آئی آئی ٹی ممبئی میں امبیڈکر میموریل لکچر کو خطاب کرتے ہوئے جسٹس جے چیلمیشور نے کہا کہ آئین میں صرف سماج کے سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقے کے لئے ریزرویشن کا اہتمام ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے ریٹائرڈجج جسٹس جے چیلمیشور نے بدھ کو کہا کہ آئین میں صرف سماج کے سماجی اور تعلیمی طورپر پسماندہ طبقوں کے لئے ریزرویشن دینے کا اہتمام ہے، نہ کہ اقتصادی طور پر کمزور طبقوں (ای ڈبلیو ایس) کے لئے۔انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، ریٹائرڈ جسٹس جے چیلمیشور آئی آئی ٹی ممبئی میں منعقد امبیڈکر میموریل لکچر میں ایک طالب علم کے سوال کا جواب دے رہے تھے۔
چیلمیشور نے کہا، آئین کے مطابق پارلیامنٹ یا اسمبلی کو سماج کے سماجی اور تعلیمی طورپر پسماندہ طبقوں کو ریزرویشن دینے کو کہا گیا تھا۔ اقتصادی طور پر کمزور طبقوں کے لئے ریزرویشن دینے کا اہتمام نہیں ہے۔ ای ڈبلیو ایس ریزرویشن عدالت میں کس حد تک قائم رہے گا، مجھے نہیں پتا اور یہ دیکھا جانا باقی ہے۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ آئین میں اس کی اجازت نہیں ہے۔پارلیامنٹ نے اس مہینے کی شروعات میں 124ویں آئینی ترمیم (124ویں ترمیم)بل کو منظور کیا تھا، جس میں عام طبقے میں ای ڈبلیو ایس کے لئے نوکریوں اور تعلیم میں 10 فیصد ریزرویشن کا اہتمام کیا گیا۔ بل کو چیلنج دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے سامنے ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔
چیلمیشور سے سبکدوشی کے بعد سرکاری عہدوں پر ججوں کی تقرری کے بارے میں بھی پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، ‘ سبکدوشی کے بعد کسی بھی سرکاری عہدے سے انکار میرا ذاتی فیصلہ تھا۔ ‘اپنے گھنٹے بھرکی تقریر کے دوران، چیلمیشور نے آئین میں جمہوریت کے لئے حفاظتی اقدامات کی بات کی، جس میں انتخابی نمائندوں کی تقرری بھی شامل تھی۔ایک جلسہ کا ذکر کرتے ہوئے چیلمیشور کہتے ہیں، جلسہ میں موجود ہرایک شخص ملک کی حکومت میں اہمیت رکھتا تھا۔ شری برہما (ہری شنکر برہما)، ملک کے ایک سابق الیکشن کمشنر تھے، وہ ایک ایسے شخص تھے، جن کو انتخابی عمل کا علم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں رکن پارلیامان بننے کے لئے 50 کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ جو اتنا خرچ کرتا ہے، وہ پیسہ وصول کرنے کا کام کرےگا نہ کہ آئین کو نافذ کرنے کا۔ ‘
چیلمیشور نے طالب علموں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کو اس بات کی جانکاری ہونی چاہیے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کو ان سب میں دلچسپی لینی چاہیے اور جب چیزیں غلط ہوتی ہیں، تو ان کو اپنی آواز اٹھانی چاہیے۔چیلمیشور نے عدالتی اصلاحات کی ضرورت اور کسی بھی فیصلے کی اکادمک بحث کرنے کی بھی بات کی، جس میں انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا غلط نہیں ہے اور یہ توہین کی بات نہیں ہے۔واضح ہو کہ جسٹس چیلمیشور ان چار سپریم کورٹ ججوں میں سے ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال 12 جنوری کو پریس کانفرنس کر کے سپریم کورٹ میں بے ضابطگیوں کو اجاگر کیا تھا۔
Categories: خبریں