ریزرو بینک آف انڈیا کے فنڈز ملک کی سماجی جائیداد ہیں اور مفاد عامہ کا حوالہ دےکر من مانے طریقے سے ان کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
بھلےہی ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر اورجت پٹیل نے یہ اشارہ دے دیا ہو کہ سارے زیر التوا معاملوں پر 19 نومبر کو ہونے والی مرکزی بینک کی بورڈ میٹنگ میں بات ہوگی، لیکن اس کے باوجود مرکز اور ریزرو بینک آف انڈیا کے درمیان زبانی لڑائی اور تیز ہوتی جا رہی ہے۔اس اعلان کے بعد لوگوں نے یہ امید کی تھی کہ بند دروازے کے پیچھے بات چیت ہوگی اور خاص طور پر میڈیا کے ذریعے سامنے آئے عوامی جھگڑے پر وک لگےگی۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ چیزیں بدتر ہوتی جا رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹس سے اشارہ ملتا ہے کہ وزیر خزانہ 19 نومبر کی بورڈ میٹنگ میں ارجت پٹیل سے حکم پر عمل کرانے کے لئے اپنے نامزد ممبروں کی معرفت فیصلہ کن تجویز لانا چاہتے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ اڑیل رویے کو دکھاتا ہے۔مثالی طور پر 19 نومبر سے پہلے دونوں فریقوں کے حساب سے ایک اطمینان بخش حل نکالا جانا چاہیے۔اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے، تو یہ لمبے وقت میں معیشت اور بازار کے لئے برا ہوگا۔ اور اگر بورڈ گورنر پر اپنے فیصلے تھوپنے کی کوشش کرتا ہے، تو یہ کئی دہائیوں میں کام کاجی معاملے میں سینٹرل بینک کے بورڈ کے ذریعے اتنا فعال کردار نبھانے کا پہلا معاملہ ہوگا۔
ارجت پٹیل کے پیش رو رگھو رام راجن نے پہلے ہی وارننگ دیتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ آر بی آئی بورڈ کے ذریعے گورنر پر کوئی مخصوص کام کاجی فیصلہ تھوپنا ایک بھول ہوگی۔راجن یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بورڈ آر بی آئی کے ذریعے بازار کےکام کاج سے ہوئے منافع سے جمع کئے گئے احتیاطی فنڈکے استعمال سے متعلق وسیع پالیسی کے مسئلے پر بات کر سکتا ہے۔فی الحال چل رہے بحث-مباثوں سے چاہے جو بھی اشارہ ملتا ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ احتیاطی فنڈ کو لےکرسینٹرل بینک کی پالیسی کافی ٹھیک رہی اور پچھلی ایک دہائی سے زیادہ وقت میں اس کو بہتر کیا گیا ہے۔
اور اس بات کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس میں دونوں فریقوں کی تشویش کی شمولیت سے اور اصلاح نہیں کی جا سکتی ہے۔ لیکن آر بی آئی کے بورڈ کو کوئی خاص فیصلہ تھوپنا نہیں چاہیے۔خبروں کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ گورنر بینکوں کو نیا سرمایہ مہیّا کرانے (باز سرمایہ کاری)اور حکومت کے دیگر حکومتی خزانےکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وزارت خزانہ کو 3.5 لاکھ کروڑ روپے دے۔
ایک چیز اور پہیلی نما ہے کہ ریزرو بینک کی بیلنس شیٹ پر اصل احتیاطی فنڈ 2.5 لاکھ کروڑ روپے ہے، جو سینٹرل بینک کے اثاثہ کا تقریباً6.5 فیصد ہے۔ اس لئے اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا ہے کہ وزارت خزانہ کے ذریعے جس 3.5 لاکھ کروڑ روپے کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا جا رہا ہے، اس کا ماخذ کیا ہے۔چاہے جو بھی ہو، ایسے کسی بھی قدم سے یقینی طور پر عالمی مالیاتی برادری کی نظروں میں ادارے کی عزت دھندلی ہوگی اور یہ یقینی طور پر عالمی بازار کی ناراضگی کو مدعو کرنے والا ہوگا۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو سب سے پہلے ایک بنیادی حقیقت کو منظور کرنا چاہیے:عالمی بازاروں اور سرمایہ کاروں کی نظر میں-ہندوستانی معیشت اور بازار اداروں میں جن کا اعتماد آر بی آئی کے ذریعے جمع کیا گیا 400 ارب امریکی ڈالر کے فنڈ کے طور پر دکھائی دیتا ہے-ایک سینٹرل بینک کی خودمختاری پراعتماد کی ایک ایسی ڈور ہے، جس کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہیں کی جانی چاہیے۔
وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کو یہ یقینی طور پر سمجھنا چاہیے کہ انتخابی سال میں عالمی سرمایہ کاروں کے لئے سینٹرل بینک کا بھروسہ وزارت خزانہ سے کہیں زیادہ ہوگا، جس کو لگاتار حکومت کے خزانےکے مورچے پر آسان مگر خطرناک اختیارات کو اپناتے دیکھا جا رہا ہے۔آر بی آئی کو اپنا احتیاطی فنڈکو کس طرح سے برتنا چاہیے، ایسے فلسفیانہ سوالوں پر بحث اقتدار میں آنے کے شروعاتی سالوں میں کی جانی چاہیے، تاکہ اس کے پیچھے کی منشاء پر لوگوں کو شک نہ ہو۔ لیکن یہ ایک ٹوینٹی-ٹوینٹی حکومت ہے، جس کے پاس ہر سہ ماہی میں کوئی نیا سرپھرا خیال ہوتا ہے۔
اس پڑاؤ پر یہ اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم دفتر اور وزارت خزانہ احتیاطی فنڈ سے پیسے لینے کے سوال پر آر بی آئی کی قیادت پر اضافی دباؤ نہیں بناتے۔اس موضوع پر لائی گئی کوئی بھی تجویز نہ تو ‘مفاد عامہ ‘میں ہوگی اور نہ ‘ قومی مفاد ‘ میں ہوگی، جو کہ مودی اور ان کے پیچھے شور مچانے والوں کی جماعت کا سب سے من پسند لفظ ہے۔یہ بات یاد رکھی جانی چاہیے کہ قومی مفاد کا فیصلہ آپ کو کاموں کے نتیجوں سے ہوتا ہے، نہ کہ آپ کو کاموں کے پیچھے کی منشاء سے۔ نوٹ بندی اس کی سب سے واضح مثال ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے ایک سابق گورنر، جن کی دنیابھر میں2008 کے اقتصادی بحران کی حالت تیار ہونے کے دوران ہندوستانی معیشت کی کشتی پار کرانے کے لئے کافی عزت کی جاتی ہے، نے مجھ سے کہا کہ سینٹرل بینک سے ایک بار میں بہت بڑی رقم لینے کے وسیع اقتصادی نتائج بھی ہوتے ہیں۔
ان کے کہنے کا صاف مطلب یہ تھا کہ ریزرو بینک کے ذریعے حکومت کو کچھ لاکھ کروڑ روپے دے دینے کا مطلب نئی رقم کی تعمیر ہوگی، جس کا نتیجہ افراط زر کے بڑھنے، چالو کھاتے کے نقصان کے بڑھنے اور روپے کے کمزور ہونے کے طور پر نکلےگا۔ایک ایسے وقت میں جب انہی وسیع اقتصادیاتی علامتوں کو قابو میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ایسا کرنا سمجھداری نہیں ہوگی۔یہاں یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ پچھلے سالوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ سینٹرل بینک اپنےاحتیاطی فنڈ دینے کے معاملے میں ہٹ دھرمی نہیں رہی ہے۔
1990 کی دہائی کے آخری حصے میں ڈپٹی گورنر وائی وی ریڈی نے ہنگامی صورتحال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے آر بی آئی کے پاس ضروری کم از کم احتیاطی فنڈ کے سوال پر ایک کمیٹی تشکیل کی تھی۔یہی وہ وقت تھا، جب آر بی آئی کی بیلنس شیٹ کو دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی بیلنس شیٹوں کے ساتھ منسلک کیا جا رہا تھا۔ اس وقت کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ سینٹرل بینک کو اپنے اثاثہ کا 12 فیصد بازار کےکاموں سے ہوئے منافع سے جمع ہوئے احتیاطی فنڈ کے طور پر رکھنا چاہیے۔
اس کے بعد یو پی اے حکومت کے تحت، اس سوال پر وائی ایچ مالےگام کمیٹی کے ذریعے مطالعہ کیا گیا، جس نے ایک طےشدہ کم از کم ضرورت کا تعین تو نہیں کیا، مگر موٹے طور پر یہ دلیل دی کہ تمام نئی کمائی کو مرکز کے ساتھ شیئر کیا جا سکتا ہے۔یو پی اے-2 حکومت کے دوران جب مالےگام کمیٹی کی سفارشوں کو نافذ کیا جانا شروع ہوا، تب سے آر بی آئی نے سال در سال باقاعدہ طور پر بڑے منافع (40000 سے 50000 کروڑ روپے) کو منتقل کیا ہے۔
راجن کے آر بی آئی گورنر بننے کے بعد بھی یہ جاری رہا، جب احتیاطی فنڈ آر بی آئی کے کل اثاثہ کا 8 فیصد تھا۔ یہ اب گرکر کل اثاثہ کا 6 فیصد رہ گیا ہے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ آر بی آئی کے کل اثاثہ کے حساب سے احتیاطی فنڈ باترتیب طریقے سے باقاعدہ وقفے پر گھٹتے ہوئے 2008 کے 12 فیصد سے گھٹکر آج 6 فیصد رہ گیا ہے۔لیکن ایسا آر بی آئی کے اندر باخبر طریقے سے اعتماد کی پالیسی کے تجزیہ کے ذریعے ہوا ہے اور اس لئے اس کا بھروسہ تھا۔
فی الحال ایک بے صبر، ٹوینٹی-ٹوینٹی والی ذہنیت والی حکومت کے ذریعے جس چیز کی کوشش کی جا رہی ہے وہ آر بی آئی کی احتیاطی فنڈ پالیسی پر ہتھوڑا چلانے کی طرح ہے۔ اس کو کم نظری ہی کہا جا سکتا ہے۔ریزرو بینک کافنڈ ملک کی سماجی جائیداد ہیں اور مفاد عامہ کا حوالہ دےکر ان کا من مانے طریقے سے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 19 نومبر کو آر بی آئی بورڈ کے ذریعے سینٹرل بینک کے گورنر پر اگر اس تناظر میں کوئی تجویز تھوپی جاتی ہے، تو اس کے نتیجےتباہ کن ہوںگے۔
Categories: فکر و نظر