سر سید اور ان کے عہد کے لوگوں کو جو کرنا تھا وہ کر کے چلے گئے۔ اب ہمیں آج کے حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ آج کا سب سے بڑا چیلنج اپنے اوپر چھا رہے مایوسی کے بادل کو چھانٹنا ہے اور اپنے لوگوں میں، خاص کر نئی نسل میں، عزم اور حوصلہ پیدا کرنا ہے۔
اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ؛
بتاؤں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہو گا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
ہم علی گڑھ والے اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ ہمیں پلاؤ، بلکہ بریانی کھانے کے لئے کسی کے مرنے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔بانئ درسگاہ کے یوم پیدائش کو بہانہ بنا کر ہم ہر سال یہ موقعہ نکال لیتے ہیں۔ سر سید ڈے کے نام سے جاری یہ روایت اتنی مستحکم ہو چکی ہے کہ اس تقریب کا انعقاد نہ صرف علی گڑھ میں بلکہ ہندوستان کے تمام اہم شہروں میں اور دنیا کی تقریباً تمام قابل ذکر راجدھانیوں میں ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سال کا یہ ایک موقعہ ہوتا ہے جب علی گڑھ کے فارغین چاہے جس عمر کے ہوں بچہ بن جاتے ہیں۔ ڈنر کا اہتمام کس طرح ہو اس نام پر لڑتے جھگڑتے ہیں اور جب ڈنر سجایا جاتا ہے تو اکثر لوٹ مار بھی کرتے ہیں۔ علی گڑھ چھوڑنے کے بعد میں کئی شہروں میں رہ چکا ہوں اور ہر جگہ اس روایت – یا علی گڑھ والوں کی زبان میں کہیں تو ٹریڈیشن – کی پاس داری دیکھی ہے۔ میں اس ٹریڈیشن پر اعتراض نہیں کر رہا ہوں نہ ہی کسی کو اس کا حق دے رہا ہوں۔ ہماری بریانی ہم جیسے چاہے کھائیں…کوئی ہمیں بتائے کیوں!
اس جملۂ معترضہ سے الگ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ علی گڑھ کی صورت میں سر سید نے ہمیں ایک بیش قیمتی سرمایہ دیا ہے جس کے لئے انھیں جس جس انداز میں خراج عقیدت پیش کیا جائے کم ہے۔مگر کیا ہی اچھا ہو کہ بریانی خوری کے ساتھ ساتھ ہم اس سالانہ دن کو اپنی آرزؤں اور تمناؤں کی تکمیل کا دن بھی بنا دیں۔ اپنے آپ کو آنے والے سال یا سالوں کے لئے کوئی پروگرام دیں۔
جس شہر میں بھی سر سید ڈے منایا جاتا ہے وہاں کچھ دنوں کے لئے ایک ہلچل سی پیدا ہو جاتی ہے۔ غیر علیگ بھی اس کے بارے میں باتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس کی تیاری پر ہم اپنا وقت اور پیسہ لگاتے ہیں۔کسی اہم سماجی یا سیاسی شخصیت کو دعوت دے کر اسٹیج فراہم کرتے ہیں۔وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا ہے۔ ہم ڈنر کھاتے ہیں اور گھر جا کر سو جاتے ہیں۔ اور پھر پورے سال سوتے رہتے ہیں۔
یہ رویہ مسلم سماج کے اس طبقے کا ہے جس نے جدید ہندوستان کی تعمیر میں ایک اہم رول ادا کیا ہے اور آج بھی نامواقف حالات کے باوجود زندگی کے تمام اہم شعبوں میں اس کی نمائندگی موجود ہے۔ آج ملک میں تعلیمی اداروں کی کمی نہیں ہے۔ مسلمان اُن میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بلکہ باہر کی یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم حاصل کرنے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کی مرکزی حیثیت باقی ہے۔ دوست ہو کہ دشمن ہر ایک اس کی طرف ضرور دیکھتا ہے۔
ہم علی گڑھ والوں کو اپنی اس پوزیشن کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں اپنی حالت کو مزید بہتر بنانے کے لئے۔سیاست دانوں کو اپنے پروگرام میں بلانے اور ان سے رشتہ رکھنے میں کوئی برائی نہیں مگر ان کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر کھنچوانا اور انھیں فیس بک اور وہاٹس ایپ پر شیئر کرنا ہماری معراج نہیں ہونی چاہیے۔
ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ہی لائحہ عمل طے کرنا ہوتا ہے اور اُنہیں لوگوں کو کرنا پڑتا ہے جو اُس زمانے میں جی رہے ہوتے ہیں۔سر سید اور ان کے عہد کے لوگوں کو جو کرنا تھا وہ کر کے چلے گئے۔ اب ہمیں آج کے حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ آج کا سب سے بڑا چیلنج اپنے اوپر چھا رہے مایوسی کے بادل کو چھانٹنا ہے اور اپنے لوگوں میں، خاص کر نئی نسل میں، عزم اور حوصلہ پیدا کرنا ہے۔اندنوں ملک کے حالات ذرا صبر آزما ہیں۔مگر اس سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ جمہوری نظام میں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ جسے دوام حاصل ہے وہ ہے یہ ملک اور اس کے باشندے۔
سر سید کے مقابلے میں ہم ذرا بہتر حالت میں ہے۔ اُنھیں دو محاذوں پر جنگ لڑنی پڑی تھی۔ ایک طرف انگریز حکمرانوں کو یقین دلانا پڑا تھا کہ وہ کوئی حکومت مخالف کام نہیں کر رہے ہیں دوسری طرف اپنی قوم کو آمادہ کرنا پڑا کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے گھروں سے باہر بھیجیں۔ دوسرے محاذ پر انھیں زیادہ مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں اپنے لوگوں کی مخالفت سہنی پڑیں۔ ان پر انگریزوں کی چاپلوسی کا الزام لگا۔ ان کے خلاف کفر کا فتویٰ تک جاری ہوا۔
آج کے رہنما کو یہ سب جھیلنا نہیں پڑ رہا۔ عام انسان تعلیم کی اہمیت سے واقف ہو چکا ہے۔بس اب اسے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔مسلمان لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی دور دراز کا سفر کر رہی ہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے اور ملازمت کرنے کے لئے۔ اس کے علاوہ ہمارا ملکی نظام بھی کچھ ایسا ہے کہ کوئی حکومت چاہے کتنی بھی مسلم دشمن کیوں نہ ہو ہم سے ہمارے بنیادی حقوق نہیں چھین سکتی۔
جدہ میں مقیم حیدرآبادیوں کی شروع کی ہوئی تحریک سے ایک بڑا کام ہو گیا ہے۔مولانا آزاد کی تاریخ پیدائش 11 نومبر کو سرکار نے نیشنل ایجوکیشن ڈے یعنی قومی یوم تعلیم ڈکلیئر کر دیا ہے۔اس کام میں علی گڑھ کے بعض فارغین کی کوششیں بھی شامل رہیں۔ 2008 سے ہر سال اس دن تعلیمی اداروں میں سیمینار، سمپوزیم، تقریری مقابلوں، اور ایجوکیشن ریلیوں وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے۔
اس دن کو ابھی تک ٹیچرس ڈے جیسی شہرت نہیں مل سکی ہے۔اس کام میں وقت لگے گا۔ علی گڑھ کے لوگ اس دن کی معنویت کو بڑھانے کا کام کر سکتے ہیں۔مولانا آزاد کے نام سے کوئی بڑا ایوارڈ شروع کیا جا سکتا ہے۔ایجوکیشن ڈے کی مناسبت سے ہر سال ایک بڑا پروگرام کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد جہاں اپنے اکابرین کی خدمات کا اعتراف ہوگا وہیں دنیا کو یہ پیغام دینا بھی ہوگا کہ اس ملک کے مسلمان ایک متحرک قوم ہیں اور تعمیری سوچ رکھتے ہیں۔
دوسرا کام ادارہ سازی کا ہے۔ مسلمان اس میں باقی قوموں کے مقابلے میں کافی پیچھے ہیں۔ علی گڑھ کے فارغین ملک کے مختلف گوشوں کے رہنے والے ہیں اور اس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہندوستان مختلف جگہوں پر بسے ہوئے ہیں۔انھیں اپنے اپنے علاقوں میں ایسے ادارے کھلوانے چاہییں جن کے ذریعہ سے تعلیمی اور رفاہی کام ہو سکے۔ خود نہیں کر سکتے ہوں تو جو لوگ مقامی طور پر کام کر رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے – صرف پیسوں سے مدد کرنا کافی نہیں ان کا حوصلہ بڑھاتے رہنا بھی ضروری ہے۔
آجکل کے مخصوص سیاسی حالات کے پیش نظر مسلمانوں کے حوصلے ذرا پست ہیں اور ان پر مایوسی چھائی ہوئی ہے۔انھیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔نوجوانوں پر اس کے منفی اثرات زیادہ پڑ رہے ہیں۔یہ ایک خطرناک صورت حال ہے۔اس سے باہر نکالنے کے لئے انہیں تعمیری کاموں میں لگانا ہوگا۔ایسے پروگرام سوچنے ہوں گے جن سے ملازمت اور کاروبار کے مواقع پیدا ہو سکیں۔جو کام سیاست دانوں کے ہیں وہ انھیں کرنے دیا جائے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ جتنے بھی مخلص کیوں نہ ہوں ان کی نظر قلیل مدتی فائدوں پر ہوتی ہے۔ ہمیں ایسا پروگرام سوچنا ہوگا جس میں استقامت ہو، جس کے دور رس نتائج برآمد ہوتے ہوں۔ اور یہ کام صرف پڑھا لکھا طبقہ ہی کر سکتا ہے۔
Categories: فکر و نظر