این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر مہر شرما نے لکھا ہے کہ ریزرو بینک اپنے منافع سے ہرسال حکومت کو 50 سے 60 ہزار کروڑ دیتی ہے۔ اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ کروڑ سے زیادہ کا ریزرو ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس ریزرو سے پیسہ دے تاکہ وہ انتخابات میں عوام کے بیچ گل چھرے اڑا سکے۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ نے 2010 میں ارجنٹائنا کے مالی بحران کا حوالہ کیوں دیا کہ مرکزی بینک اور حکومت کے درمیان جب تنازعہ ہوا تو مرکزی بینک کے گورنر نے استعفیٰ دے دیا اور پھر وہاں اقتصادی تباہی مچ گئی۔ ایک سمجھ دار سرکار اپنے فوری سیاسی فائدے کے لئے ایک ایسے انسٹی ٹیوٹ کو کمتر نہیں کرےگی جو ملک کے دورگامی مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ اس تناظر کو سمجھنے کے لئے ہمیں ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل اور ڈپٹی گورنر این ایس وشوناتھ کے پبلک میں دئے گئے بیانوں کو دیکھنا ہوگا۔
بلومبرگ ویب سائٹ پر ارا دگل نے بتایا ہے کہ کم سے کم چار مواقع پر ریزرو بینک کے اعلیٰ افسر پبلک کو صاف صاف اشارہ دے چکے ہیں کہ ریزرو بینک کے ریزرو پر نظر ٹیڑھی کی جا رہی ہے۔ اس سال جب پنجاب نیشنل بینک کا تقریباً 13000 کروڑ کا گھوٹالہ سامنے آیا تب وزیر خزانہ کہنے لگے کہ بینکوں کے بہی کھاتے تو آڈیٹر اور ریگولیٹر دیکھتے ہیں، پھر کیسے گھوٹالہ ہو گیا۔ اس کا جواب دیا ارجت پٹیل نے۔ مارچ میں گجرات لاء یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں کہا کہ بینکوں کو کنٹرول کرنے کے ہمارے حق بےحد محدود ہیں، ہمیں اور حق چاہیے۔
ہم بینکوں پر نگرانی تو کرتے ہیں لیکن اصلی کنٹرول حکومت کا ہے کیونکہ سرکاری بینکوں میں 80 فیصدی حصےداری ہونے کی وجہ سے اسی کا کنٹرول ہوتا ہے۔ ارجت پٹیل نے گھوٹالہ کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی۔ تب ارجت پٹیل کا ایک بیان مشہور ہوا تھا کہ وہ سسٹم کو صاف کرنے کے لئے نیل کنٹھ کی طرح زہر پینے کے لئے تیار ہیں اور اب وہ دن آ گیا ہے۔ میڈیا، حزب مخالف اور حکومت سب نے اس سخت بیان کو نوٹس نہیں کیا۔
چھاپنے کی فارملٹی پوری کی اور ملک رام مندر بنانے کی بحثوں میں مست ہو گیا۔ اپریل میں پونے کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ میں ڈپٹی گورنر این ایس وشوناتھن کی تقریر پر اکانومک ٹائمس کی ہیڈنگ غور کرنے لائق تھی۔ اخبار نے لکھا کہ ریزرو بینک نے اپنا دم دکھایا، امید ہے دم برقرار رہےگا۔ وشوناتھن نے کہا تھا کہ بینکوں کے لون کی صحیح تشخیص نہ کرنا بینک، حکومت اور بقائے داروں کو سوٹ کر رہا ہے۔ بینک اپنا بہی کھاتہ صاف ستھرا کر لیتے ہیں اور بقائےدار ڈفالٹر کا ٹیگ لگنے سے بچ جاتے ہیں۔
اس بیچ ایک اور واقعہ کو سمجھیے۔ 12 فروری کو ریزرو بینک ایک سرکلر جاری کرکے ان بینکوں کو اب اور بڑے قرض دینے پر روک لگا دیتا ہے جن کا این پی اے خاص حد سے زیادہ ہو چکا ہے۔سرکلر کے مطابق؛ اگر قرض دار لون چکانے میں ایک دن بھی تاخیر کرتا ہے تو اس کو این پی اے اعلان کر دیا جائے۔ لون سلٹانے کے لئے محض 180 دن کا وقت دےکر دیوالیہ اعلان کرنے کا کام شروع ہو جائے۔ اس سرکلر کو لےکر بزنس اخباروں میں حکومت، ریزرو بینک اور بڑے بقائے داروں کے درمیان خوب خبریں چھپتی ہیں۔ ان خبروں سے لگتا ہے کہ حکومت ریزرو بینک پر دباؤ ڈال رہی ہے اور ریزرو بینک اس دباؤ کو جھٹک رہا ہے۔
ریزرو بینک کی اس سختی سے کئی کمپنیاں متاثر ہوئیں مگر بجلی پروڈکشن سے جڑی کمپنیاں زیادہ متاثر ہو گئیں۔ ان پر تقریباً ایک لاکھ کروڑ کا بقایا تھا اور یہ سرکلر تلوار کی طرح لٹک گیا۔ تب بجلی کے وزیر آر کے سنگھ نے پبلک میں بیان دیا تھا کہ ریزرو بینک کا یہ قدم غیر عملی ہے اور وہ اس میں تبدیلی کرے۔ پاور سیکٹر کی کمپنیاں کورٹ چلی گئیں۔ ریزرو بینک نے اپنے فیصلے کو نہیں پلٹا۔ سپریم کورٹ سے پاور کمپنیوں کو راحت تو ملی ہے مگر چند دنوں کی ہے۔
اگست مہینے میں انڈین ایکسپریس میں خبر چھپتی ہے کہ ریزرو بینک 12 فروری کے سرکلر کے دائرے میں NBFC کو بھی لانے پر غور کر رہا ہے۔ اس وقت حکومت کی 12 غیر بینکنگ مالی کمپنیاں ہیں۔ان میں 16 مرکزی حکومت کی ہیں۔ اس وقت آئی ایل اینڈ ایف ایس کا معاملہ چل رہا ہے۔ ابھی اس پوائنٹ کو یہاں روکتے ہیں مگر آگے اس کا ذکر ہوگا۔ یہ کیوں نہیں ہو سکا، ریزرو بینک ہی بہتر بتا سکےگا، دباؤ میں نہیں ہوا یا فطری طورپر نہیں ہوا۔
13 اکتوبر کو ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ آئی آئی ٹی بامبے میں پھر سے اس سرکلر کا بچاؤ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بینکوں پر پابندی لگانے سے برے لون پر اثر پڑا ہے اور بینکوں کی حالت بگڑنے سے بچی ہے۔ اس لئے اس کا جاری رہنا بہت ضروری ہے۔ حکومت، کمپنیاں اور بینک اس سرکلر کے پیچھے پڑ گئے۔ اس سرکلر سے دس بیس بڑے صنعت کار ہی متاثر تھے کیونکہ دیوالیہ ہونے پر ان کی ساکھ مٹی میں مل جاتی۔ ان کو نیا قرض ملنا بند ہو گیا جس کی وجہ سے پرانے قرض کو چکانے پر تقریباً 18فیصد کے بیاج پر لون لینا پڑ رہا تھا۔
سپریم کورٹ کی راحت بھی دو مہینے کی ہے۔ وہ گھڑی بھی قریب آ رہی ہے۔ اگر کچھ نہیں ہوا تو ان کو بینکوں کو تین-چار لاکھ کروڑ چکانے پڑیںگے۔ ان کی مدد تبھی ہو سکتی ہے جب ریزرو بینک اپنا سرکلر واپس لے۔ اب پبلک میں اپنے سرکلر کا اتنا بچاؤ کرنے کے بعد ریزرو بینک کے پاس راستہ نہیں بچتا ہے۔ حکومت بڑے صنعت کاروں کے نام پر کھلےعام نہیں کر سکتی ہے اس لئے کہہ رہی ہے کہ چھوٹے اور منجھلے انٹرپرائز کو لون نہیں مل رہا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی پارلیامنٹ کی Evaluation Committee بینکوں کے این پی اے کی جانچکر رہی ہے۔ اس کمیٹی کو رگھو رام راجن نے 17 صفحات کا نوٹ بھیجا اور بتایا کہ انہوں نے کئی کمپنیوں کی فہرست وزیر اعظم دفتر اور فنانس منسٹری کو دی تھی۔ یہ وہ کمپنیاں ہیں جو لون نہیں چکا رہی ہیں اور لون کا حساب کتاب ادھر ادھر کرنے کے لئے فرضی واڑہ کر رہی ہیں۔ اس کی جانچ کے لئے الگ الگ ایجنسیوں کی ضرورت ہے۔ ریزرو بینک اکیلے نہیں کر سکتا۔
دی وائر کے دھیرج مشر کی رپورٹ ہے کہ ریزرو بینک نے آر ٹی آئی کے تحت اس جانکاری کی تصدیق کی ہے کہ راجن نے اپنا خط 4 فروری 2015 کو وزیر اعظم دفتر کو بھیج دیا تھا۔اس خط میں ان بقائے داروں کی فہرست تھی، جن کے خلاف راجن جانچ چاہتے تھے۔ وزیر اعظم مودی یہی بتا دیں کہ راجن کی دی ہوئی فہرست پر کیا کارروائی ہوئی ہے۔ دی وائر پر ایم کے وینو نے لکھا ہے کہ پاور کمپنیوں کو لون دلانے کے لئے حکومت ریزرو بینک پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ کچھ کمپنیوں کا گروپ ریزرو بینک کے جھک جانے کا انتظار کر رہا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر مہر شرما نے لکھا ہے کہ ریزرو بینک اپنے منافع سے ہرسال حکومت کو 50 سے 60 ہزار کروڑ دیتی ہے۔ اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ کروڑ سے زیادہ کا ریزرو ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس ریزرو سے پیسہ دے تاکہ وہ انتخابات میں عوام کے درمیان گل چھرے اڑا سکے۔ حکومت نے ایسا پبلک میں نہیں کہا ہے لیکن یہ ہوا تو ملک کی معیشت کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ یہ بھی اشارہ جائےگا کہ حکومت کا خزانہ خالی ہو چکا ہے اور اس کو ریزرو بینک کے ریزرو سے ہی امید ہے۔
اب آپ منی کنٹرول کی اس خبر پر غور کریں۔ آج ہی چھپی ہے۔ وزارت خزانہ کے تحت اقتصادی معاملوں کے محکمہ (DEA) کو ڈر ہے کہ اگر غیر مالی بینکنگ اور ہاؤسنگ فنانس کمپنیوں کو اضافی پیسہ نہیں ملا تو 6 مہینے کے اندر یہ بھی لون چکانے کی حالت میں نہیں رہیںگی۔ منی کنٹرول نے اقتصادی معاملوں کے محکمے کے نوٹ کا بھی اسکرین شاٹ لگایا ہے۔ DEA نے لکھا ہے کہ مالی حالت ابھی بھی نازک ہے۔ اس کا اثر سنگین پڑنے والا ہے۔
DEA کے مطابق NBFC / HFC پر دو لاکھ کروڑ کا بقایا ہے۔ اگر غیر بینکنگ مالی کمپنیاں لون چکانے میں ڈیفالٹ کریںگی تو ہنگامہ مچ جائےگا۔ حال ہی میں جب IL&FSنے لون چکانے کی ڈیڈلائن مس کی تھی تو بازار میں ہڑکمپ مچ گیا تھا۔یہ وہ انسٹی ٹیوٹ ہیں جو بینکوں سے لےکر آگے لون دیتی ہیں۔ریزرو بینک پر دباؤ اس لئے بھی ڈالا جا رہا ہے تاکہ وہ ان اداروں میں پیسے ڈالے اور یہاں سے خاص صنعت کاروں کو قرض ملنے لگے۔مگر ریزرو بینک نے تو اگست میں ان اداروں پر بھی فروری کا سرکلر نافذ کرنے کی بات کہی تھی، لگتا ہے کہ اس معاملے میں ریزرو بینک نے اپنا قدم روک لیا ہے۔ تو ایسا نہیں ہے کہ دباؤ کام نہیں کر رہا ہے۔
دسمبر تک 2 لاکھ کروڑ کا بقایا چکانا ہے۔ اس کے بعد جنوری مارچ 2019 تک 2.7 لاکھ کروڑ کے کمرشیل پیپر اور Non Convertible Debentures کی بھی ادائیگی کرنی ہے۔ مطلب چیلنج ریزرو بینک کے ریزرو کو ہڑپ لینے سے بھی نہیں سنبھلنے والے ہیں۔ DEA نے صاف صاف کہا ہے کہ حکومت کو ان کو پیسے دےکر سپورٹ کرنا ہوگا ورنہ حالات بگڑیںگے جس سے پروڈکشن سیکٹر پر بہت برا اثر پڑےگا۔ اس بات کو لےکر ریزرو بینک اور وزارت خزانہ کی میٹنگ میں خوب ٹکراؤ ہوا ہے۔
میڈیا رپورٹ ہے کہ حکومت نے ریزرو بینک کے 83 سال کی تاریخ میں پہلی بار سیکشن 7 کا استعمال کرتے ہوئے ریزرو بینک کو ہدایت دی ہے۔ مگر بیان جاری کیا گیا ہے کہ وہ ریزرو بینک کی خود مختاری کی عزت کرتی ہے اور اس کی خود مختاری کا بنا رہنا بہت ضروری ہے۔ ارجت پٹیل گورنر بنے رہیں گے تو ریزرو بینک کی خود مختاری داؤ پر لگا سکتے ہیں یا استعفیٰ دےکر اس کی خود مختاری کے سوال کو پبلک کے بیچ چھوڑ سکتے ہیں۔
وزیر خزانہ ارون جیٹلی بنا نام لئے بار بار کہہ رہے ہیں کہ جو منتخب لوگ ہوتے ہیں ان کی جوابدہی ہوتی ہے، ریگولیٹر کی نہیں ہوتی ہے۔ اس بات کی تنقید کرتے ہوئے فنانشیل ایکسپریس کے سنیل جین نے ایک ایڈیٹوریل لکھا ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ سبھی پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کی قیمت یو پی اے کے دس سال کی حکومت میں 6 لاکھ کروڑ گھٹا مگر مودی حکومت کے 5 سال سے کم وقت میں ہی 11 لاکھ کروڑ کم ہو گیا۔ کیا اس بنیاد پر عوام ان کے مستقبل کا فیصلہ کرےگی؟ کہنے کا مطلب ہے کہ یہ سب انتخابی مدعے نہیں ہوتے ہیں، اس لئے ان کی جوابدہی اداروں کی خود مختاری سے ہی طے ہوتی ہے۔
سرکار کی ان ناکامیوں پر کوئی بات نہیں کرتا ،ہر کسی کی یہی ترجیح ہے کہ خبر کسی طرح مینج ہو جائے، پوری طرح مینج نہیں ہو پائے تو کوئی دوسری خبر ایسی ہو جو اس خبر سے بڑی ہو جائے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔مگر آپ کا اقتصادی مستقبل کس موڑ پر ہے، وہ آپ کو خود بھی نظر آ جائےگا۔ ایک خبر کو کئی اخباروں میں پڑھنے سے ہوتا یہ ہے کہ میڈیا اور اس خبر کا حال کا پتا چل جاتا ہے۔ جیسے ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ آئی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھرکے بینکوں میں 20 فیصد اکاؤنٹ ایسے ہیں جن میں ایک پیسہ نہیں ہے۔ زیرو بیلنس والے کھاتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہندوستان میں ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ۔ 48 فیصد اکاؤنٹ میں کوئی پیسہ نہیں ہے۔ غیر فعال کھاتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے جندھن یوجنا۔ حکومت نہیں مانتی ہے۔مگر عوام تو جانتی ہے۔
(یہ مضمون بنیا دی طور پر رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر