یہ کتاب محض بیگم اخترکے سوانحی کوائف اور فنِ موسیقی پر ان کی ماہرانہ دسترس کے سپاٹ یا عالمانہ بیان تک خود کومحدود نہیں رکھتی بلکہ مرتب کے مطابق یہ ان کی گلوکاری، ان کے کردار اور ان کی زندگی سے متعلق بعض گم شدہ کڑیوں کو ایک مربوط اور کثیر حسی بیانیہ کے طور پر پیش کرتی ہے۔
ہمارا عہد آوازوں کی کثرت کا دور ہے اور اکثر آوازیں اتنی شور انگیز اور بے ہنگم ہیں کہ سننے کی حس ہی ختم ہو گئی ہے اور گلوکار بھی سم، تال اور مدھم سروں سے آباد سُر منڈل سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ موسیقی کے ممتاز عالم آچاریہ برھسپتی نے مقبول عام گلوکاروں کی عام روش کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے؛
آج کل ایک خاص طریقہ ہے کہ کسی بھی دو استھائی کے بس شروع کے دو بول لیے اس کے بعد آ…..آ….آ…….پتہ نہیں چلتا کہ کوس رہے ہیں یا گالیاں دے رہے ہیں یا بد دعا دے رہے ہیں۔
ایسے میں اونچے سروں میں گایا ہوا دادرا ’’چھا رہی ہے کاری گھٹا جیا مورا لہرائے‘‘ یا پھر ایک اوردادرا ’’ہمری اٹریا پہ آؤ رے سنوریا، دیکھا دیکھی بلم ہوجائے‘‘ یا پھر کسی غزل میں بھیروی اور پہاڑی کے سُر سنائی دیں اور آپ کا ذوقِ سماعت پھر بیدار ہو جائے تو یقیناً آپ کی اس صوتی حسیاتی مدارات بس ایک آواز کر سکتی ہے اور وہ آواز ہے بیگم اختر کی۔
بیگم اختر نے راگ درباری میں بھی غزلیں گائیں۔ راگ درباری عموماً نشاط، فتح مندی اور کامرانی کے جذبے کی آبیاری کرتا ہے مگر تان سین نے جو اس راگ کے موجد بھی ہیں، اس راگ میں ہزیمت اور اداسی کا بھی ایک سُر پنہاں کر دیا ہے جس تک رسائی عام نہیں ہے، مگر بیگم اختر نے راگ درباری میں مضمر متضاد جذبوں کی کشمکش کو اپنی بندش کی اساس بنایا ہے۔ تبصرہ نگار کے کان کلاسیکی موسیقی سے قدرے آشنا ہیں مگر مکروہات زمانہ نے اوروھی، امروھی اور سم تال کی دنیا سے بہت دور کر دیا ہے مگر جب ہندی کے ممتاز ہندی شاعر اور موسیقی و سنیما کے مشہور مبصر یتیندر مشرا کی گرانقدر اور انتہائی مطالعہ انگیز ہندی کتاب (Highly Readable Book) ’’اختری: سوز اور ساز کا افسانہ‘‘ پڑھی تو اس زمانہ کی یاد تازہ ہو گئی جب اپنی دنیا ادب، موسیقی اور صحافت کے ان گنت رنگوں سے آباد اور معمور تھی اور نہ جانے کتنے موسم اپنے اندر سانس لیتے تھے۔ایک ایسے دور میں جب موسیقی سے سطحی دلچسپی تو بہت عام ہو گئی ہے مگر سُروں کا گیان رکھنے والے تیزی سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں، یتیندر مشرا کی کتاب خوشگوار تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح روح کو سرشار کر دینے کی ضامن ہے۔
تقریباً پونے تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب ہندوستان کی مشہور مغنیہ بیگم اختر کے سوانحی کوائف اور کلاسیکی گائیکی کو ان کی قابل قدر عطا کی مختلف جہتوں کا ایک اثر انگیز حسّی بیانیہ تشکیل دیتی ہے اور یہ باور کراتی ہے کہ معجزۂ فن کی نمود خون جگر سے کرنے میں فن کار کو کس قدر جاں گسل اذیت سے گذرنا پڑتا ہے۔ بیگم اختر نے اولاً بطور گلوکار اپنی منفرد شناخت قائم کی، پھر رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور انہوں نے موسیقی کو یکسر خیر باد کہہ دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کے اندر کے فن کار نے اپنے وجود کا پوری قوت کے ساتھ اثبات کیا اور پھر وہ فن کی دنیا میں لوٹ آئیں۔ بیگم اختر کی رودادِ حیات پر مرزا ہادی رسوا کے افسانوی کردار امراؤ جان ادا کی زندگی کا پرتو بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ بیگم اختر واقعتاً گوشت پوست کا جیتا جاگتا وجود رکھتی تھیں اوران کی داستان حیات قلم بند کرنے والوں کی اکثریت ’’چشم دید گواہوں‘‘ کی سی ہے جب کہ اداؔ کا بیانیہ مرزا ہادی رسوا کا خلق کردہ ہے۔
بیگم اختر (1974-1914) نے نیم کلاسیکی موسیقی کے تمام اصناف مثلاً ٹھمری، دادرا، کجری، بارہ ماسہ اور ہوری میں اپنی بے مثال فن کاری کے نقش ثبت کیے۔ انہوں نے فنِ گلوکاری کے مشہور ماہروں استاد عبد الواحدخاں (کرانہ)، استاد رمضان خاں (لکھنؤ)، استاد برکت علی خاں(پٹیالہ)، استاد غلام محمد خاں (گیا) اور استاد عطا محمد خاں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور سخت ریاضت کے بعد بالکل نئے ڈھنگ کی مرکیوں اور پلٹوں سے اپنی آواز کی شناخت قائم کی۔
کتاب کے مرتب یتیندر مشرا نے نہایت مبسوط اور اثر انگیز تعارف میں بیگم اختر کی گائیکی کے امتیازات کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے؛
اپنی غیر معمولی پکارتان اور نئے ڈھنگ کی میٹر، مرکیوں اور پلٹوں کے ساتھ کھنکتی آواز کے باعث بیگم اختر کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اپنی آواز میں درد اور سوز کو اتنی گہرائی سے انہوں نے سادھا کہ ایک دور میں ان کی آواز کا درد ہر خاص و عام کی ذاتی آواز کا حوالہ بن گیا تھا۔ ہر دوسرا انسان جو اس دنیا میں دھوکہ یا چوٹ کھایا ہوا تھا، اس نے بیگم اختر کی آواز میں پناہ پائی۔ غزل کو جو صرف پڑھنے کی چیز ہوتی تھی، اسے باقاعدہ گانے کی روایت سے جوڑ کر ایک قابل احترام شے بنانے کا کام بیگم اختر نے کیا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب ہر ایک بڑا اور نیا شاعر اس بات کا طلب گار ہوتا تھا کہ کاش بیگم اختر اس کی غزلیں گا دیں۔
یہ کتاب محض ان کے سوانحی کوائف اور فنِ موسیقی پر ان کی ماہرانہ دسترس کے سپاٹ یا عالمانہ بیان تک خود کومحدود نہیں رکھتی بلکہ مرتب کے مطابق یہ کتاب بیگم اختر کی گلوکاری، ان کے کردار اور ان کی زندگی سے متعلق بعض گم شدہ کڑیوں کو ایک مربوط اور کثیر حسی بیانیہ کے طور پر پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب بعض چھوٹے چھوٹے واقعات اور کہانیوں کے توسط سے مرتب کی گئی ہے۔مرتب نے اس امر کا خاص خیال رکھا ہے کہ بیگم اختر کی شخصی تفصیلات، ان کی ازدواجی زندگی، ان کے انجانے وسوسوں، خوف اور دکھوں اور ان کے فن کے مختلف مراحل کو کئی زاویوں سے بیک وقت دیکھا جائے۔
پہلے باب بعنوان ’’ذکر اس پری وش کا‘‘ میں بیگم اختر کے حالات زندگی اور ان کی گلوکاری اور فن موسیقی پر مہارت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ملکہ پکھراج کی آپ بیتی کا انگریزی ترجمہ ’’سانگ سینگ ٹرو (Song Sang True)سلیم قدوائی نے کیا ہے جو ہندوستانی موسیقی سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں ان کے انگریزی مضمون کا ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ سلیم قدوائی نے اپنے مضمون ’’لکھنؤ میں بیگم اختر‘‘ کا آغاز انگریزی کے مشہور شاعر آغا شاہد علی کی ایک نظم سے کیا ہے جو انہوں نے بیگم اختر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھی تھی۔
اس تحریر میں بیگم اختر کی خانگی زندگی کی تفصیلات پوری معروضیت کے ساتھ درج کی گئی ہیں۔ بیگم اختر ڈپریشن کی مریض تھیں اور اس بنا پر ان کے شوہر اشتیاق احمد عباسی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے مگر سلیم قدوائی نے جو بیگم اختر سے خوب واقف تھے، لکھا ہے کہ بیگم اختر دہری زندگی جی رہی تھیں۔ ایک طرف تو فن کی دنیا تھی اور دوسری طرف ان کی ازدواجی زندگی۔ بیگم اختر شراب اور سگریٹ کی عادی تھیں، تاہم ان کے شوہر اس سلسلے میں کسی قسم کی قدغن روا نہیں رکھتے تھے، مصنف کے مطابق ’’عباسی صاحب جانتے تھے کہ ان کی بیوی دہری زندگی جی رہی ہے لیکن انہوں نے دخل نہ دینا طے کیا، اختری کے تئیں ان کی محبت اور وفاداری غیر متنازعہ رہی۔
وہ (بیگم اختر) کھلے دل سے اسے سراہتی تھیں اور شوہر کے ساتھ ان کا لگاؤ جگ ظاہر اور سچّا تھا۔ زیادہ تر اچھی شادیوں کی طرح ان کی ازدواجی زندگی بھی ایک دوسرے کا دھیان رکھتے ہوئے قربانیاں دینے کے ایک مسلسل عمل سے عبارت تھی‘‘۔
نواب رام پور رضا علی خاں بھی بیگم اختر سے شادی کے خواہاں تھے اور انہوں نے اپنے عندیہ کا برملا اظہار بھی کیا مگر بیگم اختر سوتن بن کر زندگی گذارنے کے حق میں نہیں تھیں اور مصنف کے مطابق انہوں نے نواب صاحب سے دیگر بیویوں سے قطع تعلق کرنے کی شرط رکھی جو قبول نہیں کی گئی۔
شیلا دھر نے اپنے مضمون ’’اختری بائی عشق کے بنا جی نہیں سکتی تھیں‘‘میں بیگم اختر کی گائیکی کے مختلف پہلوؤں کو بڑی معروضیت کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ شیلا دھر کے مطابق بیگم اختر کی گائیکی میں خیال کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ خیال میں بندش کے الفاظ معنی کے طور پر نہیں بلکہ آوازوں کی طرح موجود ہوتے ہیں۔ ان کی گائیکی میں اونچے سُر خوبصورت لہراتی سی محرابیں اور نیچے کے سُر انہیں ٹکائے رکھنے والے ستون بن جاتے ہیں۔ شیلا دھر نے بیگم اختر کی زندگی کے بعض واقعات کو موضوع بحث بناتے ہوئے لکھا ہے؛
بیگم اختر کی زندگی کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ وہ دو الگ الگ دنیاؤں میں جیتی رہیں اور انہوں نے کسی ایک کو بھی چھوڑے بنا دونوں سے اپنی شناخت قائم کی۔ایک کٹّر مسلم گھرانے کی خاتون ہونے کے باوجود وہ اپنے ’رسکا‘ ہونے پر شرمندہ نہیں تھیں۔ ان کے لیے زندگی بس جیسے تیسے جھیلے جانے والی شے نہیں تھی، رس لینے اور مزا لینے کے لیے تھی۔ وہ موسیقی، شاعری، کھانا، بول چال، لباس سب چیزوں میں نفاست کو پسند کرتی تھیں۔ کسی بھی عورت کی زندگی میں خوشیاں لاسکنے والے چھوٹے موٹے شوقوں پر وہ کبھی شرمندہ نہیں ہوئیں۔ انہوں نے جس دم خم اور شان سے اپنی کٹھن زندگی جی، وہ آج کے زمانے کو دیکھتے ہوئے کسی نئی راہ کھولنے والے انسان کی خوبی دکھائی دیتا ہے۔
اس کتاب میں مشہور ہندی ناول نگار شیوانی، ڈاکٹر پروین جھا، موہت کٹاریہ، سوشوبھت سکتاوٹ، انیش پردھان، کنال رے، تیستا بدھی راجا،اقبال رضوی، نریندر سونی، ریتا گنگولی، شانتی ہیرا نند، اچاریہ کیلاش، ممتا کاپیا اور نیتی بدھی راجا کے مضامین شامل ہیں۔دوسرے باب ’’کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن، لاکھ بلائیں ایک نشیمن‘‘ میں بیگم اختر سے متعلق تاثرات، یادداشتیں اور واقعات فنکارانہ شعور کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ پرکاش وڈیرا، شیتل مشرا، یوگیش پروین، پارتھ چٹرجی، پرمود دیویدی، ہمانشو باجپئی اور سنگیت مہا بھارتی کے علاوہ کئی مشہور گلوکاروں مثلاً مالنی اوستھی، شانتی ہیرانند اور لتا منگیشکر کے تاثرات بھی شامل ہیں۔
لتا منگیشکر نے بیگم اختر کی مقبولیت کے ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے؛
یہ بات 46-1945کی ہوگی جب ریڈیو پر آپ کی فرمائش کے نام سے ایک پروگرام آنا شروع ہوا تھا۔ اس میں پہلی بار یہ ہوا کہ آپ کی پسند کے فلمی اور غیر فلمی گیت سنائے جاتے تھے جس میں یہ بھی پکارا جانا شروع ہوا تھا کہ اسے کون سننا چاہتا ہے۔ اس طرح اپنا نام سننے کے لیے کہ ریڈیو پر یہ نشر ہو کہ لتا یہ گانا سننا چاہتی ہیں، میں نے لالچ سے بیگم اختر صاحبہ کی غزل ’دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے‘کی فرمائش بھیجی تھی۔ بڑے جوش اور دلچسپی کے ساتھ میں روز ریڈیو لگاتی تھی کہ شاید آج میری فرمائش پوری ہو اور میرا نام بھی بیگم اختر کے ساتھ آ جائے۔ میں بیگم اختر کی یہ غزل بہت پسند کرتی تھی لیکن اس زمانہ میں اپنا نام سننے کی خواہش زیادہ تھی۔ پھر ہوا یہ کہ جس دن میرے نام کے ساتھ یہ غزل بجائی گئی اس پورے دن اور آگے کے دو چار دن تک میں ہوا میں اڑتی رہی۔ میں آپ کو سچ بتاتی ہوں کہ بیگم اختر کی غزل کے ساتھ اپنا نام سننے میں جو رومان تھا وہ بعد میں خود کے گیتوں کے ساتھ کبھی محسوس نہیں ہوا۔
تیسرا باب ’’شامِ فراق اب نہ پوچھ‘‘ بیگم اختر کی مشہور شاگردوں شانتی ہیرا نند اور ریتا گنگولی سے گفتگو پر مشتمل ہے۔آخری باب ’’اہل الفت کے حوالوں پہ ہنسی آتی ہے‘‘ میں بیگم اختر سے کیلاش چند دیو برھسپتی کی تفصیلی گفتگو شامل ہے اور مشہور گلوکارہ شبھا مدگل نے بیگم اختر کی گائیکی کے امتیازی پہلوؤں کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔
کتاب میں بیگم اختر کے ریکارڈوں کی مکمل تفصیل بھی موجود ہے۔ اس کتاب میں متعدد مضامین ایسے شامل ہیں جو انگریزی سے ترجمہ کیے گئے ہیں۔ یہ ترجمے مدھولی جوشی، شُچتا متل یتیندر مسرا اور شبھانگی مشرا نے کیے ہیں۔بیگم اختر کی 105 سالہ یوم پیدائش تقریبات کے موقع پر اس نوع کی کتاب کی اشاعت بیگم اختر کو ایک معنی خیز اور سنجیدہ خراج عقیدت کی پیش کش ہے جس کے لیے یتیندر مسرا بجا طور پر دادو تحسین کے مستحق ہیں۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
Categories: ادبستان