پانچ ابواب پر مشتمل 267 صفحات کو محیط اس کتاب کا بنیادی مقصد شاہ بانو کیس سے متعلق ضیاء الرحمان انصاری کے نقطہ نظر کی معروضی وضاحت ہے تاکہ مصنف کے بقول غلط تعبیر ، غلط فہمی اورحقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی روش کا محاسبہ کیا جا سکے۔
مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد بر صغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی مزاحمت اور احتجاج سے عبارت رہی ہے۔ ناانصافی اور محکومی کا مسلسل احساس خوں آشام معرکوں پر بھی منتج ہوا جس کی سب سے اہم مثال1857ء کی پہلی تحریک آزادی ہے جسے کلونیل مؤرخوں نے غدر سے موسوم کیا اور یہ اصطلاح اب تک لوگوں کی زبان پر چڑھی ہوئی ہے۔ آزادی سے قبل خلافت تحریک نے مسلمانوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی تھی تاہم جذباتی خروش سے آباد یہ تحریک بارآور نہ ثابت ہو سکی۔
آزادی کے بعدشاہ بانو کیس ایک ایسے مسئلہ کی صورت میں سامنے آیا جس کے خلاف مسلمانوں کے تقریباً تمام اہم فرقے متحدہوگئے تھے۔ اصغر علی انجینئر کے مطابق آزادی کے بعد مسلمانوں میں اس سے زیادہ مؤثر تحریک نظر نہیں آتی۔شاہ بانو کیس مطلقہ عورت کے نان نفقہ سے متعلق سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ کا فیصلہ تھا۔ سپریم کورٹ نے 23؍اپریل 1985ء کے اپنے ایک فیصلہ میں محمد احمد بنام شاہ بانو بیگم مقدمہ میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 125کے تحت مطلقہ عورت نان نفقہ کی حق دار ہے۔
اس مقدمہ کے خلاف مسلمانوں نے ملک گیر سطح پر احتجاج کیا اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو منسوخ کرنے کی غرض سے راجیو گاندھی حکومت نے Muslim Women (Protection of Rights on Divorce) Act 1986 پاس کیا۔ اس امر پر دانشوروں کا اتفاق ہے کہ اس بل نے ہندو فرقہ پرست اور دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کو زبردست تقویت پہنچائی۔ یہ سوالات بھی اٹھائے گئے کہ اگر مطلقہ عورت کو عدت کے بعد نان نفقہ کی رقم ملتی رہے اور اس باب میں قرآن اور شریعت میں کوئی قطعی صراحت موجود نہیں ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے اور اسے کس طرح شریعت میں مداخلت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
حکمراں جماعت کانگریس میں اس مسئلہ پر شدید اختلاف رونما ہوا اور عارف محمد خاں کو مستعفی ہونا پڑا۔ مگر یہ بل آخر کار پاس ہوا۔ بل کی حمایت میں سینہ سپر ہونے والوں میں مرکزی وزیر ضیاء الرحمان انصاری کا نام سر فہرست تھا اور اب جب بھی شاہ بانو کیس کا ذکر کیا جاتا ہے ضیاء الرحمان انصاری کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اور مسلمانوں کے خلاف دیگر اقدام کے جواز کے طور پر اس بل کو پیش کیا جاتا ہے اور ضیاء الرحمان انصاری کومورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ ضیاء الرحمان انصاری اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے دور حکومت میں کابینہ کے رکن رہے۔ ان کا انتقال 1992ء میں ہوا تھا۔
اب جب کہ سیاسی سطح پر مسلمانوں کی اقتدار سے بے دخلی کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے، ضیاء الرحمان انصاری سے متعلق سوانحی مواد اور ان کی سیاسی اور سماجی خدمات کے تفصیلی تذکرہ کا اشاعت پذیر ہونا نہ صرف ایک فال نیک ہے بلکہ یوں بھی ہے کہ انصاری صاحب سے متعلق جو غلط فہمیاں رواج پا گئی ہیں ان کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ ضیاء الرحمان انصاری کے فرزند فصیح الرحمان صاحب، ایک مشہور ماحولیاتی سائنس داں ہیں اور انہوں نے برٹش کولمبیا یونیورسٹی میں تدریسی فرائض بھی انجام دیے ہیں، اپنے والد سے متعلق غلط تعبیروں اور مفروضوں کا پردہ چاک کرنے کے بجا طور پر خواہاں ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے اپنے والد کی سوانح عمری بعنوان “Wings of Destiny: Ziaur Rehman Ansari – A Life” لکھی ہے جو حال ہی میں ہائبرو اسکرائبس پبلی کیشنز، دہلی نے شائع کی ہے۔
پانچ ابواب پر مشتمل 267 صفحات کو محیط اس کتاب کا بنیادی مقصد شاہ بانو کیس سے متعلق ضیاء الرحمان انصاری کے نقطہ نظر کی معروضی وضاحت ہے تاکہ مصنف کے بقول غلط تعبیر ، غلط فہمی اورحقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی روش کا محاسبہ کیا جا سکے۔ فصیح الرحمان کا خیال ہے کہ ضیاء الرحمان کی سیاسی خدمات کے دستاویزی شواہد اور شاہ بانو مقدمہ سے متعلق ان کے نقطۂ نظر کی صحیح تناظر میں وضاحت اور پس منظر کی تشریح اب تک مکمل طور پر نہیں ہو سکی ہے، لہٰذا ضیاء الرحمان انصاری کی شبیہ بھی پوری طرح اجاگر نہیں ہو سکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : شاہ بانو معاملے میں راجیو گاندھی کو سپریم کورٹ کی مخالفت پر آماده کرنے والا اصل شخص کون تھا؟
مضمون کے مطابق آزادئ رائے کی آڑ میں ہر قسم کی غلط تشریح اور مطالعہ انگیز تعبیر اور ان کی تقریر کے منتخب اقتباسات کی مدد سے جو بیانیہ تیار کیا گیا اس پر بد دیانتی کے سائے لرزاں ہیں۔ ضیاء الرحمان کی خدمات اور ان کے نقطۂ نظر کی صحیح وضاحت سے عوام کو واقف کرانا کتاب کا مقصد اولین ہے۔فصیح الرحمان نے کتاب کا چوتھا باب ’’شاہ بانو کیس پر مباحثہ: ضیاء الرحمان کا تناطر‘‘میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ شاہ بانو مقدمہ کے قانونی مضمرات پر روشنی ڈالی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے اقتباسات بھی درج کیے ہیں اور پھرپارلیامنٹ میں اس مسئلہ پر بحث کو بڑی تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے۔
اس ضمن میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی راجیو گاندھی کو عرضداشت اور دفعہ 125اور 127میں ترمیم سے متعلق غلام محمد محمود بنات والا کے پیش کردہ بل کا بھی تفصیلی اندراج کیا گیا ہے۔فصیح الرحمان نے لکھا ہے کہ یہ تصور بالکل غلط ہے کہ راجیو گاندھی کی ایما پر ضیاء الرحمان انصاری نے بل کی حمایت میں زبردست تقریر کی اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کو رد کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ مصنف کے مطابق ضیاء الرحمان انصاری سپریم کورٹ کے فیصلہ سے خود بہت بد دل تھے اور وہ اس کے خلاف بولنا چاہتے تھے۔ ان کو اس بات کا شبہ تھا کہ شاید شاہ بانو کیس میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے نقطۂ نظر کی حمایت راجیو گاندھی کو پسند نہ آئے۔
فصیح الرحمان کے مطابق اس سلسلہ میں ضیاء الرحمان انصاری نے جب راجیو گاندھی سے ملاقات کی اور بنات والا کے پیش کردہ بل پر اظہار خیال کی اجازت چاہی تو اس وقت ممبر پارلیامنٹ عزیز قریشی صاحب موجود تھے۔ ان کے مطابق ضیاء الرحمان صاحب نے راجیو گاندھی سے کہا کہ اگر بل پر تقریر کی اجازت دینے میں انہیں تامل ہے تو وہ بلا تکلف ان کا استعفیٰ منظور کر لیں اور وہ استعفیٰ کا خط لے کر گئے تھے۔ راجیو گاندھی نے استعفیٰ کا خط لے کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ کتاب میں ضیاء الرحمان انصاری کی نامکمل تقریر کامتن نقل کیا گیا ہے جو انہوں نے 22؍نومبر 1985ء کو پارلیامنٹ میں کی تھی۔
یہ ان کی پہلی تقریر تھی جس میں شادی، طلاق اور نان نفقہ کے شرعی نقطہ نظر کی وضاحت کی گئی تھی۔ضیاء الرحمان نے کہا کہ قرآن محض رسوم، طرزِ معاشرت اور روایات سے متعلق کتاب نہیں ہے بلکہ یہ ان ہدایتوں پر مشتمل ہے جن پر عمل کرکے انسان معاشرہ کو بہتر طور پر چلا سکتا ہے۔ فصیح الرحمان نے مرکزی وزیر کے نقطۂ نظرکا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا خیال تھا کہ پرسنل لا بھی معاشرتی تبدیلی کے ساتھ تبدیل کیے جا سکتے ہیں کہ اسلام کے نزدیک معاشرہ کی اجتماعی حیثیت ہے جو نامیاتی اور ارتقا پذیر ہے۔
اگر معاشرہ ضرورت محسوس کرے تو تبدیلی یقیناً کی جا سکتی ہے تاہم یہ تبدیلی ان واضح قرآنی احکام سے متغائر نہ ہو جن کی مکمل تفصیل موجود ہے۔ضیاء الرحمان نے اپنی تقریر میں اس امر کا شد و مد کے ساتھ اظہار کیا کہ اسلام پُر وقار زندگی پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور عزت نفس ہر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ مطلقہ عورت کا اپنے سابق شوہر (جس سے اب اس کا کوئی تعلق نہیں ہے) سے زندگی بھر نان نفقہ لینا انسانی حرمت کے منافی ہے۔ یہ نقطہ نظر مذہبی سے زیادہ معاشرتی اور اخلاقی ہے اور اس پر پدر اساس معاشرہ کے تصور کائنات کی صاف چھاپ نظر آتی ہے۔
مطلقہ عورت کی نگہداشت کی ذمہ داری ضیاء الرحمان کے مطابق عورت کے والدین، بھائی بہنوں اور دیگر رشتہ داروں پر ہے کہ اسے وراثت میں حصہ ملتا ہے۔ اگر کسی عورت کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے تو پھر یہ ذمہ داری معاشرہ اور حکومت کی ہے۔یہ نقطہ نظر محل نظر ہے کہ اگر مطلقہ عورت کو نان نفقہ اس کا سابق شوہر ادا کرتا رہے تو اس سے کس شرعی حکم کی عدولی ہوتی ہے، اس کی قرار واقعی وضاحت نہیں ہے۔ فصیح الرحمان کی وضاحت بھی زیادہ قابل قبول محسوس نہیں ہوتی۔
کتاب کا تیسرا باب بڑی تفصیل کے ساتھ شاہ بانو مقدمہ کے متعلقات اوراس سے متعلق مباحث کی دقت نظر کے ساتھ وضاحت کرتا ہے اور ان حقائق سے بھی واقف کراتا ہے کہ جسے ذرائع ابلاغ نے زیادہ لائق اعتنا نہیں سمجھا۔فصیح الرحمان کی کتاب معروضیت اور غیر جذباتی نقطہ نظر کی غماز ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی مدلل مداحی سے واضح طور پر اجتناب کیا ہے اور ان کے کمالات اور اکتباسات کی صراحت کے ساتھ ساتھ ان کی بعض شخصی کمزوریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضیاء الرحمان صاحب بہت جلد مشتعل ہو جاتے تھے تاہم ان کا غصہ بہت جلد جھاگ کی طرح بیٹھ بھی جاتا تھا ۔
اس ضمن میں انہوں نے ستمبر 1978ء کا ایک واقعہ کھا ہے کہ اندرا گاندھی کان پور آئی تھیں اور ضیاء الرحمان انصاری نے شکلا گنج (اناؤ) جاکر ان کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ کار میں محسنہ قدوائی بھی تھیں اور اندرا گاندھی نے ضیاء الرحمان کو بھی کار میں بٹھا لیا اور اناؤ پہنچنے پر اناؤ کے کانگریسی لیڈر گوپی ناتھ دکشت بھی اندرا گاندھی سے ملنے آئے۔ اندرا جی نے انہیں بھی کار میں سوارکرا لیا۔ کار میں بیٹھتے ہی دکشت جی نے شکوہ کیا کہ انہیں اندرا گاندھی کے دورے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ اس پر محسنہ قدوائی نے انصاری صاحب سے پوچھا کہ انہوں نے اندرا گاندھی کی آمد سے سب کو مطلع کیوں نہیں کیا۔
اس پر انصاری غصہ سے آگ بگولا ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ وہ اناؤ کانگریس کمیٹی کے کوئی عہدے دار نہیں ہیں اور سب کو مطلع کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل نہیں ہے۔ اندرا گاندھی نے انصاری کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ انصاری صاحب اندرا جی کے ساتھ لکھنؤ جانے والے تھے مگر جب گاڑی اناؤ سرحد سے نکلنے لگی تو انصاری صاحب اندرا گاندھی سے اجازت لے کر کار سے اتر آئے اور ان کے ساتھ لکھنؤ نہیں گئے۔ ضیاء الرحمان انصاری کے شخصی اور سوانحی کوائف ان کی پسند و ناپسند اور ترجیحات سے متعلق نادر معلومات سے اس کتاب کے صفحات پُر ہیں۔
ضیاء الرحمان انصاری ایک اچھے مقرر تھے اور ان کا مطالعہ خاصا وسیع تھا، خصوصاً اردو اور فارسی شعرو ادب کا۔ فصیح الرحمان صاحب نے اس ضمن میں بہت سی تفصیلات پیش کی ہیں۔ علم عروض اور فن موسیقی سے بھی انصاری صاحب کی گہری دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ اسی طرح بعض ملی اداروں مثلاً ندوۃ اور دیو بند سے ان کے گہرے تعلق کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ضیاء الرحمان انصاری ایک کامیاب سیاست داں تھے اوران کو علوم و فنون سے بھی گہرا تعلق تھا، یہ کتاب اس نکتہ کو دستاویزی شواہد کے ساتھ آشکارا کرتی ہے۔اس سفل پرور اور طالع آزما سیاست دانوں کے دور میں ضیاء الرحمان کو بعض تحفظات کے باوصف یاد رکھنا دراصل اپنی تہذیبی شناخت کی بازیافت کرنا ہے جس کے لیے مصنف فصیح الرحمان داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ اس کتاب کے اردو ترجمہ کی بھی ضرورت ہے، توقع ہے کہ مصنف اس طرف بھی توجہ کریں گے۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
Categories: ادبستان