گراؤنڈ رپورٹ:20 اکتوبر کو بہار کے سیتامڑھی میں درگا پوجا یاترا کے دوران بھیڑ نے 80 سالہ بزرگ زین الانصاری کو زندہ جلا دیا تھا۔
تاریخ 4 نومبر،اتوار کا دن، صبح کے 9 بجے ہیں۔ سیتامڑھی کے گئوشالا چوک پر ابھی ابھی دکانیں کھلنی شروع ہی ہوئی ہیں۔سڑک کے کنارے مٹھائی کی دکان میں پوڑی بیل رہا آدمی پوچھنے پر بتاتا ہے کہ گزشتہ 20 اکتوبر کوبھیانک فساد ہوا تھا۔ ہزاروں لوگوں کی بھیڑ تھی، جن کو پولیس روکنے کی کوشش کرتی رہی۔ اس واقعہ کے بارے میں اور جانکاری مانگنے پر یہ آدمی سہر اٹھتا ہے، اور اپنا نام بھی نہیں بتا پاتا۔
سیتامڑھی جنکشن سے تقریباً4 کیلومٹر دور گئوشالا چوک ہے۔ یہ اس علاقے کا مین بازار بھی ہے، ا س کے جواب میں مرلیا چک نام کا محلہ ہے، جہاں مسلمانوں کی گھنی آبادی ہے۔ اتر کی طرف بڑھنے پر جیسےجیسے محلے میں اندر آتے ہیں،مسلم بستی شروع ہو جاتی ہے۔ان بستیوں میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ایک آدھ گھر کے باہر کچھ بچے لہٹھی بنا رہے ہیں۔ فسادات کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتاتا۔
محلے کے وارڈ 3 کے کاؤنسلر کے گھر پر بھی تالا لٹکا ہوا ہے۔ پاس کے ایک دوا دکاندار جو فساد کی جانکاری دینے سے منع کرتا ہے، زیادہ پوچھنے پر بتاتا ہے کہ اس محلے میں ایک مدرسہ ہے، آپ وہاں جائیے۔فساد والی جگہ سے 400 میٹر اتر میں بائیں طرف مدرسہ ہے۔ اس کو اس محلے کا مرکز کہا جاتا ہے۔ یہاں کے کئی کمروں میں قریب 300بچے پڑھائی کر رہے ہیں۔مدرسے میں کئی مقامی شہری اور اقلیتی کمیونٹی کے صحافی موجود ہیں۔ فساد کے بارے میں پوچھنے پر پہلے تو تمام لوگ کچھ بھی بولنے سے ہچکتے ہیں پھر نام نہیں بتانے کی شرط پر کسی طرح بات کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
تقریباً65-60سال کے ایک بزرگ بتاتے ہیں،19 اکتوبر، جمعہ کا دن تھا۔ ہم سبھی لوگ کھانا کھانے کے بعد بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ تبھی درگا جی کی مورتی کے ساتھ قریب 1500 لوگ مورتی وسرجن کو ادھر سے گزرے۔ چونکہ، لاؤڈ اسپیکر کی آواز بہت تیز تھی، اس لئے ہم اپنے گھر سے باہر آکر دیکھنے لگے۔ اس بھیڑ میں شامل زیادہ تر بچے نشے میں دھت تھے۔ جب یہ بھیڑ ہمارے محلے سے گزری تو کچھ مسلم بچے بھی اس میں شامل ہو گئے۔ رات کے قریب 10 بجے سے لےکے 1:30 بجے تک یہ جلوس ہمارے محلے میں گھومتا رہا۔
وہ مزید کہتے ہیں ؛ہمیں اس سے کوئی حیرانی نہیں ہوئی، کیونکہ مدھوبن درگاپوجا پنڈال کی مورتی اسی راستے ہوکر ہرسال وسرجن کو جاتی ہے۔ رات کے قریب پونے دو بجے یہ جلسہ مسلم بستی کو پار کرنے لگا۔ ہندو بستی شروع ہونے ہی والی تھی کہ کسی نے مائیک سے اناؤنس کر دیا کہ کسی مسلمان نے مورتی پر پتھر مار دی ہے، جس سے مورتی کا ہاتھ ٹوٹ گیا ہے۔ اتنا سنتے ہی بھیڑ نے پاس کے اقلیتوں کے گھروں پر لاٹھیاں برسانی شروع کر دی۔
حالانکہ سبھی لوگ گھر بند کر سو رہے تھے، اس لئے بھیڑ نے قریب 30 لوگوں کے گھر کے دروازے پر بھاری توڑپھوڑ کی۔اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ہمارے محلے میں ہندو مسلمان ملکر رہتے ہیں۔ اس محلے میں ابھی بھی کئی ہندوؤں کی کرانا دکان چل رہی ہے۔ تیج تہوار بھی ہم ساتھ ملکر مناتے ہیں، لیکن اس رات ایک افواہ نے ہندو-مسلمان کو الگ کر دیا۔
اسی مدرسے میں موجود ایک مقامی صحافی بتاتے ہیں،اس رات جلوس کے ساتھ تقریباً 150 پولیس جوان تعینات تھے، پھر بھی مسلمانوں کے گھروں پر لاٹھیاں برسائی جا رہی تھیں۔ جب یہ معاملہ کافی بڑھ گیا تب ایس پی کو خبر کی گئی،انہوں نے موقع پر پہنچکر معاملے کو رفع دفع کرایا اور مورتی کا وسرجن کر دیا گیا۔ صبح تک معاملہ پُرسکون ہو گیا۔ گئوشالا چوک پر پولیس کے جوان تعینات کر دئے گئے۔ ‘
مدرسے کے ایک مقامی استادبتاتے ہیں ،ہمارے محلے کے زیادہ تر لوگ گئوشالا چوک پر پھل اور سبزی کی دکان لگاتے ہیں۔ اتوار 20 اکتوبر کی صبح میں اچانک گئوشالا کے دکانداروں کے پاس مدھوبن کے کچھ جاننے والوں نے فون کیا کہ مدھوبن میں اکثریت کمیونٹی کے لوگوں کے ذریعے اقلیتوں کو مارا جا رہا ہے۔اس کے بعد گئوشالا چوککے زیادہ تر مسلم دکانداروں نے اپنی دکانیں بند کر دیں اور گھر لوٹ گئے۔
مدرسے میں موجود ایک دوسرے بزرگ نام نہ چھاپنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ،اگلی صبح (20 اکتوبر)دس بجے کے قریب کالی پوجا کمیٹی کے لوگوں نے انتظامیہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گئوشالاچوک کی طرف مورتی لےکر آئے۔ ان کو کالی جی کی مورتی کو وسرجن کرنے حاجی پور جانا تھا۔
سبھی مقامی لوگ بتاتے ہیں اور میڈیا میں بھی یہ خبر چل رہی ہے کہ انتظامیہ نے 19 اکتوبرکی رات کے واقعہ کو دیکھتے ہوئے کالی پوجا کمیٹی کو مسلم اکثریت گئوشالا چوک اور مرلیا چک کے راستے مورتی لے جانے سے منع کیا تھا۔ یہاں پولیس والوں نے ان کو روکنے کی کوشش کی،لیکن وہ نہیں مانے اور مرلیا چک محلے کے اندر گھسنے لگے۔ محلے میں گھستے ہوئے بھیڑ نے اشتعال انگیز گانے بجانے اور نعرے لگانے شروع کر دئے (یہ بات جائےواردات پر موجود افسروں نے اپنی رپورٹ میں بھی لکھی ہے)۔
جیسےجیسےیہ جلوس مسلم اکثریتی علاقے میں گھس رہا تھا، ویسے ویسے تیز آواز میں اشتعال انگیز نعرے لگائے جا رہے تھے۔اس دوران پاس کے کچھ مسلم جوانوں نے اس نعرےبازی کی مخالفت کی۔ اس کے بعد تنازعہ بڑھا اور دونوں فریقوں میں پتھربازی ہونے لگی۔انتظامیہ روکنے کی کوشش کرتی رہی، لیکن حالات قابو سے باہر تھے۔جب کافی تعداد میں لوگ زخمی ہو گئے تب ضلع کے ایس پی وکاس برمن آئے۔ تب تک معاملہ اور بگڑ چکا تھا اور گئوشالا چوک سے مرلیا چوک کے درمیان قریب 10 ہزار شرپسندوں کی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔جب مقامی پولیس اس کوکنٹرول نہیں کر سکی تب باہر کے ضلعوں سے پولیس جوان منگائے گئے۔ اس کے بعد شرپسندوں کو پیچھےکی طرف لے جایا گیا۔
مقامی صحافی بتاتے ہیں کہ،جب مرلیا چک سے بھیڑ چھٹکے گئوشالا کے پاس پہنچی تب تک وہاں 15 ہزار سے زیادہ لوگ موجود تھے۔ (نیوز سینٹرل سے بات چیت کے دوران سیتامڑھی تھانہ کےایس ایچ او نے بھی بھیڑ کا یہی اعداد و شمار بتایا ہے)۔مسلمانوں کی دکانیں جلائی جا رہی تھیں۔ گاڑیوں کو پھونکا جا رہا تھا۔اس وقت جائے واردات کے پاس ضلع کے تمام پولیس افسر موجود تھے۔
گئوشالا چوک پر بھاجے کی دکان چلانے والے ایک شخص کا کہنا ہے،جب بھیڑ اپنے انتہا پر تھی اور انتظامیہ ان کو روکنے میں ناکام تھی، تبھی راجوپٹی کی طرف سے ایک بوڑھا شخص آ رہا تھا۔ بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر اس کی جان لے لی۔ اس کے بعد کچھ لوگ اس بزرگ کی لاش کو لےکرگئوشالا کے گیٹ کے پاس گئے اور سڑک کنارے سرعام جلا دیا۔
گئوشالا چوک پر پولیس فورس کے ساتھ ڈمرا بلاک کے پروگرام آفیسررمیندر کمار کو تعینات کیا گیا تھا۔ کمار نے اپنی شکایت میں لکھا ہے کہ؛میں اپنی ڈیوٹی پر تھا، تبھی دن کے قریب 12:30 بجے 1500 کی تعداد میں لوگ لاٹھی، ڈنڈا، بھالا،فرسہ اور تلوار لےکر گئوشالا چوک سے مرلیا چوک کی طرف نکلے مورتی لےکرآئے اور پاکستان مردہ باد اور ہندوتوا کے نعرے لگانے لگے۔ میں نے ان لوگوں کو روکنے کی کوشش کی اور لائسنس دکھانے کی گزارش کی لیکن وہ نہیں مانے اور آگے بڑھ گئے۔
رمیندر کمار نے پولیس انسپکٹراورایس ایچ او، سیتامڑھی کو واقعہ کی جانکاری دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھیڑ نعرے لگا رہی تھی کہ ایک گھنٹے کا وقت دیجئے تمام مسلمانوں کو ختم کر دیںگے۔انہوں نے لکھا ہے؛اسی دوران گئوشالا کے گیٹ کے پاس کسی کے جلنے کا احساس ہوا، ہم وہاں پہنچے تو ایک آدمی کی ادھ جلی لاش پڑی ہوئی تھی۔
سیتامڑھی کے تھانہ ایس ایچ او ششی بھوشن سنگھ اس وقت جائے واردات سے کچھ ہی دوری پر موجود تھے۔وہاں سے انہوں نے ضلع ایس پی کو حالات کی جانکاری دیتے ہوئے رپورٹ لکھی ہے۔ جس میں لکھا گیا ہے، ہم گشتی پر نکلے تھے کہ خبر ملی کہ کالی پوجا کمیٹی کے لوگ لاٹھی، کلہاڑی، نیزہ، تلوار وغیرہ لےکرمسلم اکثریتی علاقے کی طرف بڑھے ہیں۔اس کے بعد ہم وہاں پہنچے اور بھیڑ کو روکنے کی کوشش کی،لیکن وہ نہیں رُکے۔ جلوس میں شامل لوگ دوسرے فرقے کے لوگوں کے خلاف قابل اعتراض نعرے لگا رہے تھے۔ ‘
اس کے بعد پولیس نے کئی راؤنڈ ہوائی فائرنگ کی۔ششی بھوشن سنگھ کے مطابق آنسو گیس کے گولے بھی چھوڑے گئے۔ شام میں تین بجے کے قریب پولیس نے اس علاقے میں دفعہ 144 لگاکر بھیڑ کو منتشرکر دیا۔
فساد کے دوران زندہ جلا دیے گئے زین الانصاری کون ہیں؟
دوپہر کے قریب تین بجے۔ فساد میں مارکر جلائے گئے 80 سالہ زین الانصاری کا گاؤں بھورہاں بازار۔ بازار میں امن ہے۔ایک مٹھائی کی دکان پر موجود مسلم فرقے کے کئی لوگ اس فساد کی بات کر رہے ہیں۔ زینل کے گھر کا پتہ پوچھنے پر لوگوں نے بتایا کہ بازار سے 200 میٹر کی دوری پر بائیں سائڈ میں ان کا گھر ہے۔ گھر کے پاس ہی ایک دوا کی دکان ہے۔دکان پر پہنچنے پر وہاں 14 سال کا ایک لڑکا گلابی شرٹ پہنے کاؤنٹر پر بیٹھانظر آتا ہے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ زین الانصاری کا پوتا ہے۔
اس کے والد سیتامڑھی شہر گئے ہوئے تھے۔ بات ہو ہی رہی تھی کہ کسی سماجی تنظیم کے لوگ کار میں سوار ہوکر وہاں پہنچے۔ زینل کے دروازے پر پہنچنے پر کرسیاں لگائی گئیں۔اس کے بعد زین الانصاری کے چچا زاد بھائی اللہ رکھا خان تفصیل سے واقعہ کے بارے میں بتاتے ہیں۔اس بات چیت میں بنیادی طور پران کا ایک ہی درد جھلک رہا تھا کہ انتظامیہ نے ہمارے بھائی کی تجہیز و تکفین اپنی مٹی پر نہیں ہونے دی۔زینل گاؤں کے ایک غریب کسان-مزدور تھے۔اخلاق احمد اور محمد اشرف ان کے دو بیٹے ہیں۔ اشرف گجرات میں تو اخلاق ممبئی میں مزدوری کرتے ہیں۔ دروازے پر دوا کی ایک دکان کو ان کا پوتا سنبھال رہا ہے۔
زین الانصاری کے چچا زاد بھائی اللہ رکھا کا کہنا ہے،؛ایک دن پہلے ہی زینل راجوپٹی میں اپنی بہن کے یہاں ایک دعوت میں شریک ہونے گئے تھے۔ وہاں سے 20 اکتوبر کو صبح دس بجے کے قریب وہ گھر کی طرف چلے تھے۔ جب تین بجے تک وہ گھر نہیں پہنچے تو ہمیں فکر ہوئی۔ ہم نے ریگا تھانہ میں جاکر پوچھا تو ضلع انتظامیہ کے حوالے سے تھانہ کے پولیس افسر نے کہا کہ ہمیں ابھی اس کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔اس کے دو-تین دن بعد سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوکر ہمارے وہاٹس ایپ پر پہنچی۔ خون سے لت پت یہ تصویر زینل کی تھی۔
اس کے بعد ہم تصویر لےکر ڈی ایم کے یہاں پہنچے۔ ہم نے جب تصویر دکھائی تب ڈی ایم مان گئے اور کہا کہ اس لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے مظفرپور بھیجا گیا ہے۔ اس کے بعد ہم مظفرپور ضلع ہسپتال پہنچے۔تب تک وہاں پوسٹ مارٹم ہو چکا تھا۔ ہم نے کہا کہ انصاری کے بچےکھچے جسم کو ہمارے حوالے کر دیا جائے، تو ڈی ایم صاحب نے اس سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہیں مظفرپور میں ہی ان کی تجہیز و تکفین کی جائےگی۔ ہم نے کافی درخواست کی لیکن جب انتظامیہ نے لاء اینڈ آرڈر کا حوالہ دیا تو ہم کچھ لوگوں نے مظفرپور جاکر ان کی تجہیز و تکفین کی۔
زینل کے چچا زاد بھائی بتاتے ہیں کہ حادثے کے بعد کئی رہنما ان کے گھر آئے اور معاوضہ دےکر گئے۔زینل کی فیملی والوں نے انتظامیہ سے مانگ کی ہے کہ اس واقعہ کے قصورواروں پر سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ ان کو خدشہ ہے کہ مقامی رہنماؤں کی ملی بھگت سے ملزمین کو چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔80 سالہ زین الانصاری کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ڈاکٹروں کے ذریعے دی گئی جانکاری میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان کی موت جلنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان کا پورا جسم جل چکا تھا اور کھوپڑی کی ہڈیاں ختم ہو چکی تھیں۔ان کے دونوں پیر اور ہاتھ پوری طرح جل چکے تھے اور ان کی ہڈیاں نظر آ رہی تھیں۔ ان کے پھیپھڑوں میں اور جسم کے دیگر اندرونی حصوں میں کاربن بھر گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم کئے جانے کے وقت تک انصاری کی موت کو 3-5 دنوں کا وقت گزرچکا تھا۔
اس معاملے میں اب تک کیا کارروائی ہوئی ہے؟
اس معاملے میں دونوں فریقوں کے 100سے زیادہ لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ گرفتاری کو لےکرضلع پولیس کے دو بڑے افسر الگ الگ اعداد و شمار بتاتے ہیں۔اے سی پی وکاس برمن کا کہنا ہے کہ ہم نے 38 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ وہیں، سیتامڑھی تھانہ انچارج ششی بھوشن سنگھ کا کہنا ہے کہ ہم نے 31 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ان باتوں سے الگمرلیا چک کے باشندوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس معاملے میں اقلیتی کمیونٹی کے ایسے لوگوں کا نام بھی ڈال دیاہے جو مہینوں سے باہر رہ رہے ہیں۔
نام نہ چھاپنے کی شرط پر ایک شخص نے بتایا کہ محمد شمیم(ابن محمد شفیع شاہ)معاملےکے وقت دہلی میں تھے۔ایسے ہی محمد ذاکر (ابن محمد اسرافیل)تین مہینے سے ممبئی میں رہ رہے ہیں، لیکن پولیس نے ووٹر لسٹ دیکھکران لوگوں کا نام بنا ثبوت کے ایف آئی آر میں دے دیا ہے۔ وہیں پولیس افسروں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے فساد میں شامل لوگوں کے اوپر ہی مقدمہ درج کیا ہے۔
فساد کے بعد کاروبار کا کیا حال ہے؟
سیتامڑھی شہرکے کاروبار پر اس کا بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔ میہسول چوک پر راجا گیسٹ ہاؤس کے ناظم کا کہنا ہے کہ دس دنوں تک بازار کا کاروبار بند رہا۔ ہمارے کاروبار پراس کا برا اثر پڑا ہے۔ وہیں میہسول چوک -بس اسٹینڈ کے درمیان جوس کی دکان چلانے والے محمد حسین کہتے ہیں کہ فسادکا اثر اب بھی ہمارے کاروبار پر ہے۔ دوسری ریاستوں سے پھل لانے والے کاروباری ابھی سیتامڑھی آنے سے ڈر رہے ہیں۔
غورطلب ہے کہ ان فسادات سے ہوئے نقصان کا صحیح صحیح اعداد و شمار معلوم نہیں چل سکا ہے۔ اقلیت کمیونٹی کے کئی لوگوں کی دکانیں جلا دی گئی ہیں۔ گوشالا چوک اور بکری بازار کے درمیان کئی دکانوں میں بھاری توڑپھوڑ کی گئی۔ پھوس کے ایک-دو گھر پھونک دئے گئے۔
ضلع ایس پی کے رول پر کیوں اٹھایا جارہا ہے سوال؟
ضلع ایس پی وکاس برمن 2008 بیچ کے آئی پی ایس افسر ہیں۔ جب برمن 2015 میں گیامیں پولس سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داری سنبھال رہے تھے تب گیا کے بشن گنج گاؤں میں بھیڑ نے مبینہ طور پر چوری کا الزام لگاتے ہوئے تین لوگوں کی ماب لنچنگ کر دی تھی۔ 18 اگست 2015 کو ٹائمس آف انڈیا کی ایک خبر کے مطابق تب گیا کے ایم پی ہری مانجھی نے کہا تھا کہ پولیس افسروں کی موجودگی میں تین لوگوں کی ماب لنچنگ کی گئی۔ حالانکہ ایس پی وکاس برمن نے ایم پی کے ان الزامات کی تردید کی تھی۔ ذرائع کے حوالے سے ٹائمس آف انڈیا لکھتا ہے کہ ماب لنچنگ کے شکار لوگ اتر پردیش کے شاہ جہاں پور کے بتائے جا رہے ہیں۔
اس کے بعد وکاس برمن نوادہ کے ایس پی کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ سال 2017 میں نوادہ ضلع میں رام نومی کے موقع پر دو فرقے کے لوگوں کے درمیان جھڑپ ہو گئی۔ 4 اپریل 2017 کو نیو انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق دو فریقوں میں بھاری جھڑپ ہوئی تھی۔ تب وکاس برمن کے حوالے سے نیو انڈین ایکسپریس نے لکھا کہ دبھاؤنا چوک پر دو الگ فرقے کے لوگوں کے درمیان جھڑپ ہو گئی، پولیس کی فوری کارروائی سے حالت پر قابو پایا جا سکا۔
میڈیا رپورٹنگ میں کیا بتایا گیا ہے؟
اس فساد اور تشددکی رپورٹنگ مقامی میڈیا نے بڑے ہلکے انداز میں کی۔ 21 اکتوبر کو دینک جاگرن نے اپنی خبر میں تشدد کی جانکاری کے ساتھ ساتھ ایس پی وکاس برمن کا خوب تعریف کی۔ دینک جاگرن لکھتا ہے کہ ایس پی برمن نے پتھر کھاتے ہوئے بھی مورچہ سنبھالے رکھا۔
فساد کے بعد سے 3 نومبر تک کے پربھات خبر کا بھی مطالعہ کرنے پر پتا چلتا ہے کہ اخبار میں زین الانصاری کو لےکر کم خبریں چھپی ہیں۔ ایک خبر کہتی ہے کہ جو ادھ جلی لاش گئوشالا گیٹ کے پاس ملی تھی، اس کی شناخت کی جا چکی ہے۔دوسری خبر میں اخبار نے لکھا ہے کہ ضلع انتظامیہ نے کافی مشقت کے بعد مرنے والوں کے رشتہ داروں کی پہچانکر لی ہے۔ اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ 5 لاکھ معاوضہ ملنے کے بعد رشتہ داروں نے ضلع انتظامیہ کا شکریہ کیا ہے۔ جبکہ زین الانصاری کے بھائی کا کہنا ہے کہ ان کو کافی مشقت کے بعد لاش کے بارے میں جانکاری دی گئی۔
قابل ذکرہے کہ اس معاملے میں مقامی میڈیا کا رخ کافی مایوس کن رہا ہے۔ مقتول کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ دباؤ میں آکر یہاں کے صحافی کچھ بھی نہیں لکھ رہے ہیں۔
کچھ سوال، کیا انتظامیہ اس کا جواب دےگی؟
- جب 19 اکتوبر کی رات کو سیتامڑھی کے مسلم اکثریتی علاقے میں توڑپھوڑ ہوئی، پھر اگلے دن اسی جگہ پر دنگا فساد کیسے ہو گیا؟یہاں انتظامیہ نے حفاظت کی مکمل بحالی کیوں نہیں کی؟
- 20 اکتوبر کو دن کے 12 بجے ہی قریب دس ہزار لوگوں کی بھیڑ مسلم اکثریتی علاقے میں جمع ہو گئی تھی، پھر انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کرنے کے لئے شام تین بجے تک کا انتظار کیوں کیا؟
- سیتامڑھی میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ رہی ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ 1950 کی دہائی میں یہاں فسادات ہوئے تھے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 1992 میں بھی بابری تباہی کے بعد یہاں فسادات ہوئے تھے، جس سے بھاری نقصان ہوا تھا۔ پھر حکومت نے اس ضلع میں وکاس برمن کو ایس پی کے عہدے پر کیوں تعینات کیا، جن کے رہتے ہوئے نوادہ میں گزشتہ سال رام نومی کے موقع پر فسادات ہوئے تھے؟
نیوز سینٹرل 24X7نے کالی پوجا کمیٹی کے ممبروں سے بھی ملنے کی کوشش کی، لیکن موقع پر کسی سے بات نہیں ہو سکی۔ مستقبل میں اگر ان کا بیان آتا ہے تو اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔
(بہ شکریہ نیوز سینٹرل 24X7)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ