سی سی ایس جیسے قانون کا مقصد اعلیٰ تعلیم کے مقاصد کو ہی تباہ کر دینا ہے۔اعلیٰ تعلیم میں ترقی تب تک ممکن نہیں ہے جب تک خیالات کے لین دین کی آزادی نہ ہو۔اگر ان اداروں کا یہ رول ہی ختم ہو جائے تو اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہی کیا رہےگی؟ ٹیچر اور ریسرچ اسکالر سرکاری ملازم کی طرح عمل نہیں کر سکتے۔
حال ہی میں جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں CENTRAL EMPLOYEE SERVICES (درجہ بندی،کنٹرول اور اپیل سے متعلق) اصول (سی سی ایس رول) 1965 نافذ کئے جانے سے متعلق تنازعہ سرخیوں میں تھا۔وہیں دوسری طرف ایم ایچ آر ڈی کے ذریعے دہلی یونیورسٹی میں Essential Services Maintenance Act (ای ایس ایم اے) نافذ کیے جانے سے متعلق ایک کمیٹی کی تشکیل سے بھی تنازعہ پیدا ہوا۔ ان دونوں ہی مدعوں پر سینٹرل یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن ، دہلی یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن اور جے این یو ٹیچرس ایسوسی ایشن کے ذریعے پرزور مخالفت کی گئی۔ ملک کے مختلف حصوں کی اساتذہ تنظیموں نے بھی حکومت کی اس طرح کی کوششوں کی پرزور مخالفت کی۔
اس طرح کی بڑھتی مخالفت کو دیکھتے ہوئے حالانکہ ایم ایچ آر ڈی وزیر پرکاش جاویڈکر نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی ایسے کسی بھی طرح کے قانون کو نافذ کرنے کی کوئی منشاء نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت جے این یو یا دوسری کسی یونیورسٹی میں اظہار کی آزادی پر کوئی روک نہیں لگانا چاہتی۔ جناب وزیر کے اس بیان کے بعد جے این یو انتظامیہ کی طرف سے بھی یہ صفائی دی گئی کہ انتظامیہ کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسی طرح دہلی یونیورسٹی میں بھی ای ایس ایم اے نافذ کرنے کی بات کو خارج کر دیا گیا۔
ان سب بیان بازیوں سے یہ مدعا ایک بار تو تھم گیا سا لگتا ہے پر پچھلے چار سالوں کی ایجوکیشن پالیسی کے ڈھانچے کو دیکھکر ایسا نہیں لگتا کہ یہ مدعا لمبے وقت تک رکےگا۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں ان قوانین کو پہلے ہی الگ الگ طریقے سے نافذ کیا جا چکا ہے۔ سینٹرل یونیورسٹی آف کیرل، گجرات سینٹرل یونیورسٹی میں اور کئی دوسرے معاملوں میں بھی انہی قوانین کو بنیاد بناتے ہوئے اساتذہ کے خلاف انضباطی کارروائی کی گئی۔ کیرل میں ایک استاد کو فیس بک پوسٹ کے لئے سزا دی گئی۔
وہیں جے این یو میں پر امن مظاہرہ کرنے اور انتظامیہ کی تعلیم مخالف پالیسیوں پر آواز اٹھانے کے لئے 48 اساتذہ کو سی سی ایس (سی سی اے) قانون کا حوالہ دیتے ہوئے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کر دیا گیا (جس میں قلم کار کا نام بھی شامل ہے)۔لیکن ایسے میں سوال یہ ہے کہ ان اصولوں میں ایسا ہے کیا جس کی وجہ سے اتنی مخالفت ہو رہی ہے؟ اور اسی وقت یہ اصول کیوں؟
غور طلب ہے کہ حکومت کے کئی پالیسی بنانے والے اپنی تقریروں اور بیانات میں یونیورسٹیوں پر سیاسی الزام لگا چکے ہیں۔ حکمراں جماعت اور حکومت میں ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو یہ مانتا ہے اعلیٰ تعلیمی نظام میں نظریاتی اور ادارہ جاتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ آنے والے اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں ٹیچرس کمیونٹی کے ذریعے سیاسی مدعوں پر بحث میں شرکت اور سرکاری پالیسیوں پر تنقیدی تبصرےووٹر کے رویے کو متاثر کر سکتے ہیں ۔ اس لئے اس طبقے کو سیاسی مین اسٹریم سے الگ کرنے کا یہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔
اصل میں مرکزی ملازمین کو سیاسی زندگی سے مایوس کرنے اور کسی بھی قسم کی تنظیم سے جڑنے سے روکنے کے لئے سی سی ایس اصول ہیں۔ ان اصولوں کے تحت حکومت کے خلاف کچھ بھی بولنا یا سرکاری پالیسیوں کے خلاف کچھ بھی بولنا یا لکھنا منع ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی افسر (یہ قانون نافذ ہونے کی حالت میں استاد بھی) کچھ بھی لکھنا چاہتا ہے تو اس کی اجازت تحریر میں اعلیٰ افسروں سے لینی پڑتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں بغیر اجازت نہ تو کوئی سرکاری پالیسی یا اس سے متعلق مدعے پر بول سکتا ہے اور نہ ہی لکھ سکتا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف بولنا یا تعلیم کے لئے اپنے حقوق کی مانگ کرنا سبھی غیر قانونی سرگرمیوں میں شمار ہوں گے اور ایسا کرنے پر انضباطی کارروائی کی جا سکےگی۔ یونیورسٹی انتظامیہ یا اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افسر (جن میں استاد بھی شامل ہیں) کے خلاف کچھ بھی بولنے پر یونیورسٹی کی امیج خراب کرنے کا الزام لگاکر انضباطی کارروائی کی جا سکےگی۔ اسی طرح کچھ سروسیز کو ای ایس ایم اے کے تحت ضروری اعلان کیا گیا ہے جیسے صحت خدمات۔
ای ایس ایم اے کے تحت افسروں یا ملازمین کو کسی بھی قسم کی سروس میں رکاوٹ پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں یونیورسٹیوں میں کسی بھی قسم کی سروس میں رکاوٹ پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ایسا کرنے پر ای ایس ایم اے کے تحت جیل تک کا اہتمام ہے۔ اس طرح کے قوانین کو نافذ کرنے کی منشاء حکومت کے ذریعے لگاتار یہ بتانے کی کوشش ہے کہ تعلیمی اداروں میں تعلیمی خیالات اور بحث کو نہ پنپنے دیا جائے۔
حالانکہ کئی بار ان قوانین کی مخالفت صرف سوشل سائنس پر پڑنے والے منفی اثرات کے مدنظر کی جاتی ہے پر اصل میں ایسے مشینی قاعدے،قانون کسی بھی قسم کی تعلیم میں رکاوٹ ہی پیدا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک پالیٹیکل سائنٹسٹ ، جہاں ہندوستانی جمہوریت میں گراوٹ اور پالیسی نظام میں کمیوں کی طرف اشارہ نہیں کر سکتا، وہیں ایک ماہر حیاتیات یا ماہر ماحولیات ، جی ایم بیجوں پر سرکاری فیصلوں کے خلاف اپنی ریسرچ کو نہیں رکھ پائیںگے۔
کیمسٹ یہ نہیں بتا پائیںگے کہ حکومت کے ذریعے حوصلہ افزائی کئے جانے والے کیمیائی کھاد اور دوسرے مواد کا انسانی صحت پر کیا اثر پڑےگا۔ کیونکہ ایسا کرنا تعلیمی ادارے کے خلاف مانا جا سکتا ہے اور ریسرچ اسکالر کے خلاف انضباطی کارروائی کے لئے کافی ہے۔ ملک کے ایک مشہور میڈیا ہاؤس نے پہلے ہی ایسے اصولوں کو اپنا لیا ہے، جس میں صحافت کے اسٹوڈنٹ حکومت کے خلاف نہیں لکھ سکتے۔ ایسے قدم نہ صرف غیرجمہوری ہے بلکہ تعلیم کے اصل مقصد کے ہی خلاف ہے۔
اظہار آزادی کی پامالی کے علا وہ شہریوں کے صحیح اور غلط میں فرق کرنے سے متعلق رائٹ ٹو انفارمیشن کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ پچھلے 4 سالوں سے ملک بھر میں ٹیچر اور اسٹوڈنٹس حکومت کی عوام مخالف تعلیمی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ حکومت کی پالیسی میں کچھ تبدیلی جس کو لےکر یہ اختلاف ہے وہ ہے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ادارہ کے ہیڈ کے عہدے پر سیاسی تقرری اور تعلیمی اداروں میں ایک خاص قسم کی سیاست کو قائم کرنے کی کوشش۔
حالانکہ تعلیمی اداروں میں ادارہ کے ہیڈ کی تقرری میں سیاسی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن تعلیم میں کسی خاص شخص کی خدمات کو کوئی ترجیح دیے بغیر صرف سیاسی بنیاد پر تقرری، اور وہ بھی اتنے بڑے پیمانے پر، شاید آزاد ہندوستان میں پہلی بار ہے۔ اس کا نتیجہ سیدھا سیدھا یہ ہوا ہے کہ ایم ایچ آر ڈی سے تعلیمی پالیسی میں آنے والی تبدیلی سے متعلق ہدایت اب حکم کی طرح مانی جانی لگی ہے۔ اسی سلسلے میں تعلیمی اداروں کے سربراہ اب تعلیمی اداروں اور وزارت یا دیوسرے ادارہ (جیسے یو جی سی) کے بیچ میں ایک کڑی کا کام نہ کرکے، خود کو ایک ایڈمنسٹریٹیو افسر کے رول میں زیادہ دیکھتے ہیں۔
ان کا کام اب یہ متعین کرنا ہے کہ سرکاری احکام پر عمل کیا جائے۔ اسی طرح ان کا دوسرا اہم رول جو پچھلے کچھ سالوں میں سامنے آیا ہے وہ ہے تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طالب علموں میں انتظام کے نام پر آزاد سوچ اور علم کی دریافت کی حوصلہ شکنی کرنا۔ اصل میں ان قوانین کا مقصد اعلیٰ تعلیم کے مقاصد کو ہی تباہ کر دینا ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں ترقی تب تک ممکن نہیں ہے جب تک خیالات کے لین دین کی آزادی نہ ہو۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے عوامی رابطہ کے دفتر نہیں ہوتے۔ ان کا مقصد ہی ہے سرکاری پروگراموں، پالیسیوں، رویے کو لگاتار جانچنا اور پرکھنا۔
اگر ان اداروں کا یہ کردار ہی ختم ہو جائے تو اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہی کیا رہےگی؟ اور ٹیچر ، ریسرچ اسکالر سرکاری ملازمین کی طرح عمل نہیں کر سکتے۔ ذرا سوچیے اگر ملک کے ججوں کو بھی اسی طرح کے اصولوں سے صرف اسی لئے باندھ دیا جائے کیونکہ ان کو بھی سرکاری تنخواہ اور سہولیات ملتی ہیں تو کیا وہ اپنا کام آزادی سےکر پائیںگے۔ کیا ملک کی عدلیہ وہ کردار ملک کی تعمیر اور جمہوریت کو بچانے میں، عوامی حقوق کو بچانے میں نبھا پاتی اگر وہ صرف سرکاری ملازم کی طرح دیکھی جاتی؟
مختلف ادارے اپنا کام آزادی سےکر پائیں اس کے لئے آزاد سوچ ضروری ہے۔ تعلیمی ادارہ نہ تو فیکٹری کی طرح کام کر سکتے ہیں، نہ ہی سرکاری دفتر کی طرح اور نہ ہی پولیس نما ڈسپلن پر۔ تعلیمی اداروں، خاص طورپر اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ایک خاص کیریکٹر ہوتا ہے۔ ایسے اصول اس کے اس کیریکٹر کو ہی تباہ کر دیںگے۔ اصل میں ایسے اصول ڈر کا، آپسی عدم اعتماد کا ماحول بنانے کا کام کرتے ہیں۔
لیکن یہ مدعا یہی ختم نہیں ہو جاتا۔ اصل میں ان قوانین کو نافذ کرنے کا ایک پس منظر ہے اور اس کو اسی نقطہٴ نظر میں دیکھا جانا ضروری ہے۔ سابق ایم ایچ آر ڈی کے وزیر کو ہٹانے کے پیچھے ایک اہم وجہ تھی کہ آئی آئی ایم کو خودمختاری دینے کے مدعے پر انہوں نے سوال اٹھائے تھے۔ کس طرح ملک کے کئی نامی گرامی تعلیمی اداروں کو درکنار کرتے ہوئے ریلائنس کے تعلیمی ادارہ (جیو انسٹی ٹیوٹ) کو انسٹی ٹیوٹ آف ایمننس کا خطاب ملا یہ بھی جگ ظاہر ہے۔
ایسے میں تعلیمی نظام کی نجی کاری کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے ملک کی پرانی مشہور یونیورسٹی اور نئی مرکزی یونیورسٹی۔ ان دونوں ہی قسم کے اعلیٰ تعلیمی اداروں نے سستی اور دستیاب تعلیم عطا کرنے کا کام کیا ہے۔ مہنگی تجارتی، پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی نظام کی تب تک حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی جب تک ان اداروں کو اپنا کام ٹھیک سے کرنے سے روکا نہ جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ان سب مدعوں پر دھیان دینے کے بجائے جن کی وجہ سے یونیورسٹی کا ایڈ منسٹریٹیو سسٹم ٹھیک سے چل سکے (جیسے اساتذہ کی تقرری،ایڈمنسٹریٹیو اسٹاف، کتابیں، تعلیمی سرگرمیوں کو حوصلہ افزائی دینے کے لئے پروگرام، کمزور اقتصادی اور تعلیمی پس منظر سے آنے والے اسٹوڈنٹس کے لئے خاص اہتمام وغیرہ)، انتظامیہ کا اہم دھیان اساتذہ اور طالب علموں کو ‘ ڈسپلنڈ ‘ کرنے پر ہے۔
اتناہی نہیں یہ کوشش ایسے اداروں میں بھی ہیں جہاں اس طرح کا کوئی مسئلہ کبھی دیکھا ہی نہیں گیا۔ پر ایک دو مثالوں کو لےکر پوری یونیورسٹی انتظامیہ کو تباہ کرنا نئی سرکار کا واضح مقصد معلوم ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک اور حقیقت پر دھیان دینا ضروری ہے۔ ایک طرف جہاں ملک کے مہانگروں، صرف دہلی یا ممبئی جیسے شہروں میں ہی نہیں بلکہ راجدھانی علاقوں جیسے لکھنؤ، جئے پور، بھوپال وغیرہ میں بھی تعلیم کی نجی کاری سے نجی اداروں کی توسیع ہوئی ہے۔
ایک طرف جہاں مرکزی یونیورسٹیوں اور دوسری سرکاری یونیورسٹیوں میں ٹیچرس اور ریسرچ اسکالرس پر حکومت کے خلاف پالیسیوں پر لکھنے یا تبصرہ کرنے پر پہرا ہوگا، نئے اصول اور قوانین کا، وہیں دوسری طرف پرائیویٹ سیکٹر میں ریسرچ اسکالرس کو ایسا کرنے کی آزادی ہوگی۔ یعنی ایک طرف پالیسی کی تعمیر اور تعین میں پرائیویٹ سیکٹر کو ترجیح ہوگی وہی دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں میں ایک طرف سہولیات کی کمی ہوگی، اساتذہ کی کمی ہوگی اور اوپر سے کچھ بھی بولنے پر ایسے قاعدے،قانون۔ اس طرح کے سسٹم کے کیا سنگین نتائج ہوںگے اب قاری خود ہی سمجھ سکتا ہے۔
(سدھیر کمار ستھار جے این یو ٹی اے کے سکریٹری ہیں۔)
Categories: فکر و نظر