ہندوستان کے زیادہ تر صحافی آزاد نہیں ہیں بلکہ مالک کے انگوٹھے کے نیچے دبے ہیں۔ وہ مالک، جو سیاستدانوں کے سامنے سجدے میں رہتا ہے۔
اپنے سینئر نامہ نگار جم اکوسٹا کے پریس پاس رد کیے جانے کے بعد سی این این کے ذریعے وہائٹ ہاؤس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے فیصلے نے امریکہ میں زلزلہ لا دیا ہے-اور زیادہ تر امریکی سی این این کی حمایت میں نکل آئے ہیں۔ہندوستان میں ایسا ہونے کا امکان کتنا ہے؟ 1975سے 1977کی ایمرجنسی کے دوران جب اندرا گاندھی نے سب کے ساتھ پریس کی اظہار کی آزادی کا بھی گلا گھونٹ دیا تھا، تب ملک کا میڈیا، لال کرشن اڈوانی کے مشہورزمانہ لفظوں میں رینگنے لگا، جبکہ اس کو صرف جھکنے کے لئے کہا گیا تھا۔
2014 میں سینئر صحافی راجدیپ سردیسائی اور ساگریکا گھوش نے سی این این-آئی بی این (اب سی این این نیوز 18) کو تب الوداع کہہ دیا جب وزیر اعظم کے چہیتے مکیش امبانی نے چینل پر قبضہ کر لیا تھا۔مودی مبینہ طور پر 2002 کے گجرات فسادات کو لےکر ان سے پوچھے گئے پریشان کن سوالوں کو لےکر ناراض تھے۔ اس وقت پریس میں کسی نے ایک قطرہ آنسو نہیں بہایا۔انڈیا ٹوڈے ٹی وی پر کرن تھاپر کے شو کو چینل کے انتظامیہ نے آگے نہیں بڑھایا اور یہ بات سب کو پتہ ہے کہ کرن تھاپر نے مودی کا انٹرویو لیتے وقت ان کو ناراض کر دیا تھا۔
کارٹونسٹ ستیش آچاریہ کو حکومت پر سوال کھڑے کرنے والے کارٹونوں کو لےکر کئی عدم اتفاقات کے بعد میل ٹوڈے کے ذریعے کہہ دیا گیا کہ اب ان کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک بار پھر کسی نے چوں تک نہیں کیا۔پنیہ پرسون واجپائی اور ملند کھانڈیکر کو سیاسی دباؤ کی وجہ سے اے بی پی کے ذریعے برخاست کر دیا گیا اور لمحاتی ہنگامے کے بعد اس کو تقدیرکا لکھا مانکر قبولکر لیا گیا۔کئی لوگوں نے یہ سوال پوچھا ہے کہ آخر ہندوستانی میڈیا سی این این کی طرح جرأت کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتا ہے۔ اس پر میں اپنی رائے ظاہر کرنے کا جوکھم اٹھا رہا ہوں۔
ہندوستان میں رائےعامہ امریکہ یا دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح مضبوط نہیں ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ حکمرانوں کے ساتھ ٹکراؤ مول نہیں لینا چاہتے ہیں۔مثال کے طور پر جب اندرا گاندھی نے 1975 میں ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا (اپنی کرسی کو بچانے کے لئے، نہ کہ اس لئے کہ ہندوستان میں اصل میں کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی تھی)اور سارے بنیادی حقوق کو ملتوی کر دیا تھا اور میڈیا پر سخت پہرےداری تھی، تب اس کو لےکر شاید ہی کوئی مخالفت ہوئی تھی۔
کئی لوگوں نے اس کو قسمت مانکر قبولکر لیا اور اس خلاف آواز اٹھانے والوں میں صرف رام ناتھ گوینکا اور ان کا انڈین ایکسپریس گروپ تھا، جن کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔ اگر امریکہ یا یورپ میں ایسی کوئی چیز ہوئی ہوتی، تو وہاں بڑے پیمانے کی تحریک ہوئی ہوتی اور اس کی مخالفت کی جاتی۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی ہی طرح ہندوستان میں بھی میڈیا پر کاروباریوں کی ملکیت ہے، لیکن مغربی کاروباری سیاسی رہنماؤں کے سامنے اتنی بار سجدہ نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ مغرب میں رہنما اکثر کاروباریوں کے سامنے جھکتے ہیں۔
اس کی کئی وجوہات ہیں؛
پہلی بات، اگر ہندوستان میں کوئی کاروباری اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو ناراض کر دیتا ہے تو رہنماؤں کے ذریعے ان پر سی بی آئی ، انکم ٹیکس اور کسٹم افسروں یاای ڈی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔یہ بات متنازعہ فیہ ہے کہ یہ افسر پنجرے میں بند طوطے ہیں(جیسا تب سپریم کورٹ نے کہا تھا)اور وہ اپنے سیاسی آقاؤں کا حکم بجا لانے کے لئے تیار رہتے ہیں بھلےہی اس کے لئے ان کو فرضی ثبوت ہی کیوں نہ گڑھنے پڑیں۔
دوسری طرف مغربی ممالک میں، نوکرشاہ کہیں زیادہ پیشہ ور ہیں۔ مثال کے لئے، اگر ڈونالڈ ٹرمپ فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن یا انٹرنل ریونیوسروس کو سی این این کو پریشان کرنے کا حکم دیتے ہیں، تو اس بات کا امکان کافی کم ہے کہ وہ ان کے حکم پر عمل کریںگے۔
دوسری بات، ہندوستان میں زیادہ ترمیڈیا مالک دوسرے کاروباروں میں بھی شامل ہیں اور ان کے اخبار یا ٹی وی چینل اصل میں ان کے دوسرے کاروباروں کو فائدہ پہنچانے یا ان کی حفاظت کرنے کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے، جو زیادہ منافع دینے والے ہیں۔
تیسری بات، زیادہ تر ہندوستانی صحافی ابھی بھی نوآبادیاتی ذہنیت والے ہیں، بھلے ہندوستان 1947 میں آزاد ہو گیا ہو۔ایک وزیر یا آئی اے ایس افسر کے سامنے وہ ایک احساس کمتری سے بھرے ہوتے ہیں، سوائے ان حالات کے جب وہ اس کی کمزوری جانتے ہوں۔ اس لئے ان میں شاید ہی کبھی مخالفت کرنے کی ویسی جرأت ہوتی ہے، جیسا کہ سی این این نے دکھایا ہے۔
امریکہ اور یورپ میں، اینڈرسن کوپر، باب وڈوارڈ، باربرا والٹرس، کرسٹئین ایمن پوار، فرید زکریا اور دیگر، حالانکہ ہیں ملازم ہی، لیکن وہ آنکھ موندکر میڈیا گھرانے کے مالکوں کا حکم نہیں مانیںگے اور مالکوں کو ان کے ساتھ عزت سے پیش آنا ہوتا ہے۔ایسے صحافی مضبوط شخصیت والے ہیں اور ان کے اپنے بااخلاق اور پیشہ ور معیار ہیں، جن کو بنائے رکھنے کے لئے وہ اڑ جاتے ہیں۔
اس لئے سی این این کے معاملے میں، میرا اندازہ ہے کہ اس کے مالک ٹیڈ ٹرنر نے ضرور ہی مشہور صحافیوں سے صلاح مشورہ کیا ہوگا، جنہوں نے ان کو کہا ہوگا کہ پوری تنظیم کو جم اکوسٹا کے پیچھے مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور فرسٹ امینڈمنٹ (پریس کی آزادی)کو بچانے کے لئے لڑنا چاہیے۔ہندوستان میں کوئی بھی میڈیا مالک، چاہے وہ سب سے بڑا ہی کیوں نہ ہو، ایسا کچھ کرنے کی ہمت نہیں کرےگا۔ یہاں زیادہ تر صحافی سچ میں آزاد نہیں ہیں بلکہ مالک کے انگوٹھے کے نیچے ہیں وہی مالک، جو سیاسی رہنماؤں کے سامنے سجدہ میں رہتا ہے۔
(مضمون نگار سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں ۔)
Categories: فکر و نظر