کیا امت شاہ کبھی سوچتے ہوںگے کہ ہرین پانڈیا کا قتل اور سہراب الدین-کوثر بی-تلسی رام انکاؤنٹر کی خبر زندہ کیسے ہو جاتی ہے؟ امت شاہ جب پریس کے سامنے آتے ہوںگے تو اس خبر سے کون بھاگتا ہوگا؟ امت شاہ یا پریس؟
نہیں چھپنے سے خبر مر نہیں جاتی ہے۔ چھپ جانے سے امر بھی نہیں ہو جاتی ہے۔ مری ہوئی خبریں زندہ ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ خبریں مینج ہوتی ہیں، مرتی نہیں ہیں۔ بس ایسی خبروں کو زندہ ہونے کے انتظار میں اپنے کرداروں کے آس پاس منڈلاتے رہنا پڑتا ہے۔ ایسی خبروں کو پتا ہے، جن کے لئے وہ مار دی جاتی ہیں، اس کو ہر پل دکھائی دیتی رہتی ہیں۔ کہیں سے آتی ہوئی یا پھر کہیں چھپی ہوئی۔ سہراب الدین-تلسی رام انکاؤنٹر مقدمہ کی خبریں بھی انہی میں سے ایک ہے۔ مرتی ہیں مگر پھر زندہ ہو جاتی ہیں۔ عجیب فطرت ہے اس سے جڑی خبروں کی۔
سب کو پتا ہے کہ امت شاہ دسمبر 2014 میں اس کیس میں بری کر دئے گئے ہیں۔ میڈیا نے راحت کی سانس لی کہ امت شاہ سے نہ پوچھنے کی اب مشق نہیں کرنی ہوگی۔ جب بھی سب کچھ مینج ہو چکا لگتا ہے، کہیں سے اچانک سہراب الدین-پرجاپتی انکاؤنٹر کیس کی خبر آ جاتی ہے۔ آخر کیا ہے اس خبر میں جو مر جاتی ہے، جی جاتی ہے اور پھر مر جاتی ہے۔ تب بھی جب پریس پیچھا نہیں کرتا ہے۔ تو کیا یہ خبر پریس اور امت شاہ کا پیچھا کرتے رہنا چاہتی ہے؟
دسمبر 2014 میں امت شاہ اور تین آئی پی ایس افسروں کے بری ہو جانے کے بعد میڈیا چپ رہ گیا۔ نہ سی بی آئی نے اس مقدمہ کو اوپری عدالت میں چیلنج کیا اور نہ ہی میڈیا نے سوال کیا۔ خبر مر گئی۔ ہمیشہ کے لئے دفن ہو گئی۔ ڈرپوک اپوزیشن سہم گیا۔ میدان چھوڑ بھاگ گیا۔ تین سال کی یہ چپی آرام سے چل رہی تھی۔ تبھی نرنجن ٹاکلے نے کارواں میگزین میں اس کیس کو سن رہے جج لویا کی موت سے جڑے سوالوں کو چھاپ دیا۔ خبر زندہ ہو گئی۔ کچھ مہینوں بعد پھر مار دی گئی۔
اس بار لگا کہ آخری بار سب کچھ مینج ہو گیا ہے۔ کچھ دنوں کے لئے ہی صحیح، یہ خبر پھر زندہ ہو گئی ہے۔ اس خبر کو دیکھتے ہی ہندوستان کا میڈیا مر جاتا ہے۔ مرے ہوئے کا ڈرامہ کرنے لگتا ہے۔ جج لویا کی موت کا مقدمہ میڈیا کی تاریخ میں خاموشی کا سب سے بڑا مقدمہ ہے۔ پھر سے یہ خبر زندہ ہو گئی ہے۔ سہراب الدین-کوثر بی-تلسی رام پرجاپتی انکاؤنٹر کے مقدمہ کی سماعت چل رہی ہے۔ اسی کورٹ میں جہاں جج لویا تھے۔ دو آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر اور سندیپ تمگڑے نے کورٹ سے کہا ہے کہ وہ اپنی جانچ ، جٹائے ہوئے ثبوتوں اور چارج شیٹ میں لکھی باتوں پر قائم ہیں۔
4 سال تک یہ مقدمہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں چلا تھا۔ 38 میں سے 16 ملزم بری ہو چکے ہیں۔ امت شاہ ان میں سے ایک تھے۔ ان کے علاوہ آئی پی ایس ڈی جی ونجارہ، دنیش ایم این اور راج کمار پانڈین بھی بری ہو گئے۔ سی بی آئی نے اس کیس کو اونچی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا اور کسی نے پوچھا نہیں۔ اس خبر کے قتل کے لئے سی بی آئی نے خود کو ہی مار لیا۔ سینٹر فار بوگس انویسٹی گیشن۔ یہ تمغہ سی بی آئی کے ڈی آئی جی ایم کے سنہا کا دیا ہوا ہے۔
اڑیسہ کیڈر کے اور بھونیشور میں آئی جی پولیس کے رینک پر تعینات امیتابھ ٹھاکر نے کہا کہ اس انکاؤنٹر کے پیچھے سیاسی اور مجرم کا نیکسس کام کر رہا تھا۔ اس سے امت شاہ کو سیاسی اور اقتصادی فائدہ ہوا۔ احمد آباد کے ایک بلڈر پٹیل بردرس نے دہشت میں آکر ان کو مبینہ طور پر 70 لاکھ روپے دئے۔ ڈی جی ونجارہ کو بھی 60 لاکھ ملے۔ بلڈر کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
امیتابھ ٹھاکر نے ہی عدالتی حراست میں امت شاہ سے پوچھ تاچھ کی تھی۔ 2006 میں بھی آئی پی ایس افسر گیتا جوہری نے 24 صفحے کی ایک رپورٹ سونپی تھی۔ جس میں بتایا تھا کہ ریاست کے وزیر مملکت برائے داخلہ امت شاہ نے قانون کا مذاق اڑایا ہے۔ ممکنہ طور پر یہ اس بڑے جرم میں ریاستی حکومت کے شامل ہونے کی مثال ہے۔ لائیو لاء نے اپنی سائٹ پر اس سیاق و سباق کا ذکر کیا ہے۔
اب 21 نومبر کو آئی پی ایس سندیپ تمگڑے نے کورٹ سے کہا کہ اس معاملے میں امت شاہ، ڈی جی ونجارہ، راج کمار پانڈین اور دنیش این اہم سازش کرنے والے تھے۔ تفتیش میں ملے ثبوتوں کی بنیاد پر ہی چارج شیٹ دائر کی تھی۔ سندیپ نے کہا کہ راجستھان کے اس وقت کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریا، ماربل کاروباری ومل پاٹنی اور حیدر آباد کے آئی پی ایس سبرمنیم اور ایس آئی شری نواس راو سے پوچھ تاچھ کے بعد ہی ان کے خلاف چارج شیٹ فائل کی تھی۔ گلاب چند کٹاریا امت شاہ اور ومل پاٹنی اس کیس میں بری ہو چکے ہیں۔
سندیپ نے چارج شیٹ میں لکھا ہے کہ دو نامعلوم لوگ تلسی کو ایک ماروتی کار میں لے گئے تھے اور پولیس نے اس کا قتل کر دیا۔ بعد میں انکاؤنٹر بتا دیا۔ سندیپ نے بتایا کہ ملزم حیدر آباد کے ایس آئی شری نواس راو سے متعلق 19 دستاویز ضبط کئے تھے مگر کورٹ ریکارڈ چیک کیا تو ایک ہی دستاویز ملا۔ 18 دستاویز غائب ہیں۔ امت شاہ سے جو بیان لئے تھے وہ بھی کورٹ میں ریکارڈ میں نہیں ملے۔ قتل کی سازش کے الزام میں پھنسے راجستھان کے پولیس افسر کی پیروی کر رہے وکیل نے دستاویزوں کی مانگ کی ہے۔
سندیپ کا کہنا ہے کہ جب تلسی کو احمد آباد پیشی پر لے جایا جا رہا تھا تب جو پولیس کی ٹیم بنائی تھی اس کی تشکیل ایک سازش کے تحت ہوئی تھی۔ جب سندیپ تمگڑے سے بچاؤ فریق کے وکیل نے پوچھا کہ تلسی کیس میں 9 ملزم بری ہو چکے ہیں۔ آپ کے پاس ان کے خلاف سازش ثابت کرنے کاکوئی ثبوت نہیں تھا؟ سندیپ نے کہا کہ ثبوت تھے۔ آپ کی بات غلط ہے۔
اسی کیس میں ایک گواہ ہے اعظم خان۔ مجرم ہے۔ اس نے کورٹ میں بتایا کہ گجرات کے وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کا قتل ڈی جی ونجارہ کے حکم پر کیا گیا تھا۔ خان ادئےپور جیل میں ہے۔ اس کی بیوی نے الزام لگایا ہے کہ جیل میں اس کو ستایا جا رہا ہے اور اس کی جان کو خطرہ ہے۔ 2010 میں جب وہ اس مقدمہ میں گواہ بنا اور بیل پر باہر آیا تھا تب بھی اس کو گولی ماری گئی تھی۔ خان نے بتایا ہے کہ پرجاپتی نے سہراب الدین کی جانکاری دی تھی کیونکہ پولیس کا بہت دباؤ تھا اور اس نے کہا تھا کہ اس کے بدلے اس کو چھوڑ دیا جائےگا۔
جیل میں پرجاپتی نے خان کو بتایا تھا کہ اس کو مار دیا جائےگا۔ کچھ دنوں کے بعد پرجاپتی کا انکاؤنٹر ہو گیا۔ دی وائر میں اس سے متعلق کافی کچھ چھپا ہے۔ کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ کوئی ہرین پانڈیا کے قتل کے بارے میں بیان دے رہا ہے اور پانڈیا کی پارٹی کے لوگ ہی چپ ہو جاتے ہیں۔ اعظم خان نے ڈی جی ونجارہ کے بارے میں یہ بات کہی ہے، کیا بی جے پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ونجارہ سے اتنی ہمدردی ہے؟
گجرات کی مودی حکومت کے وزیر داخلہ کا قتل ہو گیا اور یہ سوال ان کے لئے بھی اہم نہیں ہے؟ کیا ان کو گجرات کے وزیر داخلہ کے قتل کی جانچ اور صحیح مجرم کے پکڑے جانے کی مانگ نہیں کرنی چاہیے تھی؟ بڑے رہنما بھول گئے، بی جے پی کے وقف کارکن ہی ہرین پانڈیا کے قتل کے بارے میں سوال پوچھ سکتے تھے۔ کیا وہ بھی ڈر گئے تو سوچیے، ان کی ہی پارٹی میں ان کی کیا حیثیت رہ گئی ہے؟
لائیو لاء ویب سائٹ دیکھیے۔ 21 نومبر کو یہاں ایک خبر چھپی ہے۔ وکیل ستیش اوکےنے بامبے ہائی کورٹ کی ناگ پور بنچ میں ایک عرضی دائر کی ہے۔الزام لگایا ہے کہ جج لویا کی موت ریڈیوایکٹیو آئسوٹوپ کا زہر دینے سے ہوئی ہے۔ 209 صفحے کی عرضی میں اوکے نے اپنی جان کو بھی خطرہ بتایا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ وکیل شری کانت کھانڈالکر اور پرکاش تھومبر کی بھی مشتبہ حالات میں موت ہوئی ہے۔ انہی نے بتایا تھا کہ جج لویا کی موت ریڈیوایکٹیو آئسوٹوپ کا زہر دینے سے ہوئی ہے۔ اس عرضی میں بھی امت شاہ کا ذکر آیا ہے۔
دراصل کچھ تو ہے اس خبر میں۔ چلی جاتی ہیں تب بھی ڈر بنا رہتا ہے، آ جاتی ہیں تب اور ڈر چھا جاتا ہے۔ یہ اپنی واپسی کے لئے ہمیشہ کسی ہمت والے کو کھوج لیتی ہیں۔ تین سال تک کسی نرنجن ٹاکلے اور نکیتا سکسینہ کا انتظار کیا۔ اب امیتابھ ٹھاکر اور سندیپ تمگڑے کے حوالے سے باہر آ گئی ہیں۔ میڈیا اس کو دیکھتے ہی اندر گھس جاتا ہے۔ یہ بھی اسی دور کے آئی پی ایس افسر ہیں۔ نوکری میں رہتے ہوئے ایک طاقت ور شخص کے خلاف جٹائے ثبوتوں پر قائم رہنے کی بات کر دینا آسان نہیں ہے۔ اس بات کو وہ افسر جانتے ہیں جو وردی تو پہنے تھے اسی دن کے لئے، مگر رعب دکھا رہے ہیں ایک خبر کو دفنانے میں۔
کیا امت شاہ کو یہ خبر اب بھی پریشان کرتی ہے یا پھر وہ اس سے بہت آگے جا چکے ہیں؟ کیا وہ کبھی سوچتے ہوںگے کہ ہرین پانڈیا کا قتل اور سہراب الدین-کوثر بی-تلسی رام انکاؤنٹرکی خبر زندہ کیسے ہو جاتی ہے؟ ایک سوال اور ہے۔ امت شاہ جب پریس کے سامنے آتے ہوںگے تو اس خبر سے کون بھاگتا ہوگا؟ امت شاہ یا پریس؟
(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر