گراؤنڈ رپورٹ : سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2016 سے جنوری2018 کے درمیان ریاست میں 57،000 بچوں نے غذائی قلت کی وجہ سے دم توڑ دیا تھا۔ غذائی قلت کی وجہ سے ہی شیوپور ضلع کو ہندوستان کا ایتھوپیا کہا جاتا ہے۔
ہندوستان کا ایتھوپیا کہے جانے والے شیوپور ضلع میں غذائی قلت کی آفت سے کئی گھروں کے چراغ ماں کی گود میں ہی بجھ گئے۔ ستمبر 2016 میں ضلع میں کل 116 بچوں کی موت غذائی قلت کے سبب ہوئی۔ جس نے ان سرکاری دعووں کی پول کھولکر رکھ دی جن میں بچوں کو دئے جانے والے مقوی غذا سے متعلق دعوے بڑھ چڑھکر کئے جاتے تھے۔حزب مخالف اور میڈیا کے گھیرے جانے سے انتظامیہ سے لےکر حکومت تک کی پیشانی پر بل پڑا تو اپنے وزراء اورمحکمہ جات کے ساتھ ایک اجلاس میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے اعلان کیا کہ حکومت غذائی قلت پر ‘وہائٹ پیپر ‘لےکے آئےگی۔
وہائٹ پیپر کا مطلب تھا کہ ریاستی حکومت غذائی قلت کے مدعے کے ہر پہلو پر بات کرتی۔ اس مسئلہ کی گہرائی میں جاتی۔ اپنی اسکیموں کی عمل آوری کے طریقہ کار گناتی، اپنی کامیابیاں اور حصولیابی بتاتی، ناکامیاں اور غذائی قلت سے آگے کیسے لڑنا ہے، یہ پالیسی بناتی اور مسئلہ سے متعلق مختلف اعداد و شمار پیش کرتی۔لیکن، اعلان کے ایک مہینے کے اندر وہائٹ پیپر لانے کا وعدہ کرنے والی حکومت مہینے در مہینے بیتتے گئے لیکن آج دو سال بعد بھی وہائٹ پیپر نہیں لا سکی ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ اس بیچ غذائی قلت کے معاملوں پر لگام کسی ہو جس سے حکومت کو وہائٹ پیپر لانے کی ضرورت نہ رہی ہو۔ ریاست کی محکمہ خواتین اور بچوں کی ترقی کے اعداد و شمار ہی بتاتے ہیں کہ ریاست میں غذائی قلت سے ہر روز 92 بچے مرتے ہیں۔اس سال کی شروعات میں اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں ریاست کی وزارت خواتین اور بچوں کی ترقی کے وزیر ارچنا چٹنس نے جنوری 2018 تک کے غذائی قلت سے متعلق اعداد و شمار پیش کئے تھے۔ ان کے مطابق جنوری 2016 میں جہاں غذائی قلت سے ریاست میں دم توڑنے والے بچوں کی تعداد 74 تھی، وہ جنوری 2018 میں بڑھکر 92 ہو گئی۔
محکمہ کے اعداد و شمار کے مطابق ہی جنوری 2016 سے جنوری 2018 کے درمیان ریاست میں 57000 بچوں نے غذائی قلت سے دم توڑا تھا۔ وہیں، جون مہینے میں اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں ارچنا چٹنس کے ذریعے بتایا گیا کہ فروری سے مئی 2018 کے درمیان 7332 بچوں کی موت ہوئی۔غور طلب ہے کہ یہ تمام سرکاری اعداد و شمار ہیں اور ایسا مروج ہے کہ سرکاری اعداد و شمار میں اکثر متاثرین کی تعداد کم ہی دکھائی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی دیکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اصل تعداد کتنی زیادہ رہی ہوگی۔
سچ تو یہ ہے کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ شرح اموات اطفال مدھیہ پردیش میں ہی ہے۔ سالوں سے ریاست اس معاملے میں ٹاپ پر بنا ہوا ہے۔ وہیں شرح اموات زچگی کے معاملے میں بھی ا س کا ملک میں پانچواں مقام ہے۔پھر کیوں ریاستی حکومت ان وجوہات کو نظرانداز کئے ہوئے ہے اور وہائٹ پیپر لانے سے کترا رہی ہے؟
مدھیہ پردیش میں غذائی قلت اور صحت اطفال پر کام کرنے والے سماجی کارکن پرشانت دوبے بتاتے ہیں،’جہاں تک غذائی قلت کی بات ہے تو وہ اب تک نہ تو ریاست میں اور نہ ہی شیوپور ضلع میں کم ہوا ہے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں شیوپور ضلع کے وجئے پور بلاک میں غذائی قلت سے پھر سے موت ہوئی ہے۔ ‘
غور طلب ہے کہ وجئے پور کی ایکلود پنچایت کے جھاڑبڑودا گاؤں میں جون جولائی کے مہینے میں دو ہفتوں کے اندر پانچ بچوں کی موت ہو گئی تھی۔وہ حکومت کے ذریعے وہائٹ پیپر نہ لانے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں،’بہت سارے مسائل ہیں جن کے چلتے حکومت نے اعلان کرنے کے بعد بھی اپنے قدم پیچھے کھینچ لئے۔ پہلا کہ تقریباً ڈھائی دہائی پہلے سپریم کورٹ نے غذائی قلت کا خاتمہ کے ہدف تک پہنچنے کے بارے میں کہا تھا کہ مدھیہ پردیش میں136000آنگن باڑی مراکز کی ضرورت ہے۔
لیکن موجودہ حالت یہ ہے کہ ریاست میں صرف 96000 مراکز ہی ہیں۔وہ وہائٹ پیپر لائیںگے تو ریاست میں 6 سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد اور آنگن باڑی مراکز کتنے کم ہیں،یہ بتانا پڑےگا۔ جس سے ان کی ناکامیاں اجاگر ہو جائےگی کہ فیملی کے بعد جس آنگن باڑی مراکز سے ایک بچےکا پہلا واسطہ ہوتا ہے، ریاست میں وہی نہیں بن پائے ہیں۔ ‘وہ کہتے ہیں،’ایک آنگن باڑی مرکز کے ذریعے اگر 40 بچوں تک پہنچنے کو ہی ہدف مان لیں تو 40000 مراکز کی کمی ہونے کا مطلب ہے کہ 16 لاکھ بچوں تک تو حکومت پہنچ ہی نہیں پائی ہے۔ ‘
اسی طرح کچھ دیگر وجوہات وہ اور گناتے ہوئے کہتے ہیں،’نقل مکانی غذائی قلت کے پیچھے کی ایک اہم وجہ ہے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع دستیاب کرانے کی بات کی گئی تھی تاکہ وہ نقل مکانی نہ کریں اور بچوں کی مقوی غذا اور صحت پر اس کا الٹا اثر نہ پڑے۔ لیکن،پچھلے سالوں میں صرف ایک فیصد لوگوں کو ہی منریگا میں یہاں سو دن کا روزگار مل پایا ہے۔ ‘
پرشانت دوبے کے مطابق، ‘وہیں، دوسری طرف ٹیکہ کاری کا بھی ہدف پورا نہیں ہو پا رہا ہے۔ نیشنل فوڈ سیکورٹی قانون میں کہا گیا تھا کہ موٹے اناج غریبوں کو مل پائیںگے، خاص کر کہ جن کمیونٹی میں غذائی قلت ہے۔ وہ بھی اب تک پوری طرح نافذ نہیں ہو پایا ہے۔ موٹے اناج تھالی سے غائب ہو گئے ہیں۔ پی ڈی ایس کے تحت ملنے والے اناج میں دال ایک پروٹین کے طور پر شامل تھی، تو وہ بھی نہیں مل رہی۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’یہ تمام چیزیں غذائی قلت کے عامل کے طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ کام ملےگا تو لوگ طےشدہ اس کا ایک حصہ پرورش پر خرچ کریںگے۔ کام نہیں ہے تو وہ نقل مکانی کرتے ہیں۔جس دوران کھانا سیکنڈری چیز ہو جاتی ہے۔ کام ملنا اور وہاں رہنے کی جدو جہد زیادہ پہلے شروع ہو جاتی ہے۔آنگن باڑی مرکز سے کم سے کم ایک وقت کی غذائی سپلیمنٹ مل سکتی تھی، وہ اسےنہیں ملتی۔ ‘
ان کے مطابق، ‘آنگن باڑی مرکز ہونے پر بچوں کی مناسب جانچ ہو جاتی اور جیسے ہی صحت بگڑتی دکھتی تو فوری اثر سے پرورش بازآبادکاری مرکز پہنچایا جا سکتا تھا، تو وہ بھی نہیں ہیں۔ جب یہ بنیادی چیزیں حکومت نہیں دے پا رہی تو کس منھ سے وہائٹ پیپر لاتی اور خود کی خامیاں گناکر اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتی؟ ‘
پرشانت کی بات صحیح بھی جان پڑتی ہے۔ بیتے سال ہندوستان کے کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی)(کیگ)کی رپورٹ میں بھی انکشاف ہوا تھا کہ ریاست کے 32 فیصد بچوں تک مقوی غذا نہیں پہنچتی ہے۔بڑی تعداد میں آنگن باڑی مراکز میں درج بچوں کی انٹری اس دوران فرضی پائی گئیں تھیں اور مقوی غذا کے غیرمستحق ہونے جیسے سنگین معاملے بھی سامنے آئے تھے۔
سماجی کارکن سچن جین کہتے ہیں،’سچائی تو یہ ہے کہ جب سنگین حالات سامنے تھے تو حکومت نے عدالت، میڈیا اور الگ الگ سطح پر اٹھ رہے اس مدعا کو دبانے کے لئے وہائٹ پیپر کا اعلان کر دیا تھا۔ تب مقوی غذامیں گھوٹالہ، پالیسی نظریے میں خامی کی باتیں صحیح ثابت ہونے لگیں تو ان سے یہی جواب دیتے بنا کہ وہائٹ پیپر لائیںگے۔ لیکن بعد میں احساس ہوا کہ اگر وہائٹ پیپر لاتے ہیں تو بد عنوانی پر کیا جواب دیںگے؟ ‘
وہ کہتے ہیں کہ وہائٹ پیپر لانے کی حالت میں ان کو بتانا پڑتا کہ 2010 میں بنی Atal Child Health Nutrition Scheme کا کیا ہوا؟سچن کہتے ہیں،’اس کے تحت ایک ایسے کام کی منصوبہ بندی کو مجموعی طور پر عمل درآمدکرنے کی بات کہی گئی تھی جس میں صرف مقوی غذا سے غذائی قلت کو نہیں مٹایا جائےگا۔ محکمہ زراعت، پانی کی فراہمی کا محکمہ، دیہی ترقی کا محکمہ، صحت کا محکمہ سبھی کا ایک رول ہوگا۔ لیکن آج 2018 تک وہ اسکیم زمین پر نہیں اتر پائی ہے۔ ‘
ماہرین کا ماننا ہے کہ وہائٹ پیپر نہ لانے کی ایک وجہ مقوی غذا میں ہو رہی گڑبڑیوں کو بھی دبانا تھا۔یہ بات کسی سے چھپی نہیں کہ غذائیت کی تقسیم کا معاملہ ریاست میں ہمیشہ ہی سرخیوں میں رہا ہے۔عدالت کو بار بار اس بارے میں حکم جاری کرنا پڑا ہے، تو وہیں حکومت بھی بار بار مقوی غذا کی پالیسیوں میں پھیر بدل کرتی رہی ہے۔
سچن کہتے ہیں،’مقوی غذا میں جو منافع خوری کمپنیوں نے کی، وہائٹ پیپر لانے کی حالت میں حکومت کو اس پر سرکاری طور پر بیان دینا پڑتا اور جب اس پر منھ کھولتے تو کارروائی بھی کرنی پڑتی۔لیکن،یہ ساری گڑبڑی تو ریاست کی اعلیٰ سطح سے ہی چل رہی تھی۔اس لئے بعد میں سمجھ میں آیا کہ وہائٹ پیپر لانے کی حالت میں پالیسی، سیاست اور اقتصادی پہلو جیسے مسائل پران کا پردہ فاش ہو جائےگا۔یہ بات نوکرشاہی نے سیاسی قیادت کو سمجھائی۔اس میں نوکرشاہی کا بڑا رول رہا کیونکہ جو 250سے300 کروڑ روپے کا سالانہ بد عنوانی مقوی غذا میں ہو رہی تھی وہ ان کے بنا شامل ہوئے نہیں ہو سکتی تھی۔ ‘
پرشانت بھی مقوی غذا میں بدعنوانی سے اتفاق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ مقوی غذا میں گرم پکا اور مقامی سطح پر تیار کھانا ملے۔ لیکن، حکومت مقامی سطح پر مقوی غذا تیار کروانے کے لئے اس لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ اس میں کمیشن خوری نہیں ہے، کمپنیوں کا منافع نہیں ہے۔ ‘
وہ بتاتے ہیں،’ریاست میں تین کمپنیاں مقوی غذا بناتی رہی ہیں جن کو لےکر بیتے سال کافی بحث ہوئی۔ آخر کار حکومت کو ان کا معاہدہ منسوخ کرنا پڑا۔ لیکن، معاہدہ منسوخ کرنے کے بعد بھی حکومت نے کہہ دیا کہ جب تک نیا سسٹم نافذ نہیں ہوتا، تب تک انہی کمپنی سے کام چلائیںگے۔آج تک وہ سسٹم چالو نہیں ہو پایا ہے۔مطلب کہ کمپنیوں کی منافع خوری سے حکومت دب گئی۔ بچوں کے مدعے دب گئے اور کمپنیاں اس میں جیت گئیں۔ ‘
پرشانت مقوی غذا میں بدعنوانی سے متعلق ایک مثال بھی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’مطالعہ بتاتے ہیں کہ جو بری پرورش والے بچےجن کمیونٹی سے آتے ہیں ان میں قابل قبول غذائی مادہ گوشت خوری ہے۔اس لئے ان کو مقوی غذا میں انڈا دیا جا سکتا ہے۔ اندور کے کلکٹر پی۔ نرہری نے ضلع میں یہ استعمال کرکے بھی دیکھا اور پایا کہ اگر ان بچوں کو ہفتے میں دو انڈا بھی دئے جائیں تو کافی حد تک ان میں پروٹین کی کمی کو کم کر سکتے ہیں۔لیکن اپنے ہی کلکٹر کے ذریعے کئے گئے استعمال کو ریاستی حکومت مانی نہیں اور کہا کہ ہم نباتاتی غذا کی حمایت والی حکومت ہیں۔ انڈا نہیں دے سکتے۔ ‘
پرشانت سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں،’جن کا غذائی مادہ ہی گوشت خوری ہو، ان کو آپ گوشت خوری تو دور، انڈا دینے سے بھی کیوں روک رہے ہیں؟ تو بات یہ ہے کہ انڈا میں لیکیج نہیں ہے، وہ مقامی سطح پر تیار ہو سکتا ہے، دستیاب ہو سکتا ہے۔ اس میں کمپنیوں کی دلالی نہیں ہوگی اس لئے انڈا دینے سے حکومت بچ رہی ہے۔ ‘
وہ کہتے ہیں،’اصل میں نباتاتی غذا تو بس ایک بہانہ ہے۔ کیونکہ اسی حکومت کی مدت کار میں گوشت کی پیداوارمیں دو گنا کا اضافہ ہوا ہے۔اسی حکومت نے جھابوا اور قبائلی علاقوں میں پائی جانے والی کڑک ناتھ نام کے مرغے کی نسل کی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کئے ہیں۔ اب اگر آپ کہتے ہیں کہ ہم نباتاتی غذا کی حمایت والی حکومت ہیں تو آپ کے دعوے جھوٹے ہیں۔اس لئے غذائی قلت کی آڑ میں منافع خوری اور دلالی کو بڑھاوا دینے والی حکومت بھلا وہائٹ پیپر لا بھی کیسے سکتی ہے؟ ‘
جب حکومت نے وہائٹ پیپر لانے کا اعلان کیا تھا تو بھوپال کی’وکاس سنواد’نامی ایک غیر سرکاری ادارہ نے’چائلڈ سروائیول اینڈ ڈیولپمنٹ ان مدھیہ پردیش’نام سے ایک’ گرے پیپر’تیار کیا تھا اور طے کیا تھا کہ جیسے ہی مدھیہ پردیش حکومت وہائٹ پیپر لےکر آتی ہے، وہ اس کے ٹھیک بعد یہ’گرے پیپر’جاری کریںگے اور حکومت اگر اپنے وہائٹ پیپر میں غلط اعداد و شمار پیش کرتی ہے تو اس کا بھانڈاپھوڑ کریںگے۔
حالانکہ، حکومت کی طرف سے وہائٹ پیپر جاری نہیں کیا گیا، اس لئے ‘گرے پیپر’بھی اب تک جاری نہیں ہوا ہے۔اس’گرے پیپر’میں ذکر ہے کہ ریاست کی وزارت خواتین اور بچوں کی ترقی اور محکمہ صحت اور فیملی ویلفیئر اپنا مختص بجٹ ہی خرچ نہیں کرتے ہیں۔
2002-03 سے 15-2014 تک 13 سالوں میں محکمہ صحت اور فیملی ویلفیئر اپنے بجٹ میں سے 2351.15 کروڑ روپے خرچ ہی نہیں کر سکا۔غور طلب ہے کہ یہ حالت تب ہے جب ریاست کے غذائی قلت متاثر گاؤں میں ڈاکٹر تک موجود نہیں ہے۔ کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں کوئی ہیلتھ سینٹر تک نہیں ہے۔
تکلیف دہ یہ ہے کہ ایسا تب ہوتا جب حکومت اور محکمہ کے پاس پیسوں کی کمی ہوتی تو سمجھا جا سکتا تھا۔لیکن حالات برعکس ہیں کہ محکمہ مختص بجٹ کو خرچ تک نہیں کر پا رہا ہے۔اگر سرکاری مقصد غذائی قلت کو لےکر حساس ہوتا تو بجٹ کے ان پیسوں سے ہیلتھ سروس سینٹر کھل سکتے تھے، بدحال ہیلتھ سروس سینٹر کو درست کیا جا سکتا تھا۔
گزشتہ سال’دی وائر’کی جانچ میں ہی سامنے آیا تھا کہ شیوپور کے غذائی قلت کے متاثر کراہل بلاک میں ایک لاکھ کی آبادی ہے لیکن ایک ہی ہسپتال ہے، جہاں ایک ہی ڈاکٹر ہے۔وہیں،یہ بھی سامنے آیا تھا کہ شیوپور اور کراہل کی Nutrition Rehabilitation Center میں بچوں اور ان کی ماؤں کے لئے بستر تک دستیاب نہیں ہے۔ صلاحیت سے 10-10 گنا زیادہ بچےایک این آر سی میں بھرتی ہوتے ہیں۔ ان کی دیکھ ریکھ کے لئے میڈیکل اسٹاف تک نہیں ہے۔ ہسپتال میں مقوی غذا تیار کرنے والے باورچی تک نہیں ہیں۔
وہیں،مقوی غذا کے لئے جو پیسہ وزارت خواتین اور بچوں کی ترقی کو جاری کیا گیا اس میں سے 13 سالوں میں 867.24 کروڑ روپے تو خرچ ہی نہیں کیا جا سکا۔مقوی غذاکے نام پر بچے پانی سے پتلی دال پیتے رہے، لیکن پیسہ سرکاری خزانے میں پڑا سڑتا رہا۔اگر وزارت خواتین اور بچوں کی ترقی کے مقوی غذا سمیت جاری مشترکہ بجٹ کی بات کریں تو 2504.86 کروڑ روپے کی بجٹ اس دوران وزارت نے خرچ نہیں کی۔اس دوران کئی ایسےمعاملے سامنے آئے جہاں وزارت کے تحت چلنے والے آنگن باڑی مرکز کھلے آسمان کے نیچے چلتے رہے، ٹیکہ کاری کے ہدف پورے نہیں ہوئے، لیکن بجٹ وزارت کے خزانے میں خاموش پڑا رہا۔
شیوپور اور آس پاس کے علاقوں میں غذائی قلت، صحت اطفال اور صحت زچگی پر کام کر رہے ‘ بدلاؤ ‘ادارہ کے سکریٹری اجئے یادو کہتے ہیں،’حالت اب بھی جس کی تس ہے۔ جیسے دو سال پہلے تھی، ویسی ہی اب ہے۔ انتظار کیا جا رہا ہے 2016 کی ہی طرح کے کسی بڑے واقعہ کا۔ غذائی قلت کی حالت خوفناک ہےاین آر سی خالی پڑے ہیں۔ کیونکہ نہ تو حکومت کو اور نہ ہی سرکاری محکمہ جات کو بچوں کو این آر سی تک لانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ‘
وہ کہتے ہیں،’آنگن باڑی مرکز جن کا کام ہے بچوں کی پہچان کرکے ان کو این آر سی پہنچانا، وہ ڈھیلے پڑے ہیں۔جب کوئی بڑا واقعہ ہوتاہے تو حکومت-انتظامیہ نیند سے جاگتا ہے اور بچوں کی کھوج بین شروع کرتا ہے جس سے این آر سی صلاحیت سے زیادہ بھر جاتے ہیں۔ ‘اجئے کی بات اس معاملے کی تصدیق کرتی ہے کہ حکومت کے پاس غذائی قلت سے نپٹنے کی کوئی پالیسی ہی نہیں ہے۔اور وہائٹ پیپر کے آنے پر جب پیش اعداد و شمار کا ہر طرح سے تجزیہ ہوتا تو غذائی قلت سے لڑنے کے اس کے دعووں کا پردہ فاش ہو جاتا۔
غذائی قلت کی لڑائی کس طرح پالیسی کے بغیر لڑی جا رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال گوالیار میں دیکھنے کو ملی۔ گزشتہ دنوں ریاست کے مہانگر میں غذائی قلت سے دو بچوں کی موت ہو گئی اور ایک کے بعد ایک بہت ہی سنگین معاملے سامنے آئے جن کو انتظامیہ نے آناً فاناً میں شہر کی این آرسی میں بھرتی کرایا۔
بیتے سال جب ‘دی وائر ‘نے غذائی قلت پر ایک رپورٹ کی تھی تو پایا تھا کہ شیوپور اور کراہل کی این آر سی میں صلاحیت سے زیادہ بچے پائے گئے تھے جبکہ ان کی دیکھ ریکھ کے لئے اسٹاف تک کافی تعداد میں موجود نہیں تھے۔تب شیوپور کے چیف میڈیکل اینڈ ہیلتھ آفیسر(سی ایم ایچ او)ڈاکٹر این سی گپتا نے بتایا تھا کہ گوالیار اور دیگر ضلع جہاں این آر سی کا استعمال نہیں ہو رہا ہے، ان کا اسٹاف شیوپور ٹرانسفر کیا جائےگا۔ جس سے اسٹاف دو گنا ہو جائےگا۔
لیکن، اب سوال اٹھتا ہے کہ جب گوالیار میں ہی غذائی قلت اپنے پیر پسارنے لگا ہے تو آپ اسٹاف کہاں سے لائیںگے؟چونکہ مدھیہ پردیش میں اگلے ہی مہینے میں اسمبلی انتخابات ہیں اس لئے پرشانت دوبے اس مدعے پر حکومت کے ساتھ ساتھ حزب مخالف پر بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیوں غذائی قلت کو انتخابی مدعا نہیں بنایا جا رہا ہے؟
وہ کہتے ہیں،’بدقسمتی ہے کہ ریاست میں غذائی قلت کی اتنی خوفناک سطح ہونے کے بعد بھی یہ مدعا انتخابات کو زیادہ متاثر نہیں کر رہا ہے کیونکہ حزب مخالف بھی حزب اقتدار سے نہیں پوچھ رہا ہے کہ وہائٹ پیپر کیوں نہیں بنایا؟ شیوپور جیوترادتیہ سندھیا کے ہی ماتحتی علاقے میں آتا ہے۔لیکن سندھیا کیوں نہیں پوچھتے کہ غذائی قلت پر وہائٹ پیپر کیوں نہیں بنا؟ سندھیا کو بھی اپنی جوابدہی بتانی ہوگی کہ ایک رکن پارلیامان اور علاقے کے مؤثر رہنما کے طور پر انہوں نے کیا کیا غذائی قلت مٹانے کے لئے؟ ‘
سچن کہتے ہیں،’حزب مخالف کے غذائی قلت کی سنجیدگی پر تو بات کرتا ہے۔لیکن،مقوی غذاکی گڑبڑی پر خاموش رہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں ان کی بھی دلچسپی نہیں ہے۔بد عنوانی، بھوک مری، زراعت-کھیتی سےمتعلق پیش کئے جا رہے غلط سرکاری اعداد وشمار، ان پر اس کی سمجھ نہیں ہے۔کہہ سکتے ہیں کہ غذائی قلت کے وجوہات کو لےکر کانگریس کی سمجھ نہیں ہے۔ کانگریس کو شاید لگتا ہے کہ مذکورہ سسٹم سوال اٹھانے پر اس کے خود کے مفاد متاثر ہوںگے اور وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ ‘
حالانکہ، اپنے بچاؤ میں کانگریس کے ترجمان سورج سکسینہ کہتے ہیں،’2016 میں ہم نے ہی پریس کانفرنس کرکے غذائی قلت سے متعلق سارے اعداد و شمار پیش کئے تھے اور بتایا تھا کہ مدھیہ پردیش پورے ملک میں غذائی قلت میں پہلے پائیدان پر ہے۔حکومت غذائی قلت کے تحت دئے جانے والے غذا میں کروڑوں-اربوں روپے کا گھوٹالہ کر رہی ہے، وہ بھی ہم سامنے لےکر آئے تھے۔ہم نے ہی دو سال پہلے وہائٹ پیپر لانے کی مانگ کی تھی اور ہماری اسی مانگ پر ہی تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم لاکر دیںگے۔ ہمارے آنے والے انتخابی منثور میں بھی ہم نے اس مدعے پر پورا دھیان دیا ہے۔ ‘
اس بیچ،سچن سب سے زیادہ زرعی ترقی کی شرح والے مدھیہ پردیش اور شرح اموات اطفال اور غذائی قلت میں ٹاپ پر شمار مدھیہ پردیش کی اس متضاد فطرت پر کہتے ہیں،’دنیا کے کسی علاقے میں اگریکلچر گروتھ اگر سب سے زیادہ ہے تو وہ مدھیہ پردیش میں دکھائی گئی ہے۔ ایک طرف ملک بھر میں سب سے زیادہ شرح اموات اطفال مدھیہ پردیش میں ہے، غذائی قلت انتہا پر ہے۔بچے بھوک سےمررہے ہیں۔غذائی قلت بھوک مری ہی تو ہے اور دوسری طرف وہ زراعتی گروتھ کی بھی بات کر رہے ہیں۔یہ کیسا تضاد ہے؟ آپ 24- 20 فیصد گروتھ ریٹ بتاتے ہیں تو غذائی قلت کی سطح اتنا خوفناک کیوں ہے؟ غذائی قلت کے درمیان ڈیڑھ گنا اناج پیداوار ہونے کے دعویٰ کو آپ جسٹی فائی کیسے کریںگے؟ ‘
بہر حال، ایسا بھی مانا جا سکتا ہے کہ انتخاب کے دہانے پر کھڑا مدھیہ پردیش میں وہائٹ پیپر لاکر غذائی قلت کی خوفناکی کو شیوراج حکومت قبول کرنے کا خطرہ نہیں لے سکتی تھی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ