اگر کل ممکنہ این پی اے کا تقریباً40 فیصد 10 کے قریب بڑے کاروباری گروپوں میں پھنسا ہوا ہے، تو بینک اس کا حل کئے بغیر قرض دینا شروع نہیں کر سکتے ہیں۔یہ بات واضح ہے لیکن حکومت بڑے بقائے والے بڑے کاروباری گروپوں کے لئے الگ سےاصول چاہتی ہے، جو ان کے مفادات کا خیال رکھتے ہوں۔
ایک مؤقر انگریزی اخبار کے صفحہ پر وزارت خزانہ کی طرف سے بےوجہ چھپے ایک مضمون کا خلاصہ کچھ اس طرح تھا کہ سوموار کو ریزرو بینک کی بورڈ میٹنگ میں آر بی آئی کے گورنر ارجت پٹیل کے استعفیٰ کو روککر مرکز نے بحران کو ٹال دیا ہے۔یہ کسی نقصان پہنچانے والے اختیار کو نہ چننے کا سہرا لینے کی مانند ہے، جو کسی بھی صورت میں خودکش ہوتا، جو مودی حکومت کے لئے تباہ کن نتائج لےکر آتا۔یہ صحیح ہے کہ مرکز مختار کل ہے اور اپنی مرضی کے حساب سے کچھ بھی کر سکتا ہے، لیکن اصل طاقت اس کو کبھی کبھار یا کبھی بھی نہیں استعمال کرنے میں ہے۔ لیکن مودی حکومت ابھی تک یہ ہنر نہیں سیکھ پائی ہے۔
اس لئے وہ سینٹرل بینک کے ساتھ اپنی جدو جہد میں نقصان پہنچانے والا اختیار یعنی آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 7-کا استعمال نہ کرنے کا سہرا لینا چاہتی ہے۔اصل میں پچھلے کچھ مہینوں میں یہی ہوا ہے۔ مودی حکومت نے بےوجہ دفعہ 7 کے تحت صلاح و مشورہ کے لئے خط جاری کرکے معاملے کو طول دے دیا۔ جبکہ یہ دفعہ آزادی کے بعد کبھی استعمال میں نہیں لایا گیا تھی۔ماضی کی حکومتوں نے دفعہ 7 کا استعمال کئے بغیر ہی سینٹرل بینک کے ساتھ تفصیلی صلاح و مشورہ کیا ہے اور معاملوں کو سلجھایا ہے۔سوموار کو 9 گھنٹے تک چلی بورڈمیٹنگ میں بھی ٹھیک یہی ہوا جس میں سارے مدعوں پر گفتگو کی گئی، جن میں سے کچھ کو سلجھا لیا گیا اور باقی کو 14 دسمبر کو ہونے والے بورڈ کے دوسرےاجلاس کے لئے ٹال دیا گیا۔
ایک طرح سے آر بی آئی بھی اپنی زمین بچانے میں کامیاب رہی۔ ٹھوس اعداد و شمار اور تجزیے کی مدد سے سینٹرل بینک مرکز کو اور دیگر ڈائریکٹرس کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہا ہے کہ ان کو ایسے کچھ مدعوں پر دباؤ نہیں بنانا چاہیے، جن میں ابھی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ہنگامی فنڈ کا ایک بڑا حصہ حکومت کو منتقل کرنے کے لئے آر بی آئی کو مجبور کرنے کے لئے دفعہ 7 کے استعمال کا جو مسئلہ سب سے زیادہ متنازعہ تھا، اس کو پہلے ہی واپس لے لیا گیا ہے۔وزیر اعظم نے ارجت پٹیل سے ذاتی طور پر اس مسئلے پر گفتگو کی، جنہوں نے شاید عام گجراتی میں اس قدم کے فائدے اور نقصان کے بارے میں ان کو بتایا ہوگا۔ اس سے اس مسئلے پر ایس گرومورتی جیسے لوگوں کے ذریعے پھیلائی گئی غلط فہمی کے کہرے کو دور کرنے میں مدد ملی ہوگی۔
گرومورتی جیسے لوگوں کو اس مسئلے پر ٹھوس باتوں کو پیچھے دھکیلکر صرف ہنگامہ کرنے کا سہرا دیا جا سکتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ مودی کو اس چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے نقطہ نظر سے دوری بنانے میں سمجھداری دکھائی دی۔اب ایک ایکسپرٹ کمیٹی(ماہرین کی کمیٹی)اس مسئلے پر غور کرےگی کہ آر بی آئی کو مستقبل میں کتنا فنڈ رکھنا چاہیے۔جہاں تک آر بی آئی کی بات ہے، تو وہ ٹھوس اعداد و شمار اور تجزیے کے سہارے ضرورت پڑنے پر اضافی سیالیت مہیا کرانے میں مدد کرنے کے ساتھ ہی مالی انتظام کے اتحاد کو بچائے رکھنے کی ضرورت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی اپنے موجودہ پیٹرن کو کافی حد تک بچائے رکھنے میں کامیاب رہا۔
سینٹرل بینک نے غیربینکنگ مالی شعبہ (نان بینکنگ فائننشیل سیکٹر)کے لئے کھلا راستہ تیار کرنے پر اتفاق نہیں کیا۔ یہ ضرور ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر مداخلت کرےگا، کیونکہ یہ طے ہے کہ اب غیر بینکنگ مالی کمپنی سیکٹر میں سیالیت کا کوئی انتظامی مسئلہ نہیں ہے۔اس سے آگے آر بی آئی کچھ بینکوں کے ذریعےجن کے این پی اے کی حالت میں دیوالیہ پروسس کے بعد اصلاح ہوئی ہے، جس نے قرض میں ڈوبے ہوئے کمپنیوں کی فروخت کا راستہ صاف کیا ہے-فوری اصلاحی کارروائی کے ڈھانچے میں ڈھیل دینے پر گفتگو کرےگی۔فی الحال دس سے زیادہ بینک فوری اصلاحی کارروائی کے اصولوں کی وجہ سے قرض نہیں دے سکتے ہیں، کیونکہ ان کا این پی اے ان کے ذریعے دئے گئے قرض کا 10 فیصد سے زیادہ ہے، جس کا نتیجہ ان کے اکوٹی سرمایہ میں نقصان کے طور پر نکلتا ہے۔
آر بی آئی کی سمجھداری سے معمور دلیل یہ ہے کہ یہ بینک اسی صورت میں قرض دینے کا کام شروع کر سکتے ہیں، جب حکومت کے ذریعے ان کی مناسب باز سرمایہ کاری (Recapitalization) کر دی جائے۔ اس بارے میں کچھ نئی ہدایتوں کو آخری شکل دی جا رہی ہے۔حالانکہ، کچھ زیادہ ہی بڑےساختیاتی مسائل ہیں، جن پر اگلے اجلاس میں آر بی آئی کے بورڈ کو اپنی اگلی میٹنگ میں ضرور بات کرنی چاہیے۔اس بارے میں خاص طور پر ایس گرومورتی کے خیالات کو جاننے کا انتظار رہےگا۔
کچھ مہینے پہلے انہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ ہندوستان میں بڑے کاروباروں کو یقینی طور پر بینکوں کے ذریعے مدد دی جانی چاہیے۔بلاشبہ عام رائے یہ ہے کہ اب تک بینک صرف بڑے کاروباروں کی مدد کر رہے ہیں، جو چھوٹے اور درمیانی درجے کے اداروں کی قیمت پر ہو رہا ہے، جن کو نوٹ بندی کی زبردست مار جھیلنی پڑی۔لیکن،سوال ہے کہ آخر بینکنگ نظام اہم بنیادی علاقوں میں صرف 10 بڑے صنعتی گھرانوں کے 4 لاکھ کروڑ روپے کے قریب کے بیڈ لون یا تقریباً نہ چکائے جانے کے قریب پہنچ گئے قرضوں کے مسئلہ سے کیسے نپٹےگی؟یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔
اگر کل ممکنہ این پی اے کا تقریباً40 فیصد 10 کے قریب بڑے کاروباری گروپوں میں پھنسا ہوا ہے، تو بینک اس کا حل کئے بغیر قرض دینا شروع نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ بات کسی کو بھی سمجھ میں آ سکتی ہے، لیکن حکومت بڑے بقائے والے بڑے کاروباری گروپوں کے لئے الگ اصول چاہتی ہے، جو ان کے مفادات کا خیال رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر اسٹیٹ بینک آف انڈیاکے ذریعے جس طرح سے بجلی سیکٹر کی کمپنیوں کے لئے تازہ راحت پیکیج کے حق میں ہے، اس کو دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ ان میں سے کئی کو آر بی آئی کے 12 فروری، 2018 کے سرکلر کے حساب سے قرض سے آزادی کے لئے یا ملکیت میں تبدیلی کے لئے نیشنل کمپنی لا ٹریبونل میں چلے جانا چاہیے تھا۔
لیکن ایسا ہو نہیں رہا اور سپریم کورٹ نے بجلی ریگولیٹرز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ایک اور راحت پیکیج پر غور کرنے کے لئے کہا ہے۔شرط یہ لگائی گئی کہ اگر بڑھی ہوئی شرح کا بوجھ عام آدمی پر ڈالا جاتا ہے، تو صارف فورموں کو عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کی آزادی ہوگی۔اور ہم سب کو یہ پتا ہے کہ بڑے کاروباری گروپوں کے خلاف قانونی لڑائی میں ٹک پانے کی کتنی صلاحیت صارف فورم کے پاس ہے۔ حالانکہ، میں اس بات کو لےکر حیران ہوں کہ مودی حکومت انتخاب کے سال میں اس عمل میں مدد کر رہی ہے۔
اصل میں کچھ کابینہ وزیر کھلے طور پر آر بی آئی کے ذریعے جاری کئے گئے فروری،2018 کے سرکلر کی تنقید کر رہے ہیں، جس میں بڑے کاروباری گروپوں کے لئے اپنے قرضوں کو چکانے کے لئے 6 مہینے کا وقت طے کیا گیا یا دوسرے اختیار کے طور پر دیوالیہ کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کہا گیا۔اس سرکلر کا استقبال ہر کسی نے آر بی آئی کے ذریعے ایک بڑی اصلاحی اور ایک انتہائی ضروری سخت قدم کے طور پرکیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پچھلی یو پی اے حکومت کے دوران یہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔
لیکن، جیسےجیسے ہم عام انتخابات کے قریب آ رہے ہیں، مودی حکومت آر بی آئی کے سرکلر کے متعلق ڈھل مل رویہ اپناتی دکھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی نئے اصولوں پر فی الحال روک لگاکر انجانے میں بڑے پرموٹروں کی مدد کی ہے۔مرکز اور سینٹرل بینک کے درمیان موجودہ ٹکراؤ کی ایک بڑی وجہ آر بی آئی کا یہ سرکلر بھی تھا، کیونکہ یہ بڑے کاروباری گروپوں کو جواب دہ ٹھہراکر ان کو نقصان پہنچاتا ہے۔مثال کے لئے، بجلی سیکٹر نے ہی اکیلے تقریباً3 لاکھ کروڑ روپیے کا قرض لیا ہوا ہے۔ جب صرف ایک سیکٹر میں اور محض آدھا درجن کمپنیوں کے درمیان اتنا پیسہ پھنسا ہوا ہو، تو بینک چھوٹے اور درمیانی فرم کو پیسے دے سکنے کی حالت میں کیسے آ سکتے ہیں؟
بینکوں کے اتنے زیادہ پیسوں کا صرف ایک درجن کاروباری گروپوں میں پھنسا ہونا، ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس پیسے کو کیسے باہر نکالا جائے؟ آر بی آئی کے بورڈ کو اس پر گفتگو کرنی ہوگی۔ جس کا مطلب ہے کہ بڑے کاروباری گروپوں کا سینٹرل بینک پر حملہ ابھی رکنے والا نہیں ہے۔
Categories: فکر و نظر