میزورم میں بی جے پی پہلی بار اپنا کھاتا کھولنے کے ساتھ اپنے کانگریس سے آزاد نارتھ ایسٹ کے سیاسی مشن میں کامیاب تو ہوئی، لیکن ریاست کے عیسائی اکثریتی رائےدہندگان نے اس کو پوری طرح سے مستردکر دیا۔
میزورم اسمبلی انتخابات کا نتیجہ پہلی بار سہ رخی آیا ہے، لیکن اقتدار کی تبدیلی روایتی طور پر دو پارٹی ہی رہی ہے۔ ریاست میں ہر دس سال میں حکمراں جماعت کو بدلنے کا رجحان اس بار بھی قائم رہا ہے۔ ویسے ریاست میں پچھلے 30 سال کے انتخابی تاریخ میں رائےدہندگان نے نہ توخراب مینڈیٹ دیا اور نہ ہی کسی بھی حکمراں جماعت کو لگاتار تیسری بار اقتدار کے لئے اکثریت دی۔ یہی روایت اس بار بھی رہی ہے۔ حالانکہ اس بار کے انتخابات کے نتیجے کئی معنوں میں الگ بھی ہیں۔
پہلی بار ریاست میں 7 جماعتوں کا علاقائی اتحاد جورم پیپلس موومینٹ (جےڈی پی ایم) نے 8 سیٹ پر جیت درج کرکے 10 سال سے حکمراں کانگریس کو تیسرے مقام پر دھکیل دیا۔ علاقائی پہچان کی نظریاتی سیاست کرنے والی میزو نیشنل فرنٹ (ایم این ایف) پارٹی نے دس سال بعد 40 میں سے 26 سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں واپسی کی ہیں۔ ریاست میں پہلی بار بی جے پی جو 1993 سے انتخابات لڑ رہی تھی، نے ایک سیٹ کے ساتھ اسمبلی میں کھاتا کھول لیا۔ کانگریس 2013 میں 34 سیٹ کے ساتھ اقتدار میں لگاتار دوسری بار آئی تھی وہ اس بار 5 سیٹ پر سمٹ گئی۔
اپنے 40 سال کے سیاسی سفر میں لال تھانہاولا دو بار انتخابات ہارے ہیں، پہلی بار 1998 اور دوسری بار 2018، یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ جب جب بھی کانگریس انتخابات ہاری، تب-تب وہ بھی وزیراعلیٰ رہتے ہوئے انتخابات ہارے ہیں۔ راجدھانی آئیزول شہر کی 11 اور اس ضلع کی کل 13 سیٹوں میں سے کانگریس کو اس بار ایک بھی نہیں ملی۔ شمالی-میزورم میں کانگریس کو محض ایک سیٹ ملی۔ اقلیتی چکمہ علاقے کی 2 سیٹ میں سے کانگریس اور بی جے پی کو ایک ایک سیٹ ملی ہے۔
یہ جانکر دلچسپ لگتا ہے کہ یہ دونوں سیٹ چکمہ خود مختار ضلع کاؤ نسل میں آتی ہیں، جہاں اسی سال جولائی میں بی جے پی اور کانگریس نے ساجھا-حکومت بھی بنائی تھی۔ کانگریس-بی جے پی کی اس طرح کی سیاست کی ملک بھر میں خوب چرچہ ہوئی تھی۔ حالانکہ ریاست کی چرچ تنظیموں نے اس پر ناراضگی ظاہر کی تھی۔ کانگریس کے رہنما اور اقتدار سے باہر ہوئے وزیراعلیٰ لال تھانہاولا نے اس کو اپنی اور پارٹی کی ہار کی ایک وجہ بھی مانا ہے۔ اس بار لال تھانہاولا خود بھی دو سیٹ سے انتخابات ہار گئے۔
انتخابات سے ایک-دو مہینے پہلے بنا 7 جماعتوں کا علاقائی اتحاد زیڈ پی ایم کے رہنما للدوہوما جو 15 سال بعد دو سیٹوں سے انتخابات جیتے ہیں۔ ایم این ایف کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ جورام تھانگا نے بھی دس سال بعد اس بار دو سیٹ سے انتخابات جیتے ہیں۔ تریپورہ کی پناہ گزین کیمپوں سے 20 سال بعد پہلی بار برو کمیونٹی کے ہزاروں رائےدہندگان میزورم میں رائے دہندگی کرنے آئے، ان کے اثر والی ایک سیٹ سے بی جے پی کو جیتنے کی امید تھی لیکن مایوسی ہوئی، ان دونوں سیٹوں میں سے کانگریس اور ایم این ایف نے ایک ایک جیتی ہے۔ جنوبی میزورم میں کانگریس کو 4 سیٹوں پر ہی جیت ملی ہے۔
نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس(این ای ڈی اے) کی تین معاون جماعت-بی جے پی، ایم این ایف اور میگھالیہ میں حکمراں نیشنل پیپلس پارٹی (این پی پی) نے الگ الگ انتخابات لڑے تھے، لیکن پہلی بار انتخابات لڑنے والی این پی پی کو میزورم میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ کانگریس چھوڑکر ایم این ایف اور بی جے پی میں شامل ہوئے 5 سینئر رہنماؤں میں سے 3 کو جیت ملی ہیں۔ ان میں کانگریس کے سابق نائب صدر اور وزیر داخلہ رہے شری لال جرلیانہ، سابق وزیر بی ڈی چکمہ اور ایک ایم ایل اے شری لال ریانا سائلو شامل ہیں۔
انتخابات سے پہلے کانگریس چھوڑکر بی جے پی میں شامل ہوئے بی ڈی چکمہ نے بی جے پی کو ریاست میں پہلی بار جیت دلائی ہیں، لیکن بی جے پی کو ریاست کے جنوب میں مارا-قبائلی علاقے کی 2 سیٹ میں سے ایک سیٹ پر جیت درج کرنے کی امید کو دھکا لگا ہے۔
اس علاقے کی متاثر کن پارٹی مارا ڈیموکریٹک فرنٹ-ایم ڈی ایف کا اسی سال بی جے پی میں انضمام ہوا تھا اور اسمبلی اسپیکر، جو مارا قبائلی کمیونٹی کے متاثر کن رہنما بھی ہیں، بی جے پی سے انتخاب لڑے لیکن ان کو کانگریس امیدوار کے ہاتھوں ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ بی جے پی نے ریاست کی 40 میں سے 39 سیٹ پر امیدوار اتارے تھے۔ کافی زور شور سے انتخابی تشہیر بھی کی تھی۔ ریاست میں اس بار بی جے پی نے اقلیتی کمیونٹی چکمہ اور قبائلی کمیونٹی برو اور مارا کو اپنے حزب میں پولرائزڈ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بی جے پی کو اس پولرائزیشن سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔
میزورم میں بی جے پی پہلی بار اپنا کھاتا کھولنے کے ساتھ ساتھ اپنے ‘ کانگریس سے آزاد نارتھ ایسٹ ‘ انتخابی سیاسی مشن میں کامیاب ہو گئی، لیکن ریاست کے عیسائی اکثریتی رائےدہندگان نے بی جے پی کو پوری طرح سے مسترد کردیا۔ نارتھ ایسٹ کی 8 ریاستوں میں کانگریس کی واحد حکومت میزورم میں تھی، جو میزورم کے نتائج کے ساتھ ہی کانگریس کے ہاتھ سے نکل گئی۔
کانگریس کے رہنما اور وزیراعلیٰ لال تھانہاولا کو پارٹی میں پریوارواد کو بڑھاوا دینے اور دوسرے رہنماؤں کو پارٹی میں نظرانداز کرنے کو پارٹی کارکنان اور رائےدہندگان نے صحیح نہیں مانا۔ لال تھانہاولا 77 سال کے ہو گئے ہیں اور اب پارٹی کی کمان اپنے چھوٹے بھائی کو دینے کی سیاسی قیاس آرائیوں کو شہری اور جوان رائےدہندگان نے سنجیدگی سے لیا۔
ریاست کے جوان اور شہری طبقے کے رائےدہندگان کے ساتھ-ساتھ کانگریس رہنماؤں میں لال تھانہاولا اور پارٹی سے مایوس ہونے اور شہری علاقوں میں ہار ہونے میں یہ بھی ایک وجہ رہی۔ پچھلی بار کانگریس نے آئیزول ضلع کی 13 میں سے 10 سیٹ جیتی تھی۔ اس بار ان سیٹوں پر نوجوان، غیر جانبدار اور نئے رائےدہندگان طبقے میں زیڈپی ایم کے حزب میں زوردار ہوا ہونے کی وجہ سے کانگریس کی تاریخی ہار ہوئی۔ ریاست میں 2008 سے کانگریس کی حکومت تھی، لیکن آئیزول شہر کارپوریشن میں ایم این ایف کا قبضہ ہے۔
اس بار کانگریس نے 10 نئے چہروں کو ان انتخاباتات میں اتارا تھا، لیکن یہ نئے چہرے بھی اس بار پارٹی کو شہری علاقوں کے ساتھ-ساتھ دیہی علاقوں میں بھی ہار سے نہیں بچا پائے۔ ایم این ایف کو کانگریس کے خلاف اقتدار مخالف لہر کا پورا فائدہ ہوا۔ شہری، جوان اور غیر جانبدار رائےدہندگان نے خاص کر آئیزول میں انتخابات سے پہلے 7 جماعتوں کا نئے علاقائی اتحاد زیڈپی ایم کو کانگریس اور ایم این ایف کی جگہ ایک آپشن کے طور پر منتخب کیا ہے ۔
ریاست کے شہری علاقوں کے رائےدہندگان نے ان دونوں حریف جماعتوں کی حکومتوں اور سیاست کو دیکھا ہے، شاید اس لئے اس بار تیسرے آپشن کے طور پر زیڈپی ایم کو بھرپور حمایت ملی اور یہ ایک نئے، تیسرے آپشن کے طور پر ابھرا۔ آئیزول شہر کی 11 میں سے 6 سیٹ پر زیڈ پی ایم کو جیت ملی، لیکن دیہی رائےدہندگان نے اس تیسرے آپشن کو منظور نہیں کیا۔ کانگریس کو 10 سال کی حکومت کے دوران کئے گئے ترقیاتی کاموں کا پھل نہیں ملا۔
اس بار ریاست میں اور پہلی بار میزورم یونیورسٹی کے 6 پروفیسر نے ایم این ایف پارٹی سے انتخابات جیتے ہیں۔ آئیزول فٹ بال کلب کے مالک رابرٹ رومویا نے بھی ایم این ایف پارٹی سے انتخاب جیتا۔ ریاست میں خاتون رائےدہندگان مرد رائےدہندگان سے زیادہ ہونے کے باوجود بھی اس بار ایک بھی خاتون امیدوار انتخاب نہیں جیت پائی۔
اس بار کل 209 امیدواروں میں 15 خواتین تھیں۔ 27 سال بعد ریاست میں 2014 کی ایک سیٹ کے ضمنی انتخابات میں پہلی خاتون نے اسمبلی کا انتخاب جیتا تھا۔ ریاست میں بےروزگاری، خراب سڑکیں، اقتدار مخالف لہر، علاقائی پہچان کا سیاسی نظریہ بنام ہندو راشٹر کانظریاتی پولرائزیشن جیسے مدعے اور عامل انتخابی سیاست میں مؤثر رہے۔
(سوالال جنگو میزورم یونیورسٹی کے پالیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔)
Categories: فکر و نظر