آج میں آپ سے اپنے ایسے کچھ دوستوں کی باتیں کروں گا جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن جن کے نام فلم کی تاریخ میں امر ہو چکے ہیں۔
مشہور فلمی ایکٹر پران آج ہی کے دن یعنی12فروری 1920کو دہلی کے بلی ماران میں پیدا ہوئے تھے ۔ان کا پورا نام پران کرشن سکندتھا۔ انہوں نے ہر طرح کی اداکاری کی ،لیکن اپنے منفی کرداروں کے لیے زیادہ پہچانے گئے۔ان کےیوم پیدائش پر ہم ان کی ایک نایاب تحریر قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں جو انہوں نے ماہنامہ شمع (اکتوبر -1981)کے لیے سپرد قلم کیا تھا- ادارہ
فلمی دنیا میں ایک لمبا عرصہ گزار چکا ہوں۔ اسی اعتبار سے یاروں اور دوستوں کی فہرست بھی بہت لمبی ہے۔ اس فہرست میں کچھ نام ایسے بھی ہیں جو آج اس جیتی جاگتی دنیامیں نہیں ہیں، لیکن ان اپنوں کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات آج بھی میرا طواف کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو کامیابی اور مقبولیت کے سا تویں آسمان تک جا پہنچے تھے اور پھر ہمیشہ کے لئے ایک انجانی دنیا میں گم ہو گئے۔ آج میں آپ سے اپنے ایسے کچھ دوستوں کی باتیں کروں گا جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن جن کے نام فلم کی تاریخ میں امر ہو چکے ہیں-پران
کے- آصف
فلمی دنیا میں آصف کا نام ایک روشن نشان راہ ہے۔ ایک نمایاں سنگ میل ہے۔ تاریخی فلموں کی بات ہوتی ہے تو کے- آصف کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ کے -آصف کے ساتھ میں نے “محبت اور خدا” میں کام کیا تھا۔ ذہن کے تیز اور عادت سے نظم پسند کے آصف اپنی زندگی میں بالکل سیدھے سادے انسان تھے۔محبت اور خدا کی شوٹنگ پر میں اپنی عادت کے مطابق ہمیشہ بر وقت پہنچتا تھا لیکن کے آصف ہمیشہ لیٹ پہنچتے تھے۔ میں اکثر سیٹ پر ان کا انتظار کرتا اور بور ہوتا، جب کئی بار ایسا ہوا تو ایک دن میں جان بوجھ کر شوٹنگ سے غائب ہو گیا۔
گھر سے تو میں ٹھیک وقت پر ہی نکلا، لیکن اسٹوڈیو پہنچنے کی بجائے کار کو ادھراُدھر گھماتا پھرا، آصف صاحب نے میرے گھر پر فون کیا، پھر جب ایک گھنٹے کے بعد بھی میری کار اسٹوڈیو میں نہ دکھائی دی تو انہوں نے اپنے معاونین سے کہا “پران دو ہی جگہوں پر ہو سکتا ہے۔ یا تو پولیس اسٹیشن میں یا کسی ہسپتال میں۔ اس لئے تم لوگ بمبئی کے سارے ہسپتالوں اور پولیس تھانوں میں فون کرو۔ ”
میں ان دنوں تیز کار چلانے کے لئے خاصا بدنام تھا۔ آصف صاحب کا خیال تھا کہ میں یا تو تیز کار چلانے کے باعث پکڑا گیا ہوں گا۔ اور پولیس تھانے میں حاضری دے رہا ہوں گا۔ یا ایکسیڈنٹ کے باعث کسی ہسپتال میں بستر پر پڑا ہوں گا۔ مگر جب ڈیڑھ گھنٹے بعد میں اسٹوڈیو پہنچا اور کار سے اترا تو کے۔ آصف حیران رہ گئے۔
“پران تم بھی لیٹ ہو سکتے ہو، یہ بات میں سپنے میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا، آصف نے مجھ سے کہا۔
کیوں صاحب، آپ روز لیٹ آتے ہیں تو کیا میں نہیں آ سکتا؟ میں نے جواب دیا۔
آصف صاحب فوراً اشارہ سمجھ گئے، اس کے بعد وہ کبھی سیٹ پر لیٹ نہیں آئے۔ کے- آصف کی یہ خوبی تھی کہ وہ ایک اشارے میں ہی سب کچھ سمجھ جاتے تھے۔ محبت اور خدا کے، آصف کے لئے ایک فلم نہیں، سب سے بڑا خواب تھی، لیکن آصف کی موت کے ساتھ یہ خواب بھی ختم ہو گیا۔
بمل رائے
بمل رائے کے ساتھ میری پہلی فلم “مدھو متی” تھی۔ بمل رائے بہت سنجیدہ اور ہر چیز کو گہرائی سے دیکھنے والے انسان تھے۔ اکثر وہ پیڑوں کی ٹہنیوں اور پتوں تک کو غور سے دیکھتے رہتے تھے۔ ایک بار مدھومتی کی آؤٹ ڈور شوٹنگ پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ شوٹنگ ختم کر کے رات کو میں اور بمل دا پاس کے ایک گاؤں میں چلے گئے، گاؤں میں کسی لڑکی کا بیاہ ہورہا تھا۔ بمل دا مجھے لے کر برات کے منڈپ میں جا بیٹھے۔ لوگ ہمیں تعجب سے دیکھنے لگے۔
گاؤں کی سیدھے سادے لوگوں نے سمجھا کہ ہم کسی پاس کے گاؤں کے زمین دار ہیں۔ اتنے میں ہمیں پتہ چلا کہ جس لڑکی کابیاہ ہورہا ہے اس کے نہ بھائی ہے اور نہ باپ۔ کنیا دان کرنے کے لئے باپ اور بھائی کی ضرورت تھی۔ بمل دا نے مجھ سے کہا، پران پن(ثواب) کمالو۔ تم اس لڑکی کے بھائی بن جاؤ اور کنیا دان کر دو۔ بمل دا کی بات مان کر اس دن مجھے اس اناتھ لڑکی کا بھائی بن کر کنیا دان کرنا پڑا۔
بمل دا نے اپنی زندگی میں بہت صاف ستھری اور بامقصد فلمیں بنائیں۔ بڑا پروڈیوسر، ڈائرکٹر ہونے کے باوجود بمل دا نے کسی سے اپنے کو بڑا نہیں سمجھا۔ وہ جس طرح کے لوگوں میں بیٹھ جاتے ویسا ہی بن جاتے۔ آج بمل دا جیسے لوگ شاید ہی ملیں۔
موتی لال
موتی لال کے ساتھ میں نے کبھی کسی فلم میں کام نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی ان کے ساتھ میرے تعلقات بہت قریبی، بہت خوشگوار رہے۔ موتی لال جی شاہانہ مزاج کے انسان تھے اور انہیں دو چیزوں سے بہت لگاؤ تھا۔ ایک ریس، دوسری کرکٹ جب بھی کہیں کرکٹ کا میچ ہوتا، موتی لال وہاں ضرور موجود ہوتے۔
فلمی ستاروں کے کرکٹ میچ میں وہ کپتان بنتے تھے۔ ایک بار ہمیں کرکٹ میچ کھیلنے کے لئے سیلون(سری لنکا) جانا تھا، موتی لال ان دنوں بیمار تھے، جب میں انہیں دیکھنے گیا تو بولے “میچ نہیں رکنا چاہئے، میری جگہ کپتان تم بن جاؤ اور ٹیم کو لے جاؤ۔ ”
میں نے ان کا حکم مانا اور کپتان بن کر چلا گیا، جب لوٹ کر انہیں بتایا کہ میں نے ۵۲ رن بنائے ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔
موتی لال جی کے پاس اپنا ایک گھوڑا، پرنس تھا جو ریس میں دوڑتا تھا۔ ایک بہت ہی پرانے ماڈل کی کھلی ہوئی کار ہمیشہ ان کے گھر پر کھڑی رہتی تھی۔ ایک دن جب میں ان کے گھر پہنچا تو کار کامالک دنیا سےج اچکا تھا اور کار اداس اور ملول کھڑی تھی۔ موتی لال غریبوں کے لئے بھگوان تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب موتی لال کی ار تھی کا جلوس نکلا تو اس میں ہزاروں لوگ شریک تھے۔ موتی لال نے زندگی بھر لوگوں کوبہت کچھ دیا، لیا کچھ بھی نہیں۔ آج اس دانی کو کتنے لوگ یاد کرتے ہیں ؟
پرتھوی راج
دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی پرتھوی راج کو پاپا جی کہتا تھا۔ پاپا جی کی سب سے بڑی خوبی تھی ان کی ہنسی۔ وہ کھل کر قہقہہ لگا کر ہنسنے والوں میں سے تھے۔ جب وہ ہنستے تھے تو آس پاس کے لوگ مڑ مڑ کر دیکھنے لگتے تھے۔
پاپا جی کے پاس ایک پرانی سی کھٹارا قسم کی کار اس زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ جب بھی کوئی ان سے کار کے بارے میں بات چیت کرتا تو پاپا جی کہتے ” یہ میرے پرانے دنوں کی ساتھی ہے، اس کار میں بڑے بڑے لوگوں نے سواری کی ہے۔ ایک بارمجھے بھی پاپا جی کی اس کار میں سوار ہونے کا موقع ملا تھا۔ دلی میں پاپا جی اپنی فلم کی شوٹنگ کر رہے تھے اور میں اپنی فلم کی۔
شام کو جب شوٹنگ ختم ہوتی تو مجھ سے بولے “’تم آج میرے ساتھ چلو میری کار میں۔ دیکھو کتنا مزہ آتا ہے۔ ” میں پاپا جی کی کار میں سوار ہو گیا۔ راستے میں کار خراب ہو گئی، میں اپنی کار گھر بھیج چکا تھا۔ ہم سڑک پر کھڑے تھے اور پاپا جی انجن کے ساتھ بھڑے ہوئے تھے۔ کچھ دیر میں انجن کو ٹھیک ٹھاک کر کے بولے “دھکا لگاؤ۔ ” میں نے دھکا لگایا انجن تھوڑا گھر گھرا کر چپ ہو گیا۔ کچھ دیر بعد پاپا جی نے مجھے اسٹیرنگ سنبھالنے کو کہا اور خود دھکا لگانے لگے۔ لیکن نتیجہ پھر ہوا۔ انجن تھوڑا سا گھر گھرا یا اور چپ ہو گیا۔
آدھے گھنٹے تک دھکے لگانے کے بعد بھی جب موٹر نہیں چلی تو ہم نے ایک پٹرول پمپ پر جا کر مکنیک کو تلاش کیا۔ مکنیک نے آ کر کارٹھیک کی اور تب کہیں میں گھر پہنچا۔ اس کے باوجود راستے میں پاپا جی نے اپنی موٹر کی کافی تعریف کی۔ اور جب مجھے میرے گھر پر چھوڑا تو پوچھنے لگے۔ “کیوں ؟ کیسی رہی ہماری موٹر کی سواری؟”
واقعی پاپا جی، آپ کی سواری کو میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ میں نے جواب دیا۔
اور پاپا جی نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔
گوپ
آج کے فلم بین تو گوپ کو شاید ہی جانتے ہوں لیکن ایک زمانے میں لوگ ان کے دیوانے تھے۔ گوپ اپنے زمانے کے کامیاب ترین اور مقبول ترین کامیڈین تھے۔ گوپ کے ساتھ میں نے کئی فلموں میں کام کیا۔ ان کے ساتھ میری پہلی فلم “مالکن “تھی۔
گوپ عادتاً کافی سنجیدہ اور شاہ خرچ واقع ہوئے تھے۔ ایک بار ہم شوٹنگ ختم کر کے گھر لوٹنے کی تیاری میں تھے کہ گوپ نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ” کہاں جا رہے ہو، میاں ؟ آج جو ہو ہوٹل میں میری شادی ہے۔ ”
“شادی؟ اور کسی کو پتہ تک نہیں ؟” میں نے حیران ہو کر کہا۔
“تو کیا ہوا؟” کل دل آ گیا، آج میں شادی کر رہا ہوں۔ ” گوپ نے جواب دیا۔
Remembering GOPE on birth anniversary
Noted comedian born in Hyderabad (Sindh). He debuted in 1933 & featured in 140+ films in 24yr career.Known for famous song “mere piya gaye rangoon” from film ‘Patanga’.
Seen here with Shyama in ‘Musafirkhana’ & with Nargis in ‘Chori Chori’. pic.twitter.com/6YkB1Uzmim— Film History Pics (@FilmHistoryPic) April 11, 2018
گوپ ایسی ہی طبیعت کے انسان تھے۔ جب جو جی چاہا، کر لیا، گوپ نے اپنی زندگی میں خوب پیسہ کمایا اور خوب لٹایا۔ اسی لئے جب گوپ کا انتقال ہوا تو ان کے اوپر قرضوں کا بوجھ چڑھا ہوا تھا۔ لیکن قرضوں کے باوجود میں نے گوپ کو کبھی پریشان نہیں دیکھا۔ وہ جیسے پردے پر ہنستے ہنساتے تھے، ویسے ہی حقیقی زندگی میں بھی ہنسوڑ تھے۔ اور ایک دن ہنستے ہنستے ہی وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
محمد رفیع
محمد رفیع کے ساتھ میرے بہت گہرے تعلقات رہے، انہوں نے میرے لئے گیت گائے۔ رفیع کے ساتھ میں اکثر چیریٹی شوز کے لئے بھی جایا کرتا تھا۔ ایک بار ہم لوگ چیریٹی شو کے لئے راجستھان کے ایک گاؤں میں جا رہے تھے کہ راستے میں زور کی بارش شروع ہو گئی۔ ساری سڑک کیچڑ اور پانی سے بھر گئی۔ کئی جگہ کار کیچڑ میں پھنسی اور ہم لوگ کئی گھنٹے لیٹ ہو گئے۔ جب کار اس گاؤں میں پہنچی تو ہم تھک کر چور ہو چکے تھے۔ ادھر لوگ رفیع کابے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ بارش رک رک کر اب بھی برس رہی تھی۔
شوکر نے والوں نے رفیع کو سمجھایا کہ اگلے دن کے لئے شو کا اعلان کئے دیتے ہیں، لیکن رفیع نے کہا کہ آج ہی شو ہو گا۔ چھتری لگا کر رفیع جب کھلے، اسٹیج پر پہنچے تو بارش پھر شروع ہو گئی، مگر رفیعن بارش کی پروا کئے بغیر گانا شروع کر دیا۔ تیز بارش کے باوجود سیکڑوں مداح بھیگتے رہے اور رفیع کو سنتے رہے۔
اس رات رفیع جب بستر پر لیٹے تو انہیں بخار ہو گیا تھا۔ لیکن رفیع کے چہرے پر اطمینان کی وہی جانی پہچانی مسکراہٹ تھی جو مرتے دم بھی ان کے چہرے پر رہی جس دن رفیع کی موت ہوئی اس دن بھی بارش ہوئی تھی اور مجھے یہ واقعہ بار بار یاد آ رہا تھا۔ رفیع جیسا گلوکار تو شاید فلموں کو کبھی مل جائے لیکن رفیع جیسا نیک انسان اب فلمی دنیا کو شاید ہی کبھی مل سکے۔
اپنے ان چند بچھڑے ہوئے ساتھیوں کی یادوں کے ساتھ دل بھاری ہو چلا ہے جب دل کچھ ہلکا ہو گا تو پھر کبھی دوسرے دوستوں کی باتیں آپ سے کروں گا۔ اب اجازت۔
ماہنامہ “شمع” (اکتوبر 1981) سے ماخوز. بہ شکریہ : تعمیر نیوز
Categories: ادبستان