خبریں

روزگار کے اعداد وشمار چھپانے کے الزام کے بعد دوبارہ سروے کی تیاری میں مرکزی حکومت

وزیر اعظم نریندر مودی کی اکانومک ایڈوائزری کاؤنسل کے  چیف وویک دیورائے نے کہا کہ  اصل مدعا روزگار کے اعدادو شمارکا  نہیں بلکہ روزگار کے معیار اور تنخواہ کی شرحیں ہیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی : مرکزی حکومت روزگار پر نیا نیشنل سیمپل سروے(این ایس ایس) کرائے گی ۔ وزیر اعظم کی اکانومک ایڈوائزری کاؤنسل (پی ایم ای اے سی) کے چیف وویک دیو رائے نے کہا کہ اس نئے سروے سے ملک میں روزگار کے بارے میں پتہ چلے گا۔وزیر دفاع نرملا سیتا رمن کے فیس بک پیج پر ڈالی گئی ایک ویڈیوکلپ میں دیو رائے کہہ رہے ہیں کہ نوکریاں ، روزگار ، کاروباری ماحول کا ایک بڑا حصہ ریاستوں کے دائرے میں آتا ہے۔دیو رائے نے کہا کہ ، ہم دوبارہ نیشنل سیمپل سروے (این ایس ایس) کریں گے ، جس کا اعلان جلد کیا جائے گا ۔ مجھے یقین ہے کہ اس سروے سے پتہ چل جائے گا کہ ملک میں روزگار بڑے پیمانے پر پیدا ہوا ہے۔

دیو رائے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی –بھاشا کو بتایا کہ یہ ویڈیو دو ہفتے پہلے شوٹ کیا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں وزیر اعظم کی اکانومک ایڈوائزری کاؤؤنسل (ای اے سی –پی ایم) کے چیف دیو رائے نے یہ بھی کہا کہ 2011سے 2012 کے بعد سے ملک میں روزگار کو لے کر کوئی ٹھوس اعداد وشمار نہیں ہیں۔انہوں نے ملک میں مزدوری کے ابھی بھی غیر رسمی اور ان آرگنائزڈ ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ  لیبر سروے ہندوستان میں روزگار کی صورت حال کو لے کر بہت ہی محدود سمجھ  پیدا کر تا ہے۔ دیو رائے نے کہا کہ اصل مدعا روزگار کی تعداد نہیں بلکہ روزگار کا معیار اور تنخواہ کی شرحیں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت صرف محدود تعداد میں ہی روزگار دے سکتی ہے اس لیے بڑی تعداد میں روزگار کی پیداوار سرکاری کی نوکریوں سے باہر ہونا چاہیے ۔ مود ی حکومت شیلف روزگار اور Entrepreneurship کو بڑھاوا دے کر یہی کر رہی ہے۔واضح ہو کہ گزشتہ دنوں مودی حکومت پر روزگار اور جی ڈی پی کے اعدادو شمار کو چھپانے کا الزام لگاتے ہوئے این ایس سی (National Statistical Commission) کے دو ممبروں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ سرکار کے رویے سے مایوس تھے ۔

 ذرائع کے مطابق کمیشن کے کار گزار چیئر مین  پی سی موہنن اور ممبر جے وی میناکشی نے سوموار کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا تھا۔موہنن ہندوستانی شماریاتی خدمات کے سابق افسر ہیں اور میناکشی دہلی  اسکول آف اکانومکس میں پروفیسر ہیں۔کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق دونوں کی مدت کار جون 2020 میں پوری ہورہی تھی۔بزنس اسٹینڈرڈ کی رپورٹ کے مطابق ،وہ حکومت کے رویے سے مایوس تھے۔

ان کے استعفیٰ کی دو اہم وجہ  بتائی جا رہی ہیں۔ پہلانیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) کے 2017سے18 کے روزگار سروے کو جاری کرنے میں ہو رہی تاخیر اور گزشتہ سال آئے بیک سریز جی ڈی پی ڈیٹا کو جاری کرنے سے پہلے کمیشن کی صلاح نہ لینا۔بزنس اسٹینڈرڈ سے بات کرتے ہوئے موہنن نے کہا، ہم نے کمیشن سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ کئی مہینوں سے ہمیں لگ رہا تھا کہ حکومت کے ذریعے ہمیں درکنار کرتے ہوئے سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا تھا۔ کمیشن کے حالیہ فیصلوں کو نافذ نہیں کیا گیا۔ ‘

گزشتہ  سالوں میں مرکزی حکومت پر اعداد و شمار کو لےکر کئی سوال اٹھے ہیں۔ حال ہی میں مرکز کے ذریعے جاری کئے گئے بیک سریز جی ڈی پی ڈیٹا پر تنازعہ ہوا تھا۔ذرائع کے مطابق کمیشن نے روزگار سروے کی رپورٹ کو 5 دسمبر 2018 کو کولکاتا میں ہوئے اجلاس میں ہی منظور کر لیاگیا تھا اور اصول کے مطابق اس کو Ministry of Statistics and Programme Implementation(ایم او ایس پی) کے ذریعے جاری کیا جانا تھا۔

موہنن نے بتایا، رپورٹ کو منظور کرلیا گیا تھا اور اس کو فوراً جاری کر دیا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ مجھے چپ چاپ بیٹھ‌کریہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ‘منظوری ملنے کے دو مہینے بعد بھی یہ ڈیٹا ابتک عوامی نہیں ہوا ہے۔ کمیشن کے ایک سابق ممبر کے مطابق حکومت این ایس ایس او کے اس سروے کے نتائج  کو لےکر مطمئن نہیں تھی۔

اس سے پہلےلیبر بیورو کے ذریعے کئے گئے سالانہ گھریلو سروے 2016سے17 کو ضروری منظوری ملنے کے باوجود جاری ہونے سے روک دیا گیا تھا۔آئندہ لوک سبھا انتخاب کے مدنظر روزگار کا مدعا زور شور سے اٹھایا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے ذریعے بار بار ان کے ذریعے روزگار بڑھائے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے، حالانکہ اس کے اعداد و شمار کو لےکر ہمیشہ غفلت بنی رہی۔

دریں اثنا نیشنل سیمپل سروےآفس (این ایس ایس او)نے رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ 45 سالوں کے مقابلے 2017 سے 18 میں سب سے زیادہ  بے روزگاری رہی۔ قابل ذکر ہے کہ  گزشتہ 45 سالوں کے مقابلے 2017 سے  2018 کے درمیان ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 6.1 فیصد ہوگئی تھی ۔ بزنس اسٹینڈرڈ کے مطابق ،نیشنل سیمپل سروےآفس (این ایس ایس او) کے Periodic labour force survey (پی ایک ایف ایس ) کی رپورٹ سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔اسی رپورٹ کے جاری نہ ہونے کی وجہ سے سوموار کو National Statistical Commission (این ایس سی ) کے ایگزیکٹیو صدر سمیت دو ممبروں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ دراصل کمیشن نے تو رپورٹ کو منظوری دے دی تھی لیکن حکومت  اس کو جاری نہیں کر رہی تھی ۔

گزشتہ دنوں  وزیرریل  پیوش گوئل نے بھی کہا تھا کہ روزگار کے مواقع بڑھے ہیں لیکن اعداد و شمار کا صحیح حساب نہیں لگ پا رہا ہے۔2013 سے 2016 تحت این ایس سی کے چیئر میں  رہے پرنب سین نے کہا ہے،این ایس سی کو قومی شماریاتی نظام کے اعداد و شمار میں بھروسہ لانے کے لئے لایا گیا تھا، اگر کمیشن کو لگتا ہے کہ اس کو اس کا کام نہیں کرنے دیا جا رہا، تو استعفیٰ دینا مناسب ہے۔ ‘واضح ہوکہ  کہ ان دو ممبروں کے استعفیٰ کے بعد کمیشن میں دو ممبر باقی رہیں‌گے، جن میں نیتی آیوگ کے نائب صدر امیتابھ کانت اور چیف اسٹیٹسین پروین شریواستو شامل ہیں۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)