اب تو وزیر اعظم نے نوکری کے بارے میں جھوٹ بولنابھی بند کر دیا ہے۔ کیا اس بار پچھلے انتخاب کی طرح 2 کروڑ کی جگہ 4 کروڑ روزگار دینے کا جھوٹا نعرہ آئےگا؟
وہ جوانی جوانی نہیں جس کی کوئی کہانی نہ ہو۔ کرانتی فلم کے ایک گانے کی یہ لائن ہندوستان کے نوجوانوں کی شکل پر لکھی نظر آتی ہے۔ ہمارے نو جوان نہ اپنی کہانی لکھ پا رہے ہیں اور نہ کوئی ان کی کہانی لکھنا چاہتا ہے۔ ہزاروں کروڑ کے اس انتخاب میں نوجوانوں کا استعمال اس پلیٹ کی طرح کیا جا رہا ہے جس کو کھانے کے بعد شامیانے کے باہر پھینک دیا جانا ہے۔ گزشتہ دنوں ضابطہ اخلاق نافذ ہونے سے پہلے اشتہارات کی ہولی کھیلی گئی۔ کروڑوں روپے پھونک دئے گئے جو اب کوڑا بن چکے ہیں۔ اس پیسے سے کتنوں کو روزگار مل جاتا۔ ہر وزارت کے اشتہار پر وزیر اعظم مودی کا چہرہ ہے، تو سوال انہی سے ہے کہ اسٹاف سلیکشن کمیشن کو لےکر ان کا اشتہار کہاں ہے، کیوں نہیں ہے۔
وزیر اعظم مودی کی سیاست نے نوجوانوں کو ایک روزگار دیا۔ دن بھر مودی مودی کرو۔ جو مودی مودی نہ کرے اس کو گالی دو۔ نوجوانوں نے یہ کام پوری ایمانداری سے کیا۔ مودی کے لئے دوسروں کو گالی دی تو مودی کو خوب پیار بھی کیا۔ اس کی شکایت وزیر اعظم نہیں کر سکتے کہ نوجوانوں نے ان کو کم پیار کیا ہے۔ اب جب اپنی نوکری کو لےکرنو جوان مارے-مارے پھر رہے ہیں تو مودی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ الٹا روزگار کے سوال پر متنازعہ اعداد و شمار سے انہی کو جھٹلا رہے ہیں۔
چینلوں پر جاب کے موضوع پر بحث تو ہے مگر جاب سسٹم کے ستائے نوجوانوں کے چہرے نہیں ہیں۔ لاکھوں نوجوانوں کو ایک نمبر میں بدل دیا گیا ہے۔ 30 فیصد مانتے ہیں کہ جاب ایک مسئلہ ہے۔ ایک سیکنڈ کے بعد اسی اسکرین پر نریندر مودی کی مقبولیت کا نمبر آ جاتا ہے۔ 30 فیصد کی جگہ 62 فیصد آ جاتا ہے۔ 62 فیصد کے سامنے 30 فیصد کی اوقات زیرو ہو جاتی ہے۔ بحث شفٹ ہو جاتی ہے۔ مودی کا کوئی بدل نہیں ہے۔
ایس ایس سی سی جی ایل 2017کے امتحان دینے والوں کے پیغام آئے جا رہے ہیں۔ ہر پیغام میں ایک خوفناک اکیلاپن اور ناامیدی دکھ رہی ہے۔ سات مہینے سےان کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ اس امتحان میں دھاندلی کا الزام لگا تھا۔ مگر سزا بھگت رہے ہیں وہ طالب علم بھی جنہوں نے ایمانداری سے امتحان دیا ہے۔ وہ سزا نہیں بھگت رہے ہیں بلکہ نوکری پانے کے سال گنوا رہے ہیں۔ یہ ایک عمر قید سے کم نہیں ہے۔
2017 کا یہ امتحان ہے اور مارچ 2019 تک رزلٹ کاکوئی امکان نہیں دکھ رہا ہے۔ دو سال میں ایک امتحان پورا نہیں ہو سکا۔ 30 لاکھ امتحان دہندگان نے 8000 سے زیادہ عہدوں کے لئے امتحان دئے۔ 98000 چوتھے مرحلے کے امتحان کا انتظار کر رہے ہیں۔ تین مرحلوں میں پاس کرنے کے بعد انتظار لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کو پاس کرنے کے بعد وہ 8000 عہدوں کے لئے چنے جائیںگے۔ ان کے لئے ایک ایک دن بھاری پڑ رہا ہے۔ ممکن ہے زیادہ تر بی جے پی حامی ہی ہوںگے۔ بی جے پی بھی ان کی آواز نہیں بن رہی ہے۔ اس کے رہنماؤں کو ان کے لئے سڑک پر اترنا تھا۔ لگتا ہے کہ نوکری کے مدعے پر کسی کو ان نوجوانوں کی حمایت نہیں چاہیے۔ سب کو یقین ہے کہ ہندو مسلم ڈبیٹ فیکٹری سے نکلے یہ نوجوان بی جے پی کے تاعمر غلام ہو چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کو ایک کام کرنا چاہیے۔ نوکری کے امتحانوں سے متعلق تمام مقدموں کی سماعت فاسٹ ٹریک کورٹ میں کرانی چاہیے۔ ریاستوں میں حکومتیں ہائی کورٹ کے سنگل اور ڈبل بنچکے حکم کے بعد بھی بحالی اگزام پر کارروائی نہیں کرتی ہیں۔ تقرری کاخط نہیں دیتا ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی لٹکتا ہے۔ اس کو ایسے معاملوں کو ارجینٹ مقدمہ کی طرح سننا چاہیے۔ امتحان کینسل ہو گیا تو نوجوانوں کے پاس دوبارہ چانس نہیں رہتا ہے۔ اس لئے کورٹ کو حساس ہونا چاہیے کہ فیصلہ جلدی ہو تاکہ نوجوانوں کے مواقع پر اثر نہ پڑے۔ فیصلہ آنے میں ہونے والی دیری مواقع کی برابری کے جذبہ کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ ہمارے آئین اور مواقع کا محافظ ہے۔
اسٹاف سلیکشن کمیشن کے گستاخانہ قصے بہت ہیں۔ایس ایس سی اسٹینو گرافر 2017کا ایک امتحان ہے۔ یہ مارچ 2019 ہے۔ اس امتحان کا بھی رزلٹ ابھی تک نہیں آیا۔ نوجوانوں کی تکلیفیں لامتناہی ہو چکی ہیں۔ ایک نوجوان یہ امتحان پاس کرکے اگلے مرحلے کے امتحان کا انتظار کر رہا ہے۔ اگست مہینے سے تاریخ ہی نکل رہی ہے مگر امتحان نہیں ہو رہا ہے۔ اس نوجوان نے ایک اور امتحان پاس کیا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے سول کورٹ کے لئے اسٹینوگرافر کا امتحان کرایا تھا۔ اس کا تحریر ی امتحان پاس کر چکا ہے۔ اسکل ٹیسٹ دینے کے لئے لکھنؤ سینٹر پر پہنچے اور تکنیکی خرابی کے نام پر امتحان ردکر دیا گیا۔
یہ انتخاب بےروزگاری اور نوکری کا سوال ہے۔ نو جوان اگر اپنے لئے سیاسی جماعتوں کو مجبور نہ کر سکے ان کے اگلے پانچ سال بھی بھیانک ہونے جا رہے ہیں۔ اشتہار اور چینلوں کے بنائے مدعوں سے لڑنا ہی ہوگا۔اب تو وزیر اعظم نے نوکری کے بارے میں جھوٹ بھی بولنا بند کر دیا ہے۔ کیا اس بار پچھلے انتخاب کی طرح 2 کروڑ کی جگہ 4 کروڑ روزگار دینے کا جھوٹا نعرہ آئےگا؟ مدرا لون کے متنازعہ اعداد و شمار کے بہانے وہ روزگار کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ سب کو پتہ ہے مدرا لون کی سچائی کیا ہے۔
انتخاب نہ آتا تو ریلوے کی بھی اسامی نہیں آتی۔ یہی ریلوے تھی جو مودی کی مقبولیت کے نشے میں امتحان پاس کئے ہوئے این ٹی آر بی کے 4000 امیدواروں کو نوکری پر لینے سے منع کر دیا تھا۔ اس وقت نوجوان مودی مودی کر رہے تھے۔ نومبر 2015 میں 18255 عہدوں کی اسامی نکلی تھی۔ اس وقت بھی 1 کروڑ لوگوں نے فارم بھرے تھے۔ امتحان شروع ہونے کے بعد 4000 عہدے گھٹا دئے گئے۔ ایک نوجوان نے جب وزیر اعظم دفتر سے پوچھا ہے تو جواب ملا ہے کہ حکومت خرچ میں کمی لا رہی تھی۔ اس لئے کمی کی گئی اور ا س کے اشتہار میں یہ لکھا تھا کہ جو بحالیوں کی تعداد دی گئی ہے وہ پروویزنل ہے۔ یہ جواب ملا ہے جس کا اسکرین شاٹ نوجوان نے ہمیں بھیجا ہے۔
مودی حکومت نے نوکری نہیں دی مگر نوکری کے امتحان کا ایماندارانہ سسٹم بھی نہیں دیا۔ ریاستوں میں تو اور بھی بری حالت ہے۔ تین ریاستوں میں کانگریس کی حکومت آئی ہے۔ وہاں بھی اس سمت میں کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہے۔ جے ڈی یو اور ترنمول حکومت کے اگزام سسٹم کا بھی وہی حال ہے۔ امتحانوں پر دھاندلی اور مقدموں کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
نوجوانوں کو سختی سے اپوزیشن پارٹیوں اور حکومت سے سوال کرنے ہوںگے۔ اگر ہمارا نوجوان ایک ایماندارانہ اگزام سسٹم حاصل نہیں کر سکتا ہے، فوری تقرری کاعمل حاصل نہیں کر سکتا ہے تو لعنت ہے اس کی جوانی پر۔ اس کو کرانتی فلم کے ایک گانے کی اس لائن کو یاد رکھنا چاہیے۔ وہ جوانی جوانی نہیں، جس کی کوئی کہانی نہیں۔
(یہ مضمون رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔ )
Categories: فکر و نظر