گراؤنڈ رپورٹ: دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں اب تک مقامی پولیس کے پاس بھی کوئی تحریری شکایت نہیں پہنچی ہے۔ تو پھر ایسا کیا ہوا جو مقامی انتظامیہ بنا کسی شکایت کے ہی یہاں ہونے والی نماز کو بند کرنے پر اتر آئی؟
نوئیڈا کے سیکٹر-58 میں گپتاجی کے کلہڑ والی چائے خاصی مشہور ہے۔ یہاں بنی تجارتی عمارتوں میں کام کرنے والے سیکڑوں ملازم دوپہر میں پراٹھے کھانے اور چائے پینے گپتاجی کے ڈھابے پر پہنچتے ہیں۔ پورا علاقہ آئی ٹی سیکٹر میں کام کرنے والی کمپنیوں کا مرکز ہے۔آج بھی اس ڈھابہ پر عام دنوں جتنی ہی بھیڑ ہے۔ دوپہر کے ڈیڑھ بجے ہیں اور آس-پاس کے زیادہ تر دفتروں میں یہ لنچ کا وقت ہے۔ ڈھابے پر موجود کچھ لوگ بنچ پر بیٹھے پراٹھے کھا رہے ہیں، کچھ دسمبر کی دھوپ سینکتے ہوئے چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں اور کچھ ان چسکیوں کے ساتھ ہی سگریٹ کے کش کھینچ رہے ہیں۔ ان تمام لوگوں میں آج ایک بات یکساں ہے۔ سبھی کی گفتگو کا موضوع آج تقریباً ایک ہی ہے-پاس کے پارک میں ہونے والی جمعے کی نماز۔
ڈھابے سے کچھ ہی دوری پر سیکٹر-58 کا وہ پارک ہے جو ان دنوں ملک بھر میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس پارک میں گزشتہ کچھ سالوں سے ہر جمعہ کونماز ہوا کرتی تھی۔ لیکن حال ہی میں مقامی انتظامیہ نے اس پر روک لگا دی ہے۔ اس روککے بعد سے ہی یہ مدعا قومی سرخیوں میں چھایا ہوا ہے اور یہ بحث چل نکلی ہے کہ پبلک پلیس پر مذہبی سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔
ڈھابے پر کام کرنے والا سونو اپنے کچھ گراہکوں کو بتا رہا ہے،ان لوگوں نے پارک میں دیوار بھی کھڑی کر دی تھی۔ وہ لوگ یہاں درگاہ بنانے والے تھے۔ اسی لئے پولس نے روک دیا۔ اگر پولس نہیں روکتی تو یہ لوگ وہاں درگاہ بنا دیتے اور پھر پورے پارک میں قبضہ کر لیتے۔
سونو کی بات سے متفق ایک گراہک کہتے ہیں،یہ لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ کئی جگہ ان لوگوں نے آہستہ آہستہ ایسے ہی قبضہ کرکے مسجدیں بنا لی ہیں۔ سیکٹر-62 میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کیا ’نئے بھارت‘میں نماز ادا کرنا ایک فرقہ وارانہ عمل ہے؟
اس ڈھابے سے پارک کی دوری بمشکل پانچ سو میٹر ہے۔ پارک میں جاکریہ آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں ایسی کوئی دیوار نہیں بنی ہے جس کا ذکر سونو کر رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی پارک میں ہونے والی نماز اور نماز پڑھنے والے لوگوں سے جڑی ایسی کئی افواہیں یہاں لگاتارگشت کر رہی ہیں۔ ڈھابے پر موجود ایک شخص، جس کی بیلٹ پر لٹکا آئی کارڈ بتا رہا ہے کہ اس کا نام دھرمیندر ہے اور وہ ایک ٹیلی کام کمپنی کا ملازم ہے، کہتا ہے، نماز کی وجہ سےیہاں کئی بار جھگڑے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ جب ایک جگہ زیادہ تعداد میں جمع ہونے لگتے ہیں تو افراتفری کرتے ہیں۔ ایک بار تو ان کے گاؤں والوں سے لڑائی بھی ہو گئی تھی۔ تبھی پولیس نے یہ نماز بند کروائی ہے۔
دھرمیندر کی بات سنکران کا ہی ایک دوست پوچھتا ہے، کب کی بات ہے یہ؟ لڑائی کب ہوئی تھی؟
اس پر دھرمیندر سکپکاتے ہوئے جواب دیتے ہیں،یہ تو مجھے نہیں پتا۔ میں نے بھی کسی سے سنا ہی ہے۔
پارک میں نماز پڑھنے والے لوگوں کا کبھی کسی سے کوئی جھگڑا ہوا ہو، اس کی جانکاری نہ تو کسی مقامی شخص کو ہے اور نہ ہی مقامی پولیس کو۔ لیکن ایسی کہی-سنی باتیں ان دنوں یہاں خوب مشہور ہو رہی ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے پارک میں بنائی گئی دیوار کی افواہیں یہاں مشہور ہیں۔ ایسی کئی اور افواہیں بھی یہاں تیر رہی ہیں۔ مثلاً، نماز پڑھنے کے بہانے یہ لوگ اسلام کی تشہیر کر رہے تھے اور لوگوں کو مسلمان بننے کے لئے بہلا رہے تھے، ایسے کاموں کے لئے ان کو باہر سے خوب پیسہ ملتا تھا، وغیرہ۔
پارک کے ٹھیک سامنے ہی بشن پورا گاؤں واقع ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بشن پورا گاؤں کے لوگوں نے ہی شکایت کرکے نماز بند کروائی ہے کیونکہ ان کو نمازیوں کی بڑھتی تعداد سے پریشانی ہونے لگی تھی۔ لیکن بشن پورا گاؤں میں ڈھونڈنے پر ہمیں ایک بھی ایسا شخص نہیں ملا جس نے نماز کو لےکے اپنا اعتراض درج کروایا ہو یا انتظامیہ سے شکایت کی ہو۔
بشن پورا باشندہ بجیندر سنگھ عرف منشی جی بتاتے ہیں، ہم لوگ سالوں سے یہاں نماز ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ گاؤں کے کسی شخص کو اس سے کوئی دقت نہیں تھی۔ ہفتے میں ایک دن، ایک-ڈیڑھ گھنٹے کے لئے اگر وہ لوگ نماز پڑھنے پارک میں آتے ہیں تو اس سے کسی کو بھی دقت کیوں ہونی چاہیے۔
منشی جی آگے کہتے ہیں، ہمارے بھی کئی مذہبی کام پارکوں اور عوامی جگہوں پر ہوتے ہیں۔ جاگرن سے لےکر شادی تک کے لئے ہم لوگ سرکاری جگہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کے مذہبی کاموں کی مخالفت کریںگے تو اپنے آس پاس کا ماحول ہی خراب ہوگا۔
بشن پورا باشندہ بی جے پی کارکن کلدیپ تنور بھی منشی جی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گاؤں کے لوگوں نے پارک میں نماز پڑھے جانے کی کبھی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی کسی نے شکایت درج کی ہے۔ دلچسپ یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں اب تک مقامی پولیس کے پاس بھی کوئی تحریری شکایت نہیں پہنچی ہے۔ تو پھر ایسا کیا ہوا جو مقامی انتظامیہ بنا کسی شکایت کے ہی یہاں ہونے والی نماز کو بند کرنے پر اتر آئی؟یہ سمجھنے سے پہلے اس پارک میں ہونے والی نماز کے بارے میں تھوڑا سا جان لیتے ہیں۔
کب سے ہو رہی ہے نماز؟
نوئیڈا سیکٹر-58 میں ہی عادل رشید کا اپنا کاروبار ہے۔ بنیادی طور پر بہار کے کشن گنج ضلع کے رہنے والے عادل گزشتہ33 سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں،سیکٹر-58 اور اس کے پاس کے علاقوں میں ہزاروں مسلمان کام کرتے ہیں۔ لیکن یہاں آس پاس کوئی بھی مسجد نہیں ہے۔اس لئے ہم لوگوں نے کچھ سال پہلے یہاں پارک میں نماز پڑھنا شروع کیا تھا۔ یہ فروری 2013 کی بات ہے۔ 4 اپریل،2013 کے دن ہم نے اس حوالے سے نوئیڈا اتھارٹی کو ایک خط بھی لکھا تھا جس کی ریسیونگ ہمارے پاس ہے۔ تب سے ہی یہاں نماز ہو رہی تھی، کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔
2013 میں جب قریب 60سے70 لوگ ہی نماز پڑھنے پارک میں آتے تھے۔ آہستہ آہستہ باقی لوگوں کو بھی اس کی جانکاری ہوئی تو یہ تعداد بڑھتی گئی اور اب کئی بار نمازی کی تعداد 15 سو سے بھی زیادہ ہونے لگی تھی۔ یہ نماز نعمان اختر پڑھواتے تھے۔ 24 سالہ نعمان دیوبند سے پڑھے ہیں اور ان دنوں گریٹر نوئیڈا کے ایک اسکول میں اردو پڑھاتے ہیں۔ نعمان بتاتے ہیں، جمعے کی نماز جماعت میں ہی پڑھی جاتی ہے اور کسی مولوی یا امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہے۔ 2013 میں ان لوگوں نے مجھے نماز پڑھانے کے لئے کہا تھا۔ تب میں خود بھی پڑھائی کر رہا تھا لیکن ہر جمعے یہاں نماز پڑھانے آ جاتا تھا۔ اس پارک میں شروعات سے میں ہی نماز پڑھوا رہا ہوں۔ اس کے لئے یہ لوگ مجھے 4 ہزار روپے کا مہینہ دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : جمعہ کی نماز ادا نہ کی جاسکے، اس لیےاتھارٹی نے پارک میں بھرا پانی
اس پارک میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد بڑھی تو عادل رشید اور ان کے دوستوں نے ملکے کچھ انتظامات بھی بڑھائے۔ محمدیہ ٹرسٹ نام سے ایک ادارہ بنایا گیا، کچھ چندہ جمع کیا گیا، نمازی کے لئے چٹائی خریدی گئی، پانی کے ڈرم خریدے گئے اور یہ سامان رکھنے کے لئے ایک کمرہ بھی کرائے پر لیا گیا۔ اب ہر جمعہ صبح کچھ مزدوروں کو لگاکر پارک میں صفائی کروائی جاتی، پانی کا انتظام ہوتا اور چٹائیاں بچھائی جاتیں۔ نماز پڑھنے اور پڑھوانے والوں کے لئے سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن 7 دسمبر، 2018 کے بعد سے چیزیں بدلنے لگیں۔
کیسے ہوئی تنازعے کی شروعات؟
7 دسمبر جمعے کا دن تھا۔ ہمیشہ کی طرح ہی سیکٹر-58 کے پارک میں نماز پُرامن طریقےسے ادا ہو چکی تھی۔ تمام نمازی واپس لوٹ چکے تھے بس عادل رشید، نعمان اختر اور ان کے کچھ دوست بیٹھکر سامان سمیٹ رہے تھے۔ تبھی ایک شخص ان لوگوں کے پاس پہنچا اور ان سے کچھ سوال کرنے لگا۔ یہ شخص اپنے فون پر ویڈیو بنا رہا تھا اور تقریباً دھمکانے والے اندازے میں ان لوگوں سے پوچھ رہا تھا کہ یہ کہاں کے رہنے والے ہیں، پارک میں نماز کیوں پڑھتے ہیں اور کیا ان کے پاس انتظامیہ کی کوئی اجازت ہے۔
عادل رشید بتاتے ہیں، وہ شخص کون تھا یہ ہم نہیں جانتے۔ بعد میں سننے میں آیا کہ اس کا نام منوج شرما تھا لیکن اس کے علاوہ اس آدمی کے بارے میں ہمیں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ اس آدمی نے ہمیں یہ کہہکر دھمکایا کہ اگلے جمعہ سے یہاں مت آنا۔
منوج شرما نام کے اس آدمی نے جو ویڈیو بنایا تھا، وہ سوشل میڈیا پر آہستہ آہستہ وائرل ہونے لگا۔ لیکن ا بھی تک اس معاملے میں نہ تو پولیس کے پاس کوئی شکایت ہوئی تھی اور نہ ہی انتظامیہ کی طرف سے کوئی کارروائی اس معاملے میں کی گئی تھی۔
14 دسمبر کو یعنی جب اگلے جمعہ کی نماز ہونی تھی۔ عادل رشید کہتے ہیں، جس طرح سے پچھلے جمعہ کے دن اس آدمی نے دھمکی دی تھی، ہمیں شک تھا کہ نماز کے وقت کوئی افراتفری ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہم نے خودہی 13 دسمبر کو جاکر کلکٹر کے یہاں ایک خط دے دیا۔اس میں ہم نے لکھا تھا کہ کچھ شرارتی عناصرجمعہ کی نماز میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں لہذا ہمیں تحفظ عطا کی جائے۔ کلکٹر کو لکھے گئے اس خط کی نقل نیوزلانڈری کے پاس موجود ہے۔
کلکٹر بی این سنگھ نے 13 دسمبر کو ہی یہ خط سٹی مجسٹریٹ اور ایس پی سٹی کو بڑھاتے ہوئے لکھا کہ ‘ دیکھیں کیا معاملہ ہے۔ ‘ 14 دسمبر کو جب عادل رشید اور ان کے دوست پارک میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پولیس کے جوان تعینات ہیں۔ عادل کہتے ہیں،” ہمیں لگا انتظامیہ نے ہماری درخواست کو قبول کر لیا ہے اور یہ جوان ہمارے تحفظ کے لئے یہاں آئے ہیں۔ لیکن پولیس والے نماز بند کروانے آئے تھے۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ یہ چٹائیاں سمیٹو اب سے یہاں کوئی نماز نہیں ہوگی۔ کئی لوگ اس دن بنا نماز پڑھے ہی لوٹ گئے۔پولیس سے بات چیت کرنے کے بعد باقی لوگوں کو نماز تو پڑھنے دی گئی لیکن ساتھ ہی پولیس نے مولوی صاحب سے یہ اعلان بھی کروایا کہ اگلے جمعہ سے یہاں تب تک نماز نہیں پڑھی جائےگی جب تک انتظامیہ سے اس کی اجازت نہیں مل جاتی۔
انتظامیہ کا مشکوک کردار :
14 دسمبر کے اس واقعہ کے تین دن بعد، 17 دسمبر کے دن عادل رشید کو انتظامیہ کی طرف سے ایک فون آیا۔ ان کو کہا گیا کہ وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ 18 دسمبر کو سیکٹر-58 کے تھانے آ جائیں تاکہ اس معاملے میں تمام فریقوں کے ساتھ بیٹھکر بات ہو سکے۔ عادل رشید، نعمان اختر اور ان کے کچھ دیگر دوست 18 تاریخ کو تھانے پہنچ گئے۔ نعمان اختر بتاتے ہیں،سٹی مجسٹریٹ صاحب بھی اس دن یہاں موجود تھے۔ ہماری ان لوگوں سے بات چیت شروع ہوئی۔ ہم نے ان کو بتایا کہ سال 2013 میں، جب سے یہاں نماز شروع ہوئی ہے، تبھی ہم نے نوئیڈا انتظامیہ کو اس کی جانکاری دے دی تھی۔ ہم نے ان کو اس خط کی نقل بھی دکھائی۔ لیکن انہوں نے ہماری ایک نہیں سنی۔ مجھے اور عادل صاحب کو رات بھر حوالات میں رکھا گیا اور اگلے دن جیل بھیج دیا گیا۔
یہیں سے اس معاملے میں پولیس اور انتظامیہ کے کردار پر کئی سوال بھی اٹھتے ہیں۔
نعمان اختر اور عادل رشید کو تعزیراتِ ہند کی دفعہ 151 کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ دفعہ کہتی ہے کہ اگر کوئی بھی آدمی جان بوجھ کر پانچ یا اس سے زیادہ لوگوں کے کسی ایسے گروہ کا حصہ بنتا ہے، جس گروہ کو ہٹ جانے کا حکم دیا جا چکا ہو تو اس آدمی کو6 مہینے تک کی سزا ہو سکتی ہے۔نعمان اور عادل رشید ایسے کسی گروہ کا حصہ تھے بھی یا نہیں، اس سوال کا جواب انتظامیہ کے پاس بھی نہیں ہے۔
14 دسمبر کی نماز پولیس کی موجودگی میں اور پولیس کی اجازت سے ہی ہوئی تھی۔ تو پھر ان لوگوں کی گرفتاری 18 دسمبر کو کیوں ہوئی اور کیوں ان کو جیل بھیج دیا گیا،یہ سوال پوچھے جانے پر سٹی مجسٹریٹ شیلندر مشرا کہتے ہیں،دفعہ 151 میں گرفتاری تب کی جاتی ہے جب ماحول خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔ اسی لئے ان لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ شیلندر مشرا کے اس جواب پر نیوزلانڈری نے ان سے کہا، دفعہ 151 تو کسی ایسے گروہ کا حصہ ہونے کی بات کہتی ہے جس گروہ کو بکھر جانے کے حکم دئے جا چکے ہوں۔ یہ دونوں لوگ ایسے کس گروہ کا حصہ تھے؟
اور پھر ان کی گرفتاری تو 18 تاریخ کو تب ہوئی جب یہ خودہی انتظامیہ کےبلانے پر تھانے پہنچے تھے۔اس کے جواب میں سٹی مجسٹریٹ شیلندر مشرا کہتے ہیں، آپ گرفتاری کے مدعا کو بےوجہ طول دے رہے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارے کلکٹر اور ایس پی صاحبان پریس مذاکرہ کر چکے ہیں۔ میں اس بارے میں اب زیادہ بات نہیں کر سکتا۔
اس پورے معاملے میں انتظامیہ پر کچھ سوال اور بھی اٹھتے ہیں۔ 18 دسمبر کو ایک طرف نعمان اور عادل رشید کو گرفتار کر جیل بھیج دیا گیا جن کو 22 دسمبر کو ضمانت ملی۔ تو دوسری طرف اسی بیچ سیکٹر-58 کے ایس ایچ او پنکج رائے نے یہاں کی تمام کمپنیوں کے نام ایک نوٹس جاری کر دیا جس میں کہا گیا کہ اگر کمپنی کا کوئی بھی ملازم جمعہ کی نماز کے لئے پارک میں آتا ہے تو یہ کمپنی کی ذمہ داری ہوگی اور اس کے خلاف کارروائی کی جائےگی۔ اس نوٹس کے آتے ہی یہ مدعا قومی سرخیوں میں شامل ہو گیا۔ اسی کے بعد کلکٹر اور ایس پی کو ڈیمیج کنٹرول کے لئے اترنا پڑا اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے صفائی دینی پڑی کہ کمپنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائےگی۔
دلچسپ یہ بھی ہے کہ جس معاملے میں دو لوگوں کو چار دنوں تک جیل میں رہنا پڑا ہے، اس معاملے کی کوئی بھی تحریری شکایت سیکٹر-58 کے تھانے میں درج ہی نہیں ہے۔ نیوزلانڈری نے جب سیکٹر-58 کے تھانے میں اس تعلق سے کسی شکایت کے درج ہونے کی جانچ کی تو تھانے میں موجود افسروں نے تصدیق کی کہ کوئی بھی تحریری شکایت اس معاملے میں درج نہیں ہوئی تھی۔ اس بارے میں سوال کرنے پر ایس ایچ او پنکج رائے کا بھی یہی جواب تھا کہ-اب ڈی ایم صاحب اور ایس پی صاحب پریس کانفرنس کر چکے ہیں۔ میں اس معاملے میں کچھ بھی نہیں بتا سکتا۔
پبلک پلیس پر مذہبی سرگرمی ہوں یا نہیں،یہ ایک بڑا سوال ہے اور یہ سوال صرف سیکٹر-58 کی نماز تک محدود نہیں ہے۔ یہ سوال پھر جاگرنوں،بھنڈاروں، جلوسوں،یاتراؤں اور کانوڑیوں تک ہوتا ہوا بہت دور تک جاتا ہے۔ لیکن صرف سیکٹر-58 میں ہونے والی نماز کو روکنا اور نماز اداکروانے والوں کو ایسی دفعات میں جیل بھیج دینا جو جرم ثابت بھی نہیں ہوتا، یہ سوال ضرور اٹھاتا ہے کہ کیا اتر پردیش انتظامیہ کسی کے اشارے پر ایسی یکطرفہ کاروائی کر رہی ہے؟
(یہ رپورٹ نیوز لانڈری میں شائع ہوئی ہے ،جس کو ہم ادارے کے شکریے کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔)
Categories: گراؤنڈ رپورٹ