خصوصی رپورٹ : کانگریس صدر راہل گاندھی نے بھوپال میں منعقد ورکرڈائیلاگ کے دوران کہا تھا کہ اسمبلی انتخاب کے عین وقت پر دل بدلکر کانگریس میں آنے والے رہنماؤں کو پارٹی ٹکٹ نہیں دےگی لیکن اب پارٹی نے بارہ ایسے لوگوں کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔
دہلی کے پلینری سیشن میں آپ سے کئے وعدے کو میں پھر سے دوہرانا چاہتا ہوں کہ انتخاب کے پہلے ایک نئے ماڈل کا کانگریس مین پارٹی میں آتا ہے۔ اپوزیشن کا کام کانگریس کارکن کرتا ہے۔ میٹنگ کانگریس کا کارکن کرتا ہے۔ لاٹھی کانگریس کا کارکن کھاتا ہے۔ پٹائی ہوتی ہے تو کانگریس کے کارکن کی ہوتی ہے اور پھر انتخاب کے کچھ مہینے پہلے پارٹی میں اوپر سے پیراشوٹ اترتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک بی جے پی سے ٹپکتا ہے، ایک ادھر سے، ایک ادھر سے۔ ایک کہتا ہے کہ میں پہلے کانگریس میں ہوا کرتا تھا، میں 15 سال پہلے کانگریس میں تھا تو میں 25 سال پہلے کانگریس میں تھا۔ نہیں بڑےبھائی نہیں۔ آج جو کانگریس میں ہے، وہ کانگریس میں ہے اور جو پیراشوٹ سے ٹپکےگا، وہ کانگریس پارٹی میں خوشی سے آ سکتا ہے مگر انتخاب میں ٹکٹ ٹپکنے والے کو نہیں ملنے والا۔ آپ آئیے پانچ-چھے سال ساتھ کام کیجئے، لڑائی لڑئیے اور پھر ٹکٹ کی بات ہوگی۔
یہ راہل گاندھی کے 17 ستمبر کو بھوپال کے بی ایچ ایل (بھیل) دشہرہ میدان میں کانگریس کےورکر ڈائیلاگ کے دوران کی گئی تقریر کے اقتباس ہیں۔اپنی اس تقریر میں راہل گاندھی نے واضح کر دیا تھا کہ کوئی بھی پارٹی کے باہر کا رہنما یا کارکن اسمبلی انتخابات کے عین پہلے کانگریس میں شامل ہوکر انتخاب لڑنے کے لئے ٹکٹ نہیں پا سکےگا۔ اس کو سالوں تک پارٹی کے ساتھ زمین پر کام کرنا ہوگا، تبھی وہ پارٹی کے ٹکٹ پانے کا حقدارا ہوگا۔راہل نے یہ بات اس دن پہلی بار نہیں کی تھی۔ وہ لمبے وقت سے تقریباً ہر منچ سے یہ دوہراتے آ رہے تھے اور اس کے بعد بھی وہ ایسا دوہراتے رہے۔ راہل کے ان الفاظ نے نہ صرف ریاستی پارٹی کارکنان میں جوش بھرا تھا بلکہ دن بہ دن آلودہ ہوتی سیاست میں بلند معیار بنائے رکھنے کی ایک امید کی کرن بھی جگائی تھی۔
لیکن،تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد جاری ہوئی مدھیہ پردیش اسمبلی انتخاب کی کانگریس کے امیدواروں کی پہلی ہی فہرست میں راہل کے عزائم ہوا ہو گئے۔فہرست میں کچھ نام ایسے تھے جو کہ انتخابات سے عین پہلے پارٹی میں آئے تھے اور انتخاب لڑنے کے لئے پارٹی کے ٹکٹ بھی پا گئے تھے۔مطلب کہ کانگریس اور کانگریس صدر اپنے وعدے سے مکر گئے۔راہل کی ہی زبان میں کہیں تو پیراشوٹ امیدواروں کے سہارے خود وہ اور ان کی پارٹی مدھیہ پردیش میں اپنا سیاسی بنواس ختم کرنے کی تیاری کر چکی ہے۔ کانگریس کی پہلی فہرست سے لےکر آخری فہرست تک ایسے پیراشوٹ امیدواروں کے ناموں کی کثرت رہی۔
سنگرولی سے بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی)کی ان رینو شاہ کو ٹکٹ دیا گیا جو انتخابات سے محض مہینہ بھر پہلے ہی 22 اکتوبر کو کانگریس میں شامل ہوئی ہیں۔ پچھلا انتخاب وہ بی ایس پی کے ٹکٹ پر لڑی تھیں اور بی ایس پی کے ٹکٹ پر ہی وہ سنگرولی کی میئر بھی رہ چکی ہیں۔اسی طرح سیہورا سیٹ پر بی جے پی سے 15 اکتوبر کو کانگریس میں آئے کھلاڑی سنگھ آرمو پر پارٹی نے داؤ کھیل لیا۔51 سالہ کھلاڑی سنگھ لمبے وقت تک بی جے پی سے جڑے رہے اور مختلف عہدوں پر رہے لیکن جب اس بار ٹکٹ نہیں ملا تو کانگریس میں آ گئے۔
ودیاوتی پٹیل31 اکتوبر کو بی ایس پی چھوڑکر کانگریس میں آئیں اور دو دن بعد ہی کانگریس نے ان کو دیوتالاب سیٹ سے امیدوار بنا دیا۔وجئے راگھوگڑھ سے کانگریس نے پدما شکلا کو ٹکٹ دے دیا جو کہ 24 ستمبر تک بی جے پی کی شیوراج حکومت میں درجہ حاصل کابینہ وزیر تھیں۔ وجئے راگھوگڑھ سے ان کو ٹکٹ نہ ملتا دیکھ کر انہوں نے کانگریس کا دامن تھاما اور ٹکٹ بھی پا لیا۔یہی کہانی تیندوکھیڑا ایم ایل اے سنجے شرما کے معاملے میں کانگریس نے دوہرائی۔ بی جے پی سے اپنا ٹکٹ کٹتا دیکھ کر سنجےشرما 31 اکتوبر کو کانگریس میں شامل ہوئے اور تیندوکھیڑا سے پارٹی امیدوار بنا دئے گئے۔
خاص بات یہ رہی کہ سنجےشرما ان راہل گاندھی کی موجودگی میں پارٹی میں شامل ہوئے جو دو روز پہلے تک سینہ ٹھوککر ہر منچ سے پارٹی میں پیراشوٹ امیدواروں کی مخالفت کرتے دکھ رہے تھے۔اسی سال 22 مارچ کو سابق بی جے پی ایم ایل اے ابھئے مشرا بھی کانگریس میں شامل ہوئے تھے۔ ان کی بیوی نیلم مشرا سیمریا سے بی جے پی ایم ایل اے ہیں۔ کانگریس نے ابھئے مشرا کو بھی ریوا اسمبلی سے انتخاب لڑانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی طرح رہلی سیٹ سے بھی چھ مہینہ پہلے بی جے پی سے نکالے گئے کملیش ساہو کو کانگریس نے میدان میں اتارا ہے۔منگواں سیٹ سے بی ایس پی سے کانگریس میں28 ستمبر کو آئیں ببیتا ساکیت کو ٹکٹ دیا ہے۔تو وہیں، مانپور سے تلک راج سنگھ کو میدان میں اتارا ہے۔ بی جے پی میں کئی عہدوں پر رہنے والے تلک راج کچھ ہی وقت پہلے بی جے پی چھوڑکر کانگریس میں شامل ہوئے تھے۔جے آدیواسی یووا شکتی سنگٹھن (جیس)کے ہیرالال الاوا کو بھی کانگریس نے مناور سے ٹکٹ تھما دیا جبکہ ہیرالال نے اس وقت تک کانگریس کی رکنیت تک نہیں لی تھی۔ایسا ہی ایک نام سنجے سنگھ مسانی کا ہے۔ وہ وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کے سالے ہیں۔ وہ واراسیونی سے بی جے پی سے ٹکٹ چاہتے تھے جو ملا نہیں تو کانگریس کے امیدواروں کی فہرست جاری ہونے کے ٹھیک ایک دن پہلے 2 نومبر کو کانگریس کا دامن تھام لیا اور ٹکٹ بھی پا لیا۔
سرتاج سنگھ جو چار دہائی تک بی جے پی سے جڑے رہے، ایم ایل اے بھی رہے، رکن پارلیامان بھی رہے اور ریاست اور مرکزی حکومت میں وزیر بھی رہے، ان کو بی جے پی نے اسمبلی ٹکٹ دینے سے انکار کیا تو 8 نومبر کو وہ دوپہر میں کانگریس میں شامل ہوئے اور شام کو ہوشنگ آباد سے ٹکٹ بھی مل گیا۔ان کے علاوہ کچھ اور بھی نام رہے جو کہ پیراشوٹ امیدوار کے زمرےمیں آتے ہیں۔ حالانکہ یہ امیدوار سال-دو سال پہلے ہی کانگریس میں آ گئے تھے لیکن ان کو ٹکٹ ملنے پر علاقے میں پارٹی کارکنان کے درمیان اختلاف بھی دیکھا گیا ہے اور راہل نے جو اپنی تقریر میں پانچ-چھ سال تک پارٹی کے لئے کام کرنے کے بعد ٹکٹ پانے کا کرائٹیریا بتایا تھا، یہ اس پر بھی کھرے نہیں اترتے ہیں۔
سابق بی ایس پی ایم ایل اے مدن کشواہا گوالیار گرامین سیٹ سے ٹکٹ پانے میں کامیاب رہے۔ جس نے علاقے میں بغاوت کو جنم دیا اور سالوں سے زمین پر پارٹی کی خدمت میں لگے دیگر دعوے دار باغی ہو گئے۔ نتیجتاًکانگریس کے ایک دعوے دار صاحب سنگھ گرجر نے بی ایس پی کا دامن تھامکرانتخابی میدان میں کانگریس کے خلاف ہی تال ٹھوک دی۔بیجناتھ کشواہا بھی سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی سے ہوتے ہوئے کانگریس میں پہنچے ہیں اور سبل گڑھ سے امیدوار بنا دئے گئے ہیں۔
بابو جنڈیل شیوپور سے امیدوار ہیں اور وہ تین بار بی ایس پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ چکے ہیں، اس بار کانگریس نے ان کو سابق ایم ایل اے برج راج سنگھ کو کنارے کرکے ٹکٹ تھما دیا۔ جس کی مخالفت بھی ہوئی۔یہ کچھ نام رہے جو الگ الگ جماعتوں سے عین وقت پر کانگریس میں شامل ہوکر ٹکٹ پانے میں کامیاب رہے۔
حالانکہ، پیراشوٹ امیدواروں کو انتخابات میں اتارنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تقریباً ہر جماعت، ہر انتخابات میں ایسا کرتی ہی ہے۔بی جے پی نے بھی مدھیہ پردیش میں کئی پیراشوٹ امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔ پھر چاہے بات وجئے راگھوگڑھ کے سنجے پاٹھک کی ہو یا پھر پچھلے انتخابات میں آزاد جیتے تینوں ایم ایل اے کو ٹکٹ دینے کی ہو۔ لیکن، جب کسی پارٹی کا قومی صدر خود مختلف منچوں سے اعلان کرے کہ پارٹی پیراشوٹ امیدواروں کو ٹکٹ نہ دینے کے لئے پرعزم ہے، تو اس کے بڑے معنی ہوتے ہیں اور کئی سوال بھی اٹھتے ہیں۔
جیسے کہ کانگریس صدر جن پر اکثر ناتجربہ کار ہونے کے الزام لگتے ہیں، کیا وہ اصل میں موجودہ سیاست کے لحاظ سے ناپختہ ہیں؟ کیا ان کا پیراشوٹ امیدوار نہ اتارنے کی بات محض ایک جملہ بازی تھی؟ کیا مودی کو جملہ باز کہتے-کہتے راہل بھی اقتدار کی چاہ میں جملہ بازی پر اتر آئے ہیں؟سوال راہل گاندھی کے کمٹ منٹ پر بھی اٹھتا ہے۔ جب وہ منچ سے کہتے ہیں کہ ان کے لئے پہلے پائیدان پر عوام، دوسرے پر کارکن اور تیسرے پر پارٹی رہنما ہیں تو جب وہ اپنے کارکن کو ٹھگ چکے ہیں تو کیسے یقین کیا جائے کہ وہ عوام کے معاملے میں ایمانداری برتیںگے؟
یا پھر اپنی ہی پارٹی میں ان کے فیصلوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے؟ یا پارٹی کی ریاستی قیادت اور مرکزی قیادت میں کوئی آپسی تال میل نہیں ہے؟آخری سوالوں پر بات کریں تو جب راہل گاندھی پیراشوٹ امیدواروں کو ٹکٹ نہ دینے کی خواہش کا اظہا رکر رہے تھے، اسی دوران مدھیہ پردیش کانگریس صدر کمل ناتھ میڈیا میں کہتے نظر آ رہے تھے کہ بی جے پی کے 30 ایم ایل اے کانگریس سے ٹکٹ پانے کے لئے میرے ساتھ رابطے میں ہیں۔
جب راہل گاندھی پیراشوٹ امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے انکار کر ہی چکے تھے تو کمل ناتھ کو تب یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیےتھی۔اس سے واضح تھا کہ کانگریس صدر کچھ سوچتے ہیں جبکہ ریاستی صدر کچھ اور۔سینئر صحافی رشید قدوائی کہتے ہیں،’ایسے معاملوں میں فیصلے کا ایک عمل ہوتا ہے۔ جس میں سبھی لوگ شامل ہوتے ہیں جیسے کہ ریاستی صدر، رہنما حزب مخالف، مرکزی انتخاب کمیٹی اور باقی کمیٹی کے لوگ ملکر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ایک آدمی کا فیصلہ نہیں ہوتا ہے۔ اکیلا کانگریس صدر اپنی من مانی نہیں کر سکتا ہے۔ ‘
یہی وجہ ہے کہ سیاسی تجزیہ کار گرجا شنکر مانتے ہیں،’راہل گاندھی انتخابی سیاست کی حقیقت نہیں جانتے۔ جو اصلاح وہ کرنا چاہتے ہیں، ابھی ان کی پارٹی اس کے لئے تیار نہیں دکھتی ہے۔ اگر ان کو پیراشوٹ کو ٹکٹ نہیں دینا تھا تو اس کے لئے جو سیف گارڈ اپنانے تھے وہ نہیں اپنائے۔ آپ کچھ ایسی پالیسی لا سکتے تھے کہ انتخاب کے چھے مہینے پہلے ہم کسی کو پارٹی میں نہیں لیںگے تو پھر پیراشوٹ جیسا کوئی ہوتا ہی نہیں۔ ایسی کچھ بھی کوشش انہوں نے نہیں کی۔ ‘
وہ آگے کہتے ہیں،’سیاسی جماعتوں کا عالم یہ ہو گیا ہے کہ امیدوار طے کرنے کے پیمانے کی بات پر وہ کھلےعام بولتے ہیں کہ وننگ فیکٹر چاہیے، پھر چاہے آدمی چور-اچکا کوئی بھی ہو، جیتنے والے کو ہم ٹکٹ دیںگے۔اس طرح تمام سیاسی اقدار کو سارے جماعتوں نے کنارے کر دیا ہے۔ ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کو دوسرے جماعتوں کے ذریعے درنکاراکنار کردیا گیا آدمی جیتنے لائق لگتا ہے، لیکن اپنی ہی پارٹی کا پرانا رہنما یا کارکن جو زمین سے جڑا ہوا ہے، اس کی جیتنے کی صلاحیت پر شک ہوتا ہے۔ اس نظام یا سوچ کو بدلے بغیر پیراشوٹ امیدوار سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ اس حقیقت کو یا تو راہل سمجھتے نہیں تھے یا پھر اس کو عمل میں لانے کا ان کے پاس طریقہ نہیں ہے۔ ‘
بہر حال، رشید مانتے ہیں کہ ایسی تمام باتیں کارکنان کا جوش اور حوصلہ بڑھانے کے لئے کی جاتی ہیں۔ عملی طور پریہ سب ممکن نہیں ہے۔لیکن، اگر اصل میں راہل گاندھی نے صرف کارکنان کا جوش بڑھانے کے ٹول کے طور پر پیراشوٹ امیدواری کی مخالفت کی تھی تو کیا انہوں نے اپنا وعدہ توڑکر کانگریسی کارکنان کو مستقبل کے لئے یہ منفی پیغام نہیں دے دیا کہ ان کی کہی باتوں پر عمل ہو ایسا ضروری نہیں۔
بھوپال میں رہنے والے سیاسی جان کار لوکیندر سنگھ کہتے ہیں،’سیاست میں ویسے تو سب جائز ہے۔ لیکن بڑے رہنماؤں کو اس طرح کے اعلان سے بچنا چاہیے۔ ورنہ اس سے کارکن کے حوصلے پر منفی اثر پڑتا ہے۔ آپ نے کارکنان کے درمیان کہا کہ پیراشوٹ امیدوار نہیں اتاریںگے، صرف کارکن کو موقع ملےگا تو کارکن پرجوش ہوتا ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ اب کی بار ہمیں موقع ملےگا لیکن جیسے ہی اس کو پتا چلتا ہے کہ یہ کس کو میدان میں اتار دیا تو جو حوصلہ آپ کے ایک بیان سے بڑھا تھا، وہ آپ ہی کے فیصلے سے بہت نیچے چلا جاتا ہے اور کہیں نہ کہیں پارٹی کو ہی نقصان ہوتا ہے۔ ‘
بات صحیح بھی جان پڑتی ہے۔ اس کی مثال ہمیں گوالیار میں دیکھنے کو ملی جہاں پارٹی کے ایک 46 سال پرانے کارکن پریم سنگھ کشواہا، جنہوں نے تنظیم میں کئی اہم عہدوں پر کام کیا، نے ٹکٹ نہ ملنے پر زہر کھاکرجان دینے کی کوشش کی اور کہا، ‘ بی ایس پی سے آئے مدن کشواہا کو پارٹی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیتی ہے لیکن میں نے اپنی ساری زندگی پارٹی کے لئے زمین پر لڑتے ہوئے گزرا دی لیکن مجھے اس کا کوئی انعام نہیں ملا۔ ‘
لوکیندر معاملے میں بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں،’امت شاہ نے اس معاملے میں پختگی دکھائی۔ انہوں نے اپنے کارکنان سے یہ نہیں کہا کہ کس کو اتاریںگے اور کس کو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بار پارٹی کارکن ہی بی جے پی کی طاقت ہے۔ ہم کارکنان کے دم پر انتخاب لڑیںگے۔ انہوں نے ایسا نہیں کہا کہ ہم کارکن کو ہی ٹکٹ دیںگے۔ تو اس سے کارکن کو طاقت ملتی ہے کہ ہماری اہمیت قومی صدر بتا رہے ہیں۔ یہ فرق ہے راہل اور ان میں، راہل کو اس کا دھیان رکھنا چاہیے۔ حوصلہ اس طرح نہ بڑھائیں کہ وہ آگے جاکر مستقبل کے لئے ٹوٹ جائے اور ان کا کارکن ہی ان کی بات کو سنجیدگی سے نہ لے۔ ‘
حالانکہ، مدھیہ پردیش کانگریس ترجمان سورج سکسینہ بچاؤ میں کہتے ہیں،’جیتنا ہمارا مقصد ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ جیتنےوالا امیدوار ہے اور کانگریس میں آیا ہے تو اس کو ہم نے ٹکٹ دیا ہے۔ ابھئے مشرا پہلے کانگریس میں رہے ہیں، واپس اپنے گھر لوٹے ہیں۔ سنجےشرما بھی پہلے کانگریس میں این ایس یو آئی اور یوتھ کانگریس کے رہنما تھے۔ یہ سب اپنے گھر واپس لوٹے ہیں۔ پیراشوٹ امیدواروں کی جو بات راہل جی نے کہی تھی، اس میں کہا تھا کہ ایسے لوگ جو رہنماؤں کے آگے پیچھے چمچے بنے گھومتے ہیں، ان کو میں ٹکٹ نہیں دوںگا۔ ‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک کارکن سالوں پارٹی میں خون-پسینا بہاتا ہے اور باہر والا جو پارٹی کو گالی دیتا ہے اچانک سے پارٹی میں آکر ٹکٹ لے جاتا ہے تو اس پر ان کا جواب تھا، ‘ کانگریس چھوڑکر کئی رہنما گئے، جیسے سنجےپاٹھک کی بات کریں تو وہ وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ کو چور بولتے تھے، ان کی فیملی کو چور اور کھدائی مافیا بتاتے تھے۔ پھر انہی کی پارٹی میں جاکر وزیر بنا لئے گئے، انتخاب کا ٹکٹ دے دیا۔ تو ایسا ہوتا ہے کبھی کبھی کہ لوگ جب دوسرے جماعت میں ہوتے ہیں تو یقینی طور پر آپ کے جماعت کی برائی کرتے ہیں۔ جمہوریت کیا ہے، یہی تو ہے۔ ‘
حالانکہ، سورج کا بچاؤ بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ پیراشوٹ امیدواروں پر اپنے یو ٹرن کا کانگریس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ’ گھر واپسی’کی جو بات سورج نے کی، راہل گاندھی اپنی تقریر میں پہلے ہی واضح کر چکے تھے کہ سالوں بعد کانگریس میں واپس آنے کا کرائٹیریا بھی کسی کو ٹکٹ نہیں دلا سکےگا۔
بہر حال، رشید قدوائی کہتے ہیں،’بی جے پی کی اترپردیش حکومت میں 100 سے اوپر لوگ بی ایس پی، سماجوادی پارٹی، کانگریس یا دیگر تمام سیاسی جماعتوں سے آئے تھے۔ وہاں بی جے پی کا داؤ چل گیا اور بڑی کامیابی ملی۔ تو امت شاہ یا نریندر مودی کے فیصلے پر کوئی سوال نہیں اٹھا کہ آپ نے بی ایس پی یا ایس پی والوں کو موقع دے دیا اور اب دیکھو کیسے ساوتری پھولے بی جے پی کے خلاف اب بول رہی ہیں۔ کہنے کا مقصد ہے کہ جیت سب چھپا لیتی ہے اور ہار ہر کمی اجاگر کر دیتی ہے۔ کانگریس اور راہل کے اس یو ٹرن کا فیصلہ بھی جیت-ہارکے معنوں پر طے ہوگا۔ جیت ہوئی تو کوئی کچھ نہیں کہےگا اور ہار ہونے پر تنقید ہونی ہی ہے۔ ‘
Categories: فکر و نظر