خبریں

مدھیہ پردیش : ہندتووادی سیاست کے شور میں گم ہو گیا ہے ’وکاس‘ کا ایجنڈا

گراؤنڈ رپورٹ : بی جے پی اور کانگریس دونوں نے ہی مدھیہ پردیش کوہندوتوا کے لیب میں تبدیل کر دیا ہے۔  نقل مکانی، آدیواسی حقوق، غذائی قلت، بھوک مری،کھیتی کسانی جیسے مدعوں پر کوئی بھی بات نہیں کر رہا ہے۔

مدھیہ پردیش کی اجین واقع مہاکالیشور مندر میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان اور کانگریس صدر راہل گاندھی۔ (فوٹو بشکریہ: پی ٹی آئی/فیس بک)

مدھیہ پردیش کی اجین واقع مہاکالیشور مندر میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان اور کانگریس صدر راہل گاندھی۔ (فوٹو بشکریہ: پی ٹی آئی/فیس بک)

مدھیہ پردیش میں مذہب کی سیاست تیز ہو گئی ہے، جس میں وکا س  کے مدعے کہیں گم سے ہو گئے ہیں۔  ایک طرف ریاست کی دونوں اہم سیاسی جماعت بی جے پی اور کانگریس ہندوتوا کے ایجنڈے پر اپنی سیاسی گوٹیاں فٹ کرنے کی کوشش میں لگے ہیں تو دوسری طرف انتخابی موسم دیکھتے ہوئے سادھو سنت بھی انتخابی ماحول میں اپنا نفع  نقصان تلاش کررہے ہیں۔22 اکتوبر کو ریاست کی راجدھانی بھوپال میں ایک سنت سبھا کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان مہمان خصوصی کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ ملک- ریاست کے کئی نامی سنتوں کے ساتھ انہوں نے منچ شیئرکیا۔

حالانکہ، اس انعقاد کو سنت سماج کو سادھنے کی شیوراج، سنگھ اور بی جے پی کی ایک کوشش قرار دی گئی۔  جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ریاستی وزیر کا درجہ پائے کمپیوٹر بابا کے ذریعے اپنا عہدہ چھوڑنے اور شیوراج حکومت پر حملہ آور رخ اختیار کرنے سے بنے سنت مخالف ماحول میں پیغام دیا جا سکے کہ سنت سماج شیوراج حکومت کے ساتھ ہے۔لیکن، منچ پر ایک صوت حال  ایسی بھی پیدا ہوئی  جب ایک سنت انتظامات سے ناراض نظر آئے اور منچ سے ہی شیوراج کو نصیحت دینی شروع کر دی کہ وہ 5 سال بعد سنتوں کو یاد کرتے ہیں، ویسے پہچانتے بھی نہیں۔

تب منتظم کو واضح کرنا پڑا کہ منتظمین شیوراج سنگھ یا بی جے پی نہیں ہے، یہ پروگرام راجابھوج ایکتا کلیان کمیٹی کی سرپرستی میں ہو رہا ہے اور شیوراج تو مہمان ہیں۔  یہ سیاسی تقریب نہیں ہے، بس سنت سماج نے شیوراج کو دعائیں دینے کے لئے مدعو کیا ہے۔

لیکن انعقاد کے معنی تب صاف سمجھ آتے ہیں جب منچ پر موجود ہر سنت وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان، ان کی  مدت کار اور ان کی اسکیموں کے قصیدے پڑھتا نظر آتا ہے۔کوئی شیوراج کو ملک میں سب سے زیادہ ہندوتوا کو بڑھاوا دینے والی ریاستی حکومت کا مکھیا ہونے کا سہرا دیتا ہے اور ان کی حالیہ ہندتووادی پالیسیوں جیسے-نرمدا سیوا یاترا، تعلیم میں بھگودگیتا کی آمیزش، ایکاتم یاترا، گو-وزارت بنانے کا اعلان وغیرہ کوششوں کی تعریف کرتا ہے تو کوئی ترقی یافتہ مدھیہ پردیش کی بات کرتا ہے۔

انعقاد کا مقصد تب اور بھی زیادہ واضح ہو جاتا ہے جب منچ سے کمپیوٹر بابا پر سنتوں کے ذریعے حملے کئے جاتے ہیں۔  ہندو آچاریہ مہاسبھا کے صدر پرمانند گری مہاراج کمپیوٹر بابا کو ذاتی مفاد سادھنے والا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں،’ کمپیوٹر بیتے دور کی بات تھی اب لیپ ٹاپ کا زمانہ ہے۔  کمپیوٹر بابا کا سنت سماج میں کوئی بڑا قد نہیں ہے۔  ‘ساتھ ہی وہ کہتے ہیں،’ایک کمپیوٹر نہیں ہوا تو کیا،99 تو یہی ہے۔  ‘اس دوران وزیراعلیٰ بھی کھل‌کے ہنستے پائے جاتے ہیں۔

وزیراعلیٰ کے ذریعے اپنے مصروف انتخابی پروگرام میں سے قریب تین گھنٹے سے زیادہ کا وقت ‘سنت سبھا ‘ کو دینا انتخابات میں ہندوتوا کے کارڈ کی اہمیت کو دکھاتا ہے۔بیتے سال-ڈیڑھ سال سے ایسا ہی دیکھا جا رہا ہے کہ بی جے پی ہی نہیں کانگریس بھی ریاست میں ہندوتوا کے سہارے اپنی کشتی پار لگانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔  جس کے نمونے اس دوران دونوں ہی جماعتوں کے طریقہ کار، پالیسیوں اور اعلان میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ایکاتم یاترا سے پہلے شیوراج سنگھ چوہان حکومت نے نرمدا سیوا یاترا کا انعقاد کیا تھا۔ اس کی اختتامی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہوئے تھے۔  (فائل فوٹو : پی آئی بی)

ایکاتم یاترا سے پہلے شیوراج سنگھ چوہان حکومت نے نرمدا سیوا یاترا کا انعقاد کیا تھا۔ اس کی اختتامی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہوئے تھے۔  (فائل فوٹو : پی آئی بی)

اگر مرحلہ وار آگے بڑھیں تو ریاست میں ہندوتوا کی انتخابی بساط دسمبر 2016 میں شیوراج کی نرمدا سیوایاترا سے بچھنی شروع ہوئی تھی۔حالانکہ، شیوراج اس سے پہلے بھی کئی مذہبی پہل کرتے رہے جن میں وزیراعلیٰ تیرتھ درشن  اسکیم اور ان کے ذریعے ہر اہم موقع پر اجین کے مہاکالیشور مندر پر پوجا ارچنا کرنا شامل تھا۔  لیکن، اصل میں نرمدا سیوا یاترا کے بعد ہی کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہندوتوا کی ہوڑ کی شروعات ہوئی تھی۔شیوراج کی نرمدا سیوا یاترا کا اختتام 15 مئی 2017 کو ہوا، جس کے جواب میں 30 ستمبر کو ریاست کے سابق کانگریسی وزیراعلیٰ دگوجئے سنگھ بھی نرمدا پری کرما پدیاترا پر نکل گئے جو 192 دن تک چلی اور 9 اپریل 2018 کو ختم ہوئی۔

دگوجئے نے اپنی یاترا کو مذہبی قرار دیا اور اس کو سیاست سے الگ بتایا۔ لیکن، کانگریس کے ذریعے اس یاترا کا خوب سیاسی فائدہ لیا گیا۔کانگریس حامی مختلف منچوں سے دگوجئے کی نرمدا یاترا کا مقابلہ شیوراج کے ذریعے کیا گیا نرمدا یاترا سے کرتے نظر آئے اور کہتے نظر آئے کہ شیوراج نے اپنی یاترا  پر سرکاری خزانہ خالی کیا، ہزاروں روپے ایک ایک آرتی میں لٹائے جبکہ دگوجئے کی یاترا مہذب طریقے سے ختم ہوئی۔  اس دوران دگوجئے کو سچا سناتنی بتانے والوں کی کمی نہیں تھی۔حالانکہ، دگوجئے آخری  وقت تک اپنی یاترا کو مذہبی بتاتے رہے لیکن ان کا فیس بک اور ٹوئٹر ٹائم لائن ان کی یاترا میں پارٹی کی سیاسی شخصیتوں اور سیاست میں مداخلت رکھنے والے ریاست کے سادھو-سنتوں کے ہجوم کی تصویروں سے بھری پڑی تھی۔

ساتھ ہی ان کی اور ان کی بیوی امرتا رائے کی ٹائم لائن یاترا کے دوران نرمدا سے لگے علاقوں میں ملے لوگوں کے مسائل کی کہانیوں سے بھی پٹی پڑی رہتی تھی۔  جو اشارہ کرتا تھا کہ 2003 میں 10 سالوں کے لئے ریاست کی انتخابی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا  اعلان کرنے والے دگوجئے سنگھ اب انتخابی سرگرمی دکھانے کے موڈ میں ہیں، وہ بھی ہندوتوا کے راستے۔یاترا کے خاتمہ کے کچھ مہینے بعد دگوجئے نے اپنی نرمدا یاترا کو انتخابی سرگرمی سے جڑا ہونا قبول بھی کیا۔

نرمدا پری کرما یاترا کے دوران دگوجئے سنگھ اپنی بیوی امرتا رائے کے ساتھ۔  (فائل فوٹو : فیس بک)

نرمدا پری کرما یاترا کے دوران دگوجئے سنگھ اپنی بیوی امرتا رائے کے ساتھ۔  (فائل فوٹو : فیس بک)

بہر حال، جب شیوراج کے سامنے اپنےہندوتوا کی امیج کھڑی کرنے کے لئے دگوجئے یاترا پر نکلے اور ان کو سادھو-سنتوں کی حمایت ملی تو شیوراج جواب میں دسمبر 2017 میں’ایکاتم یاترا’پر نکل پڑے۔ شنکرآچاریہ کے لاثانی ویدانت کے اصول کی تشہیر کے نام پر شیوراج نے ایک مہینے تک ریاست بھر میں گھوم‌کر جلسے کیے۔  ریاست بھر کے سنتوں کو اپنے منچ پر جٹایا اور ان کو مختلف ذمہ داری دیں۔  منچ سے شیوراج کو عظیم سناتنی بتانے والے نعرے لگے۔

جس طرح فی الحال کمپیوٹر بابا کے شیوراج کی مخالفت میں کھڑے ہونے پر ‘سنت سبھا ‘کے ذریعے سنتوں کو اپنی حمایت میں دکھانے کی قواعد ہوئی ہے، اسی طرح تب دگوجئے کے لئے حمایت دکھانے والے سنتوں کو ایکاتم یاترا میں سنتوں کی بھیڑ یکجا کر کے شیوراج نے بلاواسطہ جواب دیا تھا۔اسی طرح شیوراج نے اپریل مہینے میں اپنے خلاف جارحانہ ہوتے سنتوں کو سادھنے کے لئے پانچ سنتوں کو وزیر مملکت کا درجہ تک دے دیا تھا۔  نرمدانند مہاراج، ہرہرانند مہاراج، کمپیوٹر بابا، بھیوجی مہاراج اور پنڈت یوگیندر کو پہلے تو نرمدا کنارے کے علاقوں میں شجرکاری، آبی تحفظ اور صفائی کے موضوعات پر عوام بیداری مہم چلانے کے لئے تشکیل شدہ خصوصی کمیٹی میں شامل کیا گیا اور بعد میں وزیر مملکت بنا دیا گیا۔

غور طلب ہے کہ کمپیوٹر بابا نے تب یوگیندر مہنت کے ساتھ مل‌کر نرمدا بچاؤ کے کام میں بد عنوانی کو سامنے لانے کے لئے نرمدا گھوٹالہ رتھ یاترا نکالنے کا اعلان کیا تھا اور نرمدا کنارے حکومت کے ذریعے لگائے گئے چھ کروڑ پودوں کے دعویٰ کو کھلے طور پر چیلنج دیا تھا، جس کے رد عمل میں ان کو وزیر مملکت بنا دیا گیا۔حالانکہ، کانگریس نے تب اس کی تنقید کی تھی اور اس کو مذہب اور مذہب گروؤں کے نام پر سیاست قرار دیا تھا لیکن آج وہی کانگریس مذہب کی سیاست میں تال ٹھونک رہی ہے۔

انتخاب نزدیک آتے-آتے بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی جماعتوں نے انتخابی میدان کوہندوتوا کے اکھاڑے کی شکل دے دی ہے۔دونوں ہی جماعتوں کے رہنما مندر-مندر متھا ٹیک رہے ہیں، ہندو رائےدہندگان کو رجھانے کے لئے نئے-نئے اعلان کر رہے ہیں۔  دونوں ہی جماعتوں کی کوئی سیاسی ریلی ہویا کسی بڑے مرکزی رہنما کی ریاست میں آمد ہو، اس کی شروعات مندر پر پوجا ارچنا کے بعد ہی ہوتی ہے۔

اجین واقع مہاکالیشور مندر میں مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان اپنی بیوی کے ساتھ۔  (فائل فوٹو : فیس بک)

اجین واقع مہاکالیشور مندر میں مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان اپنی بیوی کے ساتھ۔  (فائل فوٹو : فیس بک)

شیوراج کی عوام آشیرواد یاترا  اجین کے مہاکالیشور سے، دگوجئے سنگھ کی سمنویہ یاترا اورچھا کے رام راجا مندر سے، جیوترادتیہ سندھیا کی انتخابی مہم کی شروعات بھی مہاکالیشور مندر پر پوجا ارچنا اور ابھشیک کرنے کے بعد ہوئی تھی۔  جب کمل ناتھ کی ریاستی صدر کے طور پر تقرری ہوئی تو سب سے پہلے وہ دتیا کے پیتانبراپیٹھ  مندر درشن  کو پہنچے۔راہل گاندھی کی کیلاش مانسروور یاترا کو بھی بی جے پی نے خوب بھنایا۔  جگہ جگہ راہل گاندھی کو شیوبھکت بتایا۔  تو وہیں، دگوجئے نے بھی کیلاش مانسروور جانے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔

ریاست کےکانگریس صدر کمل ناتھ نے گزشتہ دنوں حکومت بننے پر 23000 پنچایت میں گئوشالہ تعمیر کا اعلان کیا تو شیوراج نے جواب میں ‘گئو-وزارت ‘بنانے کا تیر داغ دیا۔کانگریس کے پاس ریاست کو آگے لے جانے کے لئے کیا پالیسی ہے اس کا انکشاف تو اس نے کیا نہیں لیکن چترکوٹ میں’رام گمن پتھ مارگ ‘بنانے کا اعلان ضرور کر دیا ہے۔

کانگریس ترجمان سورج سکسینہ کا کہنا ہے کہ ریاست کے لئے جاری کانگریس کا تحریری معاہدہ (منشور)میں بھی وہ گئوشالہ اور رام گمن پتھ مارگ کی تعمیر کو اہم پوائنٹ کے طور پر پیش کریں‌گے۔  ساتھ ہی کانگریس’رام گمن پتھ مارگ ‘یاترا بھی نکال رہی ہے جہاں مذہب کی آڑ میں ریاست کی 35 ان اسمبلی سیٹوں پر عوامی رابطہ کرنا ہدف رکھا ہے جہاں سے بھگوان رام اپنے بنواس کے دوران گزرے تھے۔پورے انتخابی دور میں دونوں ہی پارٹیاں سنتوں کی پناہ میں خود کو دکھا رہی ہیں۔  ایک طرف بی جے پی ان کو وزیر مملکت بنا رہی ہے تو دوسری طرف کانگریس سے شنکرآچاریہ سوامی سوروپ آنند سرسوتی کی نزدیکیاں بھی چھپی نہیں ہیں۔

وہ لگاتار بی جے پی حکومت کے خلاف بیان تو دے ہی رہے ہیں، ساتھ ہی دگوجئے سنگھ کے گرو مانے جانے والے سوروپ آنند کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پارٹی میں اتنا قد رکھتے ہیں کہ ان کے اشاروں پر تنظیم میں تقرری ہوتی ہیں۔ریاست میں پچھلے تین انتخاب دیکھیں تو وہ بجلی، پانی اور سڑک جیسی ترقی کے مدعوں پر لڑے گئے تھے تو اس بار مذہب کی سیاست وکاس پر بھاری ہے۔

ریاست میں قبائلی حقوق کے لئے آواز اٹھا رہے جئے آدیواسی یوا شکتی کے ڈاکٹر ہیرالال الاوہ کہتے ہیں،’بی جے پی ہو یا کانگریس، دونوں اصل مدعوں پر بات کر ہی نہیں رہے ہیں۔  مثال کے لئے ریاست کے مغرب نماڑ علاقے، آدیواسی ضلعے‎، آدیواسی بلاک، خاص کر کہ جھابوا، علی راج پور، دھار، بڑوانی، کھرگون، کھنڈوا ضلعوں میں سب سے زیادہ غذائی قلت ہے۔  لوگ بھوک مری اور غذائی قلت سے مر رہے ہیں۔  بےروزگاری کی وجہ سے سب سے زیادہ نقل مکانی ہو رہی ہے ان علاقوں سے۔ کئی گاؤں میں بجلی نہیں ہے، صحت کی بدتر خدمات ہیں، اسکول نہیں ہیں۔  جو اسکول ہیں، وہ بند کئے جا رہے ہیں۔  کالج ہیں، پر وہاں کورسیز نہیں ہیں، ان مدعوں پر دونوں جماعت کوئی بات نہیں کر رہی ہے۔  ‘

گزشتہ29 اکتوبر کو کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اجین واقع مہاکالیشور مندر میں پوجا ارچنا کی۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

گزشتہ29 اکتوبر کو کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اجین واقع مہاکالیشور مندر میں پوجا ارچنا کی۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

ساتھ ہی وہ کہتے ہیں،’قبائلی علاقوں میں پیسا قانون، جنگل حقوق، آئین کی پانچویں فہرست نافذ ہونے جیسے مدعوں پر بھی دونوں جماعتوں کو اپنی بات رکھنی چاہیے۔  ریاست میں کسان پریشان ہے، خودکشی کر رہا ہے۔  مزدور کے پاس پیٹ بھرنے لائق کام نہیں ہے۔  ریاست میں 78000 گیسٹ ٹیچر کو اچانک ہٹا دیا گیا،کانٹریکٹ ٹیچرو ں پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔  ‘الاوہ آگے کہتے ہیں،’نوجوانوں کو روزگار دینے کے لئے کیا کرنا چاہیے، کوئی پالیسی پیش نہیں ہو رہی۔  سرکاری نوکری میں پرموشن میں ریزرویشن کی بات پر کوئی نہیں کہہ رہا کہ کیا نئی حکومت بننے کے بعد نیا دستور العمل بناکر ایس سی/ایس ٹی ملازمین‎ کو پرموشن میں ریزرویشن کا فائدہ دیں‌گے؟  بس ترقی کے مدعوں، غریب عوام، کسان، دلت، آدیواسی کے اصل مدعوں کو بھٹکانے کے لئے مذہب کی سیاست کر رہے ہیں اور کچھ نہیں۔  ‘

وہیں، سماجی کارکن پرشانت دوبے کو بھی لگتا ہے کہ انتخابی گہماگہمی میں بچوں کے مدعوں پر کوئی بات نہیں ہو رہی ہے، جیسے کہ تعلیم، صحت، غذائی قلت وغیرہ کا انتخابی ماحول میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ سینئر صحافی رشید قدوائی مانتے ہیں کہ دونوں ہی جماعتوں کے پاس کوئی صحت مند ایجنڈا نہیں ہے۔  بی جے پی کو اپنی ناکامی سے عوام کا دھیان بھٹکانا ہے اس لئے عقیدہ کا سہارا لے رہی ہے تو کانگریس اپنے ہندو مخالف امیج کو بدلنے کی کوشش میں ہے۔

وہ کہتے ہیں،’بی جے پی کو امید ہے کہ عقیدہ کے جوش میں لوگ اس کو ایک بار پھر موقع دیں۔  کانگریس کامسئلہ یہ ہے کہ وہ اب کچھ بھی چھوڑنا نہیں چاہتی ہے۔  اس کو لگتا ہے کہ پہلی بار ایسا موقع ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حکومت بنا سکتی ہے اور بی جے پی کے ایک اہم حریف کے طور پر خود کو پیش کر سکتی ہے۔ اس کے پاس آخری موقع ہے دکھانے کا کہ بی جے پی کا کانگریس ہی واحد متبادل ہے جس سے کہ لوک سبھا انتخابات کے لئے ممکنہ مہا گٹھ بندھن  کی حالت میں وہ تمام علاقائی جماعتوں میں قابل قبول ہو سکے۔  ‘

رشید کہتے ہیں،’یہ تمام چیزیں کانگریس دفاع میں اپنا رہی ہے تاکہ بی جے پی اس کو ہندو مخالف پارٹی ثابت نہ کر سکے۔  باقی عوام کے مدعوں پر اس کو لگتا ہے کہ بی جے پی کی ناکامیابی یامخالف لہر میں عوام ان کی حکومت بنوا ہی دے‌گی، اس کو ان مدعوں پر بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔  ‘سیاسی تجزیہ کار لوکیند سنگھ بھی کچھ ایسا ہی مانتے ہیں۔  ان کا کہنا ہے، ‘ کانگریس کی امیج سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے اس قول کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے اور 2014 لوک سبھا انتخابات کے بعد کانگریس کے ہار کے تجزیہ پر اے کے انٹنی کی صدارت والی رپورٹ کے بعد ہندو مخالف کی بن گئی تھی۔  بس کانگریس اسی امیج کو بدلنے میں لگی ہے۔  ‘

وہ آگے کہتے ہیں،’حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ وکاس  کے مدعوں پر بالکل بات نہیں ہو رہی ہے۔  کانگریس نے کوشش کی تھی، جیسے کہ دگوجئے سنگھ نے ٹوئٹ کے ذریعے ایک فوٹو شیئر کرکے بتایا کہ بھوپال کا برج تعمیر کے دوران ہی ٹوٹ رہا ہے تو کمل ناتھ نے ایک سڑک کی فوٹو شیئر کی  کہ دیکھو بھوپال کی سڑکیں کتنی خراب ہیں۔  حالانکہ، وہ بات الگ ہے کہ دگوجئے کے ٹوئٹ میں فوٹو پاکستان کے کسی برج کا لگا تھا تو کمل ناتھ کے ٹوئٹ میں بنگلہ دیش کی سڑکوں کا۔ ‘

بہر حال، سیاسی تجزیہ کار گرجا شنکر کا ماننا ہے کہ ترقی کی باتیں بی جے پی تو کر رہی ہے۔  اپنی حکومت کی کامیابیاں گنانا ترقی کی ہی تو بات ہے۔وہ کہتے ہیں،’اس لئے بی جے پی تو وکاس  کے مدعے پر قائم ہے لیکن کانگریس کو کرنا چاہیے تھا کہ جو دعوے اپنی کامیابیوں کی بی جے پی کر رہی ہے، ان کا  راز فاش کرتے۔  ایسا کرنے کے بجائے وہ رام مندر پر چلے گئے۔  لگتا ہے  کانگریس بی جے پی کے جال میں پھنس گئی ہو۔  ‘

فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر@mppost1

فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر@mppost1

ساتھ ہی وہ کہتے ہیں،’بی جے پی تو اپنے ایجنڈے پر قائم ہے۔  ان کے لئے توہندوتوا کی بات عام ہے۔  لیکن کانگریس نے جو شروع کیا ہے اس سے اس کی بے عزتی ہو  رہی ہے۔  معلوم ہوتا ہے کہ اس کو سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کیا کرے تو بی جے پی کی نقل کرنے پر اتارو ہے۔  ‘گرجا شنکر کہتے ہیں،’ویسے کانگریس کی شروعاتی امیج مذہبی رواداری کی  ہے۔  گاندھی جی نے ‘رام راجیہ’کا نعرہ دےکر کبھی مندر کے رام کی بات نہیں کی تھی، ان کا ‘رام راجیہ’ کا مطلب ‘گرام سوراج ‘تھا۔  اس لئے اس دلیل سے کانگریس کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔  جب آپ عوام کے مدعوں سے خود کی پہچان بناتے ہیں تب آپ کی مقبولیت بنتی ہے، اپنے ایجنڈے کو پبلک پر تھوپنے سے نہیں۔  اس کو بات کرنی تھی تو 15 سال کی بی جے پی کے مبینہ حکومت پر کرنی تھی۔  ‘

اس بیچ، کہاوت ہے کہ ہر چیز کی زیادتی   نقصا ندہ ہوتی ہے تو بی جے پی کو کمپیوٹر بابا کی ناراضگی اسی نقصان کی طرف اشارہ کرتی ہے۔  اسی مہینے کی شروعات میں انہوں نے وزیر مملکت کے عہدے کو چھوڑ دیا اور شیوراج حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے نرمدا تحفظ اور غیر قانونی کھدائی کے مدعے پر وعدہ خلافی کی ہے اس لئے وہ یہ قدم اٹھا رہے ہیں۔  اس کے بعد انہوں نے حکومت کے خلاف سنت سبھاکا اعلان کیا جو کہ 23 اکتوبر سے اندور سے شروع ہوکر ریاست بھر میں نرمدا کے مدعے پر شیوراج حکومت کے خلاف تشہیر کرے‌گا۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ دنوں کمپیوٹر بابا نے اسمبلی انتخاب لڑنے کی طرف اشارہ کیا تھا۔  اس لئے ایسا مانا جاتا ہے کہ بی جے پی کی طرف سے ان کے نام پر خیال نہ کئے جانے سے وہ خفا ہو گئے اور وزیر مملکت کا عہدہ چھوڑ‌کے شیوراج کے خلاف تال ٹھونکنے لگے۔وہیں،ہندوتوا کے فارمولے پر چل پڑی کانگریس کو بھی تب عقل آئی جب چاروں طرف سے اس کی تنقید ہوئی، اس کی مذہبی روادار ی والی امیج پر سوال کھڑے ہوئے۔

نتیجتاً، گوالیار-چنبل کے اپنے حالیہ دورے میں راہل گاندھی کا ایک نیا روپ دیکھنے کو ملا۔  پہلے صرف مندروں پر دستک دینے والے راہل گوالیار پہنچے تو روڈ شو کی شروعات انہوں نے مندر سے کی تو اختتام مسجد پر اور گوالیار سے رخصت ہوتے وقت گرودوارا پر بھی متھا ٹیک آئے اور دکھانے کی کوشش کی کہ صرف ہندوتوا نہیں، کانگریس سیکولرازم پر چل رہی ہے۔

حالانکہ، اس سے پہلے راہل ریاست میں جہاں بھی دورے پر جا رہے تھے تو صرف وہاں  کے مشہور کسی مندر سے ہی اپنی تشہیر شروع کرتے تھے۔  اس دوران شیو بھکت راہل، رام بھکت راہل، نرمدا بھکت راہل کے نعروں سے کانگریس کارکنان نے خوب تشہیر کی، لیکن گوالیار میں کانگریس نے کوشش کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ ہندوتوا کی طرف اپنے جھکاؤ کی نمائش نہ کرے۔اس بیچ دونوں ہی جماعتوں میں ہندوتوا کو لےکر لگاتار الزام تراشی کا دور چل رہا ہے۔  ہر منچ سے بی جے پی کے چھوٹے-بڑے رہنما کہتے نظر آ رہے ہیں کہ کانگریس وہ پارٹی ہے جو رام کے وجود کو سپریم کورٹ میں مسترد کر چکی ہے، وہ آج رام گمن پتھ بنانے کی بات کر رہی ہے، راہل گاندھی کو رام بھکت بتا رہی ہے۔

گزشتہ 15 اکتوبر کو کانگریس صدر راہل گاندھی نے مدھیہ پردیش کی دتیا واقع پتنبرا پیٹھ میں پوجا ارچناکی تھی۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

گزشتہ 15 اکتوبر کو کانگریس صدر راہل گاندھی نے مدھیہ پردیش کی دتیا واقع پتنبرا پیٹھ میں پوجا ارچناکی تھی۔  (فوٹو : پی ٹی آئی)

ریاست بی جے پی ترجمان رجنیش اگروال کہتے ہیں،’ کانگریس سیاسی خود غرضی سادھنے میں رام کا سہارا لے رہی ہے۔  اس کو نہ رام سے کوئی واسطہ ہے اور نہ گائے سے۔ دگوجئے کی حکومت میں تو انہوں نے گئوونش سے گئوچر کی زمین تک چھین لی تھی۔  ‘وہیں، کانگریسی رہنما بھی ہر منچ میں کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر کانگریس ہندوتوا کی بات کرتی ہے تو بی جے پی کو کیوں چڑھ لگتی ہے؟  کیا رام پر یا مذہب پر صرف اس کا حق ہے؟کانگریس ترجمان روی سکسینہ کہتے ہیں،’ہم تو رام کو گاندھی کے وقت سے مانتے ہیں۔  سب سے پہلے رام کی بات کانگریس کے مہاتما گاندھی نے ہی کی تھی۔  ہم نے ہی رام مندر کا تالا کھلوایا تھا۔  بی جے پی کی بدولت تو آج رام ٹاٹ میں پڑے ہیں۔  ‘

بہر حال، بی جے پی اور کانگریس دونوں ہی جماعتوں نے مستقبل کے انتخابی تشہیر کا خاکہ تیار کر لیا ہے جس میں طے ہے کہ پھر چاہے وزیر اعظم نریندر مودی ہوں، بی جے پی صدر امت شاہ یا کانگریس صدر راہل گاندھی تمام ریاست کے جس بھی علاقے میں تشہیر کے لئے قدم رکھیں‌گے، وہاں کے مشہور مقامی مندر کی زیارت کے بعد ہی تشہیر شروع کریں‌گے۔وہیں، سیاست کے جانکاروں کا ماننا ہے کہ آگے بھی اکثریت کثیر آبادی والے مدھیہ پردیش میں انتخابات تک ہندو رائےدہندگان کو متاثر کرنے کے لئے دونوں جماعت اور بھی ایسا قدم اٹھا سکتی ہیں۔

لیکن، ان سب کے درمیان اگر بات نہیں ہو رہی ہے تو وہ ہے وکاس  کے مدعوں کی۔ بی جے پی صرف اپنی حکومت کی کامیابیاں گنا رہی ہے لیکن مستقبل کے لئے اس کی کیا اسکیم ہے، یہ پیش نہیں کر پا رہی ہے تو دوسری طرف کانگریس کا بھی یہی حال ہے، قرض معافی کے علاوہ اب تک وہ کسی بھی ترقی یا مفاد عامہ کے مدعا پر کوئی واضح پالیسی پیش نہیں کر پائی ہے۔مدھیہ پردیش میں ریت کھدائی، ویاپم گھوٹالہ، غذائی قلت، خاتون تحفظ، کسانوں کی بدحالی اہم مدعے ہیں۔  وہیں، مختلف علاقوں میں باندھ منصوبوں کے چلتے منتقل ہوئے لوگوں کے بازآبادی کا بھی مدعا ہے۔  روزگار تو مسئلہ ہے ہی، ساتھ ہی صحت خدمات بھی اہم مدعےہیں۔آدیواسیوں کی نقل مکانی  ہو یا پھر صنعتی ترقی کی بات بی جے پی اور کانگریس کے منچوں سے کوئی بھی رہنما ان پر بات نہیں کر رہا ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)