خبریں

کیا اے بی پی نیوز نے مودی حکومت کی حمایت میں فرضی شو چلایا؟

اے بی پی نیوز نے آئی آئی ٹی بامبے کیمپس سے 2019 کے جوشیلے نام کے ایک پروگرام کو نشر کرتے ہوئے -آئی آئی ٹی بامبے اسپورٹس مودی لکھا تھا۔ آئی آئی ٹی طلبا کا کہنا ہے کہ اس شو میں شریک ہونے والے 50 لوگوں  میں سے 11 باہری لوگ تھے، جو مودی حکومت کی حمایت میں بولنے کے لئے چینل کے ذریعےمدعو کیے گئے تھے۔

اے بی پی نیوز کا پروگرام 2019 کے جوشیلے(فوٹو بہ شکریہ: اے بی پی نیوز/یوٹیوب)

اے بی پی نیوز کا پروگرام 2019 کے جوشیلے(فوٹو بہ شکریہ: اے بی پی نیوز/یوٹیوب)

ممبئی:  ہندی نیوز چینل اے بی پی نیوز نے حال ہی میں آئی آئی ٹی بامبے کے کیمپس سے ‘ 2019 کے جوشیلے’کے نام سے ایک شو نشر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ آئی آئی ٹی بامبے کے طلبانریندر مودی کی حمایت کرتے ہیں۔چینل نے اس شو کو ‘آئی آئی ٹی بامبے اسپورٹس مودی’ لکھ‌کر نشر کیا تھا، حالانکہ کیمپس کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ اس پروگرام میں کیمپس کے طالب علموں کے علاوہ مودی حکومت کی حمایت میں بولنے کے لئے باہری لوگوں کو بلایا گیا تھا۔

واضح ہو کہ اس شو کو2 مارچ کو شام 4 سے 5 بجے کے درمیان نشر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے دن 3 مارچ کی صبح 10 بجے اسی شو کو ‘ آئی آئی ٹی بامبے اسپورٹس مودی ‘ لکھ‌کر چلایا گیا۔یہی ویڈیو چینل کی ویب سائٹ پر بھی اپلوڈ کیا گیا تھا۔ حالانکہ دی وائر کے ذریعے انگریزی میں اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد 6 مارچ کو اس ویڈیو کو چینل کی ویب سائٹ سے ہٹا لیا گیا ہے۔

آئی آئی ٹی بامبے کے طالب علموں کے مطابق ان کو کالج کے ای میل آئی ڈی پر ایک میل ملا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ اے بی پی نیوز کے ذریعے کیمپس میں آئندہ لوک سبھا انتخابات پر بات چیت  کے لئے ایک پروگرام کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس میں طالب علم اپنی خواہش کے مطابق حصہ لے سکتے ہیں۔طالب علموں نے بتایا کہ جب وہ اس پروگرام میں پہنچے، تب یہاں پہلے سے آئی بھیڑ میں کئی نئے چہرے دکھے۔

اس میں حصہ لینے والے ایک طالب علم نے بتایا،یہ ایک بڑا کیمپس ہے اور ہمارے یہاں کئی شعبے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص خاص کیمپس کا ہی ہے یا نہیں، لیکن ہمیں شک ہوا جب اچانک اس ٹاک شو میں کئی نئے چہرے دکھائی دیے۔ اور تو اور، یہ تمام لوگ مودی حکومت کی حمایت میں بولے۔ ‘کیمپس کے طلبا کی غلط نمائندگی اور فرضی رائے بنانے کے اس مدعے کو سب سے پہلے آئی آئی ٹی بامبے کے امبیڈکر پیریار پھولے سرکل (اے پی پی ایس سی )نے اٹھایا تھا۔

طالب علموں نے اب تک 50 لوگوں  میں سے کم سے کم 11 ایسے لوگوں کی پہچان‌کر لی ہے، جو اس کالج کے نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک شخص ہندویووا واہنی  کا ممبر ہے۔چونکہ چینل کے ذریعے اس شو کو ‘آئی آئی ٹی بامبے اسپورٹس مودی’اور ‘ 2019 کے جوشیلے-آئی آئی ٹی کے طالب علم مودی حکومت کی حمایت میں’ لکھ‌کر نشر کیا گیا تھا، کیمپس کے طالب علموں کا کہنا ہے کہ یہ غلط نمائندگی جان بوجھ کر کی گئی ہے۔

ایک طالب علم کا کہنا ہےکہ، اگر یہ شو صرف آئی آئی ٹی کے طالب علموں کے لئے تھا تو چینل نے باہری لوگوں کو اس میں شامل کیوں کیا؟ اور کیا یہ محض اتفاق  ہے کہ ان میں سے ہر شخص بی جے پی کی حمایت میں بولا؟ ‘دی وائر نے جن طالب علموں سے بات کی، وہ ادارے کے رد عمل کے ڈر سے اپنا نام بتانے میں جھجکتے دکھے۔اس پروگرام میں بی جے پی کی طرف سے بی جے پی ایم ایل اے آشیش شیلر اور کانگریس کی طرف سے ان کی قومی ترجمان پرینکا چترویدی شامل ہوئی تھی۔ پروگرام میں بےروزگاری، کسان خودکشی، رافیل ڈیل اور پلواما حملے جیسے مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔

38 منٹ لمبے اس پروگرام کے شروعاتی 18 منٹ میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ان کی پارٹی اور ان کا پہلو رکھا اور بیچ-بیچ میں ایک دوسرے پر کچھ نہ کرنے کے الزام لگائے۔

پروگرام میں حصہ لینے والے ایک دیگر طالب علم نے بتایا کہ اس کے ذریعے بار بار سوال کرنے کے لئے مائک مانگنے کے باوجود آرگنائزر نے ان کو بولنے نہیں دیا۔کیمیکل انجینئرنگ شعبے کے اس اسٹوڈنٹ نے بتایا،’آرگنائزر اپنے لوگوں کے ساتھ آئے تھے اور ان کو آگے کی سیٹوں پر بٹھایاگیا تھا۔ اینکر ان تک چل‌کے جاتے اور صرف ان کو ہی پینلسٹ سے سوال کرنے دیتے۔ کیمپس کے دو طالب علموں نے کسی طرح کالج کی تقرریوں میں 13 پوائنٹ روسٹر اور زرعی بحران سے جڑے اہم سوال اٹھائے، لیکن ان کو آدھے میں ہی ان دیکھا کر دیا گیا اور ان کے سوال پینلسٹ کے ذریعے نہیں لئے گئے۔ ‘

اس پروگرام کے دوران پہلا سوال ایک انل یادو نام کے شخص کے ذریعے پوچھا گیا۔ انل نے پرینکا چترویدی سے 1971 کے ہندوپاک جنگ کے بارے میں پوچھا، ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا کہ کانگریس سربجیت سنگھ کو ہندوستان کیوں نہیں لا پائی، جن کو 1990 میں 14 پاکستانی شہریوں کو بم دھماکے میں مارنے کے الزام میں سزائےموت دی گئی تھی۔حالانکہ اس سوال میں کچھ غلط نہیں تھا، لیکن اصل میں انل آئی آئی ٹی کے طالب علم نہیں ہیں۔ ان کے فیس بک پروفائل کے مطابق وہ ہندو یووا واہنی کے کارکن ہیں۔

آئی آئی ٹی بامبے کے ترجمان پھالگنی بنرجی ناہا نے دی وائر کو بتایا کہ چینل کے ذریعے ادارے کے کیمپس میں پروگرام کے لئے رابطہ کیا گیا تھا۔انہوں نے بتایا،’ہم صرف اس شو کے میزبان تھے اور پروگرام سے جڑے فیصلے لینے میں ہمارا کوئی کردار نہیں تھا۔ ادارے نے چینل کو باہر سے لوگوں کو لانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ میں حیران ہوں کہ ایسا ہوا بھی ہے۔ ‘

انہوں نے آگے بتایا کہ ادارہ چینل کے مدیروں کو شو میں بدلاؤ کرنے کے لئے لکھے‌گا کیونکہ جو لکھا گیا وہ گمراہ کن ہے۔پھالگنی نے بتایا، میں نے شو دیکھا۔ چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی آئی ٹی بامبے مودی کے ساتھ ہے۔ وہ ایسا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟ ادارہ کی طرف سے کچھ ہی طالب علموں نے حصہ لیا تھا اور ان کی بھی الگ الگ رائے تھیں۔ ہم جلدہی چینل کو ضروری بدلاؤ کرنے کے لئے لکھیں‌گے۔ ‘

اے پی پی ایس سی کے ایک ممبر نے بتایا کہ انہوں نے آئی آئی ٹی کے عوامی رابطہ دفتر سے اس بارے میں سوال کئے ہیں، جس کا جواب اب تک نہیں ملا ہے۔دی وائر کے ذریعے اس بارے میں بات کرنے کے لئے اے بی پی نیوز کے ممبئی بیورو میں رابطہ کیا گیا، جہاں بتایا گیا کہ وہ اس بارے میں بات کرنے کے مجاز نہیں ہیں اور دہلی میں مدیر رجنیش آہوجہ سے رابطہ کیا جانا چاہیے۔رجنیش آہوجہ سے رابطہ کرنے کی کئی کوشش کی گئی، لیکن ای میل اور میسج کے ذریعے بھیجے گئے سوالوں کا انہوں نے جواب نہیں دیا۔ ان کا جواب آنے پر اس  رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔