محمدعظیم نامی یہ بچہ ایک مدرسےکاطالبعلم تھا۔بچےکی موت کےبعدآن لائن پورٹلوں پرجوخبریں شائع ہوئی تھیں ان میں یہ دعویٰ کیاگیاتھاکہ عظیم کوایک بھیڑ نے مذہبی تشدد کی بنا پر لنچ کر دیا۔
انگریزی میں ایک کہاوت ہے جس کا مطلب یہ ہے ؛ کم علمی بہت خطرناک چیز ہے۔ اس کہاوت کو سچ ہوتے ہوئے اس وقت دیکھا گیا جب سوشل میڈیا میں کانگریس لیڈر ششی تھرور کے حوالے سے فیک نیوز عام کی گئی۔ ششی تھرور بنگلورلٹریری فیسٹیول میں بول رہے تھے۔ ملک کے موجودہ سیاسی معاملات پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے نریندر مودی کے بارے میں کچھ کہا۔ تھرور نے کاروان میگزین کے صحافی ونود جوس کے حوالے سے کہا کہ جوس سے آر ایس ایس کے ایک گمنام شخص نے کہا کہ نریندر مودی شیولنگ پر بیٹھے اس بچھو کی طرح ہیں جس کو آپ اپنے ہاتھ سے بھی نہیں ہٹا سکتے ہیں اور نہ ہی آپ شیولنگ پر چپل مار سکتے ہیں! تھرور نے کہا کہ یہ بیان آر ایس ایس کے اس گمنام شخص نے مایوسی اور غصے کی حالت میں دیا تھا۔
#WATCH Shashi Tharoor in Bengaluru, says, "There's an extraordinarily striking metaphor expressed by an unnamed RSS source to a journalist, that, "Modi is like a scorpion sitting on a Shivling, you can't remove him with your hand & you cannot hit it with a chappal either."(27.10) pic.twitter.com/E6At7WrCG5
— ANI (@ANI) October 28, 2018
تھرور کی بات کو سوشل میڈیا میں ایک مختلف رنگ دے دیا گیا اور بی جے پی کے لیڈران نے جو کچھ بھی سوشل میڈیا میں لکھا وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کم علمی بہت خطرناک چیز ہے۔ اسی کم علمی کے باعث تھرور کے منقولہ لفظوں کو غلط طریقے سے استعمال کیا گیا۔ مودی حکومت کے لاء منسٹر روی شنکر پرساد نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ تھرور پر قتل کا الزام ہے اور انہوں نے اپنے موجودہ بیان سے دیوتا شیو کی بے حرمتی کی ہے۔ پرساد نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تھرور کی اس حرکت پر راہل گاندھی کو معافی مانگنی چاہئے۔ بی جے پی کے ایم پی آر کے سنہا نے بھی ٹوئٹ کیا کہ ششی تھرور نے شیولنگ پر ایک بچھو دیکھا ہے اور وہ بچھو نریندر مودی ہیں !
فیک نیوز دو طرح سے عام کی جاتی ہے؛ لیڈران کے اس عمل کو ہم misinformation کے زمرے میں رکھیں گے۔ لیکن سوشل میڈیا پرششی تھرور کے اس بیان کو بالکل ہی بدل دیا گیا اور ان کو منسوب کرتے ہوئے لکھا گیا کہ اگر مودی کو ہٹانے کے لئے شیولنگ پر چپل بھی مارنا پڑے تو وہ شیولنگ پر چپل ماریں گے۔ فیک نیوز کی یہ اشاعت disinformation کے زمرے میں آتی ہے۔
فیس بک پر BJP Social Media اور I Support Narendra Bhai Modi BJP جیسے پیجوں پر تھرور کے بیان کے تعلق سے ایک تصویر جاری ہوئی، اس تصویر کے ہزاروں شئیر ہوئے۔ پیجوں پر تصویر کے کیپشن میں لکھا تھا کہ کانگریس کے ششی تھرور نے بھگوان شیو کی بے حرمتی کی، یہی ہے کانگریس کی سوچ۔ تصویر میں آج تک نیوز چینل کا اسکرین شاٹ ہے جس میں ایک طرف ششی تھرور کھڑے ہیں اور دوسری طرف ان کو منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے:
نریندر مودی کو ہٹانے کے لئے اگر مجھے شیولنگ پر چپل بھی مارنی پڑے تو میں مارونگا!
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ وہ تصویر جھوٹی ہے جس کو آج تک چینل کی ایک ویڈیو سے لیا گیا ہے۔ ویڈیو میں تقریباً 00:16 سیکنڈ پر ہوبہو وہی اسکرین شاٹ آتا ہے جو تصویر میں موجود ہے لیکن چینل کی ویڈیو میں موجود عبارت تصویر کی عبارت سے مختلف ہے۔ لہٰذا تصویر جھوٹی ہے۔ اور ششی تھرور نے ایسا کچھ نہیں کہا ہے جس کا تصویر دعویٰ کر رہی ہے :
ساؤتھ دہلی میں 25اکتوبرکوایک8سالہ بچےکی موت ہوگئی تھی۔محمدعظیم نامی یہ بچہ ایک مدرسےکاطالبعلم تھا۔بچےکی موت کےبعدآن لائن پورٹلوں پرجوخبریں شائع ہوئی تھیں ان میں یہ دعویٰ کیاگیاتھاکہ عظیم کوایک بھیڑ نے مذہبی تشدد کی بنا پر لنچ کر دیا۔لفظ lynch کا لغوی معنی ہوتا ہے کہ کس شخص کوبنا ٹرائل کے بھیڑ کے ہاتھوں پھانسی دےکر یا پیٹ کر مارا جانا۔بہت سے معروف پورٹلوں نے اس خبر کو شائع کیا تھا جن میں کارواں ڈیلی، دی سٹیزن اور سن برنگ انڈیا جیسے پورٹل شامل ہیں۔
لیکن نیوز لاؤنڈری پورٹل کے لئے صحافی امت بھاردواج نے ایک خبر لکھی اور ساؤتھ دہلی کی گراؤنڈ رپورٹ پیش کی۔ امت نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ عظیم کی موت کے تعلق سے ‘لنچنگ’ کی بات کرنا حقائق سے بے خبری کا ثبوت ہیں۔ انہوں نے CCTV میں قید ہوئے منظر کی بنا پر یہ دعویٰ کیا۔
عظیم کے دوستوں فیضان، ساحل اور آصف سے انہوں نے پورے معاملے کے تعلق سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے، اچانک ان کی گلی سامنے والی ہریجن جگی میں چلی گئی۔ جب مدرسے کے طالب علم وہاں گلی مانگنے گئے تو وہاں موجود بچوں نے گلی دینے سے منع کر دیا اور رپورٹ کے مطابق وو بچے عظیم اور اس کے دوستوں کو گالی دینے لگے۔اس پر عظیم اور اس کے دوستوں نے گلی نہ دینے کی نصیحت کی۔ لیکن حالات بےقابو ہوتے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچوں کے دو گروہ میں مار پیٹ شروع ہو گئی اور اسی مار پیٹ میں عظیم موٹر سائیکل کے نزدیک گر پڑا۔ گرنے کے باوجود بھی اس کو دوسرے گروہ کے بچے مارتے رہے اور عظیم نے دم توڑ دیا۔
عظیم کے والد نے 25اکتوبرکوہی ٹائمز اف انڈیا کو دیے بیان میں کہا تھا کہ ان کے بیٹے کی موت بچوں کی آپسی جھڑپ سے ہوئی ہے، یہ کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہے۔ لہٰذا اس پر سیاست کرنا غلط ہے۔
لہذا عظیم کی موت کے بعد جس طرح پورٹلوں پر لنچنگ کی بات کہی جا رہی تھی وہ دراصل فیک نیوز کی اشاعت ہی کہی جائےگی۔ کارواں ڈیلی نے فی الحال اپنی غلطی کو مانتے ہوئے معافی مانگی ہے اور ان کے مدیر نے کہا ہے کہ 25اکتوبرکولنچنگ لفظ استعمال کرناجلدبازی میں اٹھایاگیاقدم تھا۔
فیس بک پیج We Support Narendra Modi پر ایک پوسٹ کی گئی تھی جس میں دو تصویروں کو ایک ساتھ جوڑکر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کہ یہ تصویریں آسام کی ہیں۔ تصویر کے کیپشن میں ناگری رسم الخط میں لکھا تھا:
آسام کے کانگریس نیتا امجات علی سیب کی پیٹی میں ہتھیار اور گولیاں کے ساتھ حراست میں۔ ہندوؤں کو مارنے کا کر رہا تھا پلان۔ پولیس نے دبوچا !
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح اس پوسٹ میں ہندی/ناگری قواعد اور املا درست نہیں تھا اسی طرح اس پوسٹ کا حقیقت سے دور تلک واسطہ نہیں۔We Support Narendra Modi پیج پر اس پوسٹ کوخوب شئیرملےتھےاوردوسرےپیجوں پر بھی اس پوسٹ کوہزاروں کی تعداد میں شئیر کیا گیا تھا۔ اس پوسٹ میں جن دوتصویروں کااستعمال کیاگیاتھااس میں ایک تصویرمیں گرنیڈبم اوردوسرااسلحہ ہےاوردوسری تصویرمیں ایک داڑھی والا شخص موجود ہے جس کو کانگریس لیڈر بتایا گیا تھا اور جس کا نام بہت عجیب و غریب ڈھنگ سے لکھا گیا تھا:امجات علی سیب !
بوم لائیو نے اپنے انکشاف میں لکھا کہ اس نام کا کوئی شخص آسام کی کانگریس پارٹی میں نہیں ہے۔ بوم نے آسام پردیش کانگریس کمیٹی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس نام کا کوئی شخص آسام کانگریس کا حصّہ نہیں ہے۔
بوم نے پھر آسام پولیس کو فون کیا۔ آسام پولیس نے بھی یہ واضح کر دیا کہ امجات علی نامی شخص پر کسی بھی پولیس اسٹیشن میں کوئی معاملہ درج نہیں ہے۔ بوم نے گوگل میں اس نام کو سرچ کیا تو وہاں بھی کچھ ہاتھ نہیں لگا۔ البتہ، ان تصویروں کو گوگل میں ریورس امیج سرچ کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ یہ دونوں تصویریں دو مختلف معاملات کی ہیں اور دو مختلف ملکوں کی ہیں۔ جس تصویر میں داڑھی والا شخص ہے وہ بنگلہ دیش کی ہے اور وہ شخص کانگریس لیڈر نہیں ہے بلکہ ایک مدرسے کا مدرس ہے جس کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ اس شخص پر 13سال کی بچی کوجنسی طورپرہراساں کرنےکاالزام ہے۔اس شخص کا نام مبارک حسین ہے۔ بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی اسٹار کے مطابق اس بچی نے خودکشی کر لی تھی۔دوسری تصویر کشمیر کی ہے جہاں 28اکتوبرکوتین ملٹنٹ کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے پاس موجود اسلحہ کو ضبط کر لیا گیا تھا۔
ان دونوں تصویروں کو ایک ساتھ جوڑکر ایک غلط تصور تشکیل کرنے کی کوشش کی گئی جس میں عوام کو گمراہ کرنے اور فرقہ وارانہ تشدد کا مکمل بندوبست تھا۔
Categories: فکر و نظر