حسینہ نے الیکشن جیتنے کے لئے جو حرکتیں کی ہیں اس پر ہمارے کان کھڑے ہوجانےچاہییں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر وہ ہندوستان کے لئے گھاٹے کا سودہ بن جائے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
بنگلہ دیش میں ہوئے حالیہ عام انتخابات میں وزیراعظم شیخ حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ کی جیت طے تھی۔وہ لگاتار تیسری بار اور ویسے چوتھی بار وزیراعظم بننے والی اپنے ملک کی پہلی لیڈر ہیں۔ یہ ایسا اعزاز ہے جو اس خطے میں کسی اور کو نہیں ملا ہے۔ بلکہ دنیا میں بھی ایسا کم ہی ہوتا ہے۔انہوں نے اس بے مثال جیت کو یقینی بنانے کے سارے انتظامات پہلے سے کر لئے تھے۔ بشمول الیکشن کمیشن تمام سرکاری ادارے ان کے اشاروں پر ناچ رہے تھے۔ سرکاری و غیرسرکاری میڈیا ان کے گن گا رہا تھا۔
انہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ انتخابی مہم کے دوران اور ووٹنگ کے دن بھی ہر طرف صرف ان کی پارٹی کے لوگ ہی نظر آرہے تھے۔ ان کی سب سے بڑی سیاسی حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی قائد خالدہ ضیاء بد عنوانی کے الزام میں جیل میں تھیں اور ان کا جاں نشیں بیٹا جو ان کی جگہ پر پارٹی اور اپوزیشن اتحاد کو لیڈرشپ دے سکتا تھا لندن میں خود ساختہ جلا وطنی میں تھا۔ ایک دوسری اہم سیاسی طاقت جماعت اسلامی پر پابندی لگی ہوئی تھی۔اس کے علاوہ پارلیامنٹ میں حزب اختلاف کا رول ادا کرنے والی سابق ملٹری ڈکٹیٹر ایچ ایم ارشاد کی جاتیہ پارٹی عوامی لیگ کے تحت اتحاد میں شامل تھی۔
ان سب انتظامات کے باوجود ان کو ملی اتنی بڑی کامیابی نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ان کی پارٹی کو298 میں سے 288 نشستیں ملی ہیں۔ یہ ایسا ریکارڈ ہے جو صدام حسین جیسے ڈکٹیٹرس کا خاصہ ہے۔ توقع کے مطابق اپوزیشن پارٹیوں نے اس نتیجے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ اس الیکشن کو رد کرے اور ایک قائم مقام حکومت تشکیل دے کر اس کی نگرانی میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروائے۔ ملک کے قانون میں ایک قائم مقام حکومت کی گنجائش پہلے سے موجود ہے جسے حسینہ سرکار نے 2012 میں ترمیم کر کے ختم کر دیا ہے۔ اپوزیشن نے اپنی مانگ کے ساتھ ڈھاکہ میں تعینات 30غیر ملکی سفیروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی ہے۔
حسینہ پر بظاہر ان سب کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ مگر عالمی برادری، خاص کر مغربی دنیا نے نوٹس لیا ہے اور الیکشن کے نتائج پر بے اطمینانی ظاہر کی ہے۔ امریکہ، یوروپی یونین اور اقوام متحدہ نے اپنے اپنے طور پر شیخ حسینہ کو یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ ان کے ذریعہ کرایا گیا الیکشن کھوٹا ہے۔مگر ہندوستان اور چین کا ردعمل عالمی برادری سے مختلف ہے۔دونوں بڑی طاقتوں نے، جو کہ اس خطے کی اہم علاقائی طاقتیں بھی ہیں، الیکشن میں ہوئی بے ضابطگیوں، اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکیوں اور انسانی حقوق کی کھلی پامالیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے شیخ حسینہ کو ان کی “شاندار کامیابی”پر مبارکباد پیش کی ہے۔
Spoke to Sheikh Hasina Ji and congratulated her on the resounding victory in the Bangladesh elections.
Wished her the very best for the tenure ahead.
— Narendra Modi (@narendramodi) December 31, 2018
وزیراعظم نریندر مودی وہ پہلے غیرملکی لیڈر تھے جنہوں نے نتیجہ آنے کے بعد حسینہ کو فون کیا اور پھر ایک ٹوئٹ کے ذریعہ دنیا کو اس کی اطلاع دی۔”شیخ حسینہ جی سے بات ہوئی۔ انہیں الیکشن میں شاندار کامیابی پر مبارکباد دی۔انھیں ان کے نئےمدت کار کے لئے نیک خواہشات پیش کیں۔انھیں بنگلہ دیش کی ترقی کے لئے ہندوستان کی مسلسل حمایت اور باہمی رشتوں کو مزید مضبوط کرنے کا یقین دلایا۔”سرکاری طور پر جو ردعمل آیا اس میں بھی کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار ہوا۔ مگر ان میں بھی کہیں الیکشن کے نتائج پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا ہے۔
ہندوستان کی بنگلہ دیش پالیسی حسینہ سے مربوط ہے۔ نئی دہلی میں حسینہ کے لئے ایک نرم گوشہ ہے۔ انھیں ایک سیکولر اور ترقی پسند رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ منموہن سرکار کی بنائی ہوئی پالیسی ہے جس پر مودی حکومت گامزن ہے۔ ہندوستانی پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ حسینہ کا اقتدار میں قائم رہنا ہندوستان کے سیاسی اور اقتصادی مفاد میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد نارتھ بلاک میں بیٹھے آفیسرز نے سُکھ کا سانس لیا۔ وہ فکرمند تھے کہ کہیں خالدہ ضیاء واپس اقتدار میں نہ آجائیں۔اس پریشانی کی وجہ2001 سے 06 کے بیچ خالدہ ضیاء کے دور اقتدار میں ہوئے ناخوشگوار تجربات ہیں جن سے ہندوستان کو گزرنا پڑا تھا۔
اس پس منظر میں ہندوستان کا حسینہ کی طرف مائل رہنا فطری ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں غیر معمولی گرم جوشی آئی ہے۔ نریندر مودی کے کمان سنبھالنے کے بعد دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے بیچ تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں۔انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014 سے لے کر اب تک دونوں وزرائےاعظم 10بار ملے ہیں اور6 بار ویڈیو کانفرنسنگ اور5 بار فون کے ذریعہ رابطہ قائم کیا ہے۔اس کے علاوہ دونوں نے مشترکہ طور پر 19 ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا اور زائد از90 معاہدوں پر دستخط کئے۔
یہ ساری حصولیابیاں اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کو کسی ایک لیڈر یا پارٹی کا اسیر بناکر چھوڑنا کہاں تک مناسب ہے۔ نارتھ بلاک میں بیٹھے بیوروکریٹس کو جو پریشانی اس الیکشن میں تھی وہ آئندہ بھی رہے گی۔ حسینہ نے طاقت کا بیجا استعمال کرکے یہ الیکشن تو جیت لیا مگر اس کی کیا گارنٹی ہے کے وہ ہمیشہ اس پوزیشن میں ہوں گی۔ جن لوگوں کو انہوں نے آج معتوب کیا ہے وہ کبھی نہ کبھی سر ضرور اٹھائیں گے۔ اور جب بھی ایسا ہوگا بنگلہ دیش ایک بڑے بحران سے گزرے گا جس کا براہ راست اثر ہندوستان پر پڑے گا۔ ہم 70 کی دہائی میں اسے بھگت چکے ہیں جب مشرقی پاکستان میں چھڑی خانہ جنگی کے نتیجے میں لاکھوں لاکھ پناہ گزینوں نے ہندوستان کا رخ کیا۔
اُس وقت جو اتھل پتھل مچی تھی 50 سال بعد آج بھی اس کی آنچ ہندوستان محسوس کر رہا ہے۔ سیٹزن شپ ترمیمی بل پر آسام اور شمال مشرق کی دیگر ریاستوں میں جو سیاسی بحران پیدا ہوا ہے اس کا تعلق براہ راست اُس خونی کھیل سے ہے جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے اور قیام کے بعد ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ انسان موت کے گھاٹ اتارے گئے اور تقریباً ایک کروڑ لوگ بے گھر ہوئے۔3 لاکھ پاکستانی محصورین، جو عرف عام میں بہاری مسلمان کہے جاتے ہیں، آج بھی ڈھاکہ اور گرد و نواح کے قریب75 کیمپوں میں پناہ گزیں ہیں۔ فلسطینیوں کے بعد یہ بے بس اور لاچار انسانوں کا دوسرا بڑا گروہ ہے جو پچاس سالوں سے بےوطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔
ہندوستانی پالیسی سازوں کو اُس وقت کی فکر کرنی چاہیے جب حسینہ کے خلاف بغاوت کا بگل بجے گا۔اس وقت ہندوستان براہ راست عام بنگلہ دیشیوں کے نشانے پر ہوگا کیونکہ وہاں یہ تاثر ابھی سے گھر کر گیا ہے کہ موجودہ سرکار ہندوستان کی شہ پر ساری زیادتیاں کر رہی ہے۔کوئی بھی لیڈر چاہے جتنا بھی مقبول ہو اور جتنا بھی طاقتور ہو ہمیشہ باقی نہیں رہتا۔ایران کے رضا شاہ پہلوی، فلپائن کے فردینند مارکوس، مصر کے حسنی مبارک سے لے کر جنوبی امریکہ، مشرقی یوروپ اور مشرق وسطیٰ تک کے تانا شاہوں کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ صدام حسین تھا مگر باوجود سپر پاورس کی زبردست حمایت کے کوئی بھی کوئی بھی عوامی غصے سے بچ نہیں پایا۔کیا ہوگا جب تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دوہرائے گی۔ بنگلہ دیشیوں کو ویسے بھی ان کا ملک خون کی ہولی کھیل کر ملا ہے۔ملک کی اب تک کی سیاست تشدد اور خون خرابے سے رقم ہوئی ہے۔
حسینہ نے الیکشن جیتنے کے لئے جو حرکتیں کی ہیں اس پر ہمارے کان کھڑے ہونے چاہییں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر وہ ہندوستان کے لئے گھاٹے کا سودہ بن جائیں۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بی این پی اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں بشمول جماعت اسلامی سے ہمارا رابطہ رہنا چاہیے۔ بحران کے وقت اس سے مدد ملے گی۔کون فرقہ پرست ہے اور کون نہیں یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں۔ خود ہندوستان میں اس وقت دائیں بازو کی ایک ایسی پارٹی اقتدار میں ہے جو ایک ہندو فاشسٹ تنظیم سے روشنی پاتی ہے۔بی این پی ہندوستان سے اپنے تعلقات سدھارنے کی خواہاں ہے۔ اس کی لیڈرشپ نے الیکشن سے پہلے بی جے پی کے رام مادھو سے سری لنکا میں ملاقات کی کوشش کی تھی مگر اس پہل کو ٹھکرا دیا گیا تھا۔
جب قومی مفاد سامنے ہو تو کوئی بھی اچھوت نہیں ہوتا۔امریکا، روس، ایران اور پاکستان ان دنوں طالبان سے مذاکرات میں مشغول ہیں۔ پاکستان ایک بار پھر سے امریکیوں کے لئے قابل قبول ہوتا ہوا لگ رہا ہے۔ یعنی افغانستان کا سیاسی منظر نامہ بدلنے والا ہے۔ اس پس منظر میں ہندوستان کو بھی اپنی افغان پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔”طالبان سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا ہے”کی پالیسی کو اب خیرآباد کہنا ہوگا۔ اس کا پہلا اشارہ فوجی سربراہ جنرل بپن روات کے حالیہ بیان سے ملتا ہے: “اگر اتنے سارے ممالک طالبان سے مل رہے ہیں اور اگر ہمارے مفادات افغانستان میں ہیں تو ہمیں بھی اس قطار میں شامل ہونا چاہئے۔”
اگر طالبان سے معاملات کئے جاسکتے ہیں تو بی این پی یا جماعت اسلامی سے بات کرنے میں تامل کیوں۔ یہ تو بہرحال سیاسی پارٹیاں ہیں جو کبھی بھی الیکشن جیت کر اقتدار میں آسکتی ہیں۔دوسری حقیقت یہ ہے کہ افغانستان دور کا ملک ہے جبکہ بنگلہ دیش ہمارا ہمسایہ ہے جس سے ہماری پانچ ریاستوں کی چار ہزار کلومیٹر لمبی سرحدیں ملتی ہیں۔ایک پرامن اور مستحکم بنگلہ دیش ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وزیراعظم نریندر مودی جو کچھ بھی کر سکتے ہوں انھیں کرنا چاہیے۔ اس کی ابتدا الیکشن میں ہوئی دھاندلیوں پر تشویش کے اظہار سے ہونی چاہیے۔ حسینہ ہوں یا کوئی اور ہندوستان کی حمایت غیر مشروط نہیں ہو سکتی۔
Categories: فکر و نظر