اسپیشل رپورٹ : چھتیس گڑھ میں بہوجن سماج پارٹی کی طاقت کے بارے میں اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
چھتیس گڑھ ریاست کی تشکیل سال 2000 میں ہوئی تھی۔ مدھیہ پردیش سے الگ ہوکر بنی یہ ریاست اب تک تین اسمبلی انتخابات کی گواہ بن چکی ہے۔ تینوں ہی انتخابات میں حکومت بی جے پی نے بنائی ہے جبکہ اہم مقابلے میں کانگریس پارٹی ہی رہی ہے۔چھتیس گڑھ کے بارے میں مروج ہے کہ یہاں کی ایسی تاثیر ہے کہ رائےدہندگان کے ذریعے بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ کسی تیسری طاقت کو قبول نہیں کیاجاتا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں کئی علاقائی جماعتوں نے یہاں کی انتخابی سیاست میں دخل دیا لیکن کسی کو بھی کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
لیکن، اس بار چھتیس گڑھ کی فضاؤں کا منظر دوسرا ہے۔ کانگریس سے الگ ہوکر ریاست کے سب سے پہلے اور اکلوتے غیر بی جے پی وزیراعلیٰ اجیت جوگی نے اپنی ہی جماعت کھڑی کر لی ہے۔ جوگی کی چھتیس گڑھ جنتا کانگریس (جے سی سی ) پارٹی نے اس بار انتخابی میدان میں کانگریس اور بی جے پی کے خلاف آواز بلند کی ہے اور اس کی آواز کو بلندی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)نے دی ہے۔
2016 میں جے سی سی کی تشکیل کے بعد سے ہی ریاست کی تمام 90 سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کرنے والے اجیت جوگی نے ستمبر کے مہینے میں مایاوتی کی بی ایس پی سے 90 سیٹوں پر اتحاد کیا۔ 55 سیٹیں اپنے پاس رکھیں اور 35 بی ایس پی کو دیں۔اجیت جوگی اور مایاوتی کے اس فیصلے نے ملک بھر میں سرخیاں اس لئے بٹوریں کیونکہ اس سے پہلے کانگریس بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے لمبے وقت تک کوشاں رہی لیکن آخری وقت میں جوگی بازی مار لے گئے۔
ویسے تو اجیت جوگی کو پارٹی تشکیل کے بعد سے ہی تیسری طاقت کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا لیکن بی ایس پی کے ان کے ساتھ آنے پر قیاس لگنے لگے کہ ان کا اور بی ایس پی کا اتحاد چھتیس گڑھ کی نئی سیاسی تاریخ لکھ سکتا ہے۔ کم سے کم کنگ میکر تو بن ہی سکتا ہے۔جوگی کے بی ایس پی سے اتحاد کو ریاست کی سیاست میں ایک بڑی اتھل-پتھل کے طور پر دیکھا گیا۔ جے سی سی تو حالانکہ پہلی بار چھتیس گڑھ کے انتخابی میدان میں ہے لیکن بی ایس پی ریاست کے انتخابات میں 2003 سے ہی سرگرمی سے شراکت دار رہی ہے۔
اس لئے سوال اٹھتا ہے کہ بی ایس پی کے جے سی سی سے جڑنے کے بعد سیاسی اتھل-پتھل کے جو قیاس لگائے گئے کیا اصل میں ان میں دم ہے؟ کیا بی ایس پی اس حالت میں ہے کہ وہ اجیت جوگی کی جے سی سی کو اقتدار کا ذائقہ چکھا سکے؟
اعداد و شمار پر غور کریں تو 2003 کے بعد سے انتخاب در انتخاب ریاست میں بی ایس پی کا ووٹ فیصد گرتا گیا ہے۔ اس کا مظاہرہ بگڑتا گیا ہے۔2003 میں بی ایس پی نے ریاست کی 90 میں سے 54 سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا۔ ان 54 سیٹوں کے لحاظ سے تب اس کا ووٹ فیصد کل 6.94 رہا تھا۔ 2008 میں اس نے تمام 90 سیٹوں پر داؤ کھیلا۔ ووٹ فیصد گرکر 6.12 پر آ گیا۔ 2013 میں حالت بدتر ہو گئی اور صرف 4.29 فیصد ووٹ ہی بی ایس پی کے انتخابی نشان پر پڑے۔
2003 میں جہاں پارٹی نے 54 میں سے 2 سیٹیں جیتی تھیں تو وہیں 2008 میں بھی 90 میں سے 2 پر ہی کامیابی ملی۔ 2013 میں تو اس کے کھاتے میں صرف ایک سیٹ ہی آئی۔بی ایس پی کے مظاہرہ کی گراوٹ ایسے بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ 2003 میں 54 میں سے 46 سیٹوں پر اس کے امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوئی تھی، 2008 میں 90 میں سے 83 پر ضمانت ضبط ہو گئی تو 2013 میں 90 میں سے 84 پر پارٹی اپنی ضمانت تک نہیں بچا سکی تھی۔
2003 سے 2013 تک تین مواقع پر پارٹی صرف 5 سیٹیں ہی جیت سکی ہے۔ 2003 میں اس نے سارنگڑھ اور ملکھاروڈا سیٹوں پر جیت درج کی تھی تو 2008 میں اس کو پامگڑھ اور اکلترا میں کامیابی ملی۔2013 میں صرف جئےجیپور سیٹ ہی اس کی جھولی میں گری۔ 2008 میں حد بندی کے بعد ملکھاروڈا سیٹ ختم کر دی گئی ہے اس لئے موجودہ منظرنامہ میں 90 میں سے صرف چار سیٹیں ہی ایسی ہیں جن پر بی ایس پی جیت سکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں :چھتیس گڑھ میں ہنگ اسمبلی اجیت جوگی کے لیے امید کی کرن ہوگی
شروعاتی اتحاد میں بی ایس پی کو 35 سیٹیں ملی تھیں لیکن بعد میں اتحاد سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(سی پی آئی) بھی جڑ گئی اور بی ایس پی کے حصے کی دو سیٹیں(کونٹا اور دنتے واڑا)اس کو دے دی گئیں۔ اس طرح بی ایس پی کے حصے میں ان انتخابات میں 33 سیٹیں آئی ہیں۔ان 33 سیٹوں میں 19 ریزرو طبقے کی ہیں جن میں 11ایس ٹی کے لئے تو 8 ایس سی کے لئے ریزرو ہیں۔
ویسے دیکھا جائے تو ریاست میں کل 39 سیٹیں ریزرو ہیں جن میں 29 ایس ٹی اور 10 ایس سی طبقہ کے لئے ہیں۔ بی ایس پی کو اتحاد میں 10 ایس سی طبقے کی سیٹوں میں سے 8 (سارنگڑھ، پامگڑھ، بلائی گڑھ، اہیوارا، نواگڑھ، ڈوگرگڑھ، مستوری اور سرائی پالی)دے دی گئی ہیں۔اس کے پیچھے دلیل یہ رہی ہے کہ بی ایس پی ایس سی طبقے کے درمیان مقبول ہے اس لئے وہ ان سیٹوں پر الٹ پھیر کر سکتی ہے۔
لیکن اگر بی ایس پی کا پچھلا ریکارڈ دیکھیں تو 2013 میں اس کے کھاتے میں کوئی بھی ایس سی طبقے کی سیٹ نہیں آئی تھی۔ جو واحد سیٹ جئےجئے پور کی اس نے جیتی تھی وہ بھی جنرل کے لئے تھی۔ 2008 میں بھی اس کو ایس سی طبقے کی صرف ایک پامگڑھ سیٹ پر ہی کامیابی ملی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ 12 فیصد دلت آبادی والی ریاست میں بی ایس پی ہر طبقے کے ووٹ ملاکر صرف 4.29 فیصد ہی ووٹ پا سکی ہے، جو صاف اشارہ کرتا ہے کہ ریاست کے دلت بھی بی ایس پی کے ساتھ نہیں دکھتے ہیں۔
ایس سی طبقے کی جو 8 سیٹیں بی ایس پی کے کھاتے میں ہیں ان میں سے چار پر تو اس کو دس فیصد ووٹ بھی نہیں ملے تھے۔ اہیوارا، ڈوگرگڑھ اور سرائی پالی میں اس کو بالترتیب : 0.89 (1272 ووٹ)، 1.88 (2753 ووٹ) اور 2.18 (3243 ووٹ) فیصد ہی ووٹ ملے تھے۔نواگڑھ میں 9.91 فیصد (16075) ووٹ ملے۔ وہیں، ریاست میں ایس ٹی طبقے کی اب تک کوئی بھی سیٹ بی ایس پی نے نہیں جیتی ہے۔
اتحاد میں ملیں 33 میں سے 22 سیٹ ایسی ہیں جن پر 2013 میں اس کو نوٹا سے بھی کم ووٹ ملے۔ ایک سیٹ پر جیت ملی، دو سیٹ پر دوسرے پائیدان پر رہی اور 7 سیٹوں پر تیسرے پائیدان پر۔جن سیٹوں پر وہ تیسرے مقام پر رہی تھی، وہاں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہی اہم مقابلہ دیکھا گیا تھا۔ اس لئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ جے سی سی سے اتحاد کے بعد اس کا ووٹ بینک بی ایس پی کو شفٹ ہو جائےگا کیونکہ جے سی سی تو تب وجود میں ہی نہیں تھی۔
ہاں، موجودہ 33 میں سے 11 سیٹوں پر ضرور اس کو 10000 سے زیادہ ووٹ ملے تھے جن میں 7 پر اعداد و شمار 20000 کے پار اور 5 سیٹوں پر 30000 کو پارکر گیا تھا لیکن مقابلے میں وہ صرف پامگڑھ اور چندرپور میں ہی دکھائی دی۔ورنہ حالت اس کی یہ رہی کہ 33 میں سے 21 سیٹوں پر اس کو 5000 سے بھی کم ووٹ ملے۔ 8 سیٹوں پر تو 2000 ووٹ بھی نہیں ملے۔جن چار سیٹوں پر تین انتخابات میں بی ایس پی جیتی ہے ان میں بھی صرف دو پر ہی اس کی حالت اچھی دکھتی ہے جہاں اس نے اپنا ووٹ بینک بنائے رکھا ہے۔
پہلی جےجےپور ہے جو کہ ابھی بی ایس پی کے ہی پاس ہے۔ 2008 میں وجود میں آئی اس سیٹ پر تب بی ایس پی دوسرے پائیدان پر رہی تھی اور کانگریس نے یہ سیٹ جیتی تھی۔ لیکن 2013 کے پچھلے انتخابات میں 2579 ووٹ کے معمولی فرق سے بی ایس پی یہ سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ 2008 میں جہاں اس کو 29.06 فیصد ووٹ ملے تھے تو 2013 میں اس کا ووٹ فیصد بڑھکر 32.75 ہو گیا۔ لیکن، بی ایس پی کے ساتھ ریاست میں ایک بدقسمتی بھی جڑی ہے کہ وہ اپنی جیتی ہوئی کوئی بھی سیٹ اگلے انتخاب میں بچا نہیں پاتی ہے۔
دوسری سیٹ ہے پامگڑھ جو بی ایس پی نے 2003 میں جیتی تھی۔ 2003 میں وہ یہاں دوسرے پر رہی تھی اور 2013 میں بھی دوسرے پر رہی۔ 2003 میں 26.43، 2008 میں 39.28 اور 2013 میں 29.32 فیصد ووٹ اس کو ملا۔وہیں، سارنگ گڑھ سیٹ جو 2003 میں بی ایس پی نے جیتی تھی، یہاں انتخاب در انتخاب اس کا ووٹ فیصد کم ہوتا گیا ہے۔ 2003 میں 33.12 فیصد ووٹ پاکر جیت حاصل کی تو 2008 میں ووٹ فیصد گرکر محض 18.12 رہ گیا اور پارٹی تیسرے مقام پر پہنچ گئی۔ 2013 میں ووٹ فیصد لڑھککر 12.21 پر آ گیا۔
ایسا ہی 2008 میں جیتی اکلترا سیٹ پر دیکھا گیا۔ 2008 میں 33.11 فیصد ووٹ پاکر جیتی گئی اس سیٹ پر 2013 میں پارٹی کے ووٹ فیصد میں بڑی گراوٹ دیکھی گئی اور وہ 11.20 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر کھسک گئی۔جےجےپور اور پامگڑھ کے علاوہ ایک چندرپور سیٹ اور ہے جس پر بی ایس پی کا امکان بنتا دکھتا ہے۔ اس سیٹ پر لگاتار اس کے ووٹ بینک میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
2003 میں یہاں پارٹی 18.21 فیصد ووٹ پاکر چوتھے مقام پر رہی تھی۔ 2008 میں 20.35 فیصد ووٹ پاکر تیسرا مقام پایا اور 2013 میں 29.69 فیصد یعنی کل 45078 ووٹ پاکر پارٹی دوسرے مقام پر رہی۔ تب جیتی گئی جےجےپور سیٹ کے بعد پارٹی کا سب سے اچھا مظاہرہ یہی دیکھا گیا۔
تو کل ملاکر 33 میں سے 3 ہی ایسی سیٹ ہیں جن پر اجیت جوگی بی ایس پی سے امید لگا سکتے ہیں۔ باوجود اس کے 30 اضافی سیٹ بی ایس پی کو دینا، وہ بھی تب جب ان 30میں سے 21 پر وہ 5000 ووٹ بھی نہ پا سکی ہو، پہلی نظر میں تو فائدے کا معاہدہ جان نہیں پڑتا۔لگتا ہے کہ بہتر ہوتا اگر اپنی قبائلی رہنما کی امیج کا فائدہ اٹھاکر اجیت جوگی اکیلے ہی میدان میں تال ٹھونکتے۔ لیکن، اجیت جوگی کا بی ایس پی کے ساتھ اتحاد بی جے پی اور کانگریس کا کھیل بگاڑنے اور خود کو کنگ میکر بنانے کی کوشش زیادہ جان پڑتا ہے۔
ان کی منشاء ہے کہ اگر بی ایس پی مذکورہ تین سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہو جائے اور اتنی ہی سیٹ ان کی پارٹی نکال سکے تو بی ایس پی کے تعاون سے وہ کنگ میکر بن سکتے ہیں۔ کیونکہ چھتیس گڑھ میں ہار-جیتکے نتیجوں میں بڑا ہی کم فرق ہوتا ہے۔فی الحال حکمراں بی جے پی کے پاس 49 سیٹیں ہیں تو کانگریس کے پاس 39۔ جوگی کی چال ہے کہ اگر 6-7 سیٹیں وہ اوربی ایس پی ملکر نکال لیں اور کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی 40-42 سیٹیں پائیں تو وہ کنگ میکر بن جائیںگے۔
بہر حال، ریاست میں پہلے مرحلے کا انتخاب مکمل ہو چکا ہے۔ دوسرے مرحلے کا انتخاب 20 نومبر کو ہونا ہے۔ اس بیچ رائے دہندگی کے عین پہلے ڈوگرگاؤ ں اور سرائے پالی کے بی ایس پی امیدوار بی جے پی اور کانگریس میں شامل ہو گئے ہیں جس سے دو سیٹوں کا نقصان بی ایس پی اور اتحاد کو انتخابی نتیجہ آنے سے پہلے ہی ہو چکا ہے۔
Categories: فکر و نظر