طویل عرصے سے علیل جارج فرنانڈیز نے اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں وزیر دفاع کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں ۔ وہ ہندی، انگریزی، تمل، مراٹھی اور اردو سمیت 10 زبانوں سے واقف تھے۔
نئی دہلی : سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں وزیر دفاع رہے جارج فرنانڈیز منگل کو 88برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔ نیوز 18 کی خبر کے مطابق، فیملی سے وابستہ افراد نے ان کے انتقال کی خبر کی تصدیق کی ہے۔ ان کوالزائمر کی بیماری تھی۔ اپنی بیماری کی وجہ سے وہ لمبے عرصے سے عوامی زندگی سے بھی دور تھے۔
بے باک سماجوادی رہنما کے طور پر معروف جارج فرنانڈیزسمتا پارٹی کے بانی تھے ۔انہوں نے اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں 1988 سے 2004 تک وزیر دفاع کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں ۔ وہ این ڈی کے کنوینر بھی رہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹوئٹ کرکے ان کے انتقال پر اپنے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے، جارج صاحب نے ہندوستانی سیاست کی بہترین نمائندگی کی۔ وہ بے خوف اور دور اندیش تھے۔انہوں نے ہمارے ملک کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ وہ غریبوں اور حاشیے کے حقوق کے لیے سب سے مؤثر آوازوں میں سے ایک تھے۔ ان کی موت کا مجھے رنج ہے۔
George Sahab represented the best of India’s political leadership.
Frank and fearless, forthright and farsighted, he made a valuable contribution to our country. He was among the most effective voices for the rights of the poor and marginalised.
Saddened by his passing away.
— Narendra Modi (@narendramodi) January 29, 2019
جارج بہار کے مظفر پور سے 4 بار رکن پارلیامان منتخب ہوئے۔2009 میں آزاد امیدوار کے بطور میدان میں اترے لیکن ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔3 جون 1930 کو کرناٹک میں پیدا ہوئے جارج 10 زبانوں سے واقف تھے۔ وہ ہندی، انگریزی، تمل، مراٹھی، کنڑ، اردو، ملیالی، تلو، کونکنی اور لیٹن زبان سے ان کی بھرپور واقفیت تھی۔
ان کی والدہ کنگ جارج پنجم کی بڑی مداح تھیں۔ انہی کے نام پر اپنے 6 بچوں میں سب سے بڑے بیٹے کا نام انہوں نے جارج رکھا۔ جارج نے ایمرجنسی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اس کے علاوہ وہ مزدور اور ٹریڈ یونین لیڈر کے طور پر معروف تھے۔ وہ 1977 سے 1980 کے درمیان مرار جی دیسائی کی قیادت والی جنتا پارٹی حکومت میں بھی مرکزی وزیر رہے۔
نو بھارت ٹائمس کی خبر کے مطابق، ایمرجنسی کے دوران گرفتاری سے بچنے کے لیے جارج کوپگڑی پہن کر اور داڑھی لگا کر سکھ کا بھیس اختیار کرنا پڑا تھا۔ وہ اپنی گرفتاری کے بعد تہاڑ جیل میں قیدیوں کو گیتا کے اشلوک سناتے تھے۔ 1974 کی ریل ہڑتال کے بعد وہ ایک قدآور رہنما کے طور پر ابھرے۔ ایمرجنسی ختم ہونے کے بعد جارج نےمظفر پور سے1977 کا لوک سبھا انتخاب جیل میں رہتے ہوئے لڑا تھا اور ریکارڈ ووٹوں سے جیت حاصل کی تھی۔جنتا پارٹی میں وہ وزیر صنعت بنائے گئے۔ بعد میں جب جنتا پارٹی ٹوٹی تب انہوں نے سمتا پارٹی بنائی اور بی جے پی کی حمایت کی۔غور طلب ہے کہ جارج نے وشوناتھ پرتاپ سنگھ (و ی پی سنگھ )کی قیادت والی حکومت میں وزارت ریلوے کی ذمہ داری بھی سنبھالی تھی۔ آخری بار جارج بہار سے 2009 سے 2010 تک راجیہ سبھا ممبر رہے۔
غور طلب ہے کہ گجرات میں 2002 کے مسلم مخالف فسادات کے بعد جب ان سےمسلم خواتین کے ساتھ ہوئے ظلم کے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس پر ہنگامے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ایسا 55 سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔خواتین کے خلاف ظلم اور ریپ کی یہ کہانیاں نئی نہیں ہیں اور نہ ہی حاملہ عورت کا پیٹ چاک کرکے اس کے بچے کو باہر نکالنا کوئی نئی بات ہے۔اب اس پر کیوں ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے۔فرنانڈیز کے مطابق ایسا 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے دوران بھی ہوچکا تھا۔اسی لیے 2002 کے معاملے میں ہنگامہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
Categories: خبریں