خبریں

کوٹک مہندرا بینک کے ایم ڈی نے کہا،نوٹ بندی کا منصوبہ بہتر طریقے سے بنایا جاتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا

نوٹ بندی کے دو سال بعد اہم بینکر ادئے کوٹک نے 2000 روپے کا نوٹ لانے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ 500 اور 1000 روپے کے نوٹ بند کر رہے ہیں تو اس سے بڑا نوٹ لانے کی کیا ضرورت تھی؟

ادئے کوٹک/فوٹو: رائٹرس

ادئے کوٹک/فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: نریندر مودی حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلےپر تقریباً دو سال بعد اہم بینکر ادئے کوٹک نے کہا ہے کہ ‘ کچھ عام سی باتوں ‘ پر توجہ دی گئی ہوتی تو بڑی قیمت کی نوٹوں پر پابندی کے فیصلے کا نتیجہ’ کافی اچھا ہوتا۔’اس بارے میں انھوں نے 2000 کا نیا نوٹ چلن میں لانے پر بھی سوال اٹھائے ، لیکن یہ بھی کہا کہ مالی شعبہ کے لیے یہ ایک’ بڑا وردان’ رہا۔

ملک کے نجی شعبہ میں چوتھے سب سے بڑے بینک کوٹک مہندرا کے ایگزیکٹیو وائس چیئر مین اور ایم ڈی کوٹک نے کہا کہ چھوٹی فرمیں اس وقت مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔ حالانکہ انھوں نے حکومت کے ذریعے اس شعبہ پر توجہ دینے کا خیر مقدم کیا ہے۔ نوٹ بندی پر انھوں نے کہا کہ اگر اس کا بہتر طریقے سے منصوبہ بنایا جاتا تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہوتا۔

کوٹک نے سابق چیف اکانومک ایڈوائزر اروند سبرامنین کی کتاب’ آف کاؤنسل: دی چیلنجیز آف دی مودی -جیٹلی اکانومی’کی رونمائی کے موقع پر کہا،’ مجھے لگتا ہےکہ اگر کچھ عام باتوں کے بارے میں سوچا گیا ہوتا تو اس کا نتیجہ قابل ذکر طور پر بہتر ہوتا۔ اگر آپ 500 اور 1000 کا نوٹ بند کر رہے ہیں تو 2000 کا نوٹ شروع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟کوٹک نے کہا کہ Implementation Strategyکے تحت یہ متعین کرنا ضروری تھا کہ صحیح قیمت کے نوٹ بڑی تعداد میں مہیا کرائے جاتے۔ انھوں نے کہا کہ اگر یہ سب چیزیں کی گئی ہوتیں تو آج ہم کچھ الگ طریقے سے بات کر رہے ہوتے۔

حالانکہ کوٹک نے دعویٰ کیا کہ نوٹ بندی مالی شعبہ کے لیے وردان ثابت ہوئی۔انھوں نے کہا کہ مالی بچت میں اضافہ ناقابل اعتماد ہے۔ اس سے جوکھم مینجمنٹ کا چیلنج بھی کھڑا ہوا ہے۔ اسی پروگرام میں سابق چیف اکانومک ایڈوائزر اروند سبرامنین نے بھی نوٹ بندی کی تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نافذ کیے جانے سے ملک کی اکانومی کی رفتار سست ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جی ایس ٹی سے ریونیو وصولی کا ہدف لاجیکل نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی سبرامنین نے نوٹ بندی کو ایک بڑا ،سخت اور  کرنسی کے لیے جھٹکا بتایا، جس نے اکانومی کو 8 فیصد سے  6.8 فیصد پرپہنچا دیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)