خبریں

یو پی اے کے مقابلے مودی راج میں ایم ایس پی کی شرح میں بہت کم اضافہ

ریزرو بینک نے کہا کہ 2008 سے 2009 کے درمیان اور2012 سے 2013کے درمیان میں یو پی اے حکومت کے ذریعے کیا گیا ایم ایس پی میں اضافہ موجودہ دام کے مقابلے میں زیادہ تھا۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  ریزرو بینک آف انڈیانے کہا ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت کی طرف سے جولائی میں خریف فصل کی ایم ایس پی میں کیا گیا اضافہ یو پی اے حکومت کے وقت کیے گئے اضافہ کے مقابلے میں کافی کم ہے۔آر بی آئی نے کہا کہ 2008 سے 2009اور2012 سے 2013 کے درمیان میں یو پی اے حکومت کے ذریعے کے گئے ایم ایس پی میں اضافہ زیادہ تھا۔

حکومت نے جولائی میں گرمی یعنی خریف فصل کے لئے ایم ایس پی بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔حکومت نے مختلف قسم کے دھان کی قیمت میں 200 روپے تک اضافہ کیا تھا۔اس کے ساتھ ہی کپاس، توردال اور ارد جیسی دلہن کی ایم ایس پی میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔حکومت نے اس سال کے بجٹ میں کسانوں کو ان کی فصل پر آنے والی لاگت کے اوپر 50 فیصد اضافہ کے ساتھ ایم ایس پی  دینے کا اعلان کیا تھا۔

حکومت نے پچھلے ہفتے ہی ربی کی فصلوں کے لئے بھی ایم ایس پی میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔  گیہوں کی ایم ایس پی 105 روپے فی کوئنٹل اور مسور کی 225 روپے فی کوئنٹل بڑھائی گئی ہے۔آر بی آئی نے اقتصادی پالیسی تجزیہ رپورٹ میں کہا، ‘تاریخی تناظر میں، جولائی میں اعلان شدہ ایم ایس پی میں اضافہ پچھلے پانچ سال کے اوسط سے قابل ذکر طور پر زیادہ ہے لیکن یہ2008سے زیادہ 2009اور2012 سے 2013کے درمیان میں کی گئی  ایم ایس پی ترمیم کے مقابلے میں کم ہے۔  ‘

اقتصادی پالیسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2018 سے 2019کے خریف موسم میں 14 فصلوں کے لئے کیا گیا اضافہ کا مطلب  عام ایم ایس پی  میں پچھلے سال کی سطح کے مقابلے میں 3.7 فیصد سے 52.5 فیصد اضافہ ہونا ہے۔حالانکہ،اس میں کہا گیا ہے کہ ایم ایس پی کی موجودہ اضافہ اہم افراط زر میں 0.29 سے 0.35 فیصد کا اضافہ کر سکتا ہے۔ریزرو بینک کے لئے افراط زر کو قابو میں رکھنا اس کی اولین ترجیح ہے۔ایم پی سی نے کہا کہ ستمبر سہ ماہی کے آخر تک اہم افراط زر کے موجودہ مالی سال کے آخر تک 3.8 سے 4.5 فیصد تک اور اگلے مالی سال کی پہلی سہ ماہی تک 4.8 فیصد ہو جانے کا اندازہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچے تیل کی قیمتوں میں پچھلے 15 مہینوں میں 67 فیصد کی اچھال آئی ہے۔  ستمبر میں یہ بڑھ‌کر 78 ڈالر فی بیرل پر تھی۔اس کی وجہ  جی ڈی پی کی شرح نمو اور افراط زر کے ہدف سے اوپر چلے جانے کے بھی آثار بنے ہوئے ہیں۔اس میں کہا گیا ہے کہ کچے تیل میں ایک ڈالر فی بیرل کا اضافہ سے چالو کھاتے کا نقصان 0.8 ارب ڈالر بڑھ سکتا ہے۔

اس سے پہلے دی وائر نے مرکزی حکومت کے ذریعے 4 جولائی 2018 کو طے کئے گئے ایم ایس پی اور لاگت قیمت سی2 پر 50 فیصد کی رقم کا تقابلی مطالعہ کرکے بتایا تھا کہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کی بنیاد پر کسی بھی فصل کی ایم ایس پی طے نہیں کی گئی ہے۔حکومت نے لاگت قیمت سی2 کے مقابلے صرف اوسطاً 17 فیصد دام بڑھاکر ایم ایس پی طے کیا ہے۔  ان دونوں کا فرق کافی زیادہ بھی ہے۔

مرکزی حکومت دھان کی ایم ایس پی 200 روپے بڑھاکر قیمت میں تاریخی اضافہ کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارش کے مقابلے میں حکومت کے ذریعے طے کی گئی رقم 590 میں روپے کم ہے۔دھان پر لاگت سی2 کا 50 فیصد 2340 روپے بنتا ہے لیکن حکومت نے 1750 روپے ہی طے کیا ہے۔

سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسانوں کو سی2 لاگت کا ڈیڑھ گنا دام ملنا چاہیے۔سی2 کی رقم اے1 اور اے2+ایف ایل کے مقابلے ہمیشہ زیادہ رہتا ہے کیونکہ سی2 کا تعین کرتے وقت کھیتی  کے تمام اصولوں جیسے کےکھاد، پانی، بیج کی قیمت کے ساتھ ساتھ فیملی کی مزدوری، ملکیت والی زمین کا کرایہ قیمت اور طےشدہ سرمایہ پر سود بھی شامل کی جاتی ہے۔

کسی بھی حکومت نے ابھی تک ایم ایس پی لاگت سی2 کا ڈیڑھ گنا دام کرکے نہیں دیا ہے۔اس سے پہلے کی حکومتیں اے2 + ایف ایل کو لاگت قیمت مان‌کر اس پر دام بڑھاکر  پیسے دیتی رہی ہیں۔حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ انہوں نے دھان پر لاگت کی 50 فیصد قیمت بڑھاکر بطور ایم ایس پی طے کی ہے۔

لیکن، سچائی یہ ہے کہ جہاں کانگریس کی قیادت والی یو پی اے کی  دوسری مدت(2019-2014) میں دھان کے لئے لاگت اے2 + ایف ایل پر اوسطاً 69 فیصد بڑھاکر ایم ایس پی دی گئی تھی، وہیں این ڈی اے حکومت (2019-2014) میں اے2 + ایف ایل پر اوسطاً 41 فیصد بڑھاکر ایم ایس پی دی گئی ہے۔  اس حساب سے دھان کی ایم ایس پی پہلے کے مقابلے  میں کافی کم کر دی گئی ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)