لوک پال کے صدر اور ا س کے ممبروں کی تقرری میں اقتدار میں موجود ممبروں کی تعداد زیادہ تھی اور انتخاب میں پوری طرح سے رازداری برتی گئی۔ ایسا کرنا لوک پال قانون کے اہتماموں کی پوری طرح سے خلاف ورزی ہے۔ انتخابی عمل سے سمجھوتہ کرکے مودی حکومت نے کام کاج شروع کرنے سے پہلے ہی لوک پال ادارہ کو کمزور کر دیا ہے۔
ایک جنوری 2014 کو صدر جمہوریہ نے پارلیامنٹ کے ذریعے منظور لوک پال اور لوک آیکت قانون کو منظوری دی تھی۔ ایک طاقتور عوامی تحریک کے بعد یہ قانون بنا تھا، جس کا مقصد بد عنوانی پر روک لگانے کے لئے ایک مؤثر اور آزاد لوک پال بنانا تھا۔ ایسا لوک پال جو بنا کسی ڈر کے اعلیٰ سطح کی سرکاری مشینری میں بد عنوانی کے بڑے سے بڑے معاملوں کو دیکھے۔
لوک پال کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی کیونکہ ملک میں موجودہ جانچ ایجنسی جیسے سی بی آئی وغیرہ پر بھروسہ نہیں رہ گیا تھا۔ ان جانچ ایجنسیوں کو پنجرے میں بند طوطا مانا جاتا ہے جو کہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے اشارے پر کام کرتی ہیں۔بد عنوانی مخالف ایجنڈے پر 2014 کے لوک سبھا انتخاب جیتنے کے بعد مودی حکومت سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ لوک پال کی تقرری کے لئے ضروری قدم اٹھائےگی تاکہ اس ادارہ پر بھروسہ قائم ہو۔
بد قسمتی سے، ایسا نہیں ہوا اور حکومت نے ملک کو مضبوط لوک پال دینے کے لئے اپنی قوت ارادی نہیں دکھائی۔ پورے پانچ سال کی اپنی حکومت کے دوران مودی حکومت لوک پال کی تقرری کرنے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ حالانکہ، اب 2019 کے عام انتخاب سے ٹھیک تین ہفتہ پہلے حکومت نے لوک پال کے صدر اور ا س کے ممبروں کی تقرری کر دی ہے، لیکن تقرری کے عمل میں دو طریقوں سے پوری طرح سے سمجھوتہ کیا گیا ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ لوک پال کے صدر اور اس کے ممبروں کے لئے ناموں کی سفارش کرنے والی سلیکشن کمیٹی میں حکومت کے نمائندے اور نامزد ممبروں کی کثرت تھی۔ یعنی کہ اس کمیٹی میں اقتدار فریق کے ہی زیادہ لوگ موجود تھے۔ایک ادارہ کی آزادی کو یقینی بنانے کا اہم اصول ہے کہ سلیکشن کمیٹی میں اقتدار کے ممبروں کی تعداد اکثریت میں نہ ہوں۔ لوک پال قانون میں اہتمام کیا گیا ہے کہ سلیکشن کمیٹی میں وزیر اعظم، لوک سبھا اسپیکر، لوک سبھا میں حزب مخالف کے رہنما، سپریم کورٹ کےچیف جسٹس یا چیف جسٹس کے ذریعے مقرر جج اور ان چاروں لوگوں کے ذریعے سفارش کردہ ایک جورسٹ شامل ہونا چاہیے۔
2014 کے عام انتخاب کے بعد کسی کو بھی حزب مخالف کے رہنما کے طور پر پہچان نہیں دی گئی تھی، اس لئے سلیکشن کمیٹی کے اصولوں میں ترمیم کرکے حزب مخالف کے رہنما کی بجائے سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کو شامل کرنے کی تجویز پیش کی جانی چاہیے تھی۔ جیسا کہ، سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری کے لئے کیا گیا۔ سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری کے لئے بنی سلیکشن کمیٹی میں حزب مخالف کے رہنما کی جگہ سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کو شامل کرنے کی تجویز پارلیامنٹ کے سامنے رکھی گئی تھی، جس کو پارلیامنٹ نے پاس بھی کر دیا۔
لیکن حکومت نے لوک پال سلیکشن کمیٹی کے لئے ایسی ترمیم کرنے کے بجائے 10 صفحہ کا ایک ترمیم بل پیش کر دیا، جس میں قانون میں ہی تبدیلی کرنے کی کوشش کی گئی۔ جس کی وجہ سے یہ ترمیم متنازع ہو گئی اور پورے قانون کو پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو سونپ دیا گیا۔ جس سے یہ ترمیم رک گئی اور پاس نہیں کی جا سکی۔بد عنوانی مخالف اور شفافیت کے حامی کارکنان نے جب لوک پال کی تقرری نہ کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے رکھا تو اپریل 2017 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ حزب مخالف کے رہنما کے بغیر بھی سلیکشن کمیٹی کے ذریعے لوک پال کی تقرری کی جا سکتی ہے۔
اس کے باوجود، مودی حکومت نے لوک پال کی تقرری نہیں کی، جس کے بعد کارکنوں نے سپریم کورٹ میں عدالت کی ہتک عزت کا معاملہ رکھا، تب جاکر تقریباً 45 مہینے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت والی سلیکشن کمیٹی کا اجلاس ہوا۔اس اجلاس میں وزیر اعظم، لوک سبھا اسپیکر اور چیف جسٹس نے سلیکشن کمیٹی کے جورسٹ کے طور پر مکل روہتگی کی تقرری کی۔ روہتگی، مودی حکومت کے وقت میں تین سال تک اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں۔
لوک سبھا میں سب سے بڑی پارٹی کے رہنما ملکارجن کھڑگے کو سلیکشن کمیٹی کے اجلاس میں مدعو تو کیا گیا تھا، لیکن ان کو فیصلہ لینے کی طاقت نہیں دی گئیں۔ اس میں تعجب نہیں کیا جانا چاہیے کہ انہوں نے اجلاس میں شامل ہونے سے ہی انکار کر دیا۔اس کی وجہ سے لوک پال کا انتخاب کرنے والی کمیٹی میں اقتدار فریق کے نمائندوں کی تعداد زیادہ رہی، جو کہ لوک پال قانون کے اصل نظریہ کے خلاف ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ لوک پال کا انتخاب کرتے وقت اقتدارمیں موجود لوگ اکثریت میں نہیں ہونے چاہیے۔
دوسرا، لوک پال کی سلیکشن کمیٹی کے کام کاج میں رازداری برتی گئی۔ جبکہ لوک پال قانون کی دفعہ 4 (4) میں واضح طور پر اہتمام کیا گیا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کو شفاف طریقے سے انتخابی عمل کو پورا کرنا ہوگا، جس میں کسی کی من مانی نہ ہو اور عوام کی جانکاری میں لوک پال کا انتخاب ہو۔قانون میں کہا گیا ہے، ‘ لوک پال کے ممبروں اور صدر کا انتخاب کرتے وقت سلیکشن کمیٹی اپنے عمل کو پوری طرح شفاف رکھے۔ ‘
اس کے باوجود، اس اہتمام کی پوری طرح سے خلاف ورزی کی گئی اور لوک پال سلیکشن کمیٹی کی طرف سے کوئی شفاف عمل نہیں اپنایا گیا۔ یہاں تک کہ سرچ کمیٹی کے ذریعے شارٹ لسٹ کئے گئے امیدواروں کی فہرست بھی عام نہیں کی گئی۔ اتناہی نہیں، جب آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت سلیکشن کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی (منٹس) مانگی گئی تو یہ کہہکر دینے سے انکار کر دیا گیا کہ یہ خفیہ اطلاع ہے۔
اس طرح کی شفافیت کی کمی اس لئے بھی مسئلہ کھڑا کرتا ہے، کیونکہ سلیکشن کمیٹی حزب مخالف کے رہنما کے بغیر کام کر رہی ہے۔بد قسمتی سے، انتخاب کے عمل سے سمجھوتہ کرکے مودی حکومت نے کام کاج شروع کرنے سے پہلے ہی لوک پال ادارہ کو کمزور کر دیا ہے۔ مودی حکومت نے جس طرح سے دوسرے اداروں کو نقصان پہنچایا ہے، اسی طرح سے انتخابی عمل میں سمجھوتہ کرکے لوک پال ادارہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس طرح خود کو چوکیدار بتانے والے کی قیادت میں آئندہ انتخاب میں چھوٹا سا فائدہ لینے کے لئے ایک آزاد اور قابل اعتماد لوک پال کی قربانی دے دی گئی۔
(مصنفہ انجلی بھاردواج آر ٹی آئی کارکن ہیں اور سترک ناگرک سنگٹھن ایوم سوچنا کا جن ادھیکار کے لیے قومی مہم سے بھی جڑی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر