حکومت ہند کے سابق سکریٹری پی ایس کرشنن نے کہا کہ اقتصادی طور پر پسماندہ اشرافیہ کو ریزرویشن کی نہیں بلکہ اسکالرشپ، تعلیم کے لئے لون اور دیگر افادی اسکیموں کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی: حکومت ہند کے سابق سکریٹری پی ایس کرشنن سماجی انصاف کے کئی تاریخی قوانین کو نافذ کرنے کرنے والے اہم لوگوں میں سے ایک ہیں۔ نوکری اور تعلیم میں اشرافیہ کو ریزرویشن والےمود ی حکومت حکوکے فیصلے کو لےکر انہوں نے کہا کہ یہ بل آئین کی خلاف ورزی ہے اور یہ جوڈیشل جانچ کا سامنا نہیں کر سکتی ہے۔دی وائر سے بات کرتے ہوئے، کرشنن نے کہا کہ آئین میں ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی کے لئے جو ریزرویشن دیا گیا ہے وہ کوئی غریبی کے خاتمے کا پروگرام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی طور پرکمزور اشرافیہ کو ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کو اسکالرشپ، تعلیم کے لئے لون اور دیگر افادی اسکیموں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا،اشرافیہ میں غریب لوگ ہیں جن کو مدد کی ضرورت ہے۔ یہ منصفانہ اور آئینی طور پر پائیدار ہونا چاہئے۔آئین نے ریزرویشن اور دیگر سماجی انصاف کے اقدامات کی شروعات ایسے لوگوں کے لئے کی جن کو اجتماعی طور پر تعلیم اور ریاست کی سروسزمیں داخل اور ان کی ذات کی وجہ سے بہتر مواقع سے باہر رکھا گیا تھا۔کرشنن نے کہا، ہمارے آئین سازوں نے ذات پات والے نظام اور اس سے ہونے والے نقصان پر گہرائی اور سنجیدہ طریقے سے غور کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اس کو ختم کرنا ہوگا اور اس سے متاثر لوگوں کو مساوات حاصل کرنے کے لئے حمایت/ تعاون کی ضرورت تھی۔
ایس سی- ایس ٹی کمیونٹی کے لوگ چھوا چھوت کے شکار تھے۔ وہ سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ تھے۔ ریزرویشن غریبی کو ختم کرنے کا پروگرام نہیں تھا۔ یہ ذات پات والے نظام کے تحت عدم مساوات کو دور کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔تمام ذاتوں میں غریب لوگ ہیں۔ وہ غریب برہمن، غریب ٹھاکر، غریب سید اور غریب بنیا ہیں جن کو اپنی تعلیم پوری کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہے۔ اس لئے، ان کو اسکالرشپ، پڑھائی کے لئے لون اور دگر افادی سکیموں کی ضرورت ہے۔ وہ اقتصادی طور پر پسماندہ ہیں، سماجی طور سے نہیں۔ ان کو صرف اقتصادی حمایت کی ضرورت ہے، ریزرویشن کی نہیں۔
مودی حکومت کے حالیہ فیصلے پر انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس پر سوال اٹھایا جائےگا۔ مدعا یہ ہے کہ کیا یہ آئین کی اصل بناوٹ کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔جب یہ پوچھا گیا کہ کئی اشرافیہ کمیونٹی جیسےجاٹ، مراٹھا اور پاٹیدار ریزرویشن کی مانگکے رہے ہیں، تو کرشنن نے کہا، یہ تمام اشرافیہ سماج کے ہیں۔ سب سے پہلے، ان کو پسماندہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ بل میں ان کو پچھڑا طبقہ نہیں کہا گیا ہے۔ ان کو اقتصادی طور پر کمزور طبقہ کہا گیا ہے۔ آئین اقتصادی طور پر کمزور طبقوں کے لئے ریزرویشن کا اہتمام نہیں ہے۔
واضح ہو کہ پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے بھی اقتصادی طور پر کمزور لوگوں کو ریزرویشن دینے کی کوشش کی تھی۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے ان کے اس فیصلے کو خارج کر دیا تھا۔ اب مودی حکومت ویسا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اس پر پی ایس کرشنن نے کہا، نرسمہا راؤ کی حکومت نے صرف ایک ایگزیکٹیو آرڈرکو منظور کیا تھا۔ اب پارلیامنٹ ایک آئینی ترمیم کر رہی ہے۔ اس لئے، حکومت کو امید ہے کہ وہ جوڈیشل جانچ کا سامنا کر ےگی۔ لیکن یہ سوال اب بھی اٹھےگا کہ کیا یہ بل یا قانون آئین کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔
اس لئے، مجھے نہیں لگتا کہ ایک آئینی اہتمام بنانا یا اس کو نوویں فہرست میں شامل کرنا، جوڈیشیل سے بچا لےگا۔
(اس انٹرویو کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے)
Categories: خبریں