فکر و نظر

الیکٹورل بانڈ : بلیک کو وہائٹ کرنے کی اسکیم

یہ محض افواہ نہیں ہے کہ بڑے کارپوریٹ سیاسی جماعتوں کو موٹی رقم چندے کے طور پر دیتے ہیں اور بدلے میں حکومت کوڑی کے سودا پر ان کو وسائل مہیا کراتی ہے۔

ElectoralBond_TheQuint

فوٹو : دی کوئنٹ

دعویٰ تو کھلا پن کا تھا۔صاف ستھری سیاست کا تھا۔  بتایا گیا تھا کہ صاف  شفاف سیاست کا نقطہ انحراف وہائٹ منی ہے۔بلیک منی کو ختم کر کے سیاست میں وہائٹ منی  کے چلن کے لئے حکومت نے الیکٹورل بانڈ  کی شروعات کی-ایسا ہی دعویٰ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اپنی تقریر میں کیا تھا۔جنوری 2018 سے اب تک الیکٹورل بانڈ کے چار ایڈیشن آ چکے ہیں، لیکن نہ بانڈ خریدنے والے کا پتہ ہے اور نہ اس کو بھنانے والے کا۔ بانڈ کی خرید کے لئے نامزد اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے جنوری سے جولائی تک 470 کروڑ  روپے کے بانڈ بیچے ہیں۔

اب تک 20 ہزار سے کم کے سیاسی چندے بےنامی لیکن قانوناً جائز ہیں۔  لیکن اب کروڑوں کی قیمت کے بانڈ بھی بےنامی ہی ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق 412 لوگوں یا تنظیموں نے ایک کروڑ قیمت کے بانڈ خریدے ہیں،اور اپنے من پسند سیاسی جماعتوں کو اس کو چندے کے طور پر دیا ہے۔  لیکن بانڈ لینے دینے والوں کی شناخت نہیں ہو سکتی ہے۔  پہچان آر ٹی آئی  کے دائرے سے باہر ہے۔

یہ محض افواہ نہیں ہے کہ بڑے کارپوریٹ سیاسی جماعتوں کو موٹی رقم چندے کے طور پر دیتے ہیں اور بدلے میں حکومت کوڑی کے سودا پر ان کو وسائل مہیا کراتی ہے۔بڑےبڑے ٹینڈردیتی ہے اور سرکاری خزانے سے کمپنیوں کی خدمت کرتی ہے۔بانڈ کے رواج میں آنے کے پہلے تک کمپنیاں تین سال کے اوسط منافع کا 7.5 فیصدی چندے کے طور پر دے سکتی تھی لیکن نئے نظام میں آپ چاہیں تو پورا کا پورا نفع کسی سیاسی جماعت کو چندے میں دے سکتے ہیں۔  چاہیں تو بانڈ کے لئے ہی شیل کمپنیاں بنا لی جائے۔

بانڈ سیاسی جماعت کےرجسٹرڈ کھاتے میں جمع ہوتے ہیں اور ہر سیاسی جماعت کو اپنی سالانہ رپورٹ میں بتانا ہوگا کہ اس کو کتنے بانڈ ملے۔بانڈ دینے والے کی پہچان خفیہ رکھے جانے کا اہتمام ہے۔  ڈاٹا انالسس کرنے والے حیدر آباد کے ادارہ ‘فیکلٹی’نے آرٹی آئی سےبانڈ کے بارے میں  کئی اہم جانکاریاں جمع کی ہیں۔جنوری سے جولائی کی مدت میں بانڈ سے حاصل رقم کا 93 فیصدی تقریباً 440 کروڑ دہلی میں بھنایا گیا ہے۔ زیادہ تر نیشنل پارٹیوں کے رجسٹرڈ کھاتے دہلی میں ہیں اور اندیشہ ہے کہ یہ بانڈ ان کو ہی ملے ہوں‌گے۔

اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے جنوری سے جولائی تک کل 1062 بانڈ بیچے۔ ممبئی میں اسٹیٹ بینک کی برانچ سے 290 لوگوں نے بانڈ خریدے لیکن ممبئی میں ایک بھی بانڈ بھنایا نہیں گیا۔ زیادہ تر کارپوریٹ کے صدر دفتر ممبئی میں ہیں اور قدرتی طور پر یہاں بانڈ کی خریداری ہونی تھی لیکن ایک بھی بانڈ کا یہاں نہیں بھنایا جانا یہ تصدیق کرتا ہے کہ یہاں کی علاقائی جماعتوں کو بانڈ سے چندہ نہیں ملا ہوگا۔  جبکہ دہلی میں خریداروں کی تعداد تو محض 111 رہی لیکن یہاں 967 بانڈ بھنائے گئے۔  چنئی اور گاندھی نگر میں بھی یہی ٹرینڈ دیکھنے کو ملا۔  چنئی میں کل 62 اور گاندھی نگر میں26 بانڈ خریدے گئے لیکن ایک بھی بانڈ یہاں نہیں بھنائے گئے۔

سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے مانا ہے کہ بانڈ علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو ختم کرنے کی کارجوئی ہے۔ چھوٹی جماعتوں کو زندہ رکھنا ہے تو بانڈ کو ہٹانا ہوگا ورنہ چھوٹی جماعت انتخاب بھی نہیں لڑ پائیں‌گے۔انتخاب میں سیاسی جماعت بہت پیسہ لگاتی ہیں۔  ان پیسوں کا ذریعہ کیا ہوتا ہے؟  ہر جماعت چندہ لیتی ہے۔  چندے کے معاملے میں فی الحال اصول ہے کہ بیس ہزار سے کم کے چندے بنا رسید کے لئے جا سکتے ہیں۔  اے ڈی آر کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے 80 فیصدی چندے بےنامی ہوتے ہیں۔

وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ پالیٹکل فنڈنگ اور سیاست میں بد عنوانی پر لگام لگانے کے مقصدسے اس طرح کا اقرارنامہ جاری کرنے والا پہلا ملک ہے۔اس بانڈ سے سیاسی جماعتوں کو ملنے والے بلیک منی کو پوری طرح سے وہائٹ کر دیا جائے‌گا۔اب جب بانڈ سے چندے کا لین دین چلن میں آ گیا ہے، کیا یہ مان لیا جائے کہ پردہ ہی شفافیت ہے۔  بانڈ نے ثابت کر دیا کہ کارپوریٹ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان سانٹھ گانٹھ کو اور پختہ کرنے میں یہ گوندکی طرح ہے۔