دگوجئے سنگھ کی قیادت والی اس وقت کی کانگریس حکومت نے بی آر امبیڈکر کے اعزاز میں جون 2003 میں مہو کا نام بدلکر’امبیڈکر نگر ‘ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نئی دہلی : الہ آباد کا نام بدلکر پریاگ راج کئے جانے کے بعد ملک میں شہروں کے ناموں میں تبدیلی کو لےکر بحث تیز ہو گئی ہے۔ لیکن کیا مقامات کے نام میں یکایک سرکاری تبدیلی کو عام لوگوں کے ذریعے آسانی سے اپنا لیا جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایک مثال آئین ساز ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی مدھیہ پردیش کے اندور ضلع میں واقع جائے پیدائش مہو کی بھی دی جا سکتی ہے۔
لشکرکی چھاؤنی کے طور پر تاریخی شناخت کی اسی سال دو صدی مکمل کرنے والا یہ قصبہ ریاستی حکومت کے ذریعے نام تبدیل کرنے کے ڈیڑھ دہائی بعد بھی عوام میں عملی طور پر ‘ امبیڈکر نگر ‘ نہیں بن سکا ہے۔ دگوجئے سنگھ کی رہنمائی والی اس وقت کی کانگریس حکومت نے ‘ دلتوں کے مسیحا ‘ کے اعزاز میں جون 2003 میں مہو کا نام بدلکر ‘ امبیڈکر نگر ‘ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مرکز کی موجودہ نریندر مودی حکومت ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے مہو ریلوے اسٹیشن کا نام بدلکر ‘ ڈاکٹر امبیڈکر نگر ریلوے اسٹیشن ‘ کر چکی ہے۔
بہر حال، اندور سے تقریباً 25 کلومیٹر دور مہو میں دکانوں کے سائن بورڈ سے لےکر لوگوں کے عام عمل میں اس قصبے کے تبدیل شدہ نام یعنی ‘ امبیڈکر نگر ‘ کا رواج اب بھی بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے پوتے اور سابق لوک سبھا رکن پارلیامان پرکاش امبیڈکر نے کہا کہ آئین ساز کی وراثت اتنی عظیم اور مضبوط ہے کہ اس کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مہو کو ‘ مہو ‘ ہی کہا جائے یا ‘ امبیڈکر نگر ‘۔
انہوں نے کہا، ‘ مہو تاریخی لشکرکی چھاؤنی کے ساتھ بابا صاحب کی جائے پیدائش کے طور پر بھی مشہور ہے۔ لیکن میری نجی رائے میں اس قصبے کو مہو کے پرانے نام سے ہی پکارا جانا چاہیے، کیونکہ اس سے لشکرکی تاریخ کے ساتھ اس کا جڑاؤ آگے بھی بنا رہےگا۔ ویسے بھی عوام کی زبان پر مہو کا نام چڑھ چکا ہے۔ ‘ ملک میں مبینہ طور پر سیاسی فائدے کی نیت سے شہروں کے نام بدلے جانے کے سلسلے پر عدم اتفاق جتاتے ہوئے امبیڈکر کے پوتے نے کہا، ‘ کسی جگہ کا نام بھر بدل دینے سے اس کی نئی تاریخ نہیں بن جاتی۔ ‘
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے آرمی افسر رام جی مالوجی سکپال اور بھیمابائی کی اولاد کے طور پر 14 اپریل 1891 کو مہو کے کالی پلٹن علاقے میں پیدا ہوا تھا۔ اسی مقام پر امبیڈکر کی یادگار بنائی گئی ہے۔ یہ جاننا دلچسپ ہے کہ برطانی لشکر کی چھاؤنی کے طور پر مہو کو بسائے جانے کی بنیاد سال 1818 میں اندور ریاست کے اس وقت کے ہولکر حکمرانوں اور انگریزوں کے درمیان ایک معاہدےسے پڑی تھی۔ اس قصبے کا نام دراصل ملیٹری ہیڈکوارٹرس آف وار (ایم ایچ او ڈبلیو) تھا۔ سال 1947 میں انگریزی حکومت سے ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی مہو کی لشکر چھاؤنی کے درجے کو برقرار رکھا گیا۔ اس قصبے میں انڈین آرمی کے کچھ اہم ادارے ہیں۔
اس بیچ، امبیڈکر کے پیروکار لگاتار مانگکر رہے ہیں کہ عوامی عمل میں مہو کی جگہ پر ‘ امبیڈکر نگر ‘ کا استعمال کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ تبدیل شدہ نام آئین ساز کی پروقار وراثت سے سیدھے جڑا ہے۔ مہو امبیڈکر کی جائے پیدائش پر بنے میموریل سے جڑی ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر میموریل سوسائٹی کے سکریٹری موہن راؤ واکوڑے نے کہا، ‘ امبیڈکر نگر کانام ہمارے وقار سے جڑا ہے۔ مہو کا نام بدلوانے کے لئے ہم نے سال 2002 میں دستخط کی مہم چلاتے ہوئے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو اس مدعے سے جوڑا تھا۔ ‘
عام بول چال میں ‘ امبیڈکر نگر ‘ کے مقابلے مہو کے زیادہ استعمال کے پیچھے لسانیاتی سائنس کا ایک عام سا فارمولا بھی ذمہ دار ہے۔ جیسا کہ مہو میں پیدا ہوئے سماجی کارکن دیپک ویبھاکر نائک کہتے ہیں، ‘ مہو صرف دو حرفوں کا لفظ ہے اور اس کا تلفظ عام لوگوں کو نسبتاً زیادہ آسان لگتا ہے۔ ‘ انہوں نے کہا کہ مہو کی دو صدی پرانی فوجی شناخت سے مقامی لوگوں کا گہرا جذباتی تعلق ہے۔ اس لئے قصبے کا پرانا نام مہو، ان باشدوں کے دل کے بےحد قریب ہے۔
Categories: خبریں