بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی دویہ فارمیسی کے ذریعے منافع نہ دینے کو لےکر دائر عرضی کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے خارج کر دیا۔
نئی دہلی: بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی دویہ فارمیسی کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے یہ حکم دیا ہے کہ کمپنی اپنے منافع کا کچھ حصہ مقامی کسانوں اور دیگر کمیونٹی کے ساتھ بانٹے۔ کورٹ نے بابا رام دیو کی پتنجلی دویہ فارمیسی کو 2.04 کروڑ روپے مقامی کمیونٹی کے ساتھ شیئر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب بابا رام دیو کو وہاں کے مقامی کسانوں اور دیگر کمیونٹی کو 2.04 کروڑ روپے بانٹنے ہوںگے۔
ہائی کورٹ نے دیویہ فارمیسی کے ذریعے اتراکھنڈ بایو ڈائیورسٹی بورڈ کے خلاف دائر عرضی کو خارج کرتے ہوئے کمپنی کو ہونے والے منافع کا کچھ حصہ بانٹنے کا بورڈ کا حکم برقرار رکھا ہے، جوکہ بایو ڈائیورسٹی قانون 2002 کے اہتماموں کے مطابق ہے۔اس سے پہلے اتراکھنڈ بایو ڈائیورسٹی بورڈ (یو بی بی) نے دیویہ فارمیسی کو بایو ڈائیورسٹی قانون کے اہتماموں کے تحت اپنے 421 کروڑ روپے کے منافع میں سے 2.04 کروڑ روپے کسانوں اور مقامی کمیونٹی کے ساتھ شیئر کرنے کی ہدایت دی تھی۔
دوسری طرف پتنجلی دیویہ فارمیسی نے یہ کہتے ہوئے اس حکم کو چیلنج کیا تھا کہ بورڈ کے پاس ایسی ہدایت دینے کا نہ تو حق ہے اور نہ ہی یہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اس لئے ہم کسی طرح کا حصہ دینے کے لئے مجبور نہیں ہیں۔ جسٹس سدھانشو دھولیا کی سنگل بنچ نے معاملے کی سماعت کی۔ عدالت نے کہا کہ یہ ایک قابل قبول حقیقت ہے کہ حیاتیاتی وسائل آیورویدک مصنوعات کی پیداوار کے لئے اہم حصہ اور کچا مال ہے اور جون 1992 میں ریو (برازیل) میں ہوئے ‘ یونائٹیڈ نیشنس کنوینشن آن بایولوجیکل ڈائیورسٹی ‘ پر ہندوستان دستخط کر چکا ہے۔
عدالت نے کہا کہ بورڈ کو اپنے حقوق کے اندر رقم کی مانگ کرنے والا حکم جاری کرنے کا حق ہے کیونکہ حیاتیاتی وسائل نہ صرف قومی جائیداد ہے بلکہ یہ ان کو پیدا کرنے والی کمیونٹی کی بھی جائیداد ہے۔ ان روایتوں کو زندہ رکھنے اور اگلی پشتوں میں علم کو پہنچانے کے لئے ہمالیائی علاقوں میں رہنے والی کمیونٹی ایسے منافع کے لئے حقدار ہیں تاکہ یہ حیاتیاتی وسائل بنے رہیں۔
بایو ڈائیورسٹی بورڈ نے بایو ڈائیورسٹی قانون 2002 کے ایک اہتمام کے تحت دیویہ فارمیسی کی فروخت کی بنیاد پر لیوی فیس مانگی تھی۔ لیکن دیویہ فارمیسی نے اس کے خلاف اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔ حکومت نے سال 2002 میں بایو ڈائیورسٹی ایکٹ بنایا تھا۔ اس قانون کے مطابق جنگلات اور حیاتیاتی وسائل کے استعمال سے ہونے والی کمائی میں وہاں کے مقامی لوگوں کو بھی حصےداری دی جائےگی۔
2014 میں حکومت نے اس کو نوٹیفائی کر دیا، جس کے مطابق صرف حیاتیاتی وسائل ہی نہیں بلکہ روایتی علم کے استعمال کا فائدہ بھی لوگوں کو دینا ہوگا۔ دینک بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق، اگر کمپنی کا سالانہ ٹرن اوور تین کروڑ روپے سے زیادہ ہے، تو ٹرن اوور سے ٹیکس ہٹاکر جتنی رقم ہو اس کا 0.5 فیصد وہاں کے لوگوں کو دینا ہوگا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں