فکر و نظر

کیا آسام کی طرح ہندوتوا کی سیاست کےسہارے بی جے پی بنگال میں کامیاب ہونا چاہتی ہے؟

مانا جاتا ہے کہ بی جے پی کے لئے مغربی بنگال اچھوتا ریاست ہے۔ یہاں بی جے پی اپنا مینڈیٹ بڑھانے کے لئے پچھلے چار-پانچ سالوں سے جس طرح روپے اور محنت جھونک رہی ہے، پہلے کبھی نہیں جھونکی۔

BJP_Bengal_PTI

 

مغربی بنگال کی سیاست میں ‘ پرتیواد مچھل(احتجاجی ریلی) ‘، ‘ جنسبھا ‘ اور ‘ پدیاترا ‘ جیسی اصطلاحات سے الگ بی جے پی نے ایک نیا لفظ ‘ رتھ یاترا ‘ جوڑ دیا ہے۔ دراصل نومبر میں بی جے پی نے مغربی بنگال کا جلسہ پارلیامانی حلقوں سے الگ الگ تاریخ میں ‘سمویدھان بچاؤ رتھ یاترا ‘نکالنے کا فیصلہ لیا۔  اس رتھ یاترا میں امت شاہ، یوپی کے سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ سمیت12 رہنماؤں کو بلانے کا پلان تھا۔  رتھ یاترا کا اختتامی پروگرام کولکاتہ کے بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ میں ہونا تھا، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کو آنا تھا۔تقریباً ڈیڑھ مہینے چلنے والی اس رتھ یاترا کی شروعات شمالی بنگال کے کوچ بہار لوک سبھا حلقے سے شروع ہونے والی تھی۔لیکن، بنگال حکومت نے پروگرام کی اجازت نہیں دی۔

بی جے پی نے ریاستی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ کا رخ کیا۔  تب سے لےکر اب تک یہ معاملہ ایک کورٹ سے دوسرے کورٹ میں جا رہا ہے۔ ترنمول کانگریس حکومت رتھ یاترا نہیں ہونے دینا چاہتی، لیکن بی جے پی کسی بھی صورت میں رتھ یاترا نکالنا چاہتی ہے۔تین بار کلکتہ ہائی کورٹ کی الگ الگ بنچ کے ذریعے الگ الگ فیصلہ دئے جانے کے بعد اب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ بی جے پی نے سپریم کورٹ سے فوراً سماعت کی گزارش کی، جس کو خارج کر دیا گیا۔سپریم کورٹ کب اس کی سماعت کرے‌گا، ابھی طے نہیں ہوا ہے۔ لیکن رتھ یاترا نکالنے کو لےکر بی جے پی کی جلد بازی سے صاف ہے کہ بی جے پی کے لئے مغربی بنگال میں خود کو مضبوط بنانا اب پہلی ترجیح ہو گئی ہے۔

نارتھ بنگال یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر ارون کانتی جانا کہتے ہیں،’ بائیں محاذاور کانگریس کے کمزور پڑ جانے سے بنگال کی سیاست میں ایک بڑی جگہ خالی ہے۔ دوسری طرف ممتا بنرجی کی مقبولیت میں بھی گراوٹ آ رہی ہے۔ ان دونوں کا فائدہ بی جے پی اٹھانا چاہتی ہے۔اس لئے وہ خود کو یہاں جمانے کے لئے تمام ہتھکنڈے اپنا رہی ہے۔’مگر، مغربی بنگال میں بی جے پی کے لئے راہ اتنی آسان نہیں ہے۔

بی جے پی کا بڑھتا ووٹ شیئر

مانا جاتا ہے کہ بی جے پی کے لئے مغربی بنگال اچھوتا ریاست ہے۔ یہاں بی جے پی اپنا مینڈیٹ بڑھانے کے لئے پچھلے چار-پانچ سالوں سے جس طرح روپے اور محنت جھونک رہی ہے، پہلے کبھی نہیں جھونکی۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کانگریس اور بائیں محاذکے یہاں کمزور پڑ جانے کی وجہ سے ایک خلا بنا ہے۔ بی جے پی اس خلا کو بھرنا چاہتی ہے۔سال 2014 کو عام انتخاب اور اس کے بعد ہوئے اسمبلی انتخابات اور ضمنی انتخاب میں بی جے پی کے ووٹ فیصد میں اضافہ بھی بی جے پی رہنماؤں کا حوصلہ بڑھا رہا ہے۔

سال 2014 میں ہوئے عام انتخابات میں بی جے پی کو 16.8 فیصد ووٹ ملے تھے، جو پچھلے انتخابات کی مقابلے میں 10.66 فیصد زیادہ تھے۔ حالانکہ، اس انتخاب میں بی جے پی محض دو سیٹ ہی جیت پائی۔بی جے پی کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ تھا، جب مغربی بنگال میں بی جے پی کو اتنا زیادہ ووٹ ملا تھا۔ اس سے پہلے 1991 میں رام جنم بھومی کے مدعا کو بھنانے کے باوجود بی جے پی کو بنگال میں محض 12 فیصد ووٹ ملے تھے۔سال 2016 میں ہوئے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو 10.2 فیصد ووٹ ملے، جو پچھلے انتخاب کے مقابلے میں 5.6 فیصد زیادہ تھے۔ پارٹی نے تین سیٹوں پر قبضہ کیا۔

اس سال نوآپاڑا اسمبلی سیٹ پر ہوئے انتخاب میں بی جے پی امیدوار کو 20.36 فیصد ووٹ ملا، جو سال 2016 کے اسمبلی انتخاب سے قریب سات فیصد زیادہ تھا۔اسی طرح اس سال ہاوڑہ کے البیڑیا لوک سبھا سیٹ کے لئے ہوئے انتخاب میں بی جے پی کو 23.29 فیصد ووٹ ملے، جو پچھلے انتخاب کے مقابلے میں11 فیصد سے زیادہ تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ البیڑیا لوک سبھا حلقے میں مسلم ووٹر زیادہ ہیں اور ترنمول کانگریس نے مسلم امیدوار کو میدان میں اتارا تھا۔ان ضمنی انتخابات میں بی جے پی دوسرے نمبر پر رہی۔ بائیں محاذ اور کانگریس کو بی جے پی سے کافی کم ووٹ ملے۔

بنگال فتح کرناکتنا مشکل

ووٹ فیصد میں اضافہ یقینی طور پر بی جے پی رہنماؤں کے لئے خوش ہونے کی وجہ ہے، لیکن سیاسی مبصروں کا نظریہ کچھ اور ہے۔مغربی بنگال کے رویندر بھارتی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر وشوناتھ چکرورتی کہتے ہیں،’بڑھتا ووٹ فیصد سیٹیں جتا دے، یہ ضروری نہیں ہے۔’ان کے مطابق، بی جے پی قیادت مغربی بنگال کی سیاست کی بنیادی باتوں سے انجان ہے۔

ڈاکٹر چکرورتی کہتے ہیں،’مغربی بنگال میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اقلیتوں (مسلمانوں) کو درکنار کر کے اپنے پیر نہیں جما سکتی ہے۔لیکن، قومی سطح کی بی جے پی رہنماؤں میں مغربی بنگال کی سیاست کی سمجھ بالکل بھی نہیں ہے۔مغربی بنگال کے ووٹر بی جے پی کو اپنانے کو تیار ہیں، بشرطیکہ وہ Inclusive  ماڈل اپنائے۔لیکن، ہر بار بی جے پی ایک کمیونٹی (مسلم) کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔’مغربی بنگال میں مسلموں کی آبادی 27 فیصد ہے، جو کسی بھی پارٹی کے لئے بہت اہم ہے۔

bengal-modi-rupa-pti

چکرورتی آگے کہتے ہیں،’مغربی بنگال میں مغربی تعلیم سب سے پہلے پہنچی۔یہاں رہنے والے بنگالی بہت سخی بھی ہیں اور ساتھ ہی اپنی تہذیب سے بھی جڑے ہوئے بھی۔ تمام بنگالی سی پی آئی (ایم ) نہیں ہیں، لیکن ان کا جھکاؤ کمیونسٹ نظریہ کی طرف ہے۔ اس لئے تقسیم کاری سیاست یہاں پھول پھل نہیں سکتی ہے۔ ‘کولکاتہ کے سینئر صحافی ورون گھوش کہتے ہیں،’رتھ یاترا کرنے کا مطلب ہی ہے کہ بی جے پی ہندو ووٹروں کا پولرائزیشن کرنا چاہتی ہے۔ لیکن، اس کا بہت فائدہ نہیں ہوگا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ کچھ سیٹیں اس کو مل سکتی ہیں۔ ‘

ویسے، پچھلا لوک سبھا انتخاب اور 2016 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی طرف سے اتارے گئے امیدواروں کی فہرست سے پتا چلتا ہے کہ پارٹی نے کچھ سیٹوں پر مسلم امیدوار اتارے تھے۔2014 کے لوک سبھا انتخاب میں پارٹی نے 2 اور سال 2016 کے اسمبلی انتخابات میں 6 مسلم رہنماؤں کو ٹکٹ دیا تھا۔گزشتہ سال ہوئے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی نے جتنے امیدوار اتارے تھے، ان میں 14 فیصد سے زیادہ امیدوار مسلم تھے۔

بنگال بی جے پی کے اقلیتی مورچہ کے صدر علی حسین کہتے ہیں،’سال 2014 کے بعد سے کافی تعداد میں اقلیتی کمیونٹی بی جے پی میں شامل ہو رہی ہے۔ اس بار کتنے اقلیتی رہنماؤں کو ٹکٹ ملے‌گا، نہیں کہہ سکتا، لیکن پارٹی کی اعلیٰ قیادت اس پر (اقلیتی امیدواروں کی تعداد بڑھانے پر) غور کر رہی ہے۔ ‘حالانکہ، مسلم امیدواروں والی لوک سبھا اور اسمبلی سیٹوں پر پر بی جے پی کو ملے ووٹ سے پتا چلتا ہے کہ اقلیتی ووٹر بی جے پی سے دوری بنائے ہوئے ہیں۔

2014 کے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی نے گھاٹال اور تملوک سیٹ سے مسلم امیدوار اتارا تھا۔  گھاٹال میں بی جے پی امیدوار محمدعالم کو 94842 ووٹ ملے تھے اور وہ چوتھے مقام پر تھے۔  وہیں، تملوک میں بی جے پی امیدوار بادشاہ عالم کو محض 6.4 فیصد ووٹ ملے تھے۔  یہاں بی جے پی تیسرے مقام پر رہی۔  سال 2016 میں اسی سیٹ پر ہوئے ضمنی انتخاب میں بی جے پی نے پروفیسر امبوجاکش  موہنتی کو اتارا تھا، تو ووٹ میں قریب 15 فیصد کا اچھال آیا تھا۔

سال 2016 کے اسمبلی انتخاب میں مسلم اکثریتی 6اسمبلی سیٹوں ناٹاباری، اینٹاہار، کرندیگھی، بشیرہاٹ شمال، رگھوناتھ گنج اور مرارئی پر بی جے پی نے اقلیتی امیدواروں کو اتارا تھا، لیکن انتخابی نتیجے خوش کن نہیں تھے۔ناٹاباری میں بی جے پی کو محض 21462 ووٹ ملے تھے اور وہ تیسرے نمبر پر تھی۔  قریب ترین حریف سی پی آئی (ایم) کے مقابلے میں بی جے پی کو 54803 ووٹ کم ملے تھے۔

اینٹاہار میں بھی بی جے پی تیسرے نمبر پر رہی اور اس کو محض 7119 ووٹ ملے تھے۔  کرندیگھی میں بی جے پی 28962 ووٹ کے ساتھ چوتھے پائیدان پر رہی۔  اس سیٹ پر آزاد امیدوار کو بی جے پی سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔رگھوناتھ گنج میں بھی بی جے پی چوتھے مقام پر تھی اور اس کو 10069 ووٹ ملے تھے۔بشیرہاٹ شمال اور مرارئی میں بی جے پی تیسرے مقام پر رہی۔  بشیرہاٹ شمال میں پارٹی کو 13062 ووٹ ہی مل پائے تھے، جو قریب ترین حریف ترنمول کانگریس سے 84024 کم تھے۔  اس سیٹ پر سی پی آئی (ایم) نے جیت درج کی تھی۔  مرارئی میں بی جے پی کو محض 5341 ووٹ سے ہی صبر کرنا پڑا تھا۔  اس سیٹ پر ترنمول کانگریس کو 94490 اور کانگریس کو 94142 ووٹ ملے تھے۔

بی جے پی کی دقت

بنگال میں بی جے پی کے ساتھ ایک بڑی دقت یہ بھی ہے کہ مقامی سطح پر قیادت کی سنگین کمی ہے۔  بی جے پی کی بنگال اکائی کو کسی بھی بڑے فیصلے کے لئے دہلی میں بیٹھے رہنماؤں سے اجازت لینی پڑتی ہے اور اس کے لئے بھی وہ سیدھے امت شاہ سے رابطہ نہیں کر سکتے۔  ان کو  کیلاش وجئے ورگیہ کے ذریعے اپنی بات کہنی ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ہی پارٹی کی بنگال اکائی میں گٹ بازی بھی ہے، جو اکثر سامنے آتی رہتی ہے۔

فوٹو: اے این آئی

فوٹو: اے این آئی

دوسری طرف، بی جے پی کے زمینی کارکنان کے ساتھ رہنماؤں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔  پارٹی سے جڑے کولکاتہ کے ایک زمینی کارکن نے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا، ‘ بوتھ سطح کے کارکنان کو پارٹی قیادت کی مدد نہیں مل رہی ہے۔ کولکاتہ میں ہی پانچ کارکن پولیس مقدمہ جھیل رہے ہیں۔ وہ گرفتاری کے ڈر سے کئی مہینوں سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ لیکن، پارٹی قیادت ان کے لئے کچھ نہیں کر رہی ہے۔ ہم لوگ جب یہ مدعا اٹھاتے ہیں، تو رٹا-رٹایا جواب ملتا ہے کہ ‘دیکھ’رہے ہیں۔ ‘  کارکن نے آگے کہا، ‘زمین پر کام کرنے والے کارکنان کی فیملی ان کی کمائی پر ہی منحصر ہے۔ لیکن، پارٹی ان  کی اقتصادی مدد بھی نہیں کر رہی ہے۔ ‘

ایک دیگر کارکن نے کہا، ‘ہر بار مودی جی کی بدولت انتخاب نہیں جیتا جا سکتا ہے۔ جیتنے کے لئے زمینی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ لیکن زمینی سطح کے کارکن پارٹی قیادت کے رویے سے مایوس ہو چکے ہیں اور ان کی پارٹی سے عدم دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ ‘ان سب کے علاوہ تین ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی ہار اور رتھ یاترا کے قانونی بھنور میں پھنس جانے سے بھی پارٹی کارکنان کا جوش ڈھیلا پڑ گیا ہے۔  ایسے میں مانا جا رہا ہے کہ لوک سبھا انتخاب میں بنگال میں بی جے پی کا مظاہرہ متاثر ہو سکتا ہے۔

بنگال کا سیاسی مستقبل

پچھلے لوک سبھا انتخابات اور اس کے بعد کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافے کا بنگال کی سیاست پر جو ایک بڑا اثر پڑا، وہ یہ ہے کہ یہاں مذہبی صف بندی تیز ہو گئی ہے۔بی جے پی نے ہندو ووٹروں خاص کر ہندی بھاشی ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لئے بڑے پیمانے پر رام نومی کی یاترا نکالنی شروع کی، تو آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، ہندو سنہت جیسی تنظیموں کی سرگرمیاں بھی تیز ہو گئیں۔اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوا اور وہ غیر بنگالی ہندوؤں  میں مضبوط ہونے لگی۔

ترنمول کانگریس نے اس سے مقابلہ کرنے کے لئے ‘ سافٹ ہندو مذہب ‘ کا سہارا لیا۔  بتایا جاتا ہے کہ ترنمول سپریمو ممتا بنرجی کے اشارے پر ترنمول کانگریس رہنماؤں نے بھی رام نومی کے جلوس نکالے۔بی جے پی رکن پارلیامان بابل سپریو کے پارلیامانی حلقہ آسنسول میں ترنمول کانگریس نے 10 سوریہ مندر بنانے کا اعلان کیا اور ویربھوم میں ترنمول کانگریس کے رہنماؤں نے سادھووں اور پنڈتوں کے ساتھ جلسہ کیا۔یہی نہیں، مغربی بنگال میں رہ رہے قریب ایک کروڑ بہاری کو خوش کرنے کے لئے ترنمول کانگریس حکومت نے اسی سال چھٹ کے موقع پر دو دنوں کی چھٹی کا اعلان بھی کر دیا۔

مذہبی سرگرمیوں کے ذریعے ووٹروں کو لبھانے کے لئے بی جے پی اور ترنمول کے یہ ہتھکنڈےختم ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں، بلکہ آنے والے وقت میں اس میں اضافے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔بنگال کی سیاست پرگہری نظر رکھنے والے صحافی شبھم گھوش کہتے ہیں،’شمالی ہندوستان  کی طرح بنگال میں بھی مسلم آبادی زیادہ ہے، اس لئے آنے والے وقت میں یہاں فرقہ وارانہ پولرائزیشن تیزی سے ہوگا۔ ترنمول کانگریس بھی اکثریتی خوشامدانہ پالیسی کا کھیل کھیلے‌گی کیونکہ اس کے پاس اپنا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ جس وقت جو نظریہ سوٹ کرتا ہے، ترنمول کانگریس اس کو اپنا لیتی ہے۔ ‘

انہوں نے آگے کہا، ‘ریاست میں بی جے پی اور ترنمول کارکنان کے درمیان تشدد آمیز جھڑپیں بھی بڑھیں‌گی اور اگر بی جے پی کو لگتا ہے کہ وہ بنگال میں اقتدار پانے کے قریب پہنچ رہی ہے، تو (آسام کی طرح بنگال میں بھی)این آر سی جیسے قدم بھی اٹھا سکتی ہے۔ حالانکہ، این آر سی جیسے قدم کا برا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ ‘

آئندہ لوک سبھا انتخابات میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ بی جے پی بنگال میں کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے اور اس کو کتنی کامیابی ملتی ہے۔

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں)