فکر و نظر

مغربی بنگال: رائٹ ونگ  کے موجودہ ابھار کی جڑیں ماضی سے لپٹی ہوئی ہیں

کہا جاتا ہے کہ بنگال میں بائیں مورچے کی لمبی حکومت نے کسی ایسے پلیٹ فارم  کو ابھرنے نہیں دیا، جس کا استعمال فرقہ وارانہ طاقتیں سیاسی فائدے کے لئے کر سکتی تھیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زمین پر ہندومسلم کشیدگی نہیں تھی۔ ریاست کے موجودہ سیاسی مزاج کو اسی کشیدگی کے اچانک پھوٹ پڑنے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

 ہندی علاقوں  کو عام طور پر رائٹ ونگ  سیاست کا گڑھ  مانا جاتا ہے، وہیں  بنگالی سیاست کو کم از کم کچھ وقت پہلے تک بائیں بازو کا حصہ سمجھا جاتا رہا ہے۔2011 میں ممتا بنرجی نے بنگال میں تین دہائی سے زیادہ پرانے  بائیں  محاذ کی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے تقریباً ناممکن کارنامے کو انجام دیا۔ لیکن،یہ تاریخی انتخابی الٹ پھیر لیفٹ مارکہ  سیاست کے  اس حصے کو متاثر نہیں کر پایا، بنگال جس کی مجسم  صورت تھی۔

اس کی جگہ ترنمول کانگریس سپریمو ممتا بنرجی نے ریاست میں’اصلی وام’کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کیا۔ ان کی سادہ ساڑی اور ربر کی چپل نے ایسے دعووں کو اوپری طور پر مضبوطی بھی دی۔1977 میں کمیونسٹ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بڑے پیمانےکے فرقہ وارانہ تشدد کا نہ ہونا، بنگال کے  بائیں محاذ کا ایک اہم زمانہ رہا ہے۔

مثال کے طور پر اس بات کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے کہ 1992 میں بابری مسجد کو مسمار کیے جانے کے بعد ملک کے باقی حصوں کے برعکس ریاست میں امن وامان قائم رہا۔ تقسیم سے پہلے کی  خونریزی کے باوجود، کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ بنگال کےسیکولرازم نے اس کے اردگرد ناقابل تسخیر ایک ہالہ تیار کرنے کا کام کیا۔

یہ دلیل دی گئی کہ بنگال پر بایاں محاذ کی طویل اور غیرمسدود حکومت نے کسی ایسے منچ کو ابھرنے نہیں دیا، جس کا استعمال فرقہ وارانہ طاقتیں اپنے سیاسی فائدے کے لئے کر سکتی تھیں۔ لیکن اس قابل ذکر تاریخ کا یہ مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے کہ زمین پر ہندومسلم کشیدگی کا وجود نہیں تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ بنگال کی تاریخ کانشیب و فراز اس نو ع کے بچکانہ سوچ‌کے جھوٹ کو اجاگر کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس بنگال کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا دھاگہ لوگوں کے تصور کی امیدوں سے زیادہ کمزور رہا ہے۔موجودہ وقت میں ریاست کا سیاسی اور انتخابی مزاج جس طرح کا نظر آرہا ہے، اس کو دبے ہوئے ہندومسلم کشیدگی کے اچانک پھوٹ پڑنے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہ پہلی بار ہے کہ  آگے بڑھ رہی بی جے پی ترنمول کانگریس کے ساتھ سیدھے مقابلے میں ہے۔

موجودہ حالات کی جڑوں کی تلاش 19ویں صدی کے بنگالی راشٹرواد کی تاریخ میں کی جا سکتی ہے، جب نوآبادیاتی مخالف جدو جہد ہندو تجدیدی نظریات اور بنگالی بھدرلوک کے سیاسی فلسفہ کے ساتھ گھل مل گیا۔مثال کے طور پر دھرم سبھا کو لیا جا سکتا ہے، جو بھدرلوک کی جدید سیاست کے ساتھ پہلا جڑاؤ تھا۔ 1830 میں تشکیل شدہ اس تنظیم نے ستی ہونے کے ہندو بیواؤں کے حقوق کی حفاظت کرنے کی پوری کوشش کی۔

رادھاکانت دیب بہادر(1784سے1867)جو دھرم سبھا کے ایک رہنما، دانشور اور  قدامت پسند ہندو سماج کے نمائندہ تھے، انہوں نے اس وقت کے گورنر جنرل  ولیم بینٹنک کے ستی پرتھا کے 1829 کے فرمان کی فعال طریقے سے مخالفت کی تھی۔سماجی اصلاحات  اور بھدرلوک پونگاپنتھ واد کے درمیان داخلی تضاد اس میں اور ابھر‌کر سامنے آیا کہ دیب نے یوں تو ستی پرتھا کو ختم کیے جانے کی مخالفت کی، لیکن انگریزی تعلیم کے ساتھ ہی ہندو خواتین کی تعلیم کی پیروی  کی۔ اس کے علاوہ وہ کلکتہ میں کلکتہ بک سوسائٹی کا قیام اور ہندو کالج کے لئے عطیہ دینے میں پیش پیش رہے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

خود کو بنگال کی تقدیر کے خالق کے طور پر پیش کرتے ہوئے بنگالی بھدرلوک کے طبقوں نے راشٹروادی منصوبے کا استعمال ‘سسوپت’ہندو سماج کے شعور کو بیدار کرنے  کے لئے کیا۔اپنی کتاب بنگال Bengal Divided: Hindu Communalism and Partition, 1932-1947 میں مؤرخ جویا چٹرجی نے دکھایا ہے کہ کیسےتہذیب نے منقسم ہوئے بھدرلوک میں ایک کمیونٹی پہچان کے جذبہ کو بیدار کرنے  کا کام کیا۔چٹرجی لکھتی ہیں؛

1930 کی دہائی کے آخری حصے اور 1940 میں بھدرلوک نے کئی الگ طرح کی ترکیبوں کا استعمال ایک متحد ہندو سیاست کی تصویر کو پیش کرنے کے لئے کیا۔ اس کے لئےسدھی (پاکیزگی) (مذہبی طور پر پاک کرنے کا عمل )یا’ذات کے نام پر پولرائزیشن’جیسے پروگراموں کی مدد لی گئی، جن کا مقصد نچلی ذات کے لوگوں  اور آدیواسیوں کو ہندو کمیونٹی کے اندر جگہ دلانا تھا۔ ‘


یہ بھی پڑھیں : کیا آسام کی طرح ہندوتوا کی سیاست کےسہارے بی جے پی بنگال میں کامیاب ہونا چاہتی ہے؟


بھدرلوک نے مقامی سماجی اور سیاسی بےاطمینانی کا استعمال بھی ایک فرقہ وارانہ ایجنڈے کو کھڑا کرنے کے لئے کیا۔حقیقت میں، جیسا کہ چٹرجی دھیان دلاتی ہیں، انہوں نے بنگال کی تقسیم کے لئے ہندو مہاسبھا اور بنگال کانگریس کی مدد قبول کی؛’نچلے درجے والے مسلمانوں کے حاکم  ہونے سے انکار کرنا-تقسیم اور ایک الگ ہندو ہوم لینڈکے مطالبے کی طرف ایک چھوٹا قدم تھا۔ ‘

کئی دانشوروں کے مطابق 1857 سے 1947 کے درمیان، بھدرلوک راشٹرواد شری اروند کے سیاسی وژن سے راغب تھا جس میں ملک کو ماں کالی کا روپ  مانا گیا تھا۔ قومی تحریک کے ایک اہم رہنما بپن چندر پال نے کالی پوجا اور شیواجی تہوار کو راشٹروادی منصوبہ میں شامل کیا۔چترنجن داس جیسے کئی دیگر لوگ ویشنو مت سے متاثر تھے، جبکہ سبھاش چندر بوس رام کرشن اور وویکانند کے شاگرد تھے۔ 1940 کی دہائی تک، آر ایس ایس سے متعلق کئی رضاکار تنظیم پورے بنگال میں وجود میں آ گئے تھے۔

اس لمبی فہرست میں باگ بازار ترون ویایام کمیٹی، آریہ ویر دل (پارک سرکس)، سلکیا ترون دل (ہاورا) اور 24 پرگنہ میں ہندو سیوا سنگھ شامل ہیں۔ ان میں سے کئی تنظیم-مثال کے طور پر بھارت سیواشرم سنگھ-کو مارواڑی اور دوسرے کاروباری کمیونٹی کا تحفظ ملا تھا۔بنگال میں کام کر رہے آر ایس ایس کے رہنما لوگوں کو کبھی بھی یہ یاد دلانا نہیں بھولتے ہیں کہ سنگھ پریوار کے دیوکل کے اہم نام شیاما پرساد مکھرجی بنگال سے تھے۔

وہ جواہرلال نہرو کابینہ میں وزیر تھے۔ نہرو سے اختلاف ہونے کے بعد مکھرجی نے کانگریس سے الگ ہو گئے اور 1951 میں بھارتی جن سنگھ کی تشکیل کی، جس کا دوسرا جنم بھارتیہ جنتا پارٹی کے طور پر ہوا۔وہ1943 سے 1946 تک کل ہند ہندو مہاسبھا کے صدر رہے۔ یہاں یہ درج کیا جانا چاہیے کہ ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ نے مل‌کر بنگال کے پہلے اسمبلی انتخابات میں 13 سیٹیں جیتی تھیں۔

بعد میں ایک طرف بایاں محاذکے ابھار اور دوسری طرف 1953 میں شیاما پرساد مکھرجی کی موت نے بنگال میں رائٹ ونگ  کی ترقی کو روک دیا۔ لیکن، آر ایس ایس کے ذریعے چلائی جانے والی تنظیموں ، بالخصوص ر اسکولوں کا نیٹ ورک زمین پر کام کرتا رہا۔دوسری طرف کمیونسٹ پارٹیوں نے مشرقی بنگال سے آنے والے ہندو پناہ گزینوں کے درمیان اپنی بنیاد تیار کی اور لینڈ ریفارم  کے لئے جدو جہد کی قیادت کی اور اس طرح سے بنگال کے کسانوں کے درمیان اپنے لئے ایک ٹھوس  رائےدہندگان کا طبقہ تیار کیا۔ یہ طبقہ 30 سال سے زیادہ وقت تک بائیں بازو کے ساتھ کھڑا رہا۔

نریندر مودی کی حکومت کے آنے سے پہلے زمینی طور پر بنگال میں ایسا کافی کم تھا، جس کو ہندو رائٹ ونگ  کا حوصلہ بڑھانے لائق کہا جا سکتا ہو۔ اس وقت یقینی طور پر بی جے پی نے یہ اندازہ نہیں لگایا ہوگا کہ وہ ایک ایسی ریاست میں اہم اپوزیشن  ہو سکتی ہے، جہاں وہ سیاسی بات چیت کا بھی حصہ نہیں ہے۔لیکن تب کچھ ایسا ہوا جس کی امید کسی کو نہیں تھی۔ 2014 کے انتخابات میں ریاست میں پارٹی کو 16.8 فیصد ملے۔ کمزور ہو چکے بایاں محاذ اور محدود ہوچکی  کانگریس اور پارٹی بدلنے والوں  کی مسلسل آمد سے بی جے پی نے مقامی انتخابات میں اپنے لئے جگہ بنانا شروع کر دیا۔

بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنما سے بات کیجئے تو وہ آپ کو بتائیں‌گے کہ اس گھڑی کا انتظار وہ سالوں سےکر رہے تھے۔ وہ آپ کو بتائیں‌گے کہ کیسے پچھلے پانچ سالوں میں آر ایس ایس کی شاخوں  میں اضافہ ہوا ہے اور اسکولوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ جہاں پہلے بنیاد تھی، وہاں محل بنانے کا کام  شروع ہو گیا ہے۔اس طرح ماضی کا گہرا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ بنگال کی موجودہ سیاسی صورت حال  طویل اور جبریہ تواریخ  کا اظہاریہ  ہے۔