خبریں

ملک کو ہندو راشٹر بنائے جانے سے متعلق تبصرہ پر میگھالیہ ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کا نوٹس

میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس ایس آر سین نے دسمبر 2018 کے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ بٹوارے کے بعد ہندوستان کو ہندوراشٹر بنایا جانا چاہیے تھا۔ اس تبصرے  کو ہٹانے کی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے سی جے آئی رنجن گگوئی کی بنچ نے ہائی کورٹ سے جواب مانگا ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس سدیپ رنجن سین کے ایک متنازعہ تبصرے کو ہٹانے کے لیے دائر عرضی پر ہائی کورٹ کو نوٹس جاری کیا ہے۔لائیو لاء  کے مطابق، چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی بنچ نے سوموار کو میگھالیہ ہائی کورٹ کے رجسٹری کو نوٹس جاری کر جواب طلب کیا ہے ۔ دسمبر 2018 میں ایک فیصلے میں جسٹس سین نے کہا تھا کہ 1947 میں ملک کی تقسیم کے ساتھ ہی ہندوستان کو ہندو راشٹر ہوجانا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی اور سنجیو کھنہ کی بنچ نے سوناخان اور دوسروں کی عرضی پر میگھالیہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو نوٹس جاری کر جواب مانگا ہے ۔ عرضی میں دلیل دی گئی ہے کہ ہائی کورٹ جسٹس سین کے فیصلے میں قانونی کمیاں ہیں اور یہ تاریخی طور پر گمراہ کن ہے۔

غورطلب ہے کہ گزشتہ دنوں  میگھالیہ ہائی کورٹ نے وزیر اعظم، وزیر قانون، وزیر داخلہ اور پارلیامنٹ سے ایک قانون لانے کی گزارش کی تھی کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بدھ، پارسی، عیسائی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگوں کو بنا کسی سوال یا دستاویزوں کی شہریت ملے۔

بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ تقسیم کے وقت ہندوستان کو ہندو راشٹراعلان کیا جانا چاہیے تھا لیکن یہ مذہبی سیکولر راشٹر بنا رہا۔جسٹس ایس آر سین نے Domicile Certificate سے منع کئے جانے پرامن  رانا نام کے ایک شخص کے ذریعے دائر ایک عرضی کا نپٹارہ کرتے ہوئے 37 صفحے کا فیصلہ دیا۔  فیصلے کی کاپی منگل کو دستیاب کرائی گئی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تینوں پڑوسی ممالک میں آج بھی ہندو، جین، بدھ، عیسائی، پارسی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگ مظلوم ہوتے ہیں اور ان کے لئے کوئی جگہ  نہیں ہے۔  ان لوگوں کو کسی بھی وقت ملک میں آنے دیا جائے اور حکومت ان کی بازآبادی کر سکتی ہے اوران کی  شہریت کااعلان کر سکتی ہے۔

مرکز کی شہریت(ترمیم)بل 2016 میں افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان کے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی لوگ 6 سال رہنے کے بعد ہندوستانی شہریت کے حق دارا ہیں، لیکن عدالتی حکم میں اس بل کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔اس معاملے کی سماعت کے دوران کورٹ نے ہندوستان کی تاریخ کو تین پیراگراف میں سمیٹا۔ جسٹس ایس آر سین نے لکھا، ‘ جیسا کہ ہم  جانتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا اور پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کا وجود نہیں تھا۔  یہ تمام ایک ملک  تھے اوریہاں ‘ ہندو سمراجیہ’تھا۔  ‘

کورٹ نے مزید کہا، ‘اس کے بعد مغل ہندوستان آئے اور ہندوستان کے کئی حصوں پر قبضہ کیا اور ملک میں حکومت کرنا شروع کیا۔اس دوران بڑی تعداد میں مذہب تبدیل کرائے گئے۔اس کے بعد انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر آئے اور ملک میں حکومت کرنے لگے۔  ‘عدالت نے آگے لکھا، ‘یہ ایک غیر متنازعہ حقیقت ہے کہ تقسیم کے وقت لاکھوں کی تعداد میں ہندو اور سکھ مارے گئے، ان کواذیت دی گئی، ریپ کیا گیا اور ان کو اپنے آباواجداد کی جائیداد چھوڑ‌کرآنا پڑا۔  ‘

میگھالیہ ہائی کورٹ کے جج ایس آر سین نے لکھا، ‘پاکستان نے خود کو اسلامی ملک اعلان کیا تھا۔  چونکہ ہندوستان کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی اس لئے ہندوستان کو ہندو راشٹر اعلان کیا جانا چاہیے تھا لیکن اس نے خود کو سیکولر ملک بنائے رکھا۔  ‘ایس آر سین نے مودی حکومت میں اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندوستان کو اسلامک راشٹر نہیں بننے دیں‌گے۔ انہوں نے لکھا، ‘میں یہ واضح کرتا ہوں کہ کسی بھی آدمی کو ہندوستان کو اسلامک راشٹر بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

میرا اعتماد ہے کہ صرف نریندر مودی جی کی رہنمائی میں یہ حکومت اس کی گہرائی کو سمجھے‌گی اور ہماری وزیراعلیٰ ممتاجی ملک کے مفاد میں تعاون کریں‌گی۔  ‘جج نے میگھالیہ ہائی کورٹ میں مرکز کے معاون سالیسٹر جنرل اےپال کو منگل تک فیصلے کی کاپی وزیر اعظم، مرکزی وزیرداخلہ اور وزیرِ قانون کو تجزیےکے لئے سونپنے اورمختلف  کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کے لئے قانون لانے کو لےکر ضروری قدم اٹھانے کو کہا ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)