خبریں

کیوں مودی حکومت انفارمیشن کمشنر کے عہدے کے لئے نوکرشاہوں کو ترجیح دے رہی ہے؟

سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں حال ہی میں 4 انفارمیشن کمشنر وں کی تقرری کی گئی ہےجوسابق نوکرشاہ ہیں۔ حالانکہ آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 12 (5) بتاتی ہے کہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری قانون، سائنس اور ٹکنالوجی، سماجی خدمات، ایڈمنسٹریشن، صحافت یا حکومت کے شعبے سے کی  جانی چاہیے۔

فوٹو : رائٹرس/پی آئی بی

فوٹو : رائٹرس/پی آئی بی

نئی دہلی: گزشتہ ایک جنوری 2019 کو سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں چار انفارمیشن کمشنر کی تقرری کی گئی۔ چاروں لوگ ریٹائر سرکاری بابو (سابق نوکرشاہ یا بیوروکریٹ) ہیں۔آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 12 (5) بتاتی ہے کہ انفارمیشن کمشنر کی تقرری قانون، سائنس اور ٹکنالوجی، سماجی خدمات، ایڈمنسٹریشن، صحافت، میڈیا،یا حکومت کے شعبے سے کی  جانی چاہیے۔حالانکہ مودی حکومت نے صرف سابق نوکرشاہ کو ہی اس عہدے کے لئے منتخب کیا ہے۔

دی وائر کے ذریعے دائر آر ٹی آئی ڈی او پی ٹی کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کی گئیں فائلوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ مختلف شعبوں کے لوگوں نے بڑی تعداد میں اس عہدے کے لئے درخواست دی تھی،لیکن  حکومت نے دیگر شعبوں سے کسی کی بھی تقرری نہیں کی۔انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر تقرری کے لئے 27 جولائی 2018 کو ڈی او پی ٹی کے ذریعے اشتہار جاری کئے گئے تھے۔ اس عہدے کے لئے کل 280 لوگوں نے درخواست دی تھی۔ ڈی او پی ٹی کے ذریعے دی گئی جانکاری کے مطابق امید واروں میں سے صرف 68 لوگ ‘ ایڈمنسٹریشن اور حکومت یعنی کہ نوکرشاہی سے تھے۔

وہیں، انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر درخواست دینے والوں میں سے 29 لوگ قانون کے شعبے سے تھے۔ اس کے علاوہ سائنس اور ٹکنالوجی سے 3 لوگوں نے، سماج خدمات کے سے 12 لوگوں نے، ایڈمنسٹریشن سے سات لوگوں نے، صحافت  سے تین لوگوں نے، ماس میڈیا  سے دو لوگوں نے اور دیگر/مختلف شعبوں سے 157 لوگوں نے درخواست دی تھی ۔

ماخذ:ڈپارٹمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ

ماخذ:ڈپارٹمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ

موجودہ اور پیش رو حکومتوں کی اس بات کو لےکر تنقید ہوتی رہی ہے کہ وہ جان بوجھ کر اس عہدے کے لئے سابق نوکرشاہوں کو چنتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کے ساتھ حکومت کو کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور وہ اطلاع دینے سے بچ بھی جاتے ہیں۔واضح  ہو کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت جانکاری دلانے کے لئےسینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) اپیل کے لیے اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔

آر ٹی آئی کو لےکر کام کرنے والے سترک ناگرک سنگٹھن اور نیشنل کیمپین فار پیپلس رائٹ ٹو انفارمیشن (این سی پی آر آئی) کی ممبر انجلی بھاردواج نے کہا،اگر دیگر شعبوں سے لوگ درخواست نہیں کر رہے ہوتے تو حکومت یہ کہہ سکتی تھی کہ ان کو اس کی وجہ سے نوکرشاہوں کو چننا پڑ رہا ہے۔ لیکن اعداد و شمار یہ دکھاتے ہیں کہ آر ٹی آئی قانون میں دئے گئے تمام 8 شعبوں سے لوگ درخواست کر رہے ہیں۔ تو آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت نے ان میں سے ایک بھی آدمی کو نہیں چنا۔ ‘

اس وقت سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں سینٹرل انفارمیشن کمشنر سمیت کل سات انفارمیشن کمشنر ہیں اور اس میں سے سبھی لوگ نوکرشاہی سے ہیں۔گزشتہ 21 نومبر 2018 کو ریٹائر ہوئے سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو قانون کےشعبےسے تھے۔ ان سے پہلے ریٹائر ہوئے ایم ایس خان یوسفی بھی قانون سے تھے اور سال 2017 میں ریٹائر ہوئے بسنت سیٹھ ایڈمنسٹریشن سے تھے۔


یہ بھی پڑھیں: کیا انفارمیشن کمیشن ریٹائرڈ نوکرشاہوں کی آرام گاہ بنتا جا رہا ہے؟


شری دھر آچاریہ لونے حال ہی میں صدر کو خط لکھ‌کر مانگ کی تھی کہ نوکرشاہی کے باہر سے بھی لوگوں کو انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر تقرری کی جانی چاہیے تاکہ ادارے میں تنوع بنا رہے۔آچاریہ لونے دی وائر سے کہا،یہ بےحد تشویشناک ہے کہ زیادہ تر کمشنر سابق آئی اے ایس افسر رہے ہیں، جو حکومت میں کام کر چکے ہیں۔ اگر قانون کے مطابق دیگر شعبوں  سے لوگ آتے ہیں تو کمیشن کی خودمختاری بھی برقرار رہے‌گی، ذاتی آزادی بھی رہے‌گی۔ کمیشن میں تنوع ہوگااور فیصلے میں بھی اس کی جھلک دکھے‌گی۔ ‘

حال ہی میں ہوئے چار انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے تناظر میں انہوں نے کہا، تمام  لوگوں کو نوکرشاہی سے کیوں چنا گیا؟ کیا سرچ کمیٹی قانون، سماجی خدمات، میڈیا، صحافت، سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبے میں ایک بھی ایسے آدمی کو بھی نہیں کھوج سکی جو اس عہدے کے لئے صحیح ہو۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت انفارمیشن کمشنر کی تقرری کے لئے ‘ایڈمنسٹریشن’ آٹھ میں سے ایک شعبہ ہے۔ ‘

انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر تقرری کے لئے 27 جولائی 2018 کو اشتہار جاری کئے گئے تھے۔ اس کے بعد درخواست کرنے والوں میں سے مناسب امیدواروں کی تقرری کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے ایک سرچ کمیٹی بنائی گئی تھی۔سرچ کمیٹی کے ممبر کابینہ  سکریٹری پی کے سنہا، وزیر اعظم کے اڈیشنل چیف سکریٹری پی کے مشرا، ڈی او پی ٹی کے سکریٹری سی چندرمولی،ڈی آئی پی پی کے سکریٹری رمیش ابھشیک، وزارت اطلاعات و نشریات کے سکریٹری امت کھرے اور دہلی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اکانومک گروتھ کے ندیش منوج پانڈا شامل تھے۔

سرچ کمیٹی کے صدر کابینہ سکریٹری پی کے سنہا تھے۔ انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر لوگوں کو شارٹ لسٹ کرنے کے لئے سرچ کمیٹی کی دو میٹنگ، 28 ستمبر 2018 اور 24 نومبر 2018 کو ہوئی تھی۔24 نومبر کو ہوئے آخری اجلاس میں سرچ کمیٹی نے کل 14 لوگوں کے نام کو شارٹ لسٹ کیا تھا جس میں سے 13 لوگ سابق نوکرشاہ (سابق بیوروکریٹ یا سرکاری بابو) تھے اور صرف ایک الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائر جج تھے۔

اتناہی نہیں، کمیٹی نے جن 14 لوگوں کے نام کی سفارش کی تھی اس میں سے دو لوگ-سریش چندرا اور امیسنگھ لوئی کھم-کے نام درخواست گزاروں میں شامل نہیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سرچ کمیٹی نے ان ناموں کی سفارش اپنی طرف سے کی ہے۔حالانکہ 27 اگست، 2018 کو سپریم کورٹ میں دائر ایک حلف نامہ میں ڈی او پی ٹی نے خود کہا تھا کہ جن لوگوں نے عہدے کے لئے درخواست دی ہے، ان میں سے ہی سرچ کمیٹی کے ذریعے لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا جائے‌گا۔

آر ٹی آئی کارکنان نے سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں ہوئی تقرری کو ایک’من مانا عمل ‘قرار دیا ہے۔ ایک جنوری، 2019 کو انفارمیشن کمشنر کے عہدے پر تقرری ہونے والوں میں سابق آئی ایف ایس افسر یشوردھن کمار سنہا، سابق آئی آر ایس افسر ونجا این۔ سرنا، سابق آئی اے ایس افسر نیرج کمار گپتا اور سابق قانون سکریٹری سریش چندرا شامل ہیں۔

نو منتخب انفارمیشن کمشنر سریش چندرا پر الزام ہے کہ انہوں نے درخواست نہیں دی ہے، اس کے باوجود ان کی تقرری کی گئی ہے۔ انجلی بھاردواج نے بتایا کہ وہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں تقرری کے لئے اپنائے گئے من مانے عمل اور رازداری کو لےکر سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرنے والی ہیں۔

بھاردواج نے کہا، شفافیت کی مانگ صرف انفارمیشن کمیشن تک ہی محدود نہیں ہے۔ حکومت سی بی آئی، لوک پال، سی وی سی جیسے بڑے انسداد بدعنوانی سے متعلق اداروں میں خفیہ طریقے سے تقرری کر رہی ہے۔ اگر امید وار کے نام پہلے ہی عام کئے گئے ہوتے تو یہ سوال اٹھتا کہ آخر سریش چندرا کی تقرری کیسے کی گئی، جب انہوں نے درخواست ہی نہیں کی تھی ۔ لوک پال اور سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری کو لےکر بھی سنگین رازداری برتی جا رہی ہے۔ اپنے چہیتوں کو ان عہدوں پر بٹھانے کی حکومت کی یہ کوشش ہے۔ ‘