1985 میں نیشنل جیوگرافک کے سرورق پر چھپی افغانی لڑکی کی تصویر کھینچنے کے لئے مشہور فوٹوگرافر اسٹیو میکری پر غیراخلاقی طور-طریقے اپنانے کا الزام ہے۔
1985 میں نیشنل جیوگرافک میگزین کے سرورق پر جب افغانستان کی ہری آنکھوں والی لڑکی کی تصویر شائع ہوئی تھی، اس وقت ٹونی نارتھرپ 11 سال کے تھے۔اس واقعہ کی دہائیوں بعد نارتھرپ خود ایک فوٹوگرافر اور معروف فوٹو بلاگر (ویڈیو پر مبنی بلاگ) ہیں۔ اس سال انہوں نے اسٹیو میکری کی اس مقبول تصویر شربت گلا کے بارے میں ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیا کہ کس طرح اس ایک تصویرنے اپنے رنگ اور آمیزش کی وجہ سے نارتھرپ جیسے لاکھوں لوگوں کو راغب کیا۔
اس تصویر کے ذریعے پناہ گزینوں کی بربادی پر بھی لوگوں میں باتیں ہونے لگیں۔اس سے متعلق نارتھرپ نے جب اپنی ریسرچ شروع کی تھی تو ان کو محسوس ہوا کہ اس تصویر کے بارے میں جیسا کہ ان کو لگتا تھا، ویسا نہیں تھا اور وہ اب اس تصویر کو دوبارہ اس نظریے سے نہیں دیکھ پائیںگے۔
نارتھرپ نے 27 فروری کو اپنے یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو ریلیز کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا،یہ وہ کہانی نہیں ہے، جس کو میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا تھا کہ کس طرح اسٹیو میکری نے 1984 میں یہ تصویر کھینچی۔نارتھرپ نے دی وائر کو بتایا،اس ویڈیو کو کچھ دنوں کے اندر ہی ہٹا دیا گیا کیونکہ میکری کی ٹیم نے عوامی طور پر ہم پرجھوٹ بولکر ان کے وقار اور عزت کو دھندلا کرنے کا الزام لگایا تھا۔
سوویت جنگ کے شروعاتی سالوں کے دوران افغانستان میں 1984 میں اسٹیو میکری پاکستان میں نیشنل جیوگرافک کے لئے بطور فوٹو جرنلسٹ کام کرتے تھے۔ایک دن شوٹنگ کے دوران میکری افغانستان میں لڑکیوں کے ایک اسکول گئے، جہاں انہوں نے آٹھ سال کی طالبہ شربت گلا کی تصویر لی۔اس تصویر میں میرون رنگ کی پھٹی شال اوڑھے ہری آنکھوں والی شربت گلا کیمرے کو ایک ٹک دیکھ رہی ہے۔ یہ تصویر جون 1985 کے نیشنل جیو گرافک کے سرورق پر چھپی تھی۔
اس تصویر سے میکری کو زبردست شہرت اور پہچان ملی اور یہ تصویر دنیا بھر کی مقبول تصویروں میں شمار ہو گئی۔مغربی ممالک کے قارئین کے لئے یہ تصویر افغانستان اور پناہ گزینوں کے بحران کی علامت بنی۔حالانکہ، اس میگزین کے اندر شربت گلا کے بارے میں ایک لفظ نہیں چھپا تھا۔
اس تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا تھا، ہانٹیڈ آئیز ؛ ٹیل آف این افغان رفیوجیز فیئرس- لیکن نارتھرپ نے انکشاف کیا ہے کہ ان آنکھوں میں پناہ گزینیوں کی تکلیف نہیں بلکہ اسٹیو میکری کاخوف زیادہ تھا۔اس تصویر کے شائع ہونے کے 17 سال بعد اسٹیو میکری نیشنل جیوگرافک ٹیلی ویژن اینڈ فلم کے کرو کے ساتھ ملکر شربت گلا کو ڈھونڈنے نکلے تھے۔ میگزین کی اپریل 2002 کے’اے لائف ریویلڈ‘عنوان سے چھپی کور اسٹوری میں بتایا گیا کہ کیسے اس ٹیم نے شربت کو ڈھونڈ نکالا۔
2002 کی اس کہانی میں شربت گلا کو ایک یتیم بتایا گیا تھا، جس کے والدین کی افغانستان میں بمباری کے دوران موت ہو گئی تھی لیکن یہ کہانی بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی کیونکہ شربت گلا نے خود بتایا تھا کہ ان کی ماں کی ایپینڈیسائٹس نام کی بیماری سے موت ہو گئی تھی اور ان کے والد زندہ تھے اور وہ پاکستان چلے گئے تھے۔2002 میں ایک انٹرویو کے دوران شربت گلا سے پہلی بار پوچھا گیا کہ جب یہ تصویر کھینچی گئی تو ان کو کیسا محسوس ہوا تھا؟ اور پہلی بار انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اس وقت غصے میں تھی۔
نارتھرپ نے اس صورت حال کو پیش کیا، جس میں میکری نے شربت گلا کی تصویر لی اور کچھ ایسے چونکانے والے انکشاف کئے جو شاید نیشنل جیوگرافک کے مدیروں اور باقی ہم سب کے لئے چونکانے والے رہے۔اسٹیو میکری ایک اجنبی تھے اور روایتی پشتون تہذیب میں کوئی بھی لڑکی کسی بھی غیر ملکی شخص کے سامنے بے پردہ نہیں جاتی اور آنکھیں نہیں ملاتی یا ان سے نہیں ملتی لیکن اس تصویر کو بنوانے کے لئے اس کو بہتر روشنی اور صاف-ستھرے پس منظر والی ایک الگ جگہ پر جانا پڑا۔
جیسے ہی اس جگہ پر میکری پہنچے، ان کی نظر شربت گلا کی ہری آنکھوں پر پڑی۔ حالانکہ، شربت نے اپنا چہرہ چھپانے کی کوشش کی۔ اس پر میکری نے اس کی ٹیچر سے کہا کہ شربت تعاون کرے، جس کے بعد میکری یہ تصویر لے پائے۔نارتھرپ نے اپنے مطالعہ میں پایا کہ میکری نے شربت سے 80 کی دہائی کا ایک گلیمرس پوز کرایا۔ ان کا کندھا کیمرے کی طرف جھکا ہوا تھا، پیشانی سامنےکی طرف تھی، لائٹ اچھی رکھی گئی تاکہ ان کی آنکھوں کی چمک برقرار رہے اور سیدھا آئی کانٹیکٹ، یہ کچھ ایسا تھا جو وہ (شربت) کبھی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
میکری اور بھی تصویریں لینا چاہتے تھے لیکن شربت گلا بھاگ گئیں۔ میگزین میں تحریری طورپر شربت کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے، اس کے نام کا بھی ذکر نہیں ہے (جس کے بارے میں میکری نے پتہ لگانے کی بھی کوشش نہیں کی)۔ انہوں نے اس تصویر کو میگزین میں چھپوانے کے لئے نہ ہی شربت کی اور نہ ہی اس کے والد کی اجازت لی۔
شربت گلا نے جب آخرکار یہ تصویر دیکھی تو اس کے بارے میں انہوں نے بعد میں کہا، میں بہت نروس اور بہت اداس تھی۔جب یہ تصویر پہلی بار 1985 میں شائع ہوئی اور یہ میگزین دنیا بھر میں لاکھوں قارئین تک پہنچی۔اس میں شربت کے بارے میں ایک ہی لائن لکھی تھی (اصل کیپشن کے علاوہ ہانٹیڈ آئیز ؛ ٹیل آف این افغان رفیوجیز فیئرس)وہ یہ کہ ‘ اس کی آنکھیں جنگ کا ڈر بیاں کر رہی تھیں۔ ‘
نارتھرپ نے کہا، لیکن یہ غلط ہے-اس کی آنکھوں میں ڈر اس بات کا تھا کہ ایک اجنبی مرد اس کے ذاتی اسپیس اور اس کی تہذیب کو نقصان پہنچاکر اس کے اسکول میں داخل ہوا ہے۔ میکری اور نیشنل جیوگرافک نے موٹی رقم میں یہ تصویر بیچی۔ اسٹیو میکری کے اسٹوڈیو نے میگزین کے 20بائی 24 انچ پرنٹ کے پہلے ایڈیشن کی شربت گلا کی تصویر کو 18000 ڈالر میں بیچا تھا۔ اس سے بڑی پرنٹ نیلامی کے دوران 178900 ڈالر میں بیچے گئے۔
2002 میں اس کی فالو-اپ اسٹوری کے لئے افغانستان لوٹنے تک شربت گلا کو کچھ بھی نہیں ملا۔شربت گلا کو فرضی شناختی کارڈ رکھنے کے الزام میں 2016 میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا۔ شربت نے 15 دن جیل میں گزارے اور اس کے بعد ان کو افغانستان بھیج دیا گیا۔شربت اس مقبول تصویر کو اپنی گرفتاری کے لئے ذمہ دار مانتے ہوئے کہتی ہیں، اس تصویر نے میرے لئے فائدے سے زیادہ مسئلہ کھڑا کیا ہے۔ اس نے مجھے مقبول عام بنایا لیکن میری گرفتاری کی وجہ بھی بنی۔
نیشنل جیوگرافک میگزین کے کور پیج پر تصویر ہونے کی وجہ سے شدت پسند افغانیوں سے شربت کی جان کو لگاتار خطرہ رہا کیونکہ ان شدت پسندوں کا ماننا ہے کہ خواتین کو میڈیا کے سامنے نہیں آنا چاہیے۔نارتھرپ نے آٹھ مارچ کو کچھ اصلاحات کے ساتھ اس ویڈیو کو دوبارہ اپلوڈ کیا تھا۔نارتھرپ کہتے ہیں، تاریخ میں فوٹو جرنلزم کا خوف ناک غلط استعمال ہوا ہے، اکثر فائدے کے لئے غریبوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ افغانی لڑکی شربت گلا کی تصویر کن حالات میں لیا گیا، اس تصویر کا مقبول ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اب بھی ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
Categories: فکر و نظر