ریزرو بینک آف انڈیا نے آر ٹی آئی ایکٹ کے ایک اہتمام کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ظاہر کرنے سے انکار کر دیا کہ 500 اور 1000 روپے کےان بند ہو چکے نوٹوں کو تباہ کرنے میں سرکاری خزانے سے کتنی رقم خرچ ہوئی۔
نئی دہلی: ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی )نے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی )کے تحت بتایا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد واپس آئے کل 15310.73ارب روپے کی قیمت کے بند نوٹوں کو تباہ کرنے کا پروسیس اس سال مارچ کے آخر میں ختم ہو چکا ہے۔ حالانکہ سینٹرل بینک نے آر ٹی آئی ایکٹ کے ایک اہتمام کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ظاہر کرنے سے انکار کر دیا کہ 500 اور 1000 روپے کےان بند ہو چکے نوٹوں کو تباہ کرنے میں سرکاری خزانے سے کتنی رقم خرچ ہوئی۔
مدھیہ پردیش کے نیمچ کے رہنے والے آر ٹی آئی کارکن چندر شیکھر گوڑ نے منگل کو بتایا کہ ان کو آر بی آئی کے ڈپارٹمنٹ آف کرنسی مینجمنٹ کے 29 اکتوبر کو بھیجے خط سے بند ہو گئے بینک نوٹوں کو برباد کیے جانے کے بارے میں جانکاری ملی۔ گوڑ کی آر ٹی آئی عرضی پر آر بی آئی کے ایک سینئر افسر نے جواب دیا کہ ‘ سی وی پی ایس کی مشینوں کے ذریعے 500 اور 1000 روپے کےنوٹوں کے ایس بی این کو تباہ کیا گیا۔ یہ پروسیس مارچ کے آخر تک ختم ہوا۔
یہاں ایس بی این سے مراد 500 اور 1000 روپے کے بند نوٹوں سے ہے۔ آر ٹی آئی کے تحت یہ بھی بتایا گیا کہ 8 نومبر 2016 کو جب نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا تب آر بی آئی کی تصدیق اور ملان کے مطابق 500 اور 1000 روپے کے کل 15417.93ارب روپے کی قیمت کے نوٹ چلن میں تھے۔نوٹ بندی کے بعد ان میں سے 15310.73ارب روپے کے نوٹ بینکنگ سیکٹر میں لوٹ آئے۔
آر ٹی آئی کے جواب سے یہ واضح ہے کہ نوٹ بندی کے بعد صرف 107.20ارب روپے کی قیمت کے بند کیے گئے نوٹ بینکوں کے پاس واپس نہیں آ سکے۔ گوڑ نے اپنی آر ٹی آئی عرضی کے ذریعے آر بی آئی سے یہ بھی جاننا چاہا تھا کہ بند کیے گئے نوٹوں کو تباہ کرنے میں کتنی رقم خرچ کی گئی۔ اس سوال پر آر بی آئی کی طرف سے بھیجے گئے جواب میں کہا گیا ،’ یہ اطلاع جس صورت میں مانگی گئی ہے ، اس صورت میں ہمارے پا س موجود نہیں ہے۔ اور اس کو جمع کرنے میں بینک کے سورس گمراہ ہوں گے۔ اس لیے مانگی گئی جانکاری آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کی دفعہ 7(9)کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے۔’
انھوں نے بتایا کہ ان کی عرضی میں یہ بھی سوال کیا گیا تھا کہ نوٹ بند ہونے کے بعد 500 اور 1000 روپے کے تباہ کیے گئے نوٹوں کی کل تعداد کتنی تھی۔ لیکن ان کو اس بارے میں آر بی آئی سے مخصوص جانکاری نہیں ملی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں