سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے مودی حکومت کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ،حکومت کی بد نیتی کی وجہ سے 29 جنوری 2019 کو ایک اور اہم ادارہ ختم ہوگیا۔
نئی دہلی :این ایس سی (National Statistical Commission) کے دو ممبروں نے منگل کو حکومت کے رویے سے مایوس ہوکر استعفیٰ دے دیا تھا۔ این ایس سی کے دو ممبروں کے استعفیٰ کے بعد سینئر کانگریسی رہنما پی چدمبرم نے بدھ کو مودی حکومت کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ، اس ادارے کی روح کو سکون ملے ،جب تک اس کا دوبارہ جنم نہ ہوجائے ۔ پی چدمبرم نے ایک کے بعد ایک ٹوئٹ کر کے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے لکھا، حکومت کی بد نیتی کی وجہ سے 29 جنوری 2019 کو ایک اور اہم ادارہ ختم ہوگیا۔
सरकार की बदनीयत के चलते 29 जनवरी, 2019 को एक और सम्मानित संस्थान ख़त्म हो गया।
— P. Chidambaram (@PChidambaram_IN) January 30, 2019
سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے مزید کہا کہ ، ہم این ایس سی کے ختم ہونے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی قابل اعتماد جی ڈی پی ڈیٹا اور روزگار ڈیٹا کو ریلیز کرنے کے لیے اس کی بہادری کو شکریے کے ساتھ یاد کرتے ہیں ۔
हम राष्ट्रीय सांख्यिकी आयोग के ख़त्म होने पर गहरा अफ़सोस जाहिर करते हैं और इसके द्वारा विश्वसनीय जीडीपी आंकड़े और रोजगार के आंकड़े जारी करने की साहसी लड़ाई को कृतज्ञता से याद करते हैं।
— P. Chidambaram (@PChidambaram_IN) January 30, 2019
ذرائع کے مطابق کمیشن کے کار گزار چیئر مین پی سی موہنن اور ممبر جے وی میناکشی نے سوموار کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا تھا۔موہنن ہندوستانی شماریاتی خدمات کے سابق افسر ہیں اور میناکشی دہلی اسکول آف اکانومکس میں پروفیسر ہیں۔کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق دونوں کی مدت کار جون 2020 میں پوری ہورہی تھی۔بزنس اسٹینڈرڈ کی رپورٹ کے مطابق ،وہ حکومت کے رویے سے مایوس تھے۔
ان کے استعفیٰ کی دو اہم وجہ بتائی جا رہی ہیں۔ پہلانیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) کے 2017سے18 کے روزگار سروے کو جاری کرنے میں ہو رہی تاخیر اور گزشتہ سال آئے بیک سریز جی ڈی پی ڈیٹا کو جاری کرنے سے پہلے کمیشن کی صلاح نہ لینا۔بزنس اسٹینڈرڈ سے بات کرتے ہوئے موہنن نے کہا، ہم نے کمیشن سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ کئی مہینوں سے ہمیں لگ رہا تھا کہ حکومت کے ذریعے ہمیں درکنار کرتے ہوئے سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا تھا۔ کمیشن کے حالیہ فیصلوں کو نافذ نہیں کیا گیا۔ ‘
گزشتہ سالوں میں مرکزی حکومت پر اعداد و شمار کو لےکر کئی سوال اٹھے ہیں۔ حال ہی میں مرکز کے ذریعے جاری کئے گئے بیک سریز جی ڈی پی ڈیٹا پر تنازعہ ہوا تھا۔ذرائع کے مطابق کمیشن نے روزگار سروے کی رپورٹ کو 5 دسمبر 2018 کو کولکاتا میں ہوئے اجلاس میں ہی منظور کر لیاگیا تھا اور اصول کے مطابق اس کو Ministry of Statistics and Programme Implementation(ایم او ایس پی) کے ذریعے جاری کیا جانا تھا۔
موہنن نے بتایا، رپورٹ کو منظور کرلیا گیا تھا اور اس کو فوراً جاری کر دیا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ مجھے چپ چاپ بیٹھکریہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ‘منظوری ملنے کے دو مہینے بعد بھی یہ ڈیٹا ابتک عوامی نہیں ہوا ہے۔ کمیشن کے ایک سابق ممبر کے مطابق حکومت این ایس ایس او کے اس سروے کے نتائج کو لےکر مطمئن نہیں تھی۔
اس سے پہلےلیبر بیورو کے ذریعے کئے گئے سالانہ گھریلو سروے 2016سے17 کو ضروری منظوری ملنے کے باوجود جاری ہونے سے روک دیا گیا تھا۔آئندہ لوک سبھا انتخاب کے مدنظر روزگار کا مدعا زور شور سے اٹھایا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے ذریعے بار بار ان کے ذریعے روزگار بڑھائے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے، حالانکہ اس کے اعداد و شمار کو لےکر ہمیشہ غفلت بنی رہی۔
دریں اثنا نیشنل سیمپل سروےآفس (این ایس ایس او)نے رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ 45 سالوں کے مقابلے 2017 سے 18 میں سب سے زیادہ بے روزگاری رہی۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 45 سالوں کے مقابلے 2017 سے 2018 کے درمیان ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 6.1 فیصد ہوگئی تھی ۔ بزنس اسٹینڈرڈ کے مطابق ،نیشنل سیمپل سروےآفس (این ایس ایس او) کے Periodic labour force survey (پی ایک ایف ایس ) کی رپورٹ سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔اسی رپورٹ کے جاری نہ ہونے کی وجہ سے سوموار کو National Statistical Commission (این ایس سی ) کے ایگزیکٹیو صدر سمیت دو ممبروں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ دراصل کمیشن نے تو رپورٹ کو منظوری دے دی تھی لیکن حکومت اس کو جاری نہیں کر رہی تھی ۔
گزشتہ دنوں وزیرریل پیوش گوئل نے بھی کہا تھا کہ روزگار کے مواقع بڑھے ہیں لیکن اعداد و شمار کا صحیح حساب نہیں لگ پا رہا ہے۔2013 سے 2016 تحت این ایس سی کے چیئر میں رہے پرنب سین نے کہا ہے،این ایس سی کو قومی شماریاتی نظام کے اعداد و شمار میں بھروسہ لانے کے لئے لایا گیا تھا، اگر کمیشن کو لگتا ہے کہ اس کو اس کا کام نہیں کرنے دیا جا رہا، تو استعفیٰ دینا مناسب ہے۔ ‘واضح ہوکہ کہ ان دو ممبروں کے استعفیٰ کے بعد کمیشن میں دو ممبر باقی رہیںگے، جن میں نیتی آیوگ کے نائب صدر امیتابھ کانت اور چیف اسٹیٹسین پروین شریواستو شامل ہیں۔
Categories: خبریں