انٹرویو: دہلی یونیورسٹی کے ایم اے کے نصاب سے مصنف اور مفکر کانچہ ایلیا شیفرڈ کی کتاب ہٹانے کی تجویز پر ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی الگ الگ خیالات کو پڑھانے، ان پر بحث کرنے کے لئے ہوتی ہیں، وہاں سو طرح کے خیالات پر بات ہونی چاہیے۔ یونیورسٹی کوئی مذہبی ادارہ نہیں ہے، جہاں ایک ہی طرح کے مذہبی افکار پڑھائے جائیں۔
گزشتہ دنوں دہلی یونیورسٹی کے ذریعے یونیورسٹی کے پالیٹکل سائنس کےنصاب میں شامل مصنف او ر مفکر کانچہ ایلیا شیفرڈ کی کتابوں کو ہٹانے کی تجویز رکھی گئی۔ تعلیمی معاملوں کو دیکھنے والی یونیورسٹی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے پچھلے اجلاس میں یہ تجویز رکھی گئی کہ ایلیا کی کتابیں ایم اے پالیٹکل سائنس کے نصاب سے ہٹائی جائیں کیونکہ وہ مبینہ طور پر ہندو مذہب کی توہین کرتی ہیں۔اس کمیٹی کے ممبر پروفیسر ہنس راج سمن کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں کئی پوسٹ گریجویشن نصاب کے بارے میں باتیں ہوئیں، ساتھ ہی ایلیا کی کتابوں کو ہٹانے کا فیصلہ لیا گیا۔انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے وہائی آئی ایم ناٹ اے ہندو، گاڈ ایز پالیٹکل فلاسفر اور پوسٹ-ہندو انڈیا کو ہٹانے کا فیصلہ لیا ہے کیونکہ وہ ہندو مذہب کی توہین کرتی ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ طالب علموں کا ان کو پڑھنا مناسب نہیں ہوگا۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کی اس تجویز کو اکیڈمک کاؤنسل کی منظوری کے بعد ہی نافذ کیا جا سکتا ہے اور اس کا اجلاس 15 نومبر سے پہلے ہونا ہے۔ وہیں دوسری طرف یونیورسٹی کے اساتذہ اس کی مخالفت میں اتر آئے ہیں۔اس سے پہلے بھی اکتوبر 2017 میں بھی ایلیا کی کتاب پوسٹ-ہندو انڈیا کو لےکر تنازعہ ہوا تھا، جب اس کا تیلگو ترجمہ شائع ہوا تھا۔ کتاب کے ایک مضمون میں آریہ-ویشیہ یعنی بنیا کمیونٹی کو ‘سوشل اسمگلر ‘(سماجی اسمگلر) کہا گیا تھا، جس کے بعد ایلیا کے خلاف اس کمیونٹی نے تیکھی مخالفت شروع کی اور ان کو جان سے مارنے کی دھمکی ملی، ساتھ ہی ان پر حملے کی کوشش بھی کی گئی۔
اس کے بعد اس کتاب پر پابندی لگانے کے لئے سپریم کورٹ میں عرضی بھی دائر ہوئی تھی، جس کو عدالت نے مصنف کی اظہاررائے کی آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے خارج کر دیا تھا۔اس تنازعے کے بعد دی وائر سے ہوئی بات چیت میں انہوں نے کہا تھا کہ دھمکیوں کی بجائے دلیل سے ان کی بات کا جواب دیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا، ‘ میں نے ایک کتاب لکھکر میرے اظہار کی آزادی کا استعمال کیا ہے اور ان کے پاس عقلی دلیل کے ذریعے اس کی مخالفت کرنے کا حق ہے۔ ‘اس بار بھی ان کا یہی کہنا ہے کہ اگر ان کی کتاب میں کچھ توہین آمیز بات ہے تو اس پر بات ہونی چاہیے، بغیر کتاب پڑھے کوئی بھی فیصلہ نہیں لیا جانا چاہیے۔
پیش ہےکانچہ ایلیا سے میناکشی تیواری کی بات چیت۔
گزشتہ 10 سالوں سے آپ کی کتابیں دہلی یونیورسٹی میں پڑھائی جا رہی تھیں، اب ان کو ایم اے نصاب سے ہٹانے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ اس پر کیا کہیںگے؟
میری کتابوں کو ہٹانے کی پہلی کوشش کی جا چکی ہے اور یہ بےحد بدقسمتی اور غیرتعلیمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میری کتابیں ڈاٹا پر مبنی نہیں ہیں، حوالہ جاتی نہیں ہیں۔ ان کو پڑھنے کی بات چھوڑئیے، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے میری کتابیں دیکھی بھی نہیں ہیں۔
گاڈ از پالیٹکل فلاسفر میری پی ایچ ڈی تھیسس ہے اور اس میں ڈھیروں حوالے ہیں۔ یہ چھٹی صدی عیسوی کےبعد میں گوتم بدھ کے سیاسی خیالات پر ہے۔
میں اپنے خیالات کو گوتم بدھ کے سیاسی خیالات نہیں بتا سکتا، یہ کتاب بدھ کو پلیٹو، ارسطو، کوٹلیہ، منو سے بھی کہیں زیادہ سنجیدہ سیاسی مفکر کے روپ میں پیش کرتی ہے، ملک کو مضبوط بنانے کے لیے آج کی تاریخ میں بدھ کے خیالات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، وہ نہ اسے پڑھتے ہیں، نہ اسے سمجھتے ہیں۔
اسٹینڈنگ کمیٹی کے ممبروں کا کہنا ہے کہ آپ کی کتابیں ہندو مذہب کی توہین کرتی ہیں۔
لیکن یہ ہندو مذہب کے بارے میں ہیں ہی نہیں!یہ کتاب ‘ گاڈ از پالیٹکل فلاسفر ‘ہندو مذہب کے بارے میں ہے ہی نہیں کیونکہ تب کوئی ہندو مذہب تھا ہی نہیں اور بدھ کے سیاسی خیال کس طرح ہندو مذہب کے لئے توہین آمیز کیسے ہیں؟
وہائی آئی ایم ناٹ اے ہندو تو ایک کلاسک کے بطور جانی جاتی ہے اور 1996 میں اس کی اشاعت کے بعد سے ملک اور غیرملکوں کی کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں پڑھائی جا رہی ہے۔ اس کتاب کا اہم موضوع یہ ہے کہ دلت بہوجن تہذیب کیسے براہمن ویشیہ تہذیب سے الگ ہے۔ کیا ان پروفیسر کو لگتا ہے کہ دلت، بہوجن یا شودر ہندو ہیں بھی یا نہیں؟
اگر میں ان کے کھان پان کی تہذیب، ان کی مصنوعات کی تہذیب، کام کے بارے میں ان کی سوچ، ان کے درمیان عورت و مرد کے تعلقات کو براہمن ویشیہ تہذیب کے برعکس رکھتا ہوں، تو یہ ہندو مذہب کی بے عزتی کیسے ہے؟ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف براہمن اور ویشیہ ہی ہندو ہیں!سوال یہ ہے کہ کون ہندو ہے کون نہیں، ہندو مذہب کیا ہے، اس پر تفصیل سے گفتگو ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں : سرحد پر ایک بھی بنیا اور برہمن ریجیمنٹ کیوں نہیں ہے؟
تیسری کتاب پوسٹ ہندو انڈیا ہے، جس میں آدیواسی، دلت، او بی سی شودر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، ان کی مصنوعات کے ذرائع کیا ہیں، سندھو گھاٹی کی تہذیب کے وقت سے لےکر حال تک ان کی تہذیب کے بارے میں تفصیل سے جانچ کی گئی ہے۔اس میں ان کے اشیائےخوردنی پیداوار، دودھ اور گوشت پرمبنی معیشت، آدیواسیوں کا کھانا اکٹھا کرنے اور شکار کرنے، ان کی تہذیب وغیرہ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تو اگر ان لوگوں، جنہوں نے ہندوستان کی سائنس اور تکنیک میں خدمات دئے ہیں، وہ عظیم نہیں ہیں، تو کون عظیم ہے؟ میں نے یہ کتاب لکھنے کے لئے 10 سالوں تک ان پر کام کیا، ان کے بارے میں پڑھا اور تب یہ کتاب سیز(ایک مشہور امریکی پبلی کیشن)سے شائع ہوئی ہے۔ میری 10 سال کی محنت کو اس طرح خارج نہیں کیا جا سکتا۔
جس پروفیسر کو اس پر اعتراض ہے کیا ان کی کوئی بھی اچھی کتاب کسی بڑے اشاعتی ادارے سے چھپی ہے؟ اگر ان کی کوئی کتاب آئی ہے تو کیا ہے؟ کیا وہ کسی اہم کتاب کے مصنف ہیں؟ مجھے نہیں لگتا انہوں نے کوئی کتاب لکھی بھی ہوگی!اگر انہوں نے کوئی اہم کتاب نہیں لکھی ہے، تو ان کو کیسے پتا کہ اچھی کتاب ہوتی کیا ہے؟
ایسی ہی طاقتوں کی مانگ ہے کہ بی ڈی ساورکر اور گولولکر کی کتابیں یونیورسٹیوں میں پڑھائی جائیں۔ کیا وہ حوالہ جاتی اور ڈاٹا پرمبنی ہیں؟
اصل میں یہ بی جے پی، سنگھ اور وزارتِ ترقیِ انسانی وسائل کے بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ یہ ایجنڈاہے کہ یونیورسٹیوں میں یک رخے فکر ہی پڑھائے جائیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میری کتابیں حوالہ جاتی یا ڈاٹا مبنی نہیں ہیں لیکن ان کے مطابق ساورکر کے ہندو مذہب کی کتاب اور گولولکر کی’بنچ آف تھاٹس ‘نصاب میں ہونی چاہیے۔
کیا ساورکر کی کتاب پی ایچ ڈی تھیسس ہے؟ کیا اس میں مختلف حوالے ہیں؟ کیا گولولکر کی کتاب میں کوئی فٹ نوٹس وغیرہ ہیں؟ آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ان کو نصاب میں ہونا چاہیے؟
اچھا اگر آپ ان کو نصاب میں چاہتے بھی ہیں تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن آپ سالوں کی تحقیق کے بعد لکھی گئی مستند کتابوں کو توہین آمیز کیسے بتا سکتے ہیں؟ توہین آمیز کیا ہوتا ہے؟ اکادمی گفتگو میں بے عزتی جیسا کچھ نہیں ہوتا۔ ہم ایک دوسرے سے بحث کر رہے رہنما تھوڑے نہ ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ترقی انسانی وسائل تمام یونیورسٹیوں کا نصاب یک ابعادی بنانے کے لئے کام کر رہا ہے۔ وہ ویدوں کو پڑھانا چاہتے ہیں، ویدی وقت کو، رامائن، مہابھارت کو پڑھانا چاہتے ہیں۔آپ چاہتے ہیں کہ بچے اس وقت کے بارے میں پڑھیں، لیکن میرا سوال ہے کہ کیا سیاسی خیالات سمجھانے کے لئے رامائن-مہابھارت کی تعلیم کافی ہوںگی؟یا پھر آپ کے بتائیں کسی مفکر کے مقابلے میں گوتم بدھ کے افکار زیادہ مضبوط نہیں ہیں؟ ان سب باتوں پر اب بحث ہونی چاہیے۔
سوال یہ بھی ہے کہ قدیم ہندوستانی سیاسی افکار کو پڑھانے کا طریقہ کیا ہے؟ گوتم بدھ ایک سیاسی مفکر ہیں یا نہیں؟ میں یہ کہنے والا پہلا شخص ہوں کہ بدھ پلیٹو اور ارسطو سے کہیں بڑے سیاسی مفکر تھے۔ اس سے وزارتِ ترقیِ انسانی وسائل کو کیا پریشانی ہے؟ بدھ ہندوستانی نہیں ہیں کیا؟ کیا کوٹلیہ اور منو، بدھ سے زیادہ صاحب فکر تھے؟ یہ سب سمجھنے کے لئے ان کو میری کتابیں پڑھنی چاہیے۔ بی جے پی حکومت تمام یونیورسٹیوں کو برباد کرنا چاہتی ہے اور چاہتی ہے کہ ایک وقت کے بعد وہ کچھ نہ سوچیں، کچھ تخلیق نہ کریں اور میں اس کے خلاف ہوں۔
وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ’دلت ‘لفظ کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ آج دلت لفظ کا استعمال کرنے کے لئے وہ میری کتابوں کو ہٹانا چاہتے ہیں، کل وہ کہیںگے کہ آمبیڈکر کی کتابوں کو بھی ہٹایا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے بھی دلت لفظ کا استعمال کیا ہے۔ اور ایک دلت مفکر کے بطور آمبیڈکر پر بہت-سی کتابیں لکھی گئی ہیں اور آپ نہیں چاہتے کہ یہ لفظ یونیورسٹیوں میں استعمال نہ ہو!
اکادمک کاؤنسل میں شامل ایک اور پروفیسر کا کہنا ہے کہ آپ کی کتابوں میں کوئی کنٹینٹ، کوئی مواد نہیں ہے۔
اگر میری کتابوں میں کوئی کنٹینٹ نہیں ہے تو یہ اتنے سالوں سے نصاب میں کیوں تھیں، کیوں ان کو پڑھایا جا رہا تھا؟ اساتذہ، تعلیمی کمیٹیاں اور شعبہ جاتی کمیٹی، جن کے صدر شعبہ سطح کے لوگ ہوتے ہیں، جو خود علمِ سیاست پڑھاتے ہیں، وغیرہ تمام کتابوں کے کنٹینٹ کو پڑھتے ہیں، پرکھتے ہیں اور دہلی یونیورسٹی تو ا س کے معیارات کے لئے جانا جاتا ہے، اگر کتابوں میں کوئی مواد نہیں تھا تو انہوں نے ایسی کتابوں کو نصاب میں شامل کیسے کیا؟
اور جو پروفیسر کہہ رہی ہیں کہ میری کتابوں میں کوئی تعلیمی کنٹینٹ نہیں ہے، کیا انہوں نے میری کتاب پڑھی ہے؟ بنا پڑھے کیسے کوئی ماہر تعلیم یا پروفیسر ایسی کسی کتاب پر تنقید کر سکتا ہے، جو پہلے سے ہی نصاب میں شامل ہے؟
بات صرف اتنی ہی ہے کہ جن کتابوں سے آپ متفق نہیں ہیں، ان کو ہٹا رہے ہیں۔ اتنے سالوں سے طالب علم ان کتابوں کو پڑھ رہے ہیں، امتحان دے رہے ہیں، کیا وہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اتنے سالوں سے ان کتابوں کو پڑھنے اور پڑھانے والے بیوقوف ہیں!
اور اگر یہ پروفیسر اس بارے میں سنجیدہ ہیں، تو ان کو میری کتاب کا تجزیہ لکھکر کسی مشہور جرنل میں شائع کروانا چاہیے، تب میں ان کے خیالات پر جواب دوںگا۔
کیا یونیورسٹی انتظامیہ کے ذریعے آپ سے رابطہ کیا گیا؟
نہیں۔ عام طور پر جب وہ آپ کی کتابیں نصاب میں شامل کرتے ہیں، تب بات نہیں کی جاتی کیونکہ کتابیں تو پہلے سے ہی عوامی شعبے میں ہوتی ہیں۔ اور ویسے میں مانتا ہوں کہ کیا پڑھایا جانا چاہیے یا نہیں، اس کے بارے میں پوچھنا، سوال اٹھانا ان کی اکادمک آزادی کا حصہ ہے، لیکن وہ جن کتابوں سے اتفاق نہیں رکھتے، ان کو ہٹانے کی بات کرنا غیرتعلیمی اور خطرناک ہے۔
یونیورسٹی الگ الگ خیالات کو پڑھانے، ان پر گفتگو کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ وہاں سو طرح کے خیالات کو آپس میں ٹکرانا چاہیے۔ یونیورسٹی کوئی مذہبی ادارہ نہیں ، جہاں ایک ہی طرح کی مذہبی فکر پڑھائی جائے۔
وزارتِ ترقیِ انسانی وسائل کو دہلی یونیورسٹی یا کسی بھی یونیورسٹی میں اس طرح کی غیر-تعلیمی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ میں تعلیم کے شعبے سے جڑے لوگوں سے ملک میں بڑھ رہے اس رجحان کے خلاف کھڑے ہونے اور اکادمک آزادی اور اس کی خودمختاری کو بچانے کی اپیل کرتا ہوں۔
Categories: فکر و نظر