ظاہر کرتی ہے)کھڑی کرنے سے کافی پہلے، ہندوستانی فوج کے عام کمانڈو، نہ کہ خصوصی دستہ، اس نام نہاد ‘ کبھی نہ کی گئی’بات کرتے رہتے تھے۔پاکستانی چوکیوں پر مارے جانے والے چھاپے (جو دہشت گردوں کو نشانہ بنانے سے کہیں بڑا کام ہے)،اچانک حملوں کے ذریعے اس کے فوجیوں کو موت کی نیند سلانا اور توپوں سے گولے برسانا اتنا عام تھا کہ ایک فریق کی لمبی خاموشی دوسرے فریق کو فکر میں ڈال دیتی تھی۔
اس کے علاوہ، 2005-07 کو چھوڑکر، جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بیک-چینل بات چیت چل رہی تھی، لائن آف کنٹرول کے آرپار مارے جانے والے چھاپے عام تھے اور افسروں کی بہادری کو سراہا جاتا تھا۔لیکن،یقینی طور پر ان سب کو میڈیا میں پیش نہیں کیاجاتا تھا، کیونکہ خفیہ کارروائیوں کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے۔
موجودہ وقت میں اس کا ٹھیک الٹا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حال ہی میں دہشت گردوں کے ذریعےبارڈر سیکورٹی فورس کے جوان کے جسم کو زخمی کئے جانے کے بعد آرمی چیف نے کہا، ‘ ہمیں دہشت گردوں اور پاکستانی فوج کے ذریعے کی جانے والی غارت گری کا بدلہ لینے کے لئے سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘
لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کیسے کیا جائےگا؟یہاں ہمارا دھیان ان آرمی چیف کی طرف جائے بنا نہیں رہتا، جنہوں نے دوسرے مواقع پر جنگ کی تیاری کرنے کی طرف اپنا دھیان لگانے کا انتخاب کیا تھا اور سیاست سے ترغیب پاکر لشکری کارروائی کی دھمکی دینے کے لئے اپنا استعمال ہونے دینے کی اجازت نہیں دی تھی۔
مارچ،1971 میں مشرقی پاکستان سے سب سے زیادہ پناہ گزینوں کے ہندوستان آنے کے وقت پر اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سینئر مرکزی وزراء کی موجودگی میں اس وقت کے جنرل سیم مانیکشا سے کہا تھا کہ مکتی واہنی کو تربیت دینا ہی کافی نہیں ہوگا اور لشکری طاقت کا استعمال کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
اپنے استعفیٰ کی پیشکش کرتے ہوئے آرمی چیف (جو چیف آف اسٹاف کمیٹی کے چیئر مین بھی تھے)نے عدم اعتماد سے پر وزیر اعظم سے کہا تھا کہ ان کو جنگ کی تیاری کے لئے 6 مہینے کا وقت اور جیت کے لئے صحیح موقع چاہیے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔لشکری وقارکے لحاظ سے جنرل مانیکشا کے پاس بس ایک ملٹری کراس تھا۔ جنرل راوت تو بہترین جنگی خدمات کے میڈل، انتہائی خصوصی خدمات کے میڈل، جنگی خدمات کے میڈل، سے لیس ہیں۔
کیا جنرل راوت وزیر اعظم مودی سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کی فوج کو انتہاپسندی مخالف کام سے (جو 28 سالوں کے بعد بہت مثبت نتیجہ نہیں دے رہا ہے) آزاد کیا جانا چاہیے اور پاکستان کے نام نہاد جنگ کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے جنگ کی تیاری پر دھیان دینے کے لئے اس کو آزاد رہنے دینا چاہیے۔
(مضمون نگار فورس میگزین کے مدیر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر