گراؤنڈ رپورٹ : گزشتہ سات فروری کو دہلی-این سی آر میں ہوئی بارش اور ژالہ باری کی تصویروں نے جہاں میڈیا اور عام لوگوں کو رومان میں مبتلا کیا تھا، وہیں اسی موسم کی وجہ سے گریٹر نوئیڈا کے علی وردی پور گاؤں میں تقریبا 150 گھر بری طرح برباد ہو گئے۔ اس بیچ انتظامیہ مدد دینے کے بجائے برباد گھروں کو غیر قانونی قبضہ بتا رہی ہے۔
چالیس سالہ نور بانو اینٹوں سے سیمنٹ جھاڑکر ایک جگہ جمع کر رہی ہیں۔ جمعرات کی شام یعنی گزشتہ7 فروری تک یہ تمام اینٹیں ان کے گھر کی دیوار کی بنیاد تھی۔ جمعرات کو دیر شام تقریباً ساڑھے سات بجے آئے بارش اور طوفان نے دیوار کو ملبے میں تبدیل کر دیا۔بات کرنے کی کوشش پر نور بانو غصے میں بھنائی ہوئی بولیں، سب فوٹو کھینچکے لے جاتے ہیں۔ مدد کرنے کوئی نہیں آتا۔
گزشتہ جمعرات کو ہوئی ژالہ باری میں نور بانو کا تین کمروں کا مکان پوری طرح ڈھہ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی 17 لوگوں کی فیملی کھلے آسمان کے نیچے سونے کو مجبور ہے۔ 17 لوگوں میں سے نوربانو کی فیملی کے آٹھ لوگوں کو چوٹیں آئی ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے کو سر میں آٹھ ٹانکے لگے ہیں اور ان کی ایک بیٹی ابھی بھی ہاسپٹل میں ہے۔
پاس ہی کھڑے تبارک علی تقریباً چلاتے ہوئے بولے،آپ آئے کیوں ہیں؟ رہنما تو کہہ رہے ہیں ہم نے جان-بوجھ کر اپنے گھر برباد کئے، خود کو چوٹیں لگائی تاکہ ہمیں معاوضہ مل سکے۔تبارک کے مویشی بھی اس طوفان میں دب گئے تھے لیکن ان کا کہنا ہے کہ جہاں انسانوں کو علاج نہیں مل رہا وہاں جانوروں کا علاج کیسے ہوگا۔
راجدھانی دہلی سے سٹے گریٹر نوئیڈا کے علی وردی پور گاؤں میں گزشتہ7 فروری کو بارش اور ژالہ باری کے ساتھ آئے طوفان کی وجہ سے تقریباً 150 گھر بری طرح برباد ہو گئے ہیں۔ 50 سے زیادہ لوگ زخمی ہیں، جن میں سے چار کی حالت بےحد نازک ہے۔ہندوؤں اور مسلمانوں کی برابر آبادی والے علی وردی پور گاؤں میں بھاری نقصان کے باوجود اب تک کسی طرح کی کوئی سرکاری مدد نہیں مل سکی ہے۔
جمعرات شام چھے بجے جب علی وردی پور میں بارش شروع ہوئی، نور بانو اپنے دونوں بچّوں کے ساتھ گھر میں تھیں۔ رات کے کھانے کی تیاری چل رہی تھی۔ بھاری بارش کی وجہ سے چھت کے ٹین سے پانی ٹپکنے لگا۔نور بانو کے شوہر نے چوکی پر پلاسٹک بچھا دی اور کچھ ضروری سامان چوکی کے نیچے اور ٹین کے صندوق کے اوپر ڈال دئے۔ ٹین پر بارش کی بوندوں کے ساتھ پتھر گرنے کی آواز سے ان کا تین سال کا بچہ ڈرکر رونے لگا۔ لہذا وہ اپنے شوہر سمیت دونوں بچّوں کو لےکر پڑوسی کے گھر بھاگیں۔
شنجولا، نور بانو کے پڑوسی کے مکان کی دیوار کے ساتھ ہی لگا ہوا تھا۔ شنجولا کے مکان میں خیر تھی کہ باورچی خانہ کی چھت پکّی تھی۔ باقی کمروں کی طرح ٹین سے چھت نہیں ڈھالی گئی تھی۔ نور بانو کی فیملی نے شنجولا کی فیملی کے تین ممبر کے ساتھ اسی باورچی خانہ میں دبککر اپنی جان بچائی۔نور بانو بتاتی ہیں، اس قدرتی آفت کو آئے تین دن بیت چکے ہیں اور اب تک انتظامیہ کی طرف سےکوئی مدد نہیں دی گئی ہے۔ نہ کوئی دیکھنے آیا ہے، نہ ہی کسی طرح کی مدد کی یقین دہانی دی گئی ہے۔’نوربانو نے بتایا، حالانکہ ایک مقامی رضاکار ادارہ کی طرف سے متاثر فیملیوں کو کمبل بانٹے گئے ہیں۔
گاؤں میں آگے بڑھنے پر تقریباً ہرکوئی منّت کرتے دکھا کہ ان کے گھر کی تصویر لے لی جائے تاکہ ان کو بھی معاوضہ مل سکے۔ گاؤں میں کئی جگہ ہمیں بجلی کے پول اور تار بھی گرے نظر آئے۔ کرنٹ پھیلنے اور یہ پول کسی گھر پر گرنے کی حالت میں وہاں کا منظر اور بھی خوفناک ہو سکتا تھا۔
جس دن سے طوفان آیا ہے علی وردی پور کے بچّے ڈر سے اسکول تک نہیں گئے۔ تو وہیں جن بچّوں کے گھر تباہ ہوئے ہیں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اینٹیں اور سامان سمیٹنے میں مدد کرتے دکھے۔دراصل ہنڈن نہر کے ساتھ بسا علی وردی پورنقل مکانی کرکے آئے مزدوروں کی آبادی والا گاؤں ہے۔ 150 گھروں کے 1000 متاثرین میں زیادہ تر یومیہ مزدور ہیں۔ گریٹر نوئیڈا میں رہائش بڑھنے کے ساتھ مزدوروں کے یومیہ کے امکان میں اضافہ ہوا۔ مزدوروں نے گریٹر نوئیڈا کو انسانی وسائل دستیاب کروایا اور علی وردی پور ، پشتہ روڈ، ہلدوانی وغیرہ میں بستے چلے گئے۔
گاؤں کے بیچوں بیچ علی وردی پور کی واحد مسجد اس طوفان میں پوری طرح سے برباد ہو گئی۔ بچی ہے تو صرف زمین۔ مسجد کی زمین کا ایک حصہ، جو عبادت کا اہم حصہ تھا، اس کو اینٹ سے گھیر دیا گیا ہے۔مسجد کے آگے کے حصے میں فرش پر بیٹھے طارق توصیف بتاتے ہیں،طوفان کے وقت مسجد احاطے میں تقریباً 15 لوگ تھے۔ ان میں سے تین بچوں کو چوٹیں آئی ہیں۔دو بچّے شدیدطور پر زخمی ہیں جن کا علاج صفدرجنگ ہسپتال میں چل رہا ہے۔ ‘
طارق کے مطابق، مسجد کو کم سے کم پانچ لاکھ کا نقصان ہوا۔ لیکن ان کی ترجیح مسجد سے پہلے متاثرین کی اقتصادی مدد کرنا ہے۔
طارق کے معاون آصف چودھری کہتے ہیں،مسجد آج نہ کل کیسے بھی بن جائےگی۔ پہلے انتظامیہ کو ان لوگوں کو اقتصادی مدد مہیّا کروانی چاہیے جن کے گھر پوری طرح سے اجڑ گئے ہیں۔ ٹھنڈ میں ان کو خیموں اور کھلے آسمان کے نیچے رہنا پڑ رہا ہے۔ زخمیوں کے علاج کا مناسب انتظام کیا جانا چاہیے۔ ‘محکمہ موسمیات کے مطابق بنگال کی کھاڑی اور بحر عرب کی طرف سے آنے والی ہواؤں کے ٹکراؤ کی وجہ سے گریٹر نوئیڈا حلقے میں ژالہ باری ہوئی تھی۔ محکمے کے افسر بی پی یادو کہتے ہیں، ‘ شمالی علاقےکے اوپر بنے دباؤ کی وجہ سے گہرے بادل چھائے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس موسم میں ژالہ باری عام بات نہیں ہے۔ ‘
جمعرات رات سے ہی لوگ خیموں میں رہنے کو مجبور ہیں۔ طوفان میں بجلی کے ستونوں کے گر جانے سے بجلی بھی نہیں آ سکی ہے۔دادری سب-ڈویزنل مجسٹریٹ انجنی کمار برباد گھروں کو غیر قانونی قبضہ بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،یہ تمام تباہ شدہ گھر غیر قانونی طور پر بنے تھے۔ غیر قانونی گھروں کو نقصان پہنچنے پر معاوضے کا اہتمام نہیں ہے۔ ‘ایس ڈی او کے اس بیان کو علی وردی پور کے لوگ غیرذمہ دارانہ اور شرمناک بتاتے ہیں۔
کاریگر کا کام کرنے والے رگھوناتھ داس بتاتے ہیں،غیر قانونی قبضے کی بات سراسر جھوٹی اور بناوٹی ہے۔وہ سوال اٹھاتے ہیں،اگر یہ مکان غیر قانونی طور پر بنے تھے، پھر انتظامیہ نے زمین کی رجسٹرری کیسے کر دی؟ ہم نے ڈیلر سے زمین خریدی ہے، اس کا قانونی داخلہ ہوا ہے۔ اور، اب انتظامیہ کے کہہ دینے سے ہماری زمین غیر قانونی ہو جائےگی؟ ‘
انتظامیہ کی دلیل سے متاثر ین میں غصے کا ماحول ہے۔ رگھوناتھ کے ساتھ ساتھ گاؤں کے دوسرے لوگ بھی زمین کے کاغذ دکھاتے ہیں۔ انہوں نے یہ زمین 176000 روپے میں خریدی تھی۔ زمین کے کاغذات کی جانچ انتظامیہ کے دائرہ اختیار کا مسئلہ ہے۔ لیکن بھاری نقصان کے بعد جب لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے، اس وقت زمین کے قانونی پہلو پر سوال کرنا انتظامیہ کی نیت کو مشکوک بناتا ہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ اگر علی وردی پور کی یہ آبادی قانون کے مطابق نہیں تھی تو اس پر کارروائی گزشتہ سالوں میں کیوں نہیں کی گئی؟ کیوں آبادی کو بڑھنے دیا گیا؟ذرائع بتاتے ہیں کہ انتظامیہ کے اچانک اپجے غیر قانونی قبضے والی کہانی کے پیچھے ممکنہ ایک ایجنڈہ ہے۔ سال 2016 میں گریٹر نوئیڈا اتھارٹی نے دہلی ممبئی انڈسٹریل کاریڈور (ڈی ایم آئی سی) کی تجویز کو منظور کیا تھا۔ 1483 کلومیٹر لمبے اس کاریڈور میں دہلی کو ممبئی سے ریل راستے سے جوڑنے کا اہتمام ہے۔ اس سے دہلی اور ممبئی کے درمیان کی دوری کو 14 گھنٹے میں پورا کر لیا جائےگا۔
ذرائع کے مطابق، یہ انڈسٹریل کاریڈور گریٹر نوئیڈا کے 21 گاؤں کو ہوتے ہوئے گزرےگا۔ اس میں علی وردی پور کا بھی ایک حصہ ہے۔ ان 21 گاؤں سے 200 مربع کلومیٹر اسکوائر علاقے کو حاصل کیا جانا ہے۔ جاپان کی مدد سے دہلی ممبئی انڈسٹریل کاریڈور کے پروجیکٹ کا پہلا مرحلہ 2019 تک پورا کر لیا جانا ہے۔ ہریانہ، راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر سے ہوکر گزرنے والے ریل راستے کے حصول اراضی میں بڑا مسئلہ آ رہا ہے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر گریٹر نوئیڈا آتھرٹی کے افسر نے بتایا،علی وردی پور کا کتنا حصہ اس پروجیکٹ میں حاصل کیا جانا ہے اس کی جانکاری مجھے نہیں ہے۔ یہ ماسٹر پلان سے ہی پتہ چلےگا لیکن پروجیکٹ حصول اراضی میں دقتوں کی وجہ سے دیر ہے۔بارش والے دن گاؤں کے عثمان بھی اپنے گھر کے اندر ہی تھے۔ گھر کی چھت عثمان کے جسم کے اوپر گرنے سے ان کو کافی چوٹیں آئی ہیں۔ ان کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور فی الحال ان کا علاج بھی صفدرجنگ ہسپتال میں چل رہا ہے۔
پیسے کی قلت کی وجہ سے وہ اپنا علاج صحیح سے نہیں کرا پا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صفدرجنگ ہسپتال میں جب انہوں نے ڈاکٹر سے مہنگی دواؤں کو لےکر شکایت کی تو ڈاکٹر نے ان سے گھر جاکر لیٹنے کا طعنہ دیا۔اسی طرح نکھل کے دونوں ہاتھوں پر پٹی بندھی ہے۔ وہ رام منوہر لوہیا ہسپتال سے لوٹے ہیں۔ ان کو میڈیا سے شکایت ہے۔ وہ کہتے ہیں، ہمیں دیکھنے اب تک صرف ایک موبائل کیمرہ والا صحافی آیا تھا۔ آپ دوسرے ہو۔ ہماری بات آپ لوگ نہیں بتاؤگے تو کون ہماری مدد کرےگا۔ ‘
یہ شکایت علی وردی پور کے اور بھی لوگوں کو ہے۔ کچھ ایک لوگوں کو معلوم ہے کہ میڈیا کے دفتر نوئیڈا میں ہی ہے، اس کے باوجود ان کی خبر لینے والا کوئی نہیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ