میڈیا کا ایک بڑا طبقہ، جس کا مذہب اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے سوال پوچھنا ہونا چاہیے، گھٹنے ٹیک چکا ہے اور ملک کے کچھ سب سے طاقتور لوگوں نے خاموشی اختیار کرلی ہے، لیکن عام لوگ ایسا نہیں کرنے والے ہیں۔ ان کی آواز اونچے تختوں پر بیٹھے لوگوں کو سنائی نہیں دیتی، لیکن جب وقت آتا ہے وہ اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔
کیا سچ مچ حب الوطنی ملک کی فضاؤں میں تیر رہی ہے۔
ایئر انڈیا کو ہر فلائٹ کے دوران ہر اعلان کے بعد ‘جئے ہند’کہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ فطری طور پر اس فیصلے نے انٹرنیٹ پر ہزاروں کی تعداد میں لطائف کو جنم دیا ہے۔کیا پائلٹ ٹیم کے ممبر اب کہیںگے،ہم کھانا بانٹنے جا رہے ہیں، جئے ہند۔ پنیر یا اڈلی؟جئے ہند۔ کیا مسافروں کو اب اڑان بھرنے سے پہلے راشٹرگان گانا ہوگا؟ اس خیالی فہرست کو جتنا چاہے بڑھایا جا سکتا ہے۔
چٹکلہ، چیزوں کو مذاق میں اڑا دینے کا ایک اچھا میڈیم ہے، لیکن اس سے سچائی نہیں بدلتی۔ رائےعامہ کو، خاص طور پر پسند نہ آنے والے رائےعامہ کو پریشانی کا سبب یا منحوس چیز ماننے والی حکومت عوام کی رائے پر زیادہ توجہ دے، اس کا امکان کافی کم ہے-سوائے اس صورتحال کے جب وہ اس کے اپنے نقطہ نظر سے میل کھانے والی ہو۔
اس طرح کوئی بھی جائز عدم اتفاق ‘لبرلس، ‘سیکلروں’یا ایسے ہی کئی لوگوں کا کیادھرا ہے، جبکہ سب سے تشدد آمیز فرقہ پرستی یا وحشیانہ قوم پرستی’عوام کی آوازیا’ اصلی ہندوستانیوں کا سچا اظہار ہے۔ ‘اس لئے کوئی چاہے کچھ بھی کہے، حکومت اس فیصلے کو بدلنے نہیں جا رہی ہے۔ لوگوں کے درمیان حب الوطنی کے جذبہ کو بھرنا موجودہ حکومت کے مرکزی ایجنڈے کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے۔ اور موجودہ فرمان بھی اسی سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔
بھارت ماتا کی مسلسل پکار، ملک کے مختلف حصوں میں لگائے گئے پرچم، فوج کی بہادری کا بیان اور سینما گھروں میں قومی ترانہ کے لئے کھڑے ہونے کا حکم-اس بات کا ثبوت ہے کہ اس حکومت نے اپنے ایجنڈے کو پوری شدت کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ایئر انڈیا والا حکم انتخاب سے ٹھیک پہلے-ضابطہ اخلاق کے نافذ ہونے سے پہلے-آیا، لیکن اصل میں یہ اس کے پیچھے کی وجہ نہیں ہے، کیونکہ ایسا تو کسی بھی صورت میں ہوتا۔ بہر حال، بالاکوٹ ایئرسٹرائک کے بعد، راشٹرودای پروجیکٹ اہم ہو اٹھا ہے۔
اس کے ساتھ ہی نہ صرف پارٹی یا سنگھ پریوار کے اندر سے بلکہ حکومت (اور اس کے ‘دانشور’طبقے)کے متاثر کن لوگ لکشمن ریکھا کھینچ رہے ہیں-فوج پر سوال اٹھانے کو ملک کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے۔صرف فوج ہی نہیں، حکومت اور وزیر اعظم سے سوال پوچھنے کو بھی اسی زمرہ میں رکھا جا رہا ہے۔’ملک’کے نظریہ میں، عوام کے ذریعے چنے گئے وزیر اعظم اور حکومت-کے ساتھ ہی فوج کو، جس کو سیاسی کنٹرول میں ہونا چاہیے، شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس طرح سے اقتدار کے توازن کو شہریوں کی جگہ شاہی حکومت کی طرف کھسکانےکی کوشش کی جا رہی ہے اور جمہوری نظام کو اس طرح سے پلٹنے کی کوششوں پر سوال اٹھانے والے ہر آدمی کو ‘ملک ‘کے دشمن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔یہ سب سے بیہودہ قسم کی ہاتھ کی صفائی ہے اور یہ تاریخ میں سب سے بدترین ظلم کی وجہ بنی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں کی مثالوں پر غور کیجئے۔
حکومت کے مشکل کشا اور چہیتے وزیر پیوش گوئل انڈیا ٹوڈے گروپ کے ایک صحافی پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے بھڑک اٹھے، جس نے منچ پر چل رہی ایک لائیو بات چیت کے دوران جناب وزیر سے کچھ ایسے سوال پوچھنے کی گستاخی کر دی تھی، جو ان کو شاید پسند نہیں آئی۔اس صحافی کو خاص طور پر اس سے پہلے کبھی حکومت کے خلاف کوئی تاثر رکھنے کے لئے نہیں جانا گیا ہے ؛ لیکن یہاں وہ بس اپنا کام کر رہا تھا-جواب مانگ رہا تھا۔
گوئل نے اپنی ناراضگی کو کسی سے چھپائے بنا اس صحافی سے پوچھا، ‘کیا آپ بھی اس نیریٹو کا حصہ ہیں، جو فوج کو نیچا دکھانا چاہتا ہے؟ ‘اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ‘اس طرح کی سوچ ‘ہندوستان میں پاکستان کے لیےتشہیر کرےگی’،جس کا مطلب شاید یہ نکلتا ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والے ہندوستانی پاکستان کی طرف سے بول رہے ہیں۔یہ پیغام اس سے واضح نہیں ہو سکتا تھا-سوال پوچھنا دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے کے برابر مانا جائےگا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ سوال نہ پوچھے جائیں۔
بلاشبہ اس صحافی نے جناب وزیرکو یہ یاد دلایا کہ ان کو کسی سے راشٹرواد کا سبق پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے (کہ اس کے والد فوج میں تھے، حالانکہ ایسا بتانے کی ضرورت نہیں تھی)، لیکن یہ اس بات کی اچھی مثال ہے کہ اس حکومت کے ذمہ دار ممبر کس طرح سے سوچتے ہیں۔اس کے بعد آرمی چیف سے وزیر بنے جنرل وی کے سنگھ، جنہوں نے ماضی میں صحافیوں کے لئے ‘پریسٹی یٹوٹ’جیسے لفظ کا استعمال کیا ہے،نے طلبا رہنماؤں کو’ جونک’کہہکر مخاطب کیا۔انہوں نے ہندوستان کے اندر’سرجیکل اسٹرائک ‘ کی مانگ کی۔
ان کا اشارہ شاید الگ الگ نظریات والے مخالفین کی طرف تھا۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ ہندوستان اسرائیل جیسا نہیں ہے جہاں کوئی فوج پر سوال نہیں کھڑا کرتا۔شاید جنرل جناب کو لگتا ہے کہ وہ اب بھی فوج میس میں ہیں جہاں فوجی ہی فوجی ہیں اور جہاں عام شہریوں کے خلاف اپنی بھڑاس نکالی جا سکتی ہے اور ماتحت افسر کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے رہتے ہیں۔
ہم ان کو تقریباً یہ کہتے ہوئے سن سکتے ہیں،’ان سارے نامرادوں کو بم سے اڑا دو۔ ‘ سچ میں جمہوریت کبھی کبھی تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔اور خوب بولنے کے لئے مشہور روی شنکر پرساد نے بھی پیچھے نہ رہنے کی ہوڑ میں اس سے زیادہ کھل کر کہا،’کانگریس ہوائی حملے کا ثبوت مانگکر فوج کا حوصلہ گرا رہی ہے، اس لئے کانگریس’پاکستان کی زبان بول رہی ہے۔ ‘
دوسرے الفاظ میں ان کا کہنا تھا کہ منھ بند رکھیے اور ہم جو کہہ رہے ہیں، اس کو قبولکر لیجئے، کیونکہ آپ کے ایسا کرنے کا مطلب ہوگا کہ آپ غدار وطن ہیں۔حکومتیں اور رہنما پریشان کرنے والے سوال پسند نہیں کرتے ہیں،یہ تو ایک جانی-مانی سچائی ہے، لیکن یہ حکومت سارے حدود کو پارکر گئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی مدت کارمیں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی اور نہ کسی ایسے صحافی کو انٹرویو دیا، جو ان سے مشکل سوال پوچھ سکتا تھا۔
معمولی سوالوں کو بھی،یہاں تک کہ آرٹی آئی کے توسط سے بھی پوچھے گئے سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ عدالت عظمیٰ کو بھی اس حکومت سے کوئی اطلاع حاصل کرنے میں پریشانی محسوس ہوتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو کس بات کا اتنا ڈر ہے؟
لیکن، سوال ہے کہ بند نہیں ہوتے۔ ہندوستانی لوگ فطرت سے شکی، یہاں تک کہ کمیاں ڈھونڈنے والے ہوتے ہیں۔ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ، جس کا مذہب اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے سوال پوچھنا ہونا چاہیے، گھٹنے ٹیک چکا ہے اور ملک کے کچھ سب سے طاقتور لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے، لیکن عام لوگ ایسا نہیں کرنے والے ہیں۔
ان کی آواز اونچے تختوں پر بیٹھے لوگوں کو سنائی نہیں دیتی، لیکن جب وقت آتا ہے وہ اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔ ان کو جلد ہی اس کا موقع ملنے والا ہے۔ راشٹر واد کے نام پر ان کو چپ نہیں کرایا جا سکتا ہے۔
Categories: فکر و نظر