ماہر ماحولیات پروفیسر جی ڈی اگروال نے 100 سے زیادہ دنوں تک اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھی تو صرف اس لئے کیونکہ حکومتوں کی غیر سنجیدگی کے باوجود ان کے دل و دماغ میں جمہوریت کو لےکر کوئی نہ کوئی امید ضرور باقی رہی ہوگی۔ ان کے جانے کا غم اس معنی میں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے کہ یہ بھوک ہڑتال کے رہنما مہاتما گاندھی کی پیدائش کے ایک 150 سال میں ہوا ہے۔
کوئی پوچھے کہ آپ مہنت پرم ہنس داس کو جانتے ہیں کیا؟ تو شاید آپ ‘ہاں ‘کہنے میں ایک پل بھی نہیں گنوائیںگے۔بتانے لگیںگے کہ ابھی چند دنوں پہلے وہ کس قدر ملک اور اتر پردیش کی بی جے پی حکومتوں کو رام مندر’وہیں’بنانے کے لئے مجبور کرنے کے مقصدسے ایودھیا واقع اپنی چھاؤنی میں کئے جا رہے بھوک ہڑتال کو لےکر چرچہ میں تھے۔
یہ بھی کہ کیسے انہوں نے بعد میں خود کو اس مانگ تک محدود کر لیا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی ایودھیا آکر یقین دلائیں کہ ان کو رام مندر کی تعمیر کےلئے بی جے پی کے پرانے وعدے کی فکر ہے اور وہ اس کو پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کریںگے۔یہ بھوک ہڑتال گلے کی ہڈی بننے لگی توبھی ان حکومتوں نے مہنت کی مانگ کو لےکر’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں’ کا رویہ اپنائے رکھا۔
البتہ،ہفتہ بھی نہیں گزرا کہ ریاستی حکومت نے ان کی’بگڑتی حالت ‘کی فکر بنکر ان کو بھوک ہڑتال سے اٹھوایا اور لکھنؤ میں واقع سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے آئی سی یو میں بھرتی کرا دیا۔وہاں صحت مند ہونے کے بعد وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ہاتھوں اپنی بھوک ہڑتال تڑواکر وہ ایودھیا لوٹ آئے ہیں اور اپنی ان سنی پر عدم تعاون تحریک کی دھمکی دے رہے ہیں۔
لیکن کیا سوامی گیان سوروپ سانند سرسوتی عرف پروفیسر جی ڈی اگروال سے بھی ان مہنت اتنے ہی واقف ہیں؟ بہت ممکن ہے کہ اس سوال کے جواب میں آپ رک جائیں اور ثابت کرنے لگیں کہ گنگا کا مسلسل بہنا یقینی بنانے کے لئے گنگا قانون بنانے کی مانگ کو لےکر 112 دنوں تک بھوک ہڑتال کر کے جان دینے کے باوجود وہ آدھی-ادھوری خبر ہی بن پائے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم مودی کو لکھے گئےجی ڈی اگروال کے وہ تین خط،جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا
ایسے ملک میں وہ پوری خبر بن بھی کیسے سکتے تھے، جس کے کئی بڑے سماجی حصے ابھی اپنے اصل دشمنوں اور خیر خواہ کی پہچان کا ادراک تک تیار نہیں کر پائے ہیں اور حکومتیں عام طور پر اتنی سخت دل ہیں کہ کسی کی سوچ اور ضروریات کی، وہ کتنے بھی اچھے کیوں نہ ہوں، تب تک ان سنی کرتی رہتی ہیں، جب تک ان کو لےکر کوئی خطرہ نہ محسوس کرنے لگے۔ان حکومتوں کی امتیازی سلوک سے بھری روایت اور پالیسی اب مفاد پرستی کے اس موڑ تک جا پہنچی ہے، جہاں ہنس اور بگلا کی پہچان کی تمیز بھی پانی مانگنے لگ جاتی ہے۔
کیا تعجب کہ ان کو سنتوں اور بزرگوں میں بھی بہت دلچسپی رکھتے ہیں، جن کو وقت کی رتھ کی گردش کو روککر بیٹھے رہنے یا الٹا گھمانے کے بچوں جیسی ضد کی مشق ہو، نہ کہ وہ جو مستقبل کی راہیں ہموار کرنے کے لئے وقت کے ساتھ یا اس کے آگے آگے چلنے کے حامی ہوں۔ان حکومتوں کی حامی انہیں ناپسند صوفیوں پر تب بھی حملے سے باز نہیں آتے، جب وہ ان کی ہی کسی عظمت کو خراج عقیدت نذر کرنے ان کی پارٹی کے صدر دفتر آئے ہوں!
بہر حال، پروفیسر جی ڈی اگروال ،2011 میں سنیاسی بننے کے بعد سوامی گیان سوروپ سانند سرسوتی کے نام سے جانے جاتے تھے، ان کا سب سے بڑا ‘جرم’یہ تھا کہ انہوں نے اپنی مانگ منوانے کا ایسا گاندھیائی طریقہ اپنایا، جو کسی بھی حالت میں حکومت کے لئے خطرہ نہیں بن سکتا تھا۔وہ اپنے اخلاقی دباؤ بھی تبھی محسوسکرکے سکتے تھے، جب اس میں کچھ اخلاقیات باقی ہوتیں۔ شاید ان کو لگتا تھا کہ ایسا ہوگا۔ تبھی انہوں نے وزیر اعظم کو تین-تین خط لکھے اس امید کے ساتھ کہ ان میں سے کسی ایک کا جواب تو آئےگا ہی۔
یقیناً، ان کے اس اعتماد کی بنیاد 2012 کی وہ بھوک ہڑتال رہی ہوگی، جس کے بعد اس وقت کی مرکزی حکومت نے ان سنی چھوڑکر اتر کاشی میں تین آبی بجلی منصوبہ بند کر دیا تھا۔کاش، وہ سمجھتے کہ تب سے، گنگا ندی میں بہت پانی بہہ چکا ہے، جس کے بارے میں بہت فکر مند تھا۔ان کے سامنے ‘آئرن لیڈی’کے نام سے مشہور منی پور کی انسانی حقوق کارکن اروم شرمیلا چانو کی وہ نظیر بھی تھی ہی،جس میں دنیا کی سب سے طویل مدتی بھوک ہڑتال سے بھی خواہش پوری نہیں ہو پائی تھی۔
حکومتوں نے تو، جو اس دوران کئی بار بدلی بھی تھیں، منی پور میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس قانون کے خلاف سال 2000 میں 5نومبر سے شروع ان کی بھوک ہڑتال کا 16 سالوں میں کبھی نوٹس لیا ہی نہیں، اکتوبر، 2016 میں پیپلس ریسرجینس جسٹس ایلائنس نام کی پارٹی بناکر وہ سیاست میں اتریں تو بے رحم سماج نے بھی ان کو کوئی صلہ نہیں دیا۔ نتیجتاً منی پور میں نئی سیاسی تبدیلی لانے کا ان کا ارمان دھرا کا دھرا رہ گیا۔
16 سالوں تک بالوں میں کنگھی تک نہ کرنے کی ان کی قسم کا یوں بے فائدہ ہو جانا بھی بھوک ہڑتال کے ہتھیار کی، کسی وقت فاتح مانی جانے والی، طاقت میں سوامی سانند کا اعتماد نہیں کھسکا سکی، تو ان کے دل و دماغ میں ملک کی حکومت کی جمہوریت کو لےکر کوئی نہ کوئی امید ضرور باقی رہی ہوگی۔اب، جب ان کی وہ امید انہی کے ساتھ چلی گئی ہے، اس کے جانے کا غم اس معنی میں کہیں زیادہ چبھتا ہے کہ یہ بھوک ہڑتال کے رہنما مہاتما گاندھی کی پیدائش کے ایک 150 سال میں ہوا ہے۔
جس ملک میں ستیہ گرہ آزادی کی لڑائی کی بنیاد رہی ہو، اس میں اس سے زیادہ شرمناک اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک سائنس داں بھوک ہڑتال کرنے والے سچ کی التجا کرتے ہوئے حاکموں کی مجرمانہ بےرخی کے درمیان دم توڑ دے؟
اس شرم کو اس طرح بھی محسوس کیا جانا چاہیے کہ ان کی جان ایک ایسی سرکار نے لی ہے ،جو اس گاندھی کی سالگرہ کے 150 ویں سال کو منانے کی تیاری کر رہی ہے۔البتہ ،مہاتما گاندھی کو ان کی پہچان سے الگ کر کے اور اپنے مفاد کے کی خاطر۔وہ منطقی بنیاد پر گنگا کی کثافت کو اس کی پاکیزگی کی بنیاد بتا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اربوں روپے خرچ کرکے بھی گنگا کی صفائی تب تک یقینی نہیں بنائی جا سکتی، جب تک اس میں عوام کی شرکت نہ ہو۔
ان کا یقین تھا کہ بڑے ڈیموں کے قیام کی وجہ سے، ایکولوجی ختم ہو جاتی ہے، جنگلات تباہ ہوجاتے ہیں اور ہزاروں افراد کو بے گھر ہونا پڑتاہے۔ہمالیہ میں اہم ترقیاتی منصوبوں سے تباہی آئےگی ، تو گنگا کے میدان بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں گے۔وہ چاہتے تھے کہ اس تباہی سے بچانے کے لئے گنگا قانون بنایا اور نافذ کیا جائے۔ حکومت کو ان کی زندگی کی پرم ہنس داس جیسی نہ صحیح، تھوڑی بھی پرواہ ہوتی تو وہ ان مانگوں کی سمت میں کچھ قدم تو بڑھ ہی سکتی تھی۔
لیکن گزشتہ تین اکتوبر کو ان سے ملنے آئی مرکزی وزیر اوما بھارتی رہی ہوں، فون پر بات کرنے والے نتن گڈکری یا ہری دوار کے بی جے پی رکن پارلیامان رمیش پوکھریال، سب کے سب آخر تک یہی چاہتے رہے کہ وہ بےحس وعدوں پر’ایسے ہی’بھوک ہڑتال توڑ دیں اور بعد میں حکومت اپنی عادت کے مطابق ‘وعدے ہیں، وعدوں کا کیا’ کی راہ پر بڑھ جائے۔سوامی سانند نے ایسا کرنے سے یہ کہہکر منع کر دیا کہ میں گنگا کو مرتی ہوئی دیکھنے سے پہلے اپنی جان قربان کر دینا چاہتا ہوں اور آخرکار انہوں نے ایسا کرکے بھی دکھا دیا۔
کہنا بےکار ہے کہ ان کا یہ کر دکھانا ہمارے بےحس حاکموں کا منھ پر سخت طمانچہ ہے کیونکہ وہ ایسے طمانچے کی شرم بھی محسوس نہیں کر پاتے۔ کر پاتے تو یہ تشہیر کرکے کہ وہ بھوک ہڑتال توڑنا چاہتے تھے لیکن کسی فرد کے ذریعے ان کو ایسا کرنے سے روکا جا رہا تھا، موت کے بعد بھی ان کی مضبوطی کی بے عزتی کرنے پر نہ اترتے۔
صوفیوں اور سنتوں شادھوؤں میں فرق بھی تب کر ہی لیتے۔ یہ بھی سمجھ پاتے کہ ایک کمیونٹی خاص کر مذہبی جذبات کو بھنانے کے لئے گنگا کی صفائی کے قومی مشن کا نام ‘نمامی گنگے ‘رکھ دینے سے میلی گنگا کی زمینی حقیقت نہیں بدلنے والی۔وہ تبھی بدلےگی، جب بدلنے کی ایماندارانہ کوشش کی جائےگی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں اور فیض آباد میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر