خبریں

نمامی گنگے اسکیم: 3 ہزار 867کروڑ خرچ کرنے کے باوجود اور آلودہ ہوئی گنگا

اسپیشل رپورٹ : آرٹی آئی کے تحت ملی جانکاری سے پتہ چلا ہے کہ مودی حکومت کی دیرینہ اسکیم نمامی گنگے کے باوجود گنگا کی صحت بد سے بدتر ہوئی ہے۔

اتر پردیش کے کانپور شہر کے پاس گنگا ندی میں ملتا سیور کا پانی۔  (فائل فوٹو : دانش صدیقی / رائٹرس)

اتر پردیش کے کانپور شہر کے پاس گنگا ندی میں ملتا سیور کا پانی۔  (فائل فوٹو : دانش صدیقی / رائٹرس)

نئی دہلی: جانے مانے ماہر ماحولیات اور پچھلے کئی سالوں سے گنگا صفائی کے لئے کام کرتے رہے پروفیسر جی ڈی اگروال کا گزشتہ 11 اکتوبر کو انتقال ہو گیا۔  وہ 112 دنوں تک بھوک ہڑتال پر تھے۔  گنگا کو رواں بنانے کے لئے انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو تین بار خط لکھا تھا اور بار بار ان کویاد دلاتے رہے کہ آپ نے2014 میں بنارس میں کہا تھا کہ مجھے ماں گنگا نے بلایا ہے۔

غیر متعینہ بھوک ہڑتال کی جانکاری دینے کے بعد بھی جی ڈی اگروال کے پاس پی ایم او سے کوئی جواب نہیں آیا اور خرکارانہوں نے جان  دے دی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ2014 میں گنگا کی صفائی کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی مودی حکومت کے وقت میں گنگا کتنا صاف ہوئی اوراس میں کتنی  روانی آئی۔دی وائر کو آرٹی آئی    کے تحت ملی جانکاری کے مطابق پہلے کے مقابلے میں کسی بھی جگہ پر گنگا صاف نہیں ہوئی ہے، بلکہ2013 کے مقابلے میں گنگا ندی کئی ساری جگہوں پر اور زیادہ آلودہ ہو گئی ہے۔2014 سے لےکر جون 2018 تک میں گنگا صفائی کے لئے 5523 کروڑ روپے جاری کئے گئے، جس میں سے 3867 کروڑ روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔

 وزارت  ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے تحت آنے والےادارہ سی پی پی بی کے   ذریعے آر ٹی آئی کے تحت مہیا کرائی گئی اطلاع کے مطابق سال 2017 میں گنگا ندی میں بی او ڈی (بایوکیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ) کی مقدار بہت زیادہ تھی۔اتناہی نہیں، ندی کے پانی میں ڈی او (ڈیزالوڈ آکسیجن) کی مقدار زیادہ تر جگہوں پر لگاتار گھٹ رہی ہے۔

سائنسی معیارات کے مطابق صاف ندی میں بی او ڈی کی سطح 3 میلی گرام / لیٹر سے کم ہونی چاہیے۔وہیں ڈی او لیول 4 میلی گرام / لیٹر سے زیادہ ہونی چاہیے۔اگر بی او ڈی لیول 3 سے زیادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پانی نہانے، دھونے کے لئے بھی صحیح نہیں ہے۔بی او ڈی آکسیجن کی وہ مقدار ہے جو پانی میں رہنے والے حیوانات کو تمام غیرضروری آرگینک مادوں کو تباہ کرنے کے لئے چاہیے۔  بی او ڈی جتنی زیادہ ہوگی پانی کا آکسیجن اتنی تیزی سے ختم ہوگا اور باقی حیوانات پر اتنا ہی برا اثر پڑے‌گا۔

ڈی او (ڈیزالوڈ آکسیجن)کا مطلب ہے کہ پانی میں گھلی ہوئی آکسیجن کی مقدار۔  پانی میں ملنے والی آلودگی کو دور کرنے کے لئے چھوٹے حیوانات کو آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ڈی او کی مقدار زیادہ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پانی میں آلودگی کم ہے۔  کیونکہ جب آلودگی بڑھتی ہے تو اس کو ختم کرنے کے لئے پانی والے آرگنزم کو زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے ڈی او کی مقدار گھٹ جاتی ہے۔

پٹنہ میں نوراتری کے دوران گنگا میں ڈبکی لگاتے عقیدت مند۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

پٹنہ میں نوراتری کے دوران گنگا میں ڈبکی لگاتے عقیدت مند۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

سی پی پی بی1980سے ہندوستان کی ندیوں کے پانی کے معیارات کی جانچ‌کر رہا ہے اور اس وقت یہ 2525 کلومیٹر لمبی گنگا ندی کی 80 جگہوں پر جانچ کررہا ہے۔اس سے پہلےسی پی پی بی62 جگہوں پر گنگا کی جانچ کرتا تھا۔2017 کی سی پی پی بی کی رپورٹ کے مطابق 80 میں سے 36 جگہوں پر گنگا ندی کا بی او ڈی لیول 3 میلی گرام / لیٹر سے زیادہ تھا اور 30 جگہوں پر بی او ڈی لیول 2 سے 3 میلی گرام / لیٹر کے بیچ میں تھا۔ وہیں سال 2013 میں 31 جگہوں پر گنگا کا بی او ڈی لیول 3 سے زیادہ تھا اور 24 جگہوں پر 2 سے 3 میلی گرام / لیٹر کے بیچ میں تھا۔

سی پی پی بی کے معیارات کے مطابق اگر پانی کا بی او ڈی لیول 2 میلی گرام / لیٹر یا اس سے نیچے ہے اور ڈی او لیول 6 میلی گرام / لیٹر یا اس سے زیادہ ہے تو اس پانی کو بغیر ٹریٹمنٹ(مشین کے ذریعے پانی صاف کرنے کا عمل)کئے پیا جا سکتا ہے۔وہیں اگر پانی کا بی او ڈی 2 سے 3 میلی گرام / لیٹر کے بیچ میں ہے تو اس کا ٹریٹمنٹ کرنا بےحد ضروری ہے۔  اگر ایسی حالت میں بغیر ٹریٹ کئے پانی پیا جاتا ہے تو کئی طرح کی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔

اسی طرح اگر پانی کا بی او ڈی لیول 3 سے زیادہ اور ڈی او لیول 5 میلی گرام / لیٹر سے کم ہے تو وہ پانی نہانے کے لئے بھی صحیح نہیں ہے۔ اس پانی کو پینے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ گنگا ندی کے پانی کے معیارات کی رپورٹ کے مطابق زیادہ تر جگہوں پر پانی کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔سی پی پی بی گنگوتری، جو کہ گنگا ندی کا سرچشمہ ہے، سے لےکر مغربی بنگال تک گنگا کے پانی کے معیارات کی تفتیش کرتا ہے۔

گنگوتری، ردرپریاگ، دیوپریاگ اور رشی کیش میں گنگا کا پانی صاف ہے۔  یہاں پر بی او ڈی لیول 1 میلی گرام / لیٹر ہے اور ڈی او لیول 9 سے 10 میلی گرام / لیٹر کے بیچ میں ہے۔  حالانکہ جیسےجیسے گنگا آگے کا راستہ طے کرتی ہے، ویسے-ویسے ویسے  پانی میں آلودگی کی مقدار بڑھتی جاتی ہے۔

اتراکھنڈ کے مشہور مذہبی مقام ہری دوار میں گنگا کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔ یہاں کے پانی کا زیادہ سے زیادہ بی او ڈی لیول 6.6 میلی گرام / لیٹر ہے، جو کہ نہانے کے لئے بھی صحیح نہیں ہے۔  اسی طرح کی حالت بنارس، الٰہ آباد، کنوج، کانپور، پٹنہ، راج محل، دکشنیشور، ہاوڑا، دربھنگہ وغیرہ کی ہیں۔

کئی ساری جگہوں پر 2013 کے مقابلے میں گنگا اور زیادہ آلودہ ہوئی ہے۔  وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیامانی حلقہ وارانسی میں جہاں 2013 میں گنگا ندی کا زیادہ سے زیادہ بی او ڈی لیول 5.1 پر تھا، وہیں سال 2017 میں یہ بڑھ‌کر 6.1 میلی گرام / لیٹر پر پہنچ گیا ہے۔اسی طرح سال 2013 میں الٰہ آباد کا بی او ڈی لیول 4.4 تھا اور اب یہ بڑھ‌کر 5.7 میلی گرام / لیٹر پر پہنچ گیا ہے۔

2013 میں ہری دوار کا بی او ڈی لیول 7.8 تھا اور 2017 میں یہ 6.6 میلی گرام / لیٹر پر پہنچ گیا۔ اس کے علاوہ اتر پردیش کے علی گڑھ اور بلندشہر کے علاوہ مغربی بنگال میں تربینی، ڈائمنڈ ہاربر اور دیگر جگہوں پر بھی بی او ڈی لیول بڑھ گیا ہے۔

2014 سے لےکر اب تک میں گنگا صفائی کے لئے 3867 کروڑ روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔حالانکہ سی پی پی بی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ2013 کے مقابلے کئی ساری جگہوں پر گنگا کے پانی کا بی او ڈی لیول بڑھ گیا ہے، یعنی گنگا اور زیادہ آلودہ ہوئی ہے۔

2014 سے لےکر اب تک میں گنگا صفائی کے لئے 3867 کروڑ روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔حالانکہ سی پی پی بی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ2013 کے مقابلے کئی ساری جگہوں پر گنگا کے پانی کا بی او ڈی لیول بڑھ گیا ہے، یعنی گنگا اور زیادہ آلودہ ہوئی ہے۔

حکومت ہند نے گنگا ندی کے تحفظ کے لئے مئی 2015 میں نمامی گنگے پروگرام کو منظوری دی تھی۔اس کے تحت گنگا ندی کی صفائی کے لئے پلان بنائے گئے تھے۔  جیسےشہروں سے نکلنے والے سیویج کا علاج، صنعتی آلودگی کا ٹریٹمنٹ، ندی کی سطح کی صفائی، دیہی صفائی، ریورفرنٹ کی ترقی، گھاٹوں اور شمشان گھاٹ کی تعمیر، درخت لگانا اور حیاتیاتی تنوع کا تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔اب تک اس پروگرام کے تحت 22238 کروڑ روپے کی قیاسی لاگت سے کل 221 منصوبوں کی اجازت دی گئی ہے۔اس میں سے 17485 کروڑ روپے کی لاگت سے 105 منصوبوں کو سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لئے منظوری دی گئی تھی، جس میں سے ابھی تک 26 منصوبے ہی پورے ہو پائے ہیں۔

باقی کے 67 منصوبات ریورفرنٹ  بنانے، گھاٹ بنانے اور شمشان گھاٹ کی تعمیر کرنے اور ندی کی سطح کی صفائی کے لئے مختص کیا گیا تھا، جس میں سے 24 منصوبے پورے ہو چکے ہیں۔حالانکہ مودی حکومت کے ذریعے شروع کئے گئے گنگامنصوبے سوالوں کے گھیرے میں ہیں۔مرحوم ماہر ماحولیات جی ڈی اگروال مودی کو لکھے اپنے خطوط میں یہ سوال اٹھاتے رہے تھے کہ حکومت کے ذریعے ان چار سالوں میں گنگا صفائی کے لئے جن منصوبوں  کی اجازت دی گئی ہے وہ کارپوریٹ سیکٹر اور تجارتی گھرانوں کے فائدے کے لئے ہیں، گنگا کو رواں بنانے کے لئے نہیں۔اس کے علاوہ ہندوستان کا کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل  (کیگ) بھی گنگا صفائی کے لئے شروع کئےگئے منصوبوں پر سوال اٹھا چکا ہے۔

2015 میں جب جاپان کے وزیر اعظم ہندوستان آئے تھے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کے ساتھ بنارس کے دشاشومیدھ گھاٹ پر گنگا آرتی کی تھی۔  (فوٹو : پی آئی بی)

2015 میں جب جاپان کے وزیر اعظم ہندوستان آئے تھے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کے ساتھ بنارس کے دشاشومیدھ گھاٹ پر گنگا آرتی کی تھی۔  (فوٹو : پی آئی بی)

کیگ نے اپنی 2017 کی رپورٹ میں کہا تھا، ‘انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی)کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے ساڑھے 6 سال بعد بھی صاف گنگا کے لئے قومی مشن (این ایم سی جی) کی لمبی مدت والا عملی منصوبوں کو پورا نہیں کیا جا سکا ہے۔  قومی گنگا ندی بیسن اتھارٹی کی تشکیل کا  آٹھ سال سے زیادہ وقت بیت چکا ہے لیکن ابھی تک این ایم سی جی کے پاس ندی بیسن انتظام کی  اسکیم نہیں ہے۔  ‘

گنگا ندی کے  پانی کے  معیارکی تشخیص بی او ڈی اور ڈی او لیول کے علاوہ اس میں موجود فیکل کالیفارم اور کل کالیفارم جرثومہ کی تعداد، پانی کا پی ایچ نمبر اور اس کے کنڈکٹیویٹی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔سی پی پی بی کے مطابق پینے والے پانی میں کل کالیفارم جرثومہ کی تعداد فی 100 ملی لیٹر پانی میں 50 ایم پی این (سب سے ممکنہ تعداد) یا اس سے کم اور نہانے والے پانی میں 500 ایم پی این یا اس سے کم ہونی چاہیے۔

اتراکھنڈ میں گنگوتری، ردرپریاگ اور دیوپریاگ کو چھوڑ‌کر کسی بھی جگہ پر گنگا ندی کا پانی اس معیار پر کھرا نہیں اترتا ہے۔ہری دوار میں یہ تعداد 1600 ہے۔  وہیں اتر پردیش کے الٰہ آباد میں 48000، وارانسی میں 70000، کانپور میں 130000 بہار کے بکسر میں 16000000پٹنہ میں 16000000، مغربی بنگال کے ہاوڑا میں 240000 ہیں۔پینے والے پانی میں کالیفارم جرثومہ ہونے کی وجہ سے ابکائی، الٹی، بخار اور دست ہوتی ہے۔

گنگا ندی کے پانی کا کافی زیادہ حصہ آب پاشی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سی پی پی بی کے مطابق اگر کسی پانی کا پی ایچ 6 سے 8.5 کے بیچ میں ہوتا ہے تو وہ آب پاشی کے لئے صحیح ہے۔  حالانکہ سال 2017 کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ کئی جگہوں پر گنگا کے پانی کا پی ایچ 8.5 سے اوپر جا رہا ہے، جس کی وجہ سے آب پاشی کے لئے بھی خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

گنگا پانچ ریاستوں سے ہوکر گزرتی ہے۔ اس لئے پانچوں ریاست کی ایس پی سی بی کے ذریعے ہر مہینے طے معیارات پر گنگا کے پانی کے معیارات کی تفتیش کی جاتی ہے اور اس کوسی پی پی بی کے پاس بھیجا جاتا ہے۔  ہر مہینے کے اعداد و شمار کا اوسط ملاکر سی پی پی بی آخر میں ایک رپورٹ جاری کرتا ہے۔اگر مہینہ وار گنگا ندی کے پانی کے معیارت دیکھے جاتے ہیں تو اس کی تصویر اور خوفناک ہو سکتی ہے۔ سال کے کچھ مہینوں میں گنگا کا پانی بہت ہی زیادہ آلودہ رہتا ہے۔  گنگا میں گندگی کی اہم وجہ صنعتی آلودگی اور گھریلو کچڑا ہے۔