ایک مسجد میں امامت کرنے والے باپ کے بیٹے قادر خان نے چٹائی پر بیٹھکر تعلیم حاصل کی تھی اور بعد میں جھگی میں پرورش پانے والا یہی بچہ منٹو سے بھی متاثر ہوا تھا۔اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، منٹو نے مجھے سکھایا کہ آئیڈیاز بڑے ہونے چاہیے لفظ نہیں۔
قادر خان-ہندوستانی سنیما کا ایسا نام جن کو دنیا اکثر کامیڈین اور کسی حد تک فلم نویس کے طور پر جانتی ہے، اپنی’شناخت ‘سے ہمیشہ محروم رہے۔ دراصل ایک اسکرپٹ نگار کے طور پر ان کی پہچان کئی معنوں میں محدود ہی رہی۔ شاید اس لئے ان کی موت کے بعد ان کو ایک کامیڈین اور ولن والے کرداروں کے لئے زیادہ یاد کیا گیا۔حالانکہ ان کی تحریروں میں صرف فلموں والی خوبی نہیں تھی۔ وہ ایسے فلم نویس ہرگز نہیں تھے، جن کے مکالمے صرف امیتابھ بچن جیسے ایکٹر کی آواز میں فلم بینوں کو بھاتے رہیں اور کئی مواقع پر اس کا اظہار یوں بھی ہو کہ،
ہم جہاں کھڑے ہوتے ہیں لائن وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ یا پھر یہ کہ اپن بہت فیمس آدمی ہے، بڑےبڑے پیپر میں اپن کا چھوٹاچھوٹا فوٹو چھپتا ہے۔ اور شاید آپ کو اسی طرح کے کئی اور ڈائیلاگ یاد آ رہے ہوں، وجئے دیناناتھ چوہان پورا نام، باپ کا نام، دیناناتھ چوہان، ماں کا نام سہاسنی چوہان، گاؤں مانڈوا، عمر 36 سال 9 مہینہ 8 دن 16 وا ں گھنٹہ چالو ہے۔ یا کرما میں دلیپ کمار کے سامنے انوپم کھیر کا یہ والا مکالمہ کہ، اس تھپڑ کی گونج سنی تم نے، اب اس گونج کی گونج تم کو سنائی دےگی…
قادر خان کی ایسی تحریروں کا ایک لمبا سلسلہ ہے، اور جب میں ان کی تحریروں کو اس طرح کی یا ایسی تحریریں کہہ رہا ہوں تو صرف اس لحاظ کے ساتھ کہ یہ بس ان کی تحریروں کا سنیمائی جادو تھا۔ ایک ایسا جادو جس میں بول چال کی زبان، اس کا لوکیشن اور کرداروں کی فطرت کا خیال بخوبی رکھا گیا۔ فلم نویسی کی اسی کرامت کی بدولت انہوں نے بالی ووڈ پرراج کیا۔ اب آپ جس طرح چاہیں ان کی کرامت کے قصیدے پڑھے جا سکتے ہیں۔ لیکن ان کی فلم نویسی کا سرا تب ہاتھ آتا ہے جب ہم ان کے اندر کے ‘قاری’کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اصل میں خاص طرح کے ناظرین کے درمیان اپنی کامک ٹائمنگ کے لئے مشہور،اس اداکار کو ایک انٹرٹینر کے طور پر اتنا انجوائے کیا گیا کہ ان کو ایک’اداکار’کے طور پر کبھی سیریس لیا ہی نہیں گیا۔ پھرلکھنا تو پردے کے پیچھے والی حقیقت ٹھہری۔ مگر کہانی یہ ہے کہ 300 سے زیادہ فلموں میں کرتب دکھانے والے اور 250 سے زیادہ فلموں میں مکالمہ لکھنے والے ‘ کامیڈین ‘، آرٹسٹ اورفلم نویس قادر خان بہت ہی سنجیدہ ادب کے قاری تھے۔
بات وہی ہے کہ ہمارے یہاں محمود جیسے مزاحیہ-آرٹسٹ بھی کم ہی ہوئے، جن کو کسی بھی ہیرو سے زیادہ عزت حاصل تھی۔ وجہ بھلے سے ناظر ین ہی رہے ہوں، لیکن اس حصے کی’ادنیٰ’سی کامیابی قادر خان کو بھی ملی۔ ہاں، تنقید کے نام پر کچھ بھی کہہ دیجئے مگر یہ بات ماننی پڑےگی کہ ہیرو اور ہیروئن کے گرد بننے والی ٹائپ-کاسٹ فلموں کی بھیڑ میں’ہیرو’کے ساتھ اگر کسی ایک فنکار کی جوڑی بن سکتی تھی تو وہ یہی تھے۔
میں نے اس بڑی کامیابی کو’ادنیٰ’ کہنے کی جرأت اس لئے کی کہ بھلے سے وہ فنکار بڑے تھے، مگر تھے تو ‘کامیڈین’ہی۔ اور کامیڈین کو ہمارے یہاں ایکٹر سمجھنے کی بھول نہیں کی جاتی۔ خیر وہ کامیڈین بھی ایسے تھے کہ ان کے بھدے پن تک کو لوگوں نے پسند کیا۔بہر حال، میں بات کر رہا تھا اس قادر خان کی جو بہت ہی سنجیدہ ادب کے قاری تھے۔ ویسے ادب اور خالص ادب بھی اپنے-اپنے ہونے کی بے مطلب والی ضد سے پیدا ہونے والی ایک نام نہاد دانشورانہ بحث ہے، جیسے ہیرو ہی ایکٹر ہے۔خیر قادر خان نے اس بحث میں پڑے بغیر ایک انٹرویو میں اردو کے بہت ہی مشکل پسند طنزومزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کا نام لیتے ہوئے ‘لیکھک’بننے کے لئے یوسفی جیسے ادیبوں سے زبان کی اونچ-نیچ سیکھنے کی صلاح دی تھی، ظاہر ہے قادر خان، یوسفی صاحب کی تحریروں سے متاثر ہوکر قلمکار نہیں بنے تھے۔
لیکن ان کے کہے میں جو بات ہے، وہ یہ کہ زبان پر ان کی اپنی گرفت کسی ایسے ادیب سے کم نہیں تھی، جن کو پڑھ پانا بھی اچھے-اچھوں کی بس کی بات نہیں۔ ایسے میں ان کی فلم نویسی والی آسانی سے دھوکہ کھایا جا سکتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وہ فلم بینوں کی نبض سمجھتے تھے اور کرداروں کے حساب سے لکھنے میں ماہر تھے۔ ہاں، یہ بات بالکل صحیح ہے، لیکن یہ آسانی ان کو فلم نویسی والی مجبوری کی دین نہیں تھی۔ چونکہ لاؤڈ اور خاص طرح کی فلموں میں بھی انہوں نے زبان کے تقدس کو بچاکر رکھا تھا۔
دراصل خاص طرح کے ماحول اور ایک جیسی مگر الگ الگ زبانوں کی آغوش میں پلنے والے قادر خان نے بےحد برے دنوں میں بھی بہت کچھ اپنے بڑوں کی صحبت سے پایا تھا۔ ایک مسجد میں امامت کرنے والے باپ کے بیٹے نے چٹائی پر بیٹھکر تعلیم حاصل کی تھی اور بعد میں جھوپڑپٹی کا یہی بچہ منٹو سے بھی متاثر ہوا تھا۔ اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، منٹو نے مجھے سکھایا کہ آئیڈیاز بڑے ہونے چاہیے لفظ نہیں۔ حالانکہ ان کی زندگی میں ایسے مواقع کم ہی آئے کہ وہ اپنے آئیڈیاز کو لکھیں، اکثر فلموں کی ڈیمانڈ کے نام پر انہوں نے اپنے لفظ خرچ کئے اور خود کو بچاکربھی رکھا۔
اس طرح دیکھیں تو ان کی آسانی کئی تہوں میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ گویا ان کے پاس عربی تھی، فارسی تھی، اردو تھی، ہندی تھی، ممبئی کی جھوپڑپٹی والی بول چال تھی اور ان سب سے کہیں زیادہ سائنس اور تکنیکی تعلیم تھی۔ یوں قادر خان ہندی سینما میں اس صف کے آخری قلمکار تھے جن کو عام لوگوں کی زبان اور ادب کی اہمیت کا یکساں احساس تھا۔شاید اس لئے بھی ان کی فلموں والی آسانی یہ بات بہت آسانی سے چھپا لیتی ہے کہ وہ لکھتے ہوئے غالب جیسے مشکل شاعر کی مدد لیتے تھے۔ اور اپنے اسکرین پلے میں حقائق کے ساتھ شاعری والے تخیل کا بھی خیال رکھ لیتے تھے۔
کم لوگ اس بات سے واقف ہوں کہ قادر خان غالب کی شاعری میں گھنٹوں سر پھوڑتے تھے، اور ایک ایک لفظ میں پوشیدہ معانی کے ساتھ جدو جہد کرنا جیسے ان کی عادت تھی۔ اب ایسے فلم نویس کو بہت آسانی سے سمجھ لینے کی عادت میں ایک خاص طرح کا لیبل چسپاں کرکے کچھ بھی کہہ دینا آسان ہے، وہ بھی تب جب یہ معلوم ہو کہ قادر خان گھنٹوں یعنی چٹکیوں میں ڈائیلاگ لکھ دیتے تھے۔ لیکن کسی شاعر نے وہ جو کہا ہے کہ ؛ سخت دشوار ہے آسان کا آسان ہونا…
قادر خان کے معاملے میں غالب تو خیر ایک مثال ہیں، انہوں نے علامہ اقبال تک کو سنجیدگی سے پڑھ رکھا تھا۔ ایسے میں جب بھی میں نے اس قلمکار کو سمجھنے کی کوشش کی تو ان کے اندر کے قاری نے قادر خان کے ‘قادر’ ہونے کی دلیل فراہم کر دی۔ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب میں اپنی ڈائری میں حیرانی کے ساتھ ان کی کہی کچھ باتیں نوٹ کر رہا تھا تب شاید مجھے احساس نہیں تھا کہ ایک فلم نویس ہمارے زمانے میں بھی ایسا رہا ہے۔وہ کہہ رہے تھے،
میں سعادت حسن منٹو (جس کو وہ مِنٹو کہتے تھے)سے بہت متاثر ہوں۔ فکر تونسوی، ابراہیم جلیس، اور مشتاق احمد یوسفی(جن کا وہ ہندی میں ترجمہ بھی کرنا چاہتے تھے)ان کی کتاب حدسےزیادہ بہترین ہے۔ میرا خیال ہے طنزومزاح میں ان کو کوئی چھو نہیں سکتا۔ گورکی، چیخوف، سڈنی شیلڈن اور آرچر…
جی یہ وہ کچھ ضروری نام ہیں، جن کو وہ ایک قلمکار کے لئے لازم قرار دیتے تھے۔یوں قادر خان، ایک ایسے فلم نویس اور اداکار جن کے سنجیدہ قاری ہونے کو نظرانداز کرکے سینما ہال میں تالیاں بجائی جا سکتی ہیں، بنتےبگڑتے چہرے پر لگاتار ہنسا جا سکتا ہے، پھوہڑپن کی انتہاؤں میں چھلانگ لگایا جا سکتا ہے، لیکن زبان کی ایک بڑی روایت سے کیا حاصل ہوتا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے تنہائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس تنہائی میں جھانکے بغیر لکھنے والوں نے قادر کے فن کو ترازو میں تول دیا۔ ایسے لوگ شاید آسان سمجھتے ہیں قادر خان ہونا؟
ویڈیو: معین اختر اور قادرخان کا ایک یادگاراسٹیج شو
بہر حال، آج فلموں سے زبان کا یہی لطف غائب ہوتا جا رہا ہے اور قادر خان کے بھی وہی ڈائیلاگ یاد رہ گئے ہیں جن کی بدولت ایک خاص طرح کا کردار اپنی گونج کے ساتھ پیدا ہوتا تھا۔جبکہ ان ڈائیلاگس کے گرد لپٹی ان کی لکھنے کے پروسیس کو سامنے رکھا جائے تو اندازہ ہو کہ بول چال کی زبان میں بھی قادر خان نے زبان کے تقدس اوراس کی نازکی کا کس قدر خیال رکھا۔یہاں قادر خان کی زندگی میں منموہن دیسائی والےواقعے کو یاد کریں تب بھی ان کے لکھنے کی سنجیدگی سے متعارف ہو سکتے ہیں۔ دراصل جب دیسائی فلم ‘روٹی’بنا رہے تھے تب وہ اردوقلمکاروں سے بیزاری کا اظہار کر چکے تھے، اس وقت ان کا ماننا تھا کہ یہ اردو والے صرف زبان جانتے ہیں اور کچھ نہیں، انہوں نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ، مجھے اس زبان سے ہی نفرت ہو گئی ہے۔
اس وقت جب ان کو اپنی روزمرہ والی زبان مطلوب تھی تب قادر خان حبیب ناڈیاڈ والا کی معرفت دیسائی کے رابطے میں آئے۔ اور وہ قادر خان کی زندگی میں پہلا موقع تھا جب انہوں نے ایک بڑے فلمساز کے سامنے اپنی تحریر پیش کی۔قادر خان سے متاثر ہوکر دیسائی نے ان کو اپنا پیناسونک ٹی وی تحفے میں دے دیا تھا اور اس وقت جب وہ محض 25 ہزار پانے والے فلم نویس تھے، ان کو ایک لاکھ والا مکالمہ نویس بنا دیا۔ یہاں زبان ہی وہ چیز تھی جس میں انہوں نے دیسائی کے آئیڈیا کو ایک نوع کی آسان زبان میں لکھ دیا تھا۔
سمجھنے والی بات ہے کہ اپنی سوچ کو آزادی سے لکھنے میں اتنی دقت نہیں ہوتی جتنی کسی اور کی سوچ کو اس کی ڈیمانڈ کے حساب سے لکھنے میں ہو سکتی ہے، لیکن یار لوگ ہیں کہ قادر خان کے لکھے پر سند دیتے پھرتے ہیں۔ جبکہ پیمانہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ کس نے لکھوایا، کس کے لئے لکھوایا اور نتیجہ کیا نکلا اور بس۔خیر اسی زمانے میں دیسائی کے مخالف سمجھے جانے والے پرکاش مہرا کے ساتھ بھی قادر خان نے اپنی طرح کا کام کیا۔ اس وقت کوئی بھی فلم نویس یا آرٹسٹ کسی ایک کے ساتھ ہی کام کر سکتا تھا، لیکن یہ ان کی تحریر کا جادو تھا کہ دونوں ان پر دل وجان سے فدا تھے۔
قادر خان کام کرنے والے آدمی تھے، جو اس قدر کامیاب ہونے کے بعد بھی یہ مانتے تھے کہ، آدمی کو کبھی نمبر ون کی کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ فلموں کو لےکر وہ کہتے تھے، میری زندگی کی جدو جہد میں فلموں کی جدو جہد کا نام نہیں ہے۔ حالانکہ کابل سے آنے والے اس پٹھان کے بچپن میں زندگی کےگھاؤ زیادہ ہیں۔
ممبئی کی سب سے گندی جھوپڑپٹی میں انہوں نے والدین کا طلاق دیکھا۔ مسجد میں پڑھائی کی۔ سوتیلے باپ کے آنے کے بعد بھی گھر سے مفلسی نہیں گئی۔ لیکن وہ ایک ماں کا یقین تھا جس کی وجہ سے فیکٹری میں روزانہ 3 روپے کما لینے کی چاہت کے باوجود قادر خان نے پڑھائی کو چن لیا۔ ہر طرح کی تنگی میں ڈپلوما ان سول انجینئرنگ، گریجویشن ان سول پھر پوسٹ گریجویٹ، کیا یہ سب آسان تھا؟
پڑھنےپڑھانے کے دوران وہ ڈرامہ بھی لکھنے لگے اور ایک آل انڈیا ڈرامیٹک کمپٹیشن نے ان کی قسمت کھول دی، اس کمپٹیشن میں ان کے پلے ‘لوکل ٹرین’ کو بیسٹ پلے، بیسٹ رائٹر، بیسٹ ایکٹر اور بیسٹ ڈائریکٹر کا ایوارڈ ملا۔اس کمپٹیشن کے جج صاحبان نریندر بیدی، رمیش بہل، کامنی کوشل اور راجندر سنگھ بیدی تھے۔ یہیں نریندر بیدی، قادر سے متاثر ہوئے اور اپنی فلم جوانی دیوانی کا ڈائیلاگ لکھوایا۔
ان سب کے باوجود قادر خان کی فلم نویسی بھی گم نام رہ جاتی، اگر وہ خود ایکٹر نہیں ہوتے یا اپنے وقت کے بڑے ایکٹرز کی زبان اور تلفظ کو انہوں نے ٹھیک نہیں کیا ہوتا۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ قادر خان کو ہم فلموں کی وجہ سے جانتے ہیں، ورنہ وہ شاید اس سماج میں ایک اچھے استاد کے رول میں کہیں نیکیاں بو رہے ہوتے۔چونکہ فلم ان کی زندگی میں ایک حادثہ کی طرح آئی تھی، ان باتوں کا ان کو شدید احساس تھا اس لئے ایک بار شاد عظیم آبادی کے انداز میں انہوں نے کہا تھا، میں آیا نہیں لایا گیا ہوں نکلا نہیں نکالا گیا ہوں۔
دراصل جنریشن گیپ کو سمجھتے ہوئے بھی وہ آج کی فلم نویسی سے بہت زیادہ متفق نہیں تھے اور اپنے درکنار کئے جانے کا جشن بھی کتاب لکھنے، زبان اور تلفظ کو لےکر اپنے پروجیکٹس، مسلم سماج کی پسماندگی کو دور کرنے اور ان سب سے کہیں زیادہ پڑھنےپڑھانے کی اپنی خواہش کے ساتھ سرگرم تھے، جو بعد میں ان کی صحت کی وجہ سے کہیں رہ گیا۔
قادر خان نے گمنامی اور مفلسی سے شہرت تک کا سفر طے کیا اور پھر گمنام ہو گئے۔ کئی بار خبروں میں دنیا سے رخصت کر دئے گئے، لیکن یہ وہ اداکار اور فلم نویس نہیں تھے جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیشہ لکھنے والوں نے دھوکہ کھایا۔بس اور بس ان کے مڈل کلاس مداح ہی تھے جس نے اپنے اس اداکار کو اتنا پوجا کہ جب ان کی لکھی پہلی کامیڈی فلم ‘ہمت والا ‘ ریلیز ہوئی تو بڑےبڑے بینر پر سجے ہیروہیروئن کے پوسٹر ایک ہی ہفتے میں اتارنے پڑے اور رہ گئے چوٹی والے منیم جی، جو قادر خان تھے۔
ان کی اس کامیابی کو انہی کی نظر سے دیکھیں تو انہوں نے ایک بات کہی تھی کہ،
رائٹر کے ذہن میں ایک آڈینس ہونا چاہیے، اس کے ذہن کے اندر ایک آڈیٹوریم ہونا چاہیے اور اس میں بیٹھے آڈینس کا زیادہ تر حصہ غریب ہونا چاہیے۔
اور اپنی اس بات میں انہوں نے جس طبقے کو بالکنی میں جگہ دی تھی، آج وہی طبقہ ان کے فن کو نمائش سے الگ کرنے میں ناکام ہے۔ اور بس نام رہ گیا ہے لاکھوں دلوں کے دی گریٹ آرٹسٹ اورفلم نویس اور کئی’ہیرو’کے استاد قادر صاحب کا۔
(اس مضمون کو ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے)