ذات پات کو صحیح ٹھہرانے والے نریندر مودی نے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے اپنی کتاب’ کرم یوگی ‘میں غلاظت صاف کرنے والے دلتوں کو ان کی مجبوری کا کام نہیں بلکہ روحانیت کا کام قرار دیا تھا۔
گزشتہ اتوار کو سوشل میڈیا پر پورے دن وزیر اعظم نریندر مودی کی’روح پرور ‘تصویر گردش کرتی رہی۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم کو صفائی ملازمین کے پیر دھوتے ہوے دیکھنا ، بلا شبہ معمولی بات نہیں تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ نے اس کے کیا معنی نکالے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم کی یہ تصویر انکساری کا بے مثال نمونہ تھی۔
مگر کیا بات یہیں ختم ہوجاتی ہے؟ شاید نہیں۔وہ اس لئے کہ اس روح پرورتصویر کو دیکھتے ہوے درجنوں سوال ذہن و دماغ میں ہچکولے مار رہے تھے۔خیر، سر دست دو سوال ہیں۔ صفائی مزدروں کے لئے بے پنا ہ محبت دکھانے والے وزیر اعظم نے اپنے دور حکومت میں کیا کیاہے؟ دوسرا، صفائی مزدوروں کی بے پناہ عزت کرنے والے نریندر داس مودی کی ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟
2013 میں prohibition of employment as manual scavengers and their rehabilitation Act. نافذ ہو گیاتھا۔اس قانون کے تحت پورے ملک میں ہاتھ سے سیورز یا سیپٹک ٹینکز کی صفائی پر پوری طرح سے پابندی لگ گئی تھی۔مگر آپ جانتے ہیں، آج بھی صفائی مزدور اپنے ہاتھوں سے ہی غلاظت صاف کر رہے ہیں۔یعنی مذکورہ قانون ابھی تک کاغذوں میں ہی اپنا وجود لئے بیٹھا ہے۔دہلی میں صرف گزشتہ ستمبر( 2018 )میں سیورز کی صفائی کرتے ہوئے 6 مزدو روں کی موت ہو گئی تھی۔
نیشنل کمیشن فار صفائی کرمچاری کے مطابق جنوری 2017 سے اب تک ہر پانچویں دن ایک صفائی مزدور کی موت واقع ہوئی ہے۔صفائی کرمچاری آندولن کے مطابق 2017سے18میں تقریباً 300 مزدوروں کی موت واقع ہوئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس حوالے سے سپر یم کورٹ کے بھی کئی فیصلے آ ئے ہیں، مگر حکومت نے ہر بار بات آئی گئی کر دی۔
صفائی کرمچاری کے حوالے سے اس مختصرسی تفصیل کو جاننے کے بعد وزیر اعظم کی تصویر کتنی روحانی رہ جاتی ہے، یہ آ پ خود فیصلہ کرلیں۔خود آپ ہی یہ اندازہ لگا لیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے صفائی مزدورں کے لئے کیاکیا ہے۔مزدوروں کے لئے ٹکنالوجی سے لیس مشینیں اور مناسب تنخواہ کا بندوبست بھلے ہی موجودہ حکومت نہ کر پائی ہو، مگر یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کروڑوں ر وپے صرف سوکش بھارت ابھیان کے پرچار میں صرف کر دیے گئے۔
دوسرا سوال ، جو زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ صفائی مزدوروں کے بارے میں نریندر مودی کی کیا رائے ہے۔پریاگ راج سے آئی روح پرورتصویر کو دیکھ کراس سوال کا ذہن میں آ نا با لکل بھی غیر معمولی بات نہیں ہے۔یہ سوال اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ حکومتی ناکامی کا ٹھیکرا کئی ساری چیزوں کے سر پھوڑا جا سکتا ہے، مگر ان کے تئیں آپ کی رائے کیا ہے، اس سے آپ اپنا پلڑا کیسے جھاڑ یں گے۔
کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ ہمارے وزیر اعظم مصنف بھی ہیں۔ مجھ پر اس علم کا انکشاف چند مہینے قبل تب ہوا جب میں ضیاء السلام صاحب کی کتاب of saffron flags and skullcaps پرتبصرہ کر رہا تھا۔ ضیاء نے نریندر مودی کی تصنیف کا ذکر بہت تفصیل سے تو نہیں کیا ہے، مگر قدرے جانکاری ضرور فراہم کی ہے۔شاید اس وجہ سے کہ کتاب اب سرکولیشن میں نہیں ہے۔ در اصل وزیر اعظم نے سال 2007 میں’کرم یوگی’ نام کی کتاب لکھی تھی۔
اس وقت وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔101صفحات پر مشتمل یہ کتاب ان کی تقا ریر کا مجموعہ تھی ۔ مگر جیسے ہی یہ کتاب منظر عام پر آئی ، تمل ناڈو اور مہاراشٹرا میں دلت سڑک پر اتر آئے تھے۔ کتاب اور کتاب کے مصنف کے خلاف متعددمظاہرے اور احتجاج ہوئے ۔ معاملہ یہ تھا کہ مصنف نے اپنی کتاب میں دلتوں کے ذریعے غلاظت صاف کیے جانے کو جائز ٹھہرا دیا تھا۔ انہوں نے ان لوگوں کوبھی اپنی تنقید کا نشانہ بنا یا تھاجو یہ مانتے ہیں کہ دلت یہ کام مجبوراً کرتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس اپنا پیٹ پالنے کے لئے دوسرا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، یا یہ کہ سماج انہیں دوسرا پیشہ اختیار کرتے ہوے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
نریندر مودی نے اپنے جواز میں یہ بات کہی تھی کہ دلت جو کام کرتے ہیں اس کے پیچھے مجبوری نہیں بلکہ’روحانیت’پنہاں ہے۔ وہ لوگ جو اس کتاب کی مخالفت میں آ وازیں بلند کر رہے تھے ، ان کا یہ ماننا تھا کہ ایک وزیر اعلیٰ ذات پات کے نظام کو صحیح کیسے ٹھہرا سکتا ہے؟گرچہ یہ کتاب سرکولیشن سے واپس لے لی گئی تھی، اور اب یہ دستیاب نہیں ہے، مگر ضیاء نے اپنی کتاب میں جناب مصنف کی کتاب ‘کرم یوگی’ کا اقتباس رام پنیانی کی کتاب Ambedkar and Hindutwa Politics سے اخذ کیا ہے۔ میں اس اقتباس کا اردو ترجمہ یہاں پیش کر رہا ہوں؛
میں یہ نہیں مانتا کہ وہ لوگ (والمیکی) یہ کام محض اپنا پیٹ پالنے کے لئے کرتے ہیں۔اگر ایسا ہوتا تو پیڑھی در پیڑھی وہ لوگ یہ کام نہیں کرتے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ کبھی نہ کبھی کسی شخص پراس علم کا انکشاف ضرور ہوا ہوگا کہ جو کام وہ کرتے ہیں در اصل وہ کرنا ان کا فرض ہے، اور اسی میں نہ صرف سماج کی بہبودگی ہے بلکہ بھگوان کی خوشنودی بھی ؛انہیں یہ کام کرنا ہے، کیونکہ یہ بھگوان کا حکم ہے۔ صفائی کا یہ کام بطور روحانی عمل صدیوں چلتے رہنا چاہئے۔یہ یقین کرنا ناممکن ہے کہ ان کے آباواجداد کو دوسرا کوئی اور پیشہ اختیار کرنے کا موقع نہیں ملا ہوگا۔
نریندر مودی کی ان با توں میں ہمارے دوسرے سوال کا جواب صاف صاف درج ہے۔لہذا ، دونوں سوالوں کا جواب آپ کے سامنے ہے۔ اب اس روح پرورتصوریر کو پھر سے سامنے رکھیے اور فیصلہ کیجئے اس میں کتنی روحانیت باقی رہ جاتی ہے۔
(مضمون نگار بلاگر اور مترجم ہیں۔)
Categories: فکر و نظر