گراؤنڈ رپورٹ : بی جے پی کی مدھیہ پردیش اکائی نے انتخابی ماحول میں’سمردھ مدھیہ پردیش’مہم کی شروعات کی ہے جس کے تحت ریاست کی عوام سے حکومت بننے پر حکومت کیسے چلایا جائے، اس کو لے کر مشورہ مانگے جا رہے ہیں۔
جمہوریت میں عوام سے رائےشماری کرکے کوئی بھی سیاسی جماعت یا اس کی سرکار حکومت چلاتی ہے، تو جمہوری قدروں کی تشکیل کے لئے اس سے اچھی پہل کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ لیکن، اگر رائے شماری کا مقصد محض انتخابی فائدہ ہو تب حالت مثالی نہیں کہی جا سکتی ہے۔مدھیہ پردیش کے انتخابی ماحول میں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کے ایک قدم نے مذکورہ دونوں حالات کو جنم دے دیا ہے۔ جس سے تنازعے کی حالت پیدا ہو گئی ہے۔21 اکتوبر کو ریاست بی جے پی دفتر سے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے ‘سمردھ مدھیہ پردیش’مہم کی شروعات کی ہے جو کہ 5 نومبر تک چلےگا۔ اس مہم کا مقصد ہے کہ ریاست کو کیسے خوش حال بنایا جائے، اس پر عوام سے مشورہ لئے جائیں۔
مشورہ لینے کے کام میں بی جے پی نے 50 ویڈیو رتھ پوری ریاست کی تمام اسمبلی سیٹوں پر اتار دئے ہیں۔ رتھ پر ایک سجھاؤ پیٹی بھی رکھی گئی ہے جس میں لوگ اپنے تحریری مشوروں کی پرچی ڈال سکتے ہیں۔ ایک ٹیبلیٹ رکھا ہے جس پر لوگ اپنا مشورہ ریکارڈبھی کرا سکتے ہیں۔بی جے پی ترجمان رجنیش اگروال بتاتے ہیں،’مہم ضلع، شہر، گاؤں، قصبہ ہر سطح پر چل رہی ہے۔ ڈجیٹل پلیٹ فارم پر بھی مشورے آ رہے ہیں۔ ایک فون نمبر جاری کیا گیا ہے جس پر مس کال کرکے آپ جڑ سکتے ہیں تو اس سے بھی سیدھے طور پر آپ مشورہ دے سکتے ہیں۔ وہاٹس ایپ نمبر بھی ہے اور میل آئی ڈی بھی۔ باقی بھوپال سے 50 رتھ نکلے ہوئے ہیں جن کے ذریعے لوگ مشورہ کے لئے اپنا ویڈیو ریکارڈ کرا سکتے ہیں۔ ہر اسمبلی میں20-20 جگہ سجھاؤ پیٹیاں بھی رکھی گئی ہیں۔ ‘
مہم کے مقصد پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں،’ہم آنے والے 5 سالوں کے لئے مدھیہ پردیش کو خوش حال بنانے والے ہیں۔مدھیہ پردیش کی عوام جس میں نوجوان، خواتین، الگ الگ طبقے کے لوگ شامل ہیں، وہ کیا سوچتے ہیں؟ان کے کیا مشورے ہو سکتے ہیں؟ ریاست میں کیا اور ہونا چاہیے؟ کیسے ہونا چاہیے؟امکانات کتنے ہیں؟ہم ان سے ان کا نظریہ جان رہے ہیں، سسٹم کے بارے میں، اسکیموں اور پالیسیوں کے بارے میں۔ یہ اقتصادی نظریہ بھی ہو سکتا ہے، غیراقتصادی بھی۔ کسی بھی طرح کا ہو سکتا ہے۔ کسی بھی اسکیم پر ہو سکتا ہے۔ جو بھی ان کے دل میں ہے، وہ بتائیں۔ ‘
حالانکہ، بی جے پی کی اس قواعد سے کانگریس کو اعتراض ہے اور اس نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے دہائی لگائی ہے کہ بی جے پی کا ‘سمردھ مدھیہ پردیش’مہم انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے اور کمیشن جلد سے جلداس پر کارروائی کرے۔کانگریس ترجمان سورج سکسینہ کہتے ہیں،’یقینی طور پر یہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ مشورے مانگنے کے لئے انہوں نے ایک موبائل نمبر دیا ہے۔ ان کا مقصد اس نمبر کو ٹریک کرنا ہے۔ جو بھی اس نمبر پر ان کو کال یا میسج کرےگا، اس کی پہچان اورپرائیویسی کو یہ لوگ ٹریک کریںگے اور پھر اس کا یہ نمبر بی جے پی کی تشہیر مہم میں اس سے رابطہ بنانے کے لئے استعمال کیا جائےگا۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’وہ اس مہم کے ذریعے انتخابی فائدے کے مدنظر ڈاٹا کلیکشن کا کام کر رہے ہیں۔ اس لئے اس پر فوراً روک لگنی چاہیے۔ ‘وہیں،مدھیہ پردیش کے چیف الیکشن افسر وی ایل کانتاراؤ کہتے ہیں،’بی جے پی کے ‘سمردھ مدھیہ پردیش’مہم کے تناظر میں ہمیں کچھ شکایتں حاصل ہوئی ہیں جن کی تفتیش ہم نے شروع کرا دی ہے، اس کے بعد فیصلہ لیا جائےگا کہ یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟ ‘
بہر حال، سوال اٹھتا ہے کہ عوام سے ملے مشوروں پر عمل کیسے ہوگا؟اس پر رجنیش کہتے ہیں،’پہلے مشورے اکٹھے کئے جائیںگے۔ پھر ان میں سے انتخاب ہوگا اور جو منتخب ہوںگے ان کے تئیں بی جے جوابدہ ہوگی۔وہ مشورے ہم حکومت کو سونپیںگے۔ ‘اس بیچ، سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ریاست میں لگاتار 3 بار سے حکومت بنا رہی ایک پارٹی کو اچانک سے 15 سالوں بعد عوام سے مشورہ لینے کا خیا ل کیوں آیا، وہ بھی ایسے وقت میں جب اسمبلی انتخاب ہونے میں محض ایک مہینے کا وقت باقی ہے؟
سورج سکسینہ کہتے ہیں،’آج وہ 15 سالوں بعد مشورہ مانگ رہے ہیں۔ اب تک کیا کر رہے تھے؟ اس لئے ان کو اگر آج مشورہ مانگنے کی ضرورت پڑ رہی ہے تو ان سے زیادہ محتاج آدمی کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔15 سال جو پارٹی اقتدار میں رہ لی، وزیراعلیٰ13 سال سے اپنے عہدے پر ہے، وہ اب کہے کہ ریاست کوسمردھ بنانے کے لئے عوام کے مشورے کی ضرورت ہے، تو جان پڑتا ہے کہ شیوراج سنگھ یا تو اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں یا ان کےاشتہار ایجنسی کو سمجھ نہیں آ رہا کہ شیوراج حکومت کی برانڈنگ کریں تو کریں کیسے؟ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’ایسا اس لئے ہے کیونکہ وہ 21000 جھوٹا اعلان کر چکے ہیں۔ ان میں سے 210 بھی زمین پر نہیں آئے۔ کوئی آئی ٹی پارک نہیں آیا، 200 انجینئرنگ کالج بند ہو چکے ہیں۔میڈیکل کالج بنے نہیں ہیں۔ سڑکیں بدحال ہیں اور وہ موازنہ واشنگٹن سے کرتے ہیں۔ ‘روی کہتے ہیں،’خواتین سے ریپ میں لگاتار 7 سالوں سے ریاست نمبر ایک ہے۔ غذائی قلت میں آپ ٹاپ پر ہیں، صحت خدمات میں17واں مقام ہے۔ مرکزی حکومت کا نیتی آیوگ مدھیہ پردیش کو چوتھے نمبر کا غریب ریاست بتاتا ہے۔ ریاستی حکومت بیمارو ریاست کی گرانٹ لیتی ہے، یہ نیتی آیوگ کہہ رہا ہے۔ اب بتاؤں کیسی برانڈنگ ہو؟ ‘
آگے وہ سوال پوچھتے ہیں،’بی جے پی کا آئیڈیا گیا کہاں؟ اتنی انہوں نے برانڈنگ کی، کروڑوں اربوں روپیہ خرچ کیا۔آپ کے پاس آئی اے ایس-آئی پی ایس کی فوج ہے، نوکرشاہ، اقتصادی صلاح کار، بڑے-بڑے رہنما ہیں، سب کے آئیڈیاز کہاں چلے گئے؟ تو سچائی یہ ہے کہ وہ سارے آئیڈیا گھٹیا ثابت ہوئے، جس سے حکومت کو ناکامیابیاں ملیں۔ ‘رجنیش پارٹی کے بچاؤ میں کہتے ہیں،’کانگریس کے رہنما پپو ہیں،اس لئے وہ عوام کو بھی پپوسمجھتے ہیں۔لیکن، ہم عوام کو نادان-ناسمجھ نہیں سمجھتے۔عوام بھی مدھیہ پردیش کے بارے میں کوئی سوچ خیال رکھتی ہوگی اور بہت اچھے آئیڈیاز ہمارے آج کے مدھیہ پردیش کے نوجوان کے پاس ہیں۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’رہا سوال کہ 15 سالوں بعد کیوں؟ تو مان لیجئے ہم نے آئیڈیا دو-چار سال پہلے لے لیا، تو اس سے ہی کیا ہم پورے 25-30 سال حکومت چلا دیںگے؟ دور بدلا ہے، لوگ بدلے ہیں، نسلی بدلی ہے، وسائل بدلے ہیں، ترقی ہوئی ہے، بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی ہوئی ہے۔آج ہم جو بات چیت کر رہے ہیں، کل کچھ اور ہوگی۔ فرق تو آئےگا نا۔ پانچ سال پہلے مشورے کچھ اور ہوںگے، اب کچھ اور۔ ‘بہر حال، سیاست کے جان کار رجنیش سے اتفاق نہیں رکھتے اور وہ بی جے پی کے اس کوشش کو مضحکہ خیز، بےتکا اور انتخابی فائدہ لینے کی ایک کوشش قرار دیتے ہیں۔
سینئر صحافی رشید قدوائی کہتے ہیں،’بی جے پی نے بہت ہی مضحکہ خیز کام کیا ہے۔جو جماعت 15 سال سے حکومت میں ہے اس کو عوام کے ذریعے بتانے کی ضرورت ہے کہ کیا کرنا ہے؟ اصل میں بی جے پی غلط فہمی پھیلاکر انتخابی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اس کو پتا ہے کہ کامیابیوں کے نام پر اس کے پاس زیادہ کچھ نہیں ہے تو اس سے دھیان ہٹانے کے لئے اس کو سوجھا کہ آپ مشورہ دیجئے۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’اگر مشورہ عوام کے پاس ہی ہوتا تو وہ حکومت سے توقع کیوں کرتی؟ دراصل، شیوراج حکومت میں اسکیمیں تو بہت بنیں، لیکن ان کی عمل آوری طریقے سے نہیں ہوئی۔ بد عنوانی بہت ہوئی۔ خاص طور پر صحت-تعلیم جیسے شعبوں میں۔ تین صحت ڈائریکٹر گرفتار ہوکر جیل گئے۔ ویاپم جیسا بڑا گھوٹالہ ہوا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ عوام کے ساتھ ظلم وستم اورمذاق ہے کہ اس سے کہا جائے کہ آپ اپنی تجویز دیجئے، ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ کمی کہاں رہ گئی۔ ‘
سیاسی تجزیہ کار گرجا شنکر بھی کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں۔وہ کہتے ہیں،’یہ ایک بکواس کوشش ہے۔ کیونکہ دراصل بات یہ ہے کہ پالیسی کو آج سیاستداں نہیں بناتے، آؤٹ سورس ایجنسی یہ سب کام کرتی ہیں۔ سروے سے لےکر شکایت تک اور انتخاب کی حکمت عملی بنانے تک کے کام بھی اب آؤٹ سورس والے کرنے لگے ہیں۔ اگر سیاستداں اس پالیسی کو بناتے تو اس طرح کا نعرہ کبھی نہیں دیتے کہ آخری سال میں مشورہ مانگو۔ یہ تو بہت ہی گمراہ کن ہے۔ ‘
کیا بی جے پی کو انتخابات میں اپنی اس کوشش کا فائدہ ملےگا؟اس پر گرجا شنکر کا کہنا ہے،’بی جے پی حکومت میں ہے،اس کے ایم ایل اے ہیں۔ان کو خود عوام سے جڑے رہنا تھا۔ اگر ان کو مشورہ مانگنے ہی تھے تو منشور بنانے کے لئے مشورہ مانگتے۔ وہ تھوڑا بامعنی بھی لگتا۔ لیکن حکومت چلانے کے لئے مشورہ مانگنے کا کوئی جواز نہیں ہے، فائدہ تو دور یہ تو باؤنس بیک کرےگا۔ ‘بہر حال، رجنیش کا کہنا ہے کہ ضابطہ اخلاق کے پہلے تک تو ہم نے کام کیا نہ۔ اب آنے والے پانچ سالوں کے لئے انتخاب ہو رہے ہیں، اس کے لئے مانگ رہے ہیں نہ مشورہ کہ ہمیں چنو، ہم واپس آکے ان جگہوں پر کام کریںگے، جہاں آپ چاہتے ہیں۔ اس میں غلط کیا ہے؟
اس بیچ سورج ریاستی حکومت کی ایک پرانی اسکیم’سنہرا مدھیہ پردیش’کی مثال دیتے ہوئے طنز کستے ہوئے کہتے ہیں،’وزیراعلیٰ پہلے ہی ایک سنہرا مدھیہ پردیش بنا چکے ہیں۔اب بات کر رہے ہیں خوش حال مدھیہ پردیش کی۔ تو ایسا ہی لگتا ہے کہ بی جے پی کو لفظوں کا علم نہیں ہے یا الفاظ کے مطلب نہیں معلوم ہیں۔ سنہری ریاست بنا دیا تو خوش حال تو وہ خودبخود ہی ہو جانا تھا۔ سنہری کا معنی ہے، سونا کا۔ سونے کی ریاست بن گئی ہے یعنی کہ جب ہرجگہ سونا بکھرا ہوا ہے تو خوشحالی تو اپنےآپ ہی آ گئی نا۔ ‘بہر حال،گرجا شنکر کی باؤنس بیک والی بات صحیح بھی جان پڑتی ہے۔ بی جے پی کی اس پہل کو لےکر عوام کا نظریہ کافی روکھا ہے۔ گوالیار جنوب اسمبلی کے صرافہ بازار میں رکھی ایک سجھاؤ پیٹی میں اب تک کوئی بھی مشورہ کسی نے نہیں ڈالا ہے۔ایسا مقامی باشندوں اور کاروباریوں کا کہنا ہے۔
سجھاؤ پیٹی کے ٹھیک سامنے دکانیں چلانے والے اور آس پاس کے باشندوں کا کہنا ہے کہ عوام سے مشورہ مانگنے کی پہل تو اچھی ہے لیکن مشورہ مانگنا ہی تھا تو ہم سے پہلے مانگا جاتا جب حکومت کے پاس ہمارے مشوروں کو عمل میں لانے کے لئے کافی وقت تھا۔ 15 سالوں سے وہ حکومت چلا رہے تھے۔ تب مانگا نہیں۔ آج جب ریاست انتخاب کے دہانے پر کھڑا ہے، بی جے پی کی حکومت بننے کو لےکر کشمکش ہے تو آپ مشورہ مانگکر کہہ رہے ہیں کہ حکومت بنی تو ان کو عمل میں لائیںگے۔ اس طرح تو وہ ہمیں لالچ دے رہے ہیں کہ ہم ان کو ووٹ دیں۔ ‘
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ