دی وائر کی اسپیشل رپورٹ: ایک آر ٹی آئی کے جواب میں آر بی آئی نے بتایا کہ سابق آر بی آئی گورنر رگھو رام راجن نے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت وزارت خزانہ کو این پی اے گھوٹالےبازوں کی فہرست بھیجی تھی۔ فہرست کے تعلق سے ہوئی کارروائی پر جانکاری دینے سے مرکزی حکومت نے انکارکیاہے۔
نئی دہلی:دی وائر کے ذریعے دائر ایک آر ٹی آئی کے جواب میں اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ ریزرو بینک آفانڈیا(آر بی آئی)کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ہی این پی اے (غیر تعمیل اثاثہ یعنی بینکوں کا پھنسا ہوا قرض)کے بڑے گھوٹالےبازوں کی فہرست بھیجی تھی اور اس پر جانچ کرانے کی مانگ بھی کی تھی۔حالانکہ حکومت کے ذریعے دئے گئے جواب سے لگتا ہے کہ راجن کی اس فہرست پر مرکز کی مودی حکومت کی طرف سے اب تک کوئی خاص کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
دی وائر نے پی ایم او، وزارت خزانہ اور آر بی آئی میں آر ٹی آئی دائر کرکے سابق گورنر رگھو رام راجن کے ذریعے پارلیامانی کمیٹی کو بھیجے گئے خط کے اس دعوے سے متعلق جانکاری مانگی تھی، جس میں راجن نے کہا تھا کہ انہوں نے پی ایم او کو این پی اے کے بڑے گھوٹالےبازوں کی فہرست سونپی تھی اور سنجیدگی سے جانچ کی مانگ کی تھی۔آر بی آئی نے آر ٹی آئی کے جواب میں بتایا ہے کہ سابق گورنر رگھو رام راجن نے 4 فروری 2015 کو این پی اے کے بڑے گھوٹالےبازوں کے بارے میں وزیر اعظم دفتر کو خط لکھا تھا۔ آر بی آئی کے مطابق راجن نے صرف وزیر اعظم دفتر ہی نہیں، بلکہ وزارت خزانہ کو بھی یہ فہرست بھیجی تھی، جس کے مکھیا مرکزی وزیر ارون جیٹلی ہیں۔
واضح ہو کہ پارلیامنٹ کی اسٹیمیٹ کمیٹی کے صدر مرلی منوہر جوشی کی گزارش پر رگھو رام راجن نے 6 ستمبر 2018 کو کمیٹی کے سامنے 17 صفحات کا ایک پارلیامانی نوٹ دیا تھا۔ اس میں راجن نے کہا تھا کہ انہوں نے پی ایم او کو این پی اے کے بڑے گھوٹالےبازوں کی ایک فہرست بھیجی تھی۔ حالانکہ راجن نے اپنے نوٹ میں یہ واضح نہیں کیا تھا کہ انہوں نے کس کی مدت کار میں یہ فہرست بھیجی تھی۔
چونکہ رگھو رام راجن یو پی اے اور مودی حکومت دونوں کے مدت کار میں آر بی آئی گورنر تھے اس لئے اسٹیمیٹ کمیٹی نے کہا تھا کہ کسی طرح کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے کمیٹی راجن کو وزیر اعظم دفتر کو لکھے گئے خط کی تاریخ بتانے کے لئے کہنے پر غور و فکر کر رہی ہے۔آر بی آئی نے بتایا کہ رگھو رام راجن کے ذریعے بھیجی گئی یہ فہرست اس وقت کئی سرکاری اور بیرونی ایجنسیوں کے ذریعے جانچکے دائرے میں ہے۔
حالانکہ آر بی آئی نے اس بارے میں واضح جانکاری نہیں دی کہ اس خط پر کس طریقے کی کارروائی ہو رہی ہے۔ دی وائر نے آر بی آئی، وزارت خزانہ اور پی ایم او کے درمیان اس معاملے پر ہوئے خط وکتابت کی کاپی، اجلاس کے منٹس اور کی گئی کارروائی سے متعلق جانکاری مانگی تھی۔ حالانکہ تمام محکمے نے پرائیویسی کا سہارا لیتے ہوئے اس بارے میں جانکاری دینے سے منع کر دیا۔
آر بی آئی نے کہا، ‘رگھو رام راجن کے گورنر رہنے کے دوران پی ایم او اور وزارت خزانہ کو بھیجی گئی بڑے گھوٹالوں کی فہرست اس وقت کئی سرکاری / نجی ایجنسیوں کے ذریعے جانچکے دائرے میں ہے۔اس معاملے کے منٹس آف میٹنگ/کارروائی رپورٹ میں تھرڈ پارٹی کے بارے میں بھی خفیہ اطلاعات ہیں۔ ایسی جانکاری کے انکشاف سے جانچ پر اثر پڑےگا اور اس طرح کی جانکاری آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کی دفعہ 8(1)کے کلاز (ایچ)کے تحت ممنوع ہے۔ ‘رگھو رام راجن نے پی ایم او کو اس بات سے بھی واقف کرایا تھا کہ کس طرح سے ‘بےایمان پرموٹروں ‘کے ذریعے در آمد اوور-انوایسنگ(اصل سے زیادہ بل بنانے) کا استعمال کرکے سرمایہ کی لاگت قیمت کو بڑھاچڑھاکر دکھایا گیا۔
این پی اے گھوٹالےبازوں کی جانکاری چھپانے کے فراق میں نظر آئے پی ایم او اور وزارت خزانہ
اس معاملے کو لےکے وزیر اعظم دفتر اور وزارت خزانہ جانکاری کو جان-بوجھ کر چھپاتے ہوئے دکھے۔ پی ایم او نے اس پر بےحد حیرانی والا جواب دیا۔ پی ایم او کا ماننا ہے کہ رگھو رام راجن نے جو خط بھیجا تھا وہ دراصل آر ٹی آئی کے دائرے میں ہی نہیں آتا ہے۔وزیر اعظم دفتر کے انڈرسکریٹری اور پی آئی او پروین کمار نے آر ٹی آئی کے جواب میں لکھا، ‘مانگی گئی اطلاعات من گڑھنت اور موضوع سے متعلق نہیں ہے۔ یہ جانکاری آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 2 (ایف)کے تحت اطلاع کی وضع کردہ تعریف کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔ ‘
پی ایم او نے نہ تو یہ جانکاری دی کی کس تاریخ کو رگھو رام راجن کا خط ملا اور نہ ہی اس سے متعلق کسی کارروائی کے بارے میں جانکاری دی۔
وزیر اعظم دفتر سے جب یہ پوچھا گیا کہ این پی اے کے بڑے گھوٹالےبازوں کی فہرست ملنے کے بعد انہوں نے کیا کارروائی کی؟ اس پر پی ایم او نے جواب دیا کہ یہ جانکاری آر ٹی آئی کے دائرے میں نہیں آتی ہے۔اس پر سابق سینٹرل انفارمیشن کمشنر شلیش گاندھی نے بتایا کہ پی ایم او کا یہ جواب قانونی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا؛انفارمیشن جس صورت میں موجود ہےاسی صورت میں دی جانی چاہیے۔ یہ جانکاری انفارمیشن کے دائرے میں آتی ہے کہ رگھو رام راجن کے ذریعے بھجی گئی فہرست پر پی ایم او نے کیا کارروائی کی۔ اگر جانکاری نہیں دی جاتی ہے تو یہ آر ٹی آئی ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔’
اسی طرح وزارتِ خزانہ نے جانکاری نہیں دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، وزارتِ خزانہ نے دی وائر کے ذریعے آر ٹی آئی درخواست کو پہلے 40 دن تک روک کر رکھا اور اس کے بعد گزشتہ24 اکتوبر کو وزارتِ خزانہ کی چار دیگرریونیوڈیپارٹمنٹ،اکانومک افیئرس ڈیپارٹمنٹ ،ڈیپارٹمنٹ آف ایکس پینڈیچراینڈ انویسٹ منٹ اور پبلک اسیٹ منیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں بھیج دیا۔وزارت خزانہ کے تحت اکانومک افیئرس ڈیپارٹمنٹ کےانڈر سکریٹری اے کے گھوش نے کہا، ‘ہمارے یہاں اس سے متعلق کوئی جانکاری نہیں ہے۔ ‘ اتنا کہہکر انہوں نے چار دیگر جگہوں پر آر ٹی آئی درخواست کو ٹرانسفر کر دیا۔
حالانکہ اصول کے مطابق اگر جانکاری اس عوامی اطلاعاتی افسر سے متعلق نہیں ہوتی ہے جس کے پاس درخواست گئی ہے، تو اس کو پانچ دن کے اندر اس درخواست کو آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 6 (3) کے تحت متعلق عوامی اطلاعاتی افسر کے پاس بھیجنا ہوتا ہے۔
وزارت کےاکانومک افیئرس ڈیپارٹمنٹ نے بھی یہی جانکاری دی ہے کہ ان کے یہاں اس سے متعلق جانکاری نہیں ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ اگر آر بی آئی کا کہنا ہے کہ رگھو رام راجن نے وزارت خزانہ اور پی ایم او دونوں جگہ این پی اے کے بڑے گھوٹالےبازوں کی فہرست بھیجی تھی تو یہ محکمہ اس سے متعلق جانکاری مہیا کیوں نہیں کرا رہے ہیں۔
Categories: خبریں