کیا گندگی ہماری زندگی کا مقدر بن چکی ہے؟ کیا ہم اپنی ندیوں، اپنی گلیوں، اپنے شہروں کو اس بے قدری سے گندہ ہوتے رہنے دیںگے کہ وہ ایک چلو بھر پانی لینے یا رہنے لائق ہی نہ رہیں؟
سترہویں صدی کے متوسط مرحلے میں ہندوستان میں کئی دہائی گزارنے کے بعد پیشے سے ڈاکٹر فرانسیسی سیاح فرنکوئس برنیئر اپنے سفر کوختم کرنے کی عجلت میں تھے۔ اپنی طبی قابلیت کی وجہ سے ان کو ہندوستان میں مغل شہزادہ دارا شکوہ کا نجی ڈاکٹر بننے اور کچھ دن مغلوں کی درباری سیاست کو سمجھنے کا موقع ملا تھا۔
انہوں نے ہندوستان میں ہزاروں میل سفرکئے تھے لیکن وطن-واپسی کے آخری سفر میں جو نایاب قدرتی منظر دیکھے، اس کو وہ اپنی ڈائری’ٹریولس ان دی مغل امپائر(Travels in the Mogul Empire)میں لکھنا نہیں بھولے۔ پورا سفر آبی راستے سے کیا جانا تھا۔ اڑیسہ کے پیپلی پتن کے آگے کے سفر کو یاد کرتے ہوئے برنیئر نے لکھا-
‘The day following we arrived, at rather a late hour, among the islands; and having chosen a spot that appeared free from tigers, we landed and lighted a fire. There would have been danger in loosing our way in the dark… and therefore we retired out of a main channel in search of a snug creek, where we passed the night; the boat being fastened to a thick branch of a tree, at a prudent distance from the shore
While keeping watch, I witnessed a Phenomenon of Nature such as I had twice observed at Dehli. I beheld a lunar Rainbow, and awoke the whole of my company, who all expressed much surprise, especially two Portuguese pilots whom I had received into the boat at the request of a friend’
(Travels in The Mogul Empire AD 1656-1668, Atlantic publication Second Edition By Vincent A. Smith, P: 332)
برنیئر اور ان کی کمپنی نے قدرت کی جو حیرت انگیز مظاہر دیکھا تھا وہ چندردھنش تھا۔اہم بات یہ کہ خود برنیئر نے یہ چندردھنش پہلی بار نہیں دیکھا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ پیپلی کے سمندر کنارے پر قدرت کے اس مظاہر کو دیکھنے سے قبل وہ دہلی میں دو بار چندردھنش دیکھ چکے تھے۔
آج جب دہلی کے چاروں سمت لپٹی ہوئی گرد میں آپ پورے آسمان میں ایک تارے کو بھی انگلی اٹھاکر صاف صاف نہیں بتا سکتے وہ ٹھیک ٹھیک کس جگہ جڑا گیا ہے، یہ سوچنا کتنا دلفریب ہے کہ تب کی دہلی میں آسمان کی صفائی کا عکس کیا رہا ہوگا؟
ریاضی اسکیل پر ہواؤں کی شفافیت اور اجلےپن کی تضریب کیا رہی ہوگی؟یہ دعویٰ بالکل نہیں کیا جا سکتا کہ اس دور کا وقت انسان کے لئے تکلیفوں اور آفات کا وقت نہیں تھا۔ایک معمولی آدمی کے لئے زندگی جینا تاریخ کے کسی بھی مرحلے میں آسان نہیں تھا۔
اسی دہلی کے بارے میں،جو غالب کو بےحد عزیز تھی،ایک دوست نواب انورالدولہ ‘ شفق ‘ کو 1860 میں ایک خط لکھتے ہوئے مرزا غالب فرماتے ہیں کہ-
‘ شہر پر (دہلی)پے در پے پانچ لشکروں کا حملہ ہوا۔ پہلے باغیوں کا (1857)، دوسرا لشکر خاکیوں کا (انگریزوں کے ظلم و ستم والی کاروائی کی طرف اشارہ) … تیسرا قحط کا جس میں ہزارہا آدمی بھوک سے مر گئے۔
چوتھا لشکر ہیضے کا، اس میں بہت سے پیٹ بھرے لوگ مرے۔ پانچواں لشکر بخار کا، اس میں تاب و طاقت عموماً لٹ گئی۔ مرے آدمی کم لیکن جس کو تپ آئی اس نے پھر اعضاء میں طاقت نہ پائی ‘
میں سوچتا ہوں کہ اگر غالب اپنا رد عمل درج کر پاتے تو دھول اور دھواں کے گرد میں لپٹی ہوئی اپنی دہلی کے لئے ان کا وہ رد عمل کیسا ہوتا؟ تب کیا وہ اس دھند اور آلودگی کی گنتی دہلی پر حملہ کرنے والے چھٹے لشکر کے طور پر کرتے؟
تب کیا ان کو ‘شہر کی اقامت ‘ گوارہ ہوتی جس کے بارے میں وہ اکثر کہتے تھے کہ کیا کروں یہاں سخت غمزدہ اور ملول رہتا ہوں؟ کیا یہ دھواں ان کو اسی طرح پریشان کر دیتا جیسے وہ ‘ فیل خانہ، فلک پیرا اور لال ڈگّی کے سامنے بنے مکانات ‘ اور ‘نثار خان چھتے کو ‘ گرائے جانے سے ہوئے تھے۔
‘بلاقی بیگم کے کوچے ‘کی قسمت طے ہو رہی تھی اور غالب کی سانس رکی ہوئی تھی۔ اپنے ایک آشنا حسین مرزا کو وہ لکھ رہے تھے کہ ‘اہلِ فوج ڈھانا چاہتی ہے، اہلِ قلم بچاتے ہیں۔’
شہروں کی گھٹن کی اپنی تاریخ ہے۔ وہاں غمزدہ اور ملول ہو جانے کی سب کی اپنی اپنی وجہیں ہیں۔ شہریار نے جب یہ غزل لکھی کہ-سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے، اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے-تب ان کا مقصد غیرمشکوک طور پر آدمی کے کچھ مخصوص جذبات سے تھا۔
یہ شاعر کی ایک خاص ذہنی حالت سے پیدا ہوئی تخلیق تھی۔ یہ خاص ذہنی حالت شہر کاری سے پیدا شدہ اکتاہٹ، انفرادیت یا ایسے کسی بھی احساس سے پیدا ہوئی ہوگی، جس کو ایک لمحہ خاص میں محسوس کرکے شاعر نے ایک خوبصورت غزل کے طور پر قلمبند کر دیا۔
لیکن یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ شہریار کو اس خوبصورت تخلیق کو خلق کرنے کے لئے کم سے کم فضائی آلودگی سے کوئی ترغیب نہیں ملی ہوگی!
شاعر کے’سینے میں جلن ‘ہونے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کوئی وجہ نہیں رہی ہوگی۔ اس کی آنکھوں کا طوفان آنکھوں میں دھول کے سسپینڈیڈ پارٹیکلس کے گھس جانے کا نتیجہ نہیں رہا ہوگا۔شاعر پریشان ضرور رہا ہوگا۔ اس کی پریشانی کھلی ہوا میں سانس نہ لے سکنے کی وجہ سے نہیں تھی۔وہ ہواؤں کے نہیں، احساس کے’بےحس وبےجان ‘ہو جانے سے پریشان ہوا ہوگا۔ وہ شہر کی ہوا سے نہیں شہر کی بھیڑ کے درمیان قائم ہوئے بیابان سے ضرور عاجز ہو گیا تھا۔
شہریار کے شہر میں جذبات کا بحران تھا، ہواؤں کا نہیں۔ شہروں میں ہواؤں کے گھٹن کے بحران کی سب سے پہلی پہچان انگریزی کے رومانوی ادب میں رونما ہوتی ہے۔ شہروں سے نقل مکانی کی خواہش ایک رجحان بن جاتی ہے۔
تین مضمون نگار کی ایک تثلیث(ولیم ورڈس ورتھ، سیموئل ٹیلر کالرج اور رابرٹ ساؤدی)کو ‘لیک پوئٹس ‘ہی کہا جانے لگتا ہے۔ صنعتی انقلابات ہوتے ہیں۔ کیمیاوی دھواں پہلی بار آدمی کی زندگی کا حصہ بنتا ہے۔ آدمی پہلی بار زمین کے اوپر کے ماحول کو اپنے معمول کی فضولیات سے بھر دیتا ہے۔
پی بی شیلی کی طنزیہ نظم ‘پیٹر بیل دی تھرڈ ‘(Peter Bell The third) کا ہیرو جب موت کے بعدجہنم میں پہنچتا ہے تو پاتا ہے کہ جہنم تو بالکل لندن جیسا ہے۔
‘Hell is city much like London-
A populous and a smoky city
جو کچھ بھی لندن میں مل سکتا ہے وہ سب وہاں دستیاب ہے۔ لیکن اس کی سب سے بڑی پہچان اس کی بےتحاشہ آبادی اور دھواں ہے۔ وہ راجدھانی ہے اس لئے فطری طورپر وہاں راجا ہے، عدلیہ ہے اور جیسا کہ راجدھانیوں میں ہوتا ہے خیالی پلاوؤکے طور پر انقلاب کی باتیں ہیں۔وہاں لندن کی ہی طرح سپاہی ہیں، تاناشاہ ہیں۔ وکیل ہیں، بشپ ہیں، جج ہیں۔ چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے چور ہیں۔ شیلی کا لندن نظم میں پہلا جدید لندن ہے جہاں-
There are all sorts of people undone
And there is little or no fun done
Small justice shown and still less pity… A manufacturing mob; a set
Of thieves who by themselves are sent
Similar thieves to repreasentThrusting, toiling wailing, moiling
Frowning, preaching -Such a riot!
Each with never-ceasing labour
Whilst he thinks he cheats his neighbour
Cheating his own heart of quiet’
شیلی کا یہ’اسموکی’لندن تقریباً ایک صدی پہلے کی بات تھی۔ آج کے ہندوستان میں ایک خبر کے مطابق، 2016 میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً سوا لاکھ بچے فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے گئے۔ پی ایم 2.5 جو آلودگی کا سب سے زیادہ خطرناک حصہ ہے اور صنعتی اکائیوں اور گاڑیوں کے دھواں کے اخراج سے پیدا ہوتا ہے اور اکیلے تقریباً 61000 بچوں کی موت کی وجہ بنا ہے۔
دوردراز دیہات کے سب ڈویزن اور چھوٹے قصبے بھی اب محفوظ نہیں رہے ہیں۔ مشہور جرمن ماہرِ سماجیات اُلرک بیک کی یہی طنزیہ دلیل تھی کہ ‘اسماگ سب کو جمہوری بنا دےگا۔ ‘ کچھ بھی باقی نہیں رہےگا جو اسماگ کے ظہور سے بچنے کا دعویٰ کر سکے۔’وکاس’کا ناسمجھ نظریہ، تہذیبوں کی پرورش کرنے کا دعویٰ کرنے والے شہر اور ان کے ماحول کو اتنا گندہ کر چکی ہیں کہ اگر آج سے ان کو صاف کرنے کی مہم شروع ہو، تو مطلوبہ نتیجہ آنے میں ہی سالوں لگیںگے۔
ایک ملک کے طور پر ہم ہمیشہ فخر سے اپنے جمہوری ہونے کا اعلان کرتے ہیں لیکن ایک سماج کے طور پر ماحولیاتی قدروں کی سطح پر ہماری سوچ میں ایسی کاہلی اور اتھلاپن موجود ہے جس کو ہم قبول کرنے میں بھی جھجک کرتے ہیں۔کیا گندگی ہماری زندگی کی قدر بن چکی ہے؟ کیا ہم اپنی ندیوں، اپنی گلیوں، اپنے شہروں کو اس بے قدری سے گندہ ہوتے رہنے دیںگے کہ وہ ایک چلو بھر پانی لینے یا رہنے لائق ہی نہ رہیں؟
کیا ہم سچ میں اس قدر ‘اپنے ‘میں کھوئے رہنے کی قیمت چکانے کو تیار ہیں کہ اپنے بچوں کو سانس بھرنے کے لئے کم از کم ضروری صاف ہوا بھی نہ دستیاب کرا سکیں۔بڑی معیشت کے دعووں کے درمیان کیا ہم قدرت کے سامنے اتنے مفلوک الحال ثابت ہونے والے ہیں۔اس ہوا کو، جو اپنی بنیادی شکل میں ہمیں صاف ستھری، غیر-کیمیاوی حاصل ہوئی تھی اس کو ہم نے اپنے شہروں میں غیر ذمہ داری اور ناسمجھی سے ایک زہر میں بدل ڈالا ہے۔رومانوی دور کے ایک مشہور مصور اور شاعر ولیم بلیک کی نظم ‘یروشلم’میں شہروں کا تصور دراصل انسانی تھا۔سبھی کچھ تو آدمی جیسا تھا۔شہر… ندیاں… پہاڑ… سبھی کچھ۔
Cities ….
Are men, fathers of multitudes, and Rivers and Mountains are also Men
Everything is Human, Mighty Sublime !
کیا ہمیں اپنے شہروں اور ان کی ہر شے کی انسانی تجسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے جہاں ہواؤں میں کیمیا نہ ہوں، تیزاب نہ ہو! کیا ایسے شہروں کی تعمیر ممکن ہے جہاں ہم سبھی اجتماعی جوابدہی سے ایک صاف آسمان اور سفید ہواؤں کا بہنا متعین کر سکیں؟
(مضمون نگار انڈین پولیس سروس،آئی پی ایس کے اتر پردیش کیڈرمیں آفیسر ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر