خصوصی رپورٹ : اس سال الیکشن کمیشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے داخل کی گئی کنٹری بیوشن رپورٹ سوالوں کے گھیرے میں ہے۔
نئی دہلی: ملک کی تمام قومی اور ریاستی سطح کی سیاسی پارٹیوں کو ہرسال انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے کی آخری تاریخ سے پہلے الیکشن کمیشن کو ایسے لوگوں کے نام اور پتے کی جانکاری دینی ہوتی ہے جنہوں نے پارٹی کو 20000 روپے سے زیادہ کی ادائیگی امدادکے طور پریا چندے کی شکل میں کی ہے۔اگر کوئی پارٹی وقت پر کمیشن میں یہ رپورٹ دینے میں ناکام ہوتی ہے تو Representation of the People Act، 1951 کے تحت اس پارٹی کو ٹیکس چھوٹ سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
دی وائر نےگزشتہ18 نومبر کو الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کو چیک کیا تھا تو اس وقت حالت یہ تھی کہ7 قومی جماعتوں میں سے بی جے پی کو چھوڑکر تمام 6 جماعتوں نے اپنی کانٹری بیوشن رپورٹ وقت پر داخل کر دی تھی۔اس بات کے ثبوت کے لئے نیچے ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے علاوہ 30 ریاستی سطح کی جماعتوں نے بھی اس رپورٹ کو داخل نہیں کیا تھا، اس میں سے بیجو جنتا دل ایک اہم پارٹی ہے۔
اب الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی نے گزشتہ31 اکتوبر(ٹیکس بھرنے کی آخری تاریخ)کو اپنی رپورٹ داخل کر دی تھی۔ حالانکہ الیکشن کمیشن میں داخل کی گئی ان پورٹ کا گہرائی سے مطالعہ اور کچھ واقعات کمیشن کے اس دعویٰ پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔13 نومبر 2018 کو ٹائمس آف انڈیا میں چھپی ایک رپورٹ میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ تب تک بی جے پی نے الیکشن کمیشن میں یہ رپورٹ داخل نہیں کی تھی۔
Representation of the People Act، 1951 کی دفعہ 29 سیکے مطابق پارٹی کے خزانچی یا پارٹی کے ذریعے نامزد کیے گئے فردکو انکم ٹیکس ریٹرن بھرنے کی آخری تاریخ سے پہلے الیکشن کمیشن میں پارٹی کو ملے امداد کی رپورٹ داخل کرنی ہوتی ہے۔اگر کوئی پارٹی ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس کو کسی بھی طرح کی ٹیکس چھوٹ نہیں ملےگی۔ انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے کی آخری تاریخ 31 اکتوبر، 2018 تھی۔
بھوپال کے سماجی کارکن نے الیکشن کمیشن میں کی تھی شکایت
گزشتہ19 نومبر کو بھوپال کے سماجی کارکن اجئے دوبے نے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر اوپی راوت کو ای میل بھیجکر شکایت کی تھی کہ بی جے پی اور 30 ریاستی سطح کی پارٹیوں نے وقت پررپورٹ داخل نہیں کی ہے۔اجئے نے اس بارے میں الیکشن کمیشن سے مناسب کارروائی کی مانگ کی تھی۔ اس کے بعد 20 نومبر کو بھوپال کے این ایچ ڈی سی ریسٹ ہاؤس میں اجئے دوبے کی اوپی راوت سے ملاقات ہوئی تھی تب انہوں نے الیکشن کمشنر کو شکایتی خط بھی سونپا تھا۔
دوبے نے دی وائر کو بتایا کہ اس وقت الیکشن کمشنر نے ان سے کہا تھا کہ بی جے پی نے 17 نومبر کے آس پاس رپورٹ جمع کی ہے اور تاخیرسے جمع کرنے کی وجہ سے انہوں نے پارٹی پر مناسب کارروائی کی یقین دہانی کرائی تھی۔انہوں نے کہا،’حیرانی کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اب دعویٰ کر رہا ہے کہ بی جے پی نے آخری تاریخ 31 اکتوبر کو رپورٹ داخل کر دی ہے۔ میری جب الیکشن کمشنر سے ملاقات ہوئی تھی تب انہوں نے کہا تھا کہ بی جے پی نے 17 نومبر کو یہ رپورٹ داخل کی ہے۔ 17 نومبر بھی کافی دیر ہے اس لئے انہوں نے کارروائی کی یقین دہانی کروائی تھی۔ ‘
دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ جس دن اجئے نے اس کو لےکر شکایت کی تھی اس کے اگلے دن سے ہی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کا وہ سیکشن نہیں کھل رہا تھا جہاں پر کانٹری بیوشن رپورٹ اپلوڈ کیا جاتا ہے۔دوبے نے کہا،’یہ 200 سے 250 کروڑ روپے کی گڑبڑی کا معاملہ ہے۔پورا معاملہ کافی مشکوک لگتا ہے۔ میرے ذریعے شکایت کرنے کے بعد سے ہی کمیشن کی ویب سائٹ ڈاؤن ہو گئی تھی۔ الیکشن کمیشن کو آگے آکر اپنی غیر جانبداری اورخود مختاریت ثابت کرنی چاہیے۔ ‘
گزشتہ22 نومبر کو دی وائر نے چیف الیکشن کمشنر اوپی راوت کو ای میل بھیجکر یہ جانکاری مانگی تھی کہ کیا بی جے پی نے وقت پر رپورٹ داخل کی تھی اور اگر نہیں تو اس پر کیا کارروائی کی جائےگی۔حالانکہ اوپی راوت نے دی وائر کے ای میل کا کوئی جواب نہیں دیا اور اچانک سے اگلے دن یعنی کہ 23 نومبر کو الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بی جے پی کی رپورٹ دکھنے لگی۔19 نومبر سے پہلے تک الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دکھ رہا تھا کہ ترنمول کانگریس اور ماکپا نے بھی اپنی رپورٹ داخل کر دی ہے۔
حالانکہ تازہ اپ ڈیٹ یہ ہے کہ کمیشن نے ان دونوں پارٹیوں کی رپورٹ کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا ہے اور اس رپورٹ کو لکھے جانے تک کمیشن کی ویب سائٹ پر صرف پانچ جماعتوں کی ہی رپورٹ دکھ رہی ہے۔ دی وائر کے پاس ان دو پارٹیوں کی رپورٹ کی بھی کاپی ہے جس کو کمیشن نے اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر پہلے ویب سائٹ پر ان پارٹیوں کی رپورٹ کی کاپی دکھ رہی تھی تو اچانک سے ان کو کیوں ہٹا دیا گیا۔
بی جے پی اور دیگر پارٹیوں کی امداد رپورٹ کے پہلے پیج میں ہے فرق
سال2015-16،2016-17اور2017-18کی رپورٹ کا مطالعہ کرنے سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے کہ پارٹیوں کے ذریعے داخل کی گئی اس رپورٹ کو پہلے کمیشن کی آر اینڈ آئی (رسیپشن کاؤنٹر)میں داخل کیا جاتا ہے، جہاں پر الیکشن کمیشن کا ٹھپہ لگاکر ڈائری نمبر لکھا جاتا ہے۔اس کے بعد اس رپورٹ کو پالیٹکل پارٹیز اکسپینڈیچر مانیٹرنگ سیکشن/ڈویزن (پی پی ای ایم ایس)میں بھیجا جاتا ہے جہاں پر ایک بار پھر ڈائری نمبر لکھا جاتا ہے۔رپورٹ کے پہلے پیج پر ایک اور سکریٹری (انڈر سکریٹری) کا بھی دستخط ہوتا ہے۔
یہ پروسس تمام پارٹیوں کے لئے فالو کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ اس بار بی جے پی کو چھوڑکر تمام پارٹیوں کے لئے اس پروسس سے ہوتے ہوئے ان کی رپورٹ منظور کی گئی ہے۔ بی جے پی کے ذریعے داخل کی گئی رپورٹ کی رسید (رسیونگ لیٹر)پر نہ تو آر اینڈ آئی سیکشن کا ٹھپہ ہے اور نہ ہی انڈر سکریٹری کا دستخط ہے۔بی جے پی کی رپورٹ کو سیدھے الیکشن کمیشن کے ڈی جی اکسپینڈیچر محکمہ میں بھیجا گیا ہے اور وہاں کے ڈائریکٹر نے دستخط کیا ہے۔ دستخط کی تاریخ کو بھی ایک بار لکھکر اس کے اوپر دوبارہ لکھی گیاہے۔
اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بی جے پی کی رپورٹ سے متعلق دی گئی جانکاری میں بھی کافی تضاد ہے۔ کمیشن کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ بی جے پی نے 27 جولائی 2018 کو یہ رپورٹ فائل کی ہے، حالانکہ بی جے پی کی رپورٹ میں یہ تاریخ 31 اکتوبر 2018 لکھی گئی ہے۔
کمیشن نے یہ بھی نہیں بتایا ہے کہ کس تاریخ میں بی جے پی کی رپورٹ کو ویب سائٹ پر سبمٹ کیا گیا ہے۔ صرف اتنا لکھا ہے کہ منگل، تین بجکر 22 منٹ پر سبمٹ کیا گیا ہے۔ دوسری پارٹیوں کے سلسلے میں اس طرح کی گڑبڑی نہیں ہے۔
کمیشن اب تک نہیں جوڑ پایا کہ بی جے پی کو کل کتنا کنٹری بیوشن ملا ہے
اگر الیکشن کمیشن کی بات کو صحیح مان لیا جائے تو بی جے پی کے ذریعےرپورٹ سونپے ہوئے 24 دن بیت گیا ہے لیکن اب تک کمیشن یہ جوڑ نہیں پایا ہے کہ بی جے پی کو سال 2017-18 میں کل کتنے کا فنڈ یا چندہ ملا ہے۔ دیگر تمام پارٹیوں کا فنڈ جوڑکر ویب سائٹ پر بتا دیا گیا ہے۔الیکشن کمیشن نے بی جے پی کے سلسلے میں لکھا ہے کہ کل امداد کو جوڑنا ابھی باقی ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ اگر بی جے پی نے اتنے دنوں پہلے یہ رپورٹ دے دی تھی تو اب تک الیکشن کمیشن کل امداد کے بارے میں کیوں نہیں بتا پا رہا ہے۔
بی جے پی نے جو رپورٹ داخل کی ہے اس میں یہ صاف دکھتا ہے کہ پارٹی کو کئی بڑی کمپنیوں سے امداد ملی ہے۔ کمپنی ایکٹ کی دفعہ 182 کے تحت یہ ضروری ہے کہ اگر کوئی کمپنی فنڈ دیتی ہے تو اس کے ساتھ ایک سرٹیفیکٹ دیا جانا چاہیے۔حالانکہ بی جےپی نے اپنی رپورٹ میں یہ سرٹیفیکٹ نہیں دکھایا ہے۔وہیں کانگریس اور دیگر جماعتوں نے یہ جانکاری الیکشن کمیشن کو دی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق انڈین نیشنل کانگریس نے بتایا ہے کہ ان کو سال 2017-18 میں 20000 روپے کے اوپر 26 کروڑ 65 لاکھ روپے کی امداد ملی ہے۔ وہیں نیشنل کانگریس پارٹی کو دو کروڑ آٹھ لاکھ روپے کی رقم ملی ہے۔اس کے علاوہ ماکپا کو دو کروڑ 75 لاکھ روپے اور ترنمول کانگریس کو 20 لاکھ 25 ہزار روپے ملے ہیں۔ وہیں بہوجن سماج پارٹی نے حلف نامہ دائر کر کے کہا ہے کہ اس کو اس بیچ کسی بھی قسم کا 20000 سے زیادہ کی امداد نہیں ملی ہے۔
الیکشن اصولوں کا رویہ،1961 کی دفعہ 85بی میں بھی یہی بات دوہرائی گئی ہے کہ پارٹیوں کے ذریعے وقت سے پہلے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنا ہوگا، تبھی ان کو ٹیکس چھوٹ ملےگی۔الیکشن کمیشن نے سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکس(سی بی ڈی ٹی)کو پہلے بھی کئی بار خط لکھکر کہا ہے کہ وقت پر امداد رپورٹ نہیں فائل کرنے والی پارٹیوں کی ٹیکس چھوٹ ختم کی جانی چاہیے۔
جھارکھنڈ مکتی مورچہ، راشٹریہ نوجوان دل، راشٹریہ مہیلا شکتی پارٹی جیسی نو ریاستی سطح کی پارٹیوں کے ذریعے تاخیرسے امداد رپورٹ داخل کرنے پر 24 فروری 2014 کو الیکشن کمیشن نے سی بی ڈی ٹی کے چیئر مین کو بھیجے خط میں کہا تھا،’متعلقہ ایکٹ کی دفعہ 29 سیکی ذیلی دفعہ (3) اور (4) کے تحت صرف وہی رجسٹرڈ پارٹیاں ٹیکس چھوٹ کی حق دار ہیں جنہوں نے وقت پر فارم 24 اے میں امداد رپورٹ داخل کی ہو۔ ‘
سال 2006 سے 2009 تک چیف الیکشن کمشنر رہے این گوپالاسوامی نے دی وائر کو بتایا کہ کئی ساری پارٹیاں وقت پر امداد رپورٹ داخل نہیں کرتی ہیں۔ کمیشن کے ذریعے بار بار یاد دلائے جانے کے باوجود کئی جماعت وقت پر رپورٹ نہیں کرتی ہیں۔حالانکہ گوپالاسوامی کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر کوئی وقت مقررہ کو پارکر جاتا ہے تب بھی ان کو رپورٹ داخل کرنے کا وقت دیا جانا چاہیے، فوراً ٹیکس چھوٹ کینسل نہیں کی جانی چاہیے۔
گوپالاسوامی کا کہنا ہے کہ اگر بار بار ٹیکس چھوٹ ختم کی جاتی ہے تو اس سے کمیشن کی بدنامی ہوگی۔وہیں سابق چیف الیکشن کمشنر نوین چاولا نے کہا، ‘جہاں تک مجھے یاد ہے، کسی پارٹی کی کبھی ٹیکس چھوٹ کینسل نہیں کی گئی۔ کچھ پارٹیاں وقت پر رپورٹ داخل نہیں کرتی ہیں۔ جب نوٹس بھیجا جاتا ہے، تب وہ امداد رپورٹ دائر کرتی ہیں۔ ‘
بتا دیں کہ گزشتہ27 اگست 2018 کو دہلی میں الیکشن کمیشن کے ساتھ ہوئے کل جماعتی اجلاس میں بھی پارٹیوں کے ذریعے وقت پر امداد رپورٹ فائل نہ کرنا ایک اہم مدعا تھا۔ اس دوران الیکشن پروسس کو بہتر کرنے کے لئے بات کی گئی تھی۔سال 2016-17 میں بی جے پی نے اپنی کل آمدنی 1034 کروڑ روپے بتایا تھا اور اس سال پارٹی کا کل خرچ 710 کروڑ روپے تھا۔ اس حساب سے اس سال بی جے پی کو کل 324 کروڑ روپے کی بچت ہوئی تھی۔
تاخیرسے امداد رپورٹ جمع کرنے پر بچت رقم پر ہی ٹیکس لگتا ہے۔ سماجی کارکن اجئے دوبے کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو تاخیرسے امداد رپورٹ جمع کرنے کی وجہ سے 200 سے 250 کروڑ روپے کا نقصان ہو سکتا تھا۔الیکشن سے متعلق اصلاحات کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم (اے ڈی آر)کےچیف ریٹائر میجر جنرل انل ورما نے کہا کہ الیکشن کمیشن خود اس بات کو لےکر سنجیدہ نہیں ہے کہ اگر کوئی تاخیرسے امداد رپورٹ داخل کرتا ہے تو اس کی ٹیکس چھوٹ کینسل کی جانی چاہیے۔انہوں نے کہا، ‘پارٹیاں تاخیرسے رپورٹ داخل کرتی رہتی ہیں، لیکن آج تک کسی بھی پارٹی کی ٹیکس چھوٹ ختم نہیں کی گئی۔ کمیشن خود اس مسئلے کو لےکر سنجیدہ نہیں ہے۔ ‘
Categories: فکر و نظر